برکت بسم اﷲ کی

آج اس جدید دور میں انسان ہر چیز میں کچھ نہ کچھ نیا کرنے کی جستجو میں لگا ہے۔ہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہر نئی چیز انسان کو اپنی طرف متوجہ کرلیتی ہے،اس کا راست تعلق انسانی فطرت سے ہے ۔جو بہت جلد کسی بھی چیز کو اپنے آپ پر مسلط کرلیتاہے، خاص طور پر مغربی طرزِ زندگی ،چاہے اسکے نتائج قلیل عرصہ کے بعد ہی نقصان دہ بنجائے ۔بھلے ہی نت نئے انداز سے ہمارے معاشرہ کو طرح طرح کے نقصانات سے دوچار کرتے ر ہیں۔

اکثر اوقات میں یہ نقصانات شدید طرح کے بھی ہوجاتے ہیں۔اسی لئے اﷲ تعالیٰ نے تمام بنی آدم کے لئے ایک مکمل دستورِ حیات اپنے محبوب حضرت محمد مصطفیﷺ کے ذریعہ قرآن کریم کی شکل میں ہمیں عطا کیا ،یہ الگ بات ہے کہ ہم اسUniversal اورUnique کتاب کو مسلمانوں کی کتاب بنا کر رکھ دیئے ہیں اور بدبختی تو یہ ہے کہ اس عظیم کتابِ الٰہی سے نہ ہی خود مستفید ہو رہے ہیں نہ ہی کسی اور مذہب کے ماننے والوں کو اسکا حقیقی پیغام پہنچا پا رہے ہیں۔

اپنے آپکو اغیار کی رویش پر ڈھالنے کی لاحاصل محنت و مشقت میں ہم اپنی عمر برباد کر رہے ہیں۔اس تمہید کو یہیں پر ختم کرتے ہوئے ہم اپنے مقصد یعنی ’’ بسم اﷲ کی برکت‘‘ مضمون کی طرف آتے ہیں۔جو آجکل کے مسلم معاشرہ میں اپنی جڑیں مضبوط کرچکی مغربی تہذیب کو دیکھ کر ذہن میں آیا، ہم اس خیال سے اسے قرطاس کی نظر کر رہے ہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمیں اس کام کے لئے منتخب کیا ہے ۔تو کیوں نہ اسے پہلی فرصت میں انجام دیاجائے۔اﷲ تعالیٰ سے دُعا ہے کہ ہم سب کو نیک عمل کی توفیق دیں اور باعمل بنادیں ۔آمیں۔

ہم بچپن سے اپنے بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ ہر کام سے قبل یعنی شروعات پر بسم اﷲ الرحمٰن الرحیم پڑھیں اور ہرکام کے اختتام پر الحمدﷲ کہیں۔اسی طرح کلام سے قبل سلام کرنے کی تاکید بار ہا کی جاتی تھیں،رخصت ہوتے وقت خدا حافظ،،فی اماں اﷲ کہنے کے لئے وقتاً فوقتاً تربیت دی جاتی تھیں اور اسی طرح کی بہت ساری چھوٹی چھوٹی لیکن بہت ہی اہم باتیں ہمیں اپنے بزرگوں سے تحفتاً ،تعلیم و تربیت کی شکل میں قدم قدم پر ملتی ہی رہتی تھی ،جسکے انمٹ نقوش آج بھی ہمارے ذہن میں محفوظ ہیں جو موقعہ محل پر بروقت ہمیں نہ صرف یاد آجاتے ہیں بلکہ ہمیں عمل کرنے کا عادی بناچکے ہیں افسوس کہ نہ ہی آج ویسے بزرگ نظر آتے ہیں نہ ہی وہ قدم قدم پر ملنے والی تاکیدیں ،تعلیم نہ تربیت۔

ہم وہی مسلمان ہے اور وہی اسلام ہے۔لیکن آج کے بڑے اور بچے وہ نہیں رہے، جو کبھی ہوا کرتے تھے۔جس کی وجہ سے آج ہر گھر شیطانی شکنجہ میں بُری طرح سے کسا ہوا نظر آتا ہے۔یعنی گھروں کی تربیت ٹی۔ وی کے ہاتھوں میں ہے جو دراصل معاشرہ کے بگاڑ کا اہم اور واحد سبب بنا ہوا ہے،ساتھ ہی ساتھ InternetاورMobile یعنیi.phone یہ سب تو آگ پر Petrol والا معاملہ ہو گیا ہے۔تاریخ اسلام پر ہم نظر ڈالے اور اس کا سنجیدگی سے مطالعہ کرے تو عوج بن عنق کا واقعہ اس ’’ بسم اﷲ ‘‘ کی برکت کی حقیقت اور اہمیت کو ہمیں سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی نہ صرف دعوت دیتا ہے بلکہ ہمیں عمل کرنے کا عادی بنادیتا ہے۔

