ہم جہاں آج ہیں اس سے پہلے تو کبھی بھی
نہیں تھے۔ پرویز مشرف کے دور کی اچھی باتوں کو یاد کیا جائے تو اُس میں
میڈیا کو خاص طور پر اہمیت حاصل رہے گی جبکہ اسی میڈیا کو محدود بھی رکھا
گیا۔ مگر یہ کہنا درست نہیں ہوگا کہ پرویز دور میں میڈیا پر مکمل پابندی
تھی اور اظہار رائے کی آزادی نہیں تھی۔ اسی آٹھ سالہ دور میں میڈیا خوب
پنپا اور اپنے پر پھیلائے، جس سے ملک میں ہر طبقے کی آواز ایوانوں تک
پہنچنے لگی مگر پاکستان میں ابھی الیکٹرونک میڈیا اپنے ابتدائی مراحل میں
ہے۔ ابھی اس میں خامیاں ضرور موجود ہونگی اور نئی تبدیلیوں کو اپنے میں
ڈھالنے کی لچک بھی پیدا کرنا پڑے گی۔
جہاں تک حالیہ صورتحال کا تعلق ہے۔ اب عوام کے نمائندے ایوانوں میں آ گئے
ہیں اور جو عوامی مینڈیٹ لیکر آئے ہیں۔ اب اس نئی حکومت کی کارگزاریاں عوام
کے سامنے لانے کی ذمہ داری میڈیا پر عائد ہوتی ہے۔ میڈیا تمام تر تبدیلیوں
اور واقعات کی نا صرف آزادانہ طریقے سے کوریج کررہا ہے بلکہ تجزیوں اور
تبصروں کی ایک دوڑ ہے۔ جس میں ہر نجی چینل دوسرے چینل سے آگے نکلنے میں لگا
ہوا ہے کہ ملک کے وقار کا چاہے کچھ ہوجائے مگر انکو مقابلے اور مسابقت کی
آگ نے اندھا کر رکھا ہے۔ جبکہ پیمرا کے قوانین موجود ہیں۔ یہ میڈیا کا حق
ہے کہ وہ کسی بھی سیاسی، مذہبی اور لسانی قیود سے آزاد رہ کر اپنا پرسیپشن
عوام کے سامنے رکھے تاکہ غیر جانبداری سے صحافتی ذمہ داریاں بااحسن اسلوبی
سرانجام ہوسکیں۔
اب آتے موجودہ حالات میں میڈیا کا کردار کیسا ہونا چاہئے؟ اسکے متعلق کچھ
کہنا چاہوں گا اور جو قارئین کے مزاج کے عین مطابق تو نہیں البتہ میرے
مطابق ضرور ہے اور لفظ میں مجھے معاشرے کی اکائی بتاتا ہے۔ اس سے میں
معاشرے کی اکائی ہونے کے ناتے اپنی رائے کا اظہار کر رہا ہوں۔ میری رائے
کئی لوگوں کی رائے سے مل بھی سکتی ہے اور معاملہ اسکے برعکس بھی ہوسکتا ہے۔
پاکستان میں پرویزی سرکار لوگوں کو قطعی طور پر پسند نہیں آئی اور اسکا
اظہار ہر لیول پر سیاستدانوں اور غیر سیاسی شخصیات نے ہی نہیں بلکہ اس دفعہ
تو وکلا برادری نے بھی اپنی تحریک کو ذرائع ابلاغ کے ذریعہ احتجاج ریکارڈ
کروایا اور بھرپور کروایا۔ اس تمام جدوجہد میں باتیں کچھ ایسی بھی کی گئیں
ہونگی جس سے ملک خداداد کی نظریاتی سرحدوں کو نقصان پہنچا ہوگا۔ مگر اس سے
قطع نظر پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا نے اسے قارئین اور ناظرین تک پہنچایا۔ جس
کے نتیجے میں عوام کو پہلے کے مقابلے میں شعور تو بہت سی چیزوں کا ہوا مگر
اس کے نتائج عام پاکستانی پر بہت برے پڑے جس سے نفسیاتی مسائل سامنے آنے
لگے۔ لوگوں کو سیاست کے چکر میں لگا دیا جب کے انکا اصل مسئلہ بے روزگاری،
بھوک، افلاس اور مہنگائی ہے نا کہ سیاست کے چکر میں آکر سیاستدانوں کی
چالبازیوں میں ہی