ہیروشیما اور ناگا ساکی کی طرح آزادی کے
اعلان کے فوراً بعد برصغیر پاک وہند کے مسلمانوں پر بھی ایک بم پھٹا۔ہر طرف
افراتفری پھیل گئی۔لوٹ مار کا بازار گرم تھا ۔ہندو اور سکھ مسلمانوں کو چُن
چُن کر قتل کر رہے تھے جاپانیوں پر تو بم گراتھا اس لیے انہوں نے ایک دفعہ
درد سہا لیکن آزادی کے وقت مسلمانوں نے جو قیمت چکائی اس کے آگے ایٹم بم کی
تباہی بھی ہیچ دکھائی دیتی ہے۔بات صرف قتل وغارت کی ہوتی تو مان لیا جاتا
کہ درندگی ہے لیکن بھائی کے سامنے بہن کی عزت اور باپ کے سامنے بیٹی کی عزت
تارتار کرنا،درندگی سے بھی بدتر ہے۔ گھروں کو جلا دیا گیا،یہ سوچے بنا کہ
اندر کوئی زندہ جان بھی موجود ہے۔بچوں کی گردنیں ان کی ماؤں کے سامنے کاٹ
دی گئیں۔جوان بچیوں کی عصمت دری کی گئی۔جن میں زیادہ ہمت تھی وہ یا تو چھت
سے کود گئیں یا پھر کنونیں میں چھلانگ لگادی،ماؤں کی آبروریزی کی گئی۔ یہ
سوچے بنا ہی کے ان درندوں کے اپنے گھروں میں بھی ان کو جنم دینے والی مائیں
موجود ہیں۔
چلتی ٹرینوں پر تیل پھینک کر آگ لگا دی گئی۔پٹریاں اُکھاڑ دی گئیں۔جی ہاں
یہی سب کچھ ہوا،ہمارے آباء واجداد کے ساتھ آزادی کے لیے ۔ انہوں نے ہر طرح
کی قربانیاں دیں صرف اور صرف آزادی جیسی نعمت کو پانے کے لیے۔ان کی زندگی
کا مقصد صرف یہی تھا کہ وہ پاک سرزمین پر ایک دفعہ قدم رکھ سکیں۔اپنے
خوابوں کی جنت کو دیکھ سکیں۔انہوں نے آزادی کے لیے سب کچھ کیا ،جان کی
پرواہ نہیں کی،مال بھی لٹا دیا اور عزتیں بھی لٹوادیں لیکن جب آزادی ملی تو
سارے زخم مندمل ہوگئے،گھاؤ بھر گئے،درد رُک گئے ،دعائیں رنگ لے آئیں اور سر
زمین پاکستان کو دیکھنے کی تمنا پوری ہوگئی۔ان کے گھر جل گئے ،بچے قتل
ہوگئے،بیٹیاں لٹ گئیں،زمینیں چھن گئیں، لیکن ان کو کوئی غم نہیں
تھا۔پاکستان میں آنے کے بعد ایک دلی سکون ملا کہ گھر نئے بن جائیں گئے،بچے
بھی مل جائیں گے،جائدادیں بھی بن جائیں گی۔لیکن آزادی…………!!
آزادی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔ہجرت ہر کسی کے حصے میں نہیں آتی اور
پاکستانی ہونا کسی کسی کے مقدر میں لکھا ہے۔تاریخ اسلام کی یہ سب سے بڑی
ہجرت تھی،لاکھوں مسلمان اپنا سب کچھ چھوڑ کر صرف اس لیے یہاں آئے کہ
پاکستان میں ان کو سکون ملے گا۔ان کے بچوں کا مستقبل اچھا ہوگا،وہ پُرسکون
زندگی بسر کریں گے۔یہاں کوئی ان کے ساتھ زیادتی نہیں کرے گا……!لیکن انسان
پتا نہیں کیا کیا سوچتا رہتا ہے۔حال کو چھوڑ کر مستقبل کی فکریں لاحق رہتی
ہیں۔انہوں نے بھی یہ سب کچھ سوچا تھا،کئی پلان بنائے تھے۔پاکستان میں صرف
پاک لوگ ہوں گے۔اس کے حکمران بہت پکے ایمان والے ہوں گے ،یہاں ہر طرف
اسلامی قانون نافذ ہوگا ۔مسلمان تو مسلمان، غیرمسلموں کو بھی ان کے حقوق
ملیں گے۔کوئی جھوٹ نہیں بولے گا۔ سب دیانت دار ہوں گے ،ایک دوسرے کی فکر
کریں گے،ہر پاکی دوسرے پاکی کا ساتھ دے گا اور حکمران خلفاءِ راشدین کی طرح
حکمرانی کریں گے۔خود بھوکے رہیں گے لیکن عوام کو کھانا ملے گا۔بیت المال پر
تمام غریبوں کا یکساں حق ہوگا اور……اور ……پتا نہیں کیا کیا سوچ لیا تھا ان
نادانوں نے۔
ان کے زخم صرف اپنی سوچوں نے بھرے تھے کہ ہمیں سب کچھ نہیں ملا تو کیا ہوا
ہمارے بچے تو پُر امن زندگی بسر کریں گے……لیکن وہ سب کچھ ایک خواب کی طرح
لگتا ہے نا…… آزادی ……تن من دھن لٹانا……صرف وطن کے لیے……ہمارے لیے……لیکن
کیا آج ہم آزاد ہیں۔اگر آزاد ہوتے تو قائد کی وفات کے کچھ عرصہ بعد ہی
کشمیر ہم سے کیوں چھین لیا جاتا؟بنگلہ دیش کیوں ہم سے الگ کیا جاتا؟اگر ہم
آزاد ہیں،ہمیں آزادی میسر ہے تو پھر ہم خود ہی اپنے ملک کو کیوں توڑ رہے
ہیں ؟بھوکے گدھ کی طرح کیوں اپنوں کا ہی گوشت نوچ رہے ہیں؟ہمیں اپنے علاوہ
کوئی اور نظر کیوں نہیں آتا؟کیا اقتدار کی ہوس نے ہمیں اندھا کر دیا ہے یا
ہمارا ضمیر سو چکا ہے، نہیں مرچکا ہے ،کیونکہ سویا ہوا کبھی نہ کبھی تو جاگ
ہی جاتا ہے؟
اگر ہم آزاد ہیں تو پھر اپنی ہوس کے لیے اپنے سگے بھائی کا خون بہا رہے ہیں
؟بہنوں بیٹیوں کو کیوں ان کے حقوق نہیں دے رہے؟اگر ہم آزاد ہیں تو پھر یہ
بے سکونی کیسی؟ چین کیوں نہیں ملتا؟ہر وقت منفی سوچیں ہی کیوں گھیرے رکھتی
ہیں؟ہم کمیونزم،لبرل ازم، سوشلزم اور ہر طرح کے ’’ازم‘‘کو مانتے ہیں لیکن
صرف ’’اسلام‘‘ پر ہی ہمیں شاک کیوں لگتا ہے؟اگر ہم آزاد ہیں تو پھر ہم نے
دین کو غلام کیوں بنا رکھا ہے؟سلطان فلم لگے تو سینماہال پانچ پانچ دن تک
بُک رہتے ہیں اور اس کا کروڑوں روپیہ اسی درندے کو جاتا ہے جو ہمارے ساتھ
ساتھ کشمیریوں کو بھی نوچ رہا ہے لیکن عید والے دن بھی مسجدیں پوری نہیں
بھری جاتیں……تو کیا یہ آزادی ہے؟ عورتوں کو ان کے اصل حقوق سے تو محروم
رکھا جاتا ہے ،حق مہر دیا نہیں جاتا ، وراثت میں ان کوحق دار ٹھہرایا نہیں
جاتا،انا پرستی اور ہٹ دھرمی کی بنا پر ان کو گھروں میں بٹھایا جاتا
ہے،شادیاں نہیں کی جاتیں ۔لیکن جب بات حقوق نسواں کی آتی ہے تو بل پاس ہوتے
ہیں۔جو گھر میں اپنی بیوی اور بیٹی کے حقوق پورے نہیں کرتے وہ حقوق نسواں
کے حق میں ووٹ ڈالتے ہیں……یہ آزادی نہیں ہو سکتی……آزادی تو بہت پاکیزہ لفظ
ہے جس کو پڑھ کر ہونٹوں پر مسکراہٹ آجاتی ہے جس کو سن کر کان سکون محسوس
کرتے ہیں۔ہمارے آباء واجداد نے ہمارے لیے سب کچھ لٹا کر آزادی حاصل کی لیکن
کیا ہم اتنے آزاد ہو گئے ہیں کہ آزادی کا مفہوم ہی بھول گئے ہیں ، ہم اپنے
مفاد کے لیے کسی بھی حد تک جاسکتے ہیں۔ہماری عافیہ اغیار کی جیلوں میں سڑتی
ہے لیکن ہمارے نوجوان نائٹ کلبوں میں رنگ رلیاں مناتے ہیں۔ہمارے غریب کوڑا
کرکٹ کے ڈھیرے اٹھا کر کھانے پر مجبور ہیں لیکن ہمارے حکمران صرف آپس کی
چپقلش میں مبتلا ہیں۔وہ کوئی اچھا وقت تھا جب قوم کی بیٹی کی آہ و فغاں پر
سترہ سالہ سپہ سالار پوری فوج لے کر آجاتا ہے اور غریب خاندان کی بھوک
مٹانے کے لیے خلیفۂ وقت اپنے کندھوں پر اناج لاد کرآتا ہے۔وہ آزادی کدھر
ہے، وہ سکون ،وہ اطمینان……وہ سب کیسے حاصل ہو سکتا ہے؟کیا ہم آزاد ہیں یا
غلام؟ فیصلہ آپ کو کرنا ہے ۔ہر سال صرف۱۴؍اگست ہی ہماری آزادی کا دن کیوں
ہوتا ہے؟کہیں ہم ذہنی طور پر غلام تو نہیں بن چکے؟اگر ایسا ہے تو پھر تہذیب
حاضر کے ہر فرد کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
غلامی سے بدتر ہے بے یقینی
سن اے تہذیب حاضر کے گرفتار
٭……٭……٭ |