عوج بن عنق حضرت آدم علیہ السلام کے پوتے تھے وہ ایک فلک بوس شخص تھے جن کا قد ۳۳۸۴ گز تھا جب وہ سمندر کے گہرے پانی میں کھڑے ہوتے تو پانی زیادہ سے زیادہ ان کی کمر تک پہنچ پاتا اکثر وہ سمندر کے اندر ہاتھ ڈال کر پانی سے مچھلیاں نکال لیتے اور ہاتھ اٹھاکر سورج کی گرمی سے بھون کر کھاتے،عوج بن عنق کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ ایک وقت میں ہزاروں روٹیاں کھایا کرتے پھر بھی ان کی بھوک کبھی نہیں مٹتی ،ہمیشہ بھوک لگنے کی شکایت ہی رہتی۔

ایک وقت ایسا واقعہ پیش آیا کے کسی نیک و پاکبا ز اﷲ کے بندے کو کسی لکڑی کی ضرور ت پیش آئی جو کسی خاص کام کے لئے درکار تھی تو انہوں نے عوج بن عنق کو پیش کش کی کے میرے لئے جو لکڑی درکار ہے اُس لکڑی کا درخت تم لے آئے تو تمہیں پیٹ بھر کر کھانا کھلاؤں گا۔ جیسے کے ہم مضمون میں پہلے ہی تحریر کرچکے ہیں یعنی تذکرہ کرچکے ہیں کہ آپ کا قد ،آپ کا سمندر میں ٹہرنا، مچھلیاں بھون کر کھانا تو اس حساب سے وہ مطلوبہ درخت تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں تھا اُنکے لئے اور اُنہوں نے وہ درخت لاکر اس پاکبازاﷲ کے بندے کے حوالے کردیا۔اس اﷲ کے نیک و پاکباز بندے نے آپ کے سامنے جو کی تین روٹیاں رکھ د ی جنہیں دیکھ کر عوج بن عنق بے انتہا ہسنے لگے اور کہا حضرت کیا آپ مجھ سے دل لگی کر رہے ہیں، کیا آپ کو معلوم نہیں میں غذا میں ایک وقت میں بارہ ہزار روٹیاں کھا کر بھی میرا پیٹ نہیں بھر تا،تو پھر بھلا ان جو کی تین روٹیوں سے میرا کیا ہوگا ؟

اﷲ کے اُس نیک بندے نے کہا تم ان روٹیوں کو بسم اﷲ پڑھ کر کھالو۔عوج بن عنق نے بسم اﷲ پڑھ کر جب روٹیاں کھانا شروع کیا تو دیڑھ روٹی کھا کر ہی ان کا پیٹ بھر گیا اور آپ کو یہ تین جو کی روٹیاں دیکر بسم اﷲ کی برکت سے آپ کا پیٹ بھر دینے والے نیک و پاکباز اﷲ کے بندے کوئی اور نہیں حضرت نوح علیہ السلام تھے۔

دورِحاضر کے ہم انسانوں کے لئے اپنا پیٹ بھرنے کے لئے کتنی روٹیاں درکار ہوگی ؟کیوں کہ عوج بن عنق کے مقابل ہماری قد و قامت کا تصور ہی دماغ کو مفلوج کرکے رکھ دیتا ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ ہم دن رات کے چوبیس گھنٹوں میں سے بیشتر حصہ حصولِ معاش میں صرف کئے دیتے ہیں اور پیٹ کی آگ ہے کے بجھتی ہی نہیں۔

دراصل یہ واقعہ ہمیں اپنے اعمال کا تجزیہ کرنے کی دعوت دیتا ہے،کیوں کہ ہم کھانا کھاتے وقت شیطان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لئے یعنی Remote control سے چینل پے چینل بدلنے میں مصروف اور گھر گھر بے برکتی،تقریب تقریب رزق کی بے ادبی ہزاروں لاکھوں کمانے کے بعد بھی دست دست تنگ دستی اور نہ جانے کتنی مصیبتیں جھیل رہا ہے ہمارا معاشرہ۔ صرف اپنے آبا و اجداد کے اصلاف اوربسم اﷲ کہنا بھول کر۔۔۔۔۔
٭٭٭٭٭٭٭
Dastagir Nawaaz
About the Author: Dastagir Nawaaz Read More Articles by Dastagir Nawaaz: 14 Articles with 11722 views I'M An Hyderabadi(Deccan) On 26th April 1971. Born in A Pathan Family My Name Is Dastagir Mohammed Khan (Yousuf zai) Pen Name Dastagir Nawaaz Given By.. View More