کیسا نظام ؟

مدتوں سے نام نہاد راتب خور دانشور اس قوم نما ہجوم کو ڈرارہے ہیں ۔ ان کے خیال میں اگر یہ نظام لپیٹ دیاگیا تو کچھ نہیں بچے گا۔ سوال یہ ہے کہ اس نظام کی موجودگی میں عوام کے پاس کیا بچا ہے ؟ وہی چہرے وہی نعرے وہی دعوے‘ وہی وعدے وہی توندیل لیڈر وہی موٹی گردنیں ‘ وہی سرکش بیورو کریسی ‘ وہی با اختیار پٹواری ‘ وہی ڈاکے ‘ چوری اور راہزنی ۔ اس سسٹم نے کچھ بھی بدلنے نہیں دیا تو پھر اس نظام کو بچا کر اچار ڈالنا ہے ؟ چولہے میں جلانا ہے ‘پیٹ پر باندھنا ہے ‘ تن ڈھانپنا ہے ؟ یہ کون لوگ ہیں جو ڈراتے ہیں ۔ اس بدبو دار اور بوسیدہ سسٹم کے ساتھ ان کی امیدیں کیوں وابستہ ہیں ؟ استعمار کا دیا ہو ایہ نظام مدتوں پہلے اپنی موت مرچکا۔ اس کو بچانے کی نہیں تباہ و برباد کر دینے کا وقت ہے ۔ اس سسٹم کو بچانا نہیں اسے مٹانا فرض ہو چکا ہے ۔ ایسا نظام جس میں غریب کی کھال اتاری جا رہی ہے اور سرمایہ دار اور زمیندار کو تحفظ مل رہا ہے ۔ ایسا سسٹم جس میں بے بس شہریوں کے لیے عقوبت خانوں کے در کھلے ہیں اور امیر پیسے دے کر اپنے جرائم معاف کرا لیتے ہیں ۔ ایسے سسٹم پر لعنت جو وڈیروں ‘ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو تحفظ دیتا ہے جو ذات پات ‘اونچ نیچ اور نسلی تعصبات کو فروغ دیتا ہے ۔ کوئی تو اٹھے جو اس نظام کی بساط لپیٹ دے ‘
کوئی تو پرچم لے کر نکلے اپنے گریبان کا جالب
چاروں جانب سناٹا ہے ‘ دیوانے یاد آتے ہیں

یہ نظام جس میں اقتدار کی باریاں لگی ہوئی ہیں ۔ باپ جاتا ہے تو بیٹا آ جاتا ہے ‘ بیٹا جاتا ہے تو پوتا آ جاتا ہے۔ نسل در نسل عوام کے سروں پر گناہوں کے عذاب کی طرح مسلط حکمرانوں کی ایک پوری نسل ہے جو اپنی اپنی باری پر آجاتی ہے ۔ ان کے خمیر میں کہیں بھی دو قومی نظریہ نہیں ہے۔اس ملک کے وقار کی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ سچ کہتے ہیں خلیلی جیسے دانشور یہ پراگندہ اور اخلاقی غلاظتوں میں لتھڑا ہوا نظام کسی کو مطلوب نہیں ہے ۔ اس ملک کو تو ایک نئے نظام کی ضرورت ہے ۔ ایک جاندار نظام جس میں حیات اجتماعی بالا دستی ہو ‘ اعلیٰ اخلاقی اقدار سے وابستگی اور معروف و زریں اصولوں کی پاسداری ہو ۔ ایسا نظام جس میں دیانت و امانت کے سکے کھوٹے قرار نہ پائیں ۔ وہ نظام جس میں دین و ملت سے محبت کے پھول کھلیں اور ملک سے وفا اور قوم کی فلاح و کامرانی کی آرزوئیں عمل اور جدوجہد میں ڈھلیں ۔ وہ نظام جو کچھ مخصوص طبقات کے مفادات کا نگہدار نہ ہو بلکہ اس کی برکت سے ملک کے ہر شہری کی زندگی میں بہار آفریں ہوائیں چلیں ۔ جو بے پسے اور محروم لوگوں کے حقوق کا ضامن اور ان کی جان و مال و عزت و آبرو کا محافظ ہو ۔ ملکی سطح کے معاملات ہوں یا اقوام عالم کے ساتھ تعلقات ‘ دور رس حکومتیں پالیسیاں ہوں یا فوری نوعیت کے فیصلے ‘ ہر جگہ یہ قومی وقار پر پہرا دے ۔ جوتعلیمی پالیسی کا چہرہ سنوارے ‘تجارتی اور دفاعی معاہدوں میں وطن دوستی اور قومی وقار و مفادات کو ترجیحات میں اوپر رکھنے کا احساس اجاگر کرے ‘ یہی ہر شعبہ زندگی میں متحرک و مصروف افراد کی عقلی اور فکری قوتوں کے لیے معیار بنے اور اہلیت و قابلیت کے تعین کی کسوٹی ثابت ہو۔

