٭ جس طرح طرح شہد کی مکھی کا چھتا اگر درخت
پر لگا رہے تو یہ ایک نارمل سی بات ہے لوگ ایک نظر دیکھتے ہیں اور چلے جاتے
ہیں۔ لیکن جب شہد کی مکھیوں کے چھتے کے ساتھ چھیڑچھاڑ کی جائے اور وہ غصے
میں لوگوں کو کاٹنا شروع کردے تو یہ ایک بڑا واقعہ بن جاتا ہے۔بالکل اسی
طرح گزشتہ روز عمران خان کے کنونشن اور شیخ رشید کے لال حویلی کے جلسے پر
حکومت نے طاقت کا استعمال کیا اور عمران خان کے کارکنوں کو منتشر کرکے خود
اپنے آپ کو بھی منتشر کرلیا۔ اس طاقت کے استعمال کا سب سے زیادہ فائدہ خود
عمران خان کو ہوا کیونکہ جس میڈیا پبلسٹی کی اُن کو ضرورت تھی وہ اس چھیڑ
چھاڑ کے نتیجے میں اِن کو مل گئی ہے۔ اگر حکومت عمران خان کو کنونشن کرنے
دیتی اور شیخ رشید کو چند سو لوگوں (بقول حکومت کے) کا جلسہ کرنے دیتی تو
میڈیا چند منٹوں کیلئے ہی ان لوگوں کو کوریج دیتا۔ لیکن جب حکومت نے ان کو
خود چھیڑ چھاڑ شروع کردی تو میڈیا سارا دن عمران خان کے کارکنوں اور شیخ
رشید کو کوریج دیتا رہا جس سے عمران خان کو مزید کچھ لوگوں کی حمایت حاصل
ہوگئی اور میڈیا کی سارا دن کی کوریج بھی مفت میں مل گئی جوکہ 2 نومبر کے
دھرنے کیلئے کافی ضروری تھی۔ یہی غلطی حکومت نے گزشتہ سال طاہر القادری کی
آمد پر کی تھی اور کئی سالوں سے لگے ہوئے حفاظتی بیئریئر کو ہٹانے کی کوشش
کی تھی اور 14 لوگوں کو قتل کردیا تھا جس کے قصاص کا حساب ہر سال طاہری
القادری صاحب لینے آتے ہیں اور شاید کئی سال تک یہ قصاص کا حساب کتاب چلتا
رہے گا۔
٭ اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد عمران خان اور حکومت دونوں کو ایک
حد میں رہنے کا پابند کردیا گیا تھا لیکن گزشتہ روز حکومت نے خود ہی اس حد
کو توڑ دیا اور اب عمران خان بھی لازمی طور پر اس حد کو توڑ دیں گے کیونکہ
اُن کے پاس اب ایک بہانہ ہے۔ دھرنے کا فیصلہ کچھ بھی ہو یا کچھ بھی نہ ہو
لیکن اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ شیخ رشید کے ساتھ عوام نہیں، عمران خان کے
ساتھ عوام نہیں تو پھر حکومت کو تمام راستے کھول کر اِن لوگوں کو اسلام
آباد آنے دینا چاہئے تاکہ پتا چل جائے کہ کون کتنے پانی میں ہے اور کسی بھی
جماعت کے پاس کوئی یہ بہانہ نہ رہے کہ ہمارے کارکنوں کو روکا گیا یا حراست
میں لیا گیا اس لئے ہم زیادہ تعداد میں اکٹھے نہیں ہوسکے۔ لیکن اگر آئندہ
چند روز میں بھی حکومت یہی غلطی دہراتی رہی تو پھر عمران خان چاہے دس لاکھ
کی بجائے دس ہزار لوگ ہی جمع کیوں نہ کرپائے اُس کے پاس یہ بہانہ ہوگا کہ
ہمارے کارکنوں کو حراست میں لیا گیا اور راستے روکے گئے اس لئے ہم لوگ
اکٹھے نہیں کرسکے۔ |