ہماری قومی زندگی کی بیمار رگوں میں کوئی ایسا نظام ہی نظریاتی اور عملی صحت و توانائی کا خالص خون دوڑانے کا موجب بن سکتا ہے جس میں نیکی اور شرافت اور دانائی و فراست کے اخلاقی اجزاء موجود ہوں جو حرص و ہوس ‘ حسد و رقابت اور خود غرضی و نفس پرستی کے جراثیم سے پاک ہو ۔ جس میں ذاتی اور خاندانی اور پارٹی اور مسلک اور گروہ کے مفادات پر ملکی اور قومی مفادات کو ترجیح حاصل ہو ۔ جس میں کسی کو عدل کی گردن مروڑنے اور نہ اس کے راستے میں طاقت و اقتدار کی دیواریں کھڑی کی جا سکیں ۔ ایسا نظام جس میں کوئی اپنے دامن پر لگے کرپشن کے بد نما دھبوں پر ندامت کے بجائے فخر نہ کرتا ہو ۔ ایسا نظام جس میں چن چن کر ان ہی لوگوں کو منصب و اختیار سونپنے کی کوئی جسارت نہ کر سکے جن کی شہرت کی اصل وجہ ان کی بد کرداری اور بد عنوانی ہو جس میں سیاست کی کسی خاندانی ریاست اور سیاسی پارٹیاں کسی کی موروثی جاگیر نہ ہوں ۔ جس میں سیاست کا اصل محترک قومی خدمت کا جذبہ ہو ۔ ایسا نظام جس میں حرام خوری اور کرپشن کے سارے راستے مسدود ہوں ۔ جو کچھ بااثر خاندانوں کا غلام نہ ہو۔ ایسا نظام جو اسٹیبشلمنٹ کی بیساکھیوں پر نہیں ‘ بلکہ آئین اور دستور کی مضبوط بنیادوں پر کھڑا ہو ۔ ایسا نظام جس کو بچانے کے لیے کسی کے لانگ یا شارٹ مارچ کی حاجت نہ ہو جس میں نہ کسی کی دھونس چلے اور نہ کوئی دھاندلی بروئے کار آئے ۔ ایسا نظام جس میں بڑی طاقتوں کے خوف یا ان کی خوشنودی کے بجائے حکمران اور سیاست دان صرف اس اﷲ سے ڈرنے والے ہوں جس نے یہ مملکت پاکستان بطور عطیہ مسلمانان بر صغیر کو بخشی تھی ۔ ایسا نظام جس میں کوئی سیاست دان ‘ کوئی صحافی اور دانشور خالق کائنات کی بغاوت کا درس نہ دے سکے ۔ ایسا نظام جس کی رگوں میں اﷲ تعالیٰ اور اس کے آخری نبی ؐ کی سچی اطاعت کی روح دوڑ رہی ہو۔

یہ مردار ابھی باقی ہے ‘اس کا تعفن گدوں کے مشام جاں کو معطر کرتا ہے ۔ ابھی یہ ان چیلوں اور کوؤں کے لیے پیغام حیات ہے جس روز یہ نظام دفن ہوگیا ۔ اس مردے کا صفایا ہوگیا اسی روز ہماری منزل اگلے قدم پر ہوگی ۔ اس بدبود ار سڑے اور گھٹیا سسٹم کو بچانے والے دقیانوسی دانشور کو خبر ہو کہ اس ملک کا اصل مقصد وہی ہے جو اس کے دستور کی منشا ہے جب تک اس ملک کے حکمران بیورو کریسی اور ’’ حکمران ‘‘ ادارے دستور کی بالادستی تسلیم نہیں کرتے ‘ آئین کی رٹ کو نہیں مانتے تب تک کوئی بھی ’’ ان ‘‘ کو تسلیم نہیں کرے گا۔
یہ سچ ہے یہ سسٹم تباہ ہو نا چاہیے مگر یہ بھی تو سچ ہے کہ جنہوں نے اس ملک کے آئین کو بار ہا توڑا‘ دستور کی دھجیاں خود بکھیر یں وہ کسی دوسرے سے نظام اور آئین کی اطاعت کیسے کرا سکتے ہیں؟ کوئی اٹھے اور اس سسٹم کے پلندے کو آگ لگا دے کوئی آئے اور آئین کی بالا دستی قائم کر دے ۔ ایسے سسٹم پر لعنت جو وڈیروں ‘ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو تحفظ دیتا ہے جو ذات پات ‘اونچ نیچ اور نسلی تعصبات کو فروغ دیتا ہے ۔ کوئی تو اٹھے جو اس نظام کی بساط لپیٹ دے ‘
Muhammad Saghir Qamar
About the Author: Muhammad Saghir Qamar Read More Articles by Muhammad Saghir Qamar: 51 Articles with 34063 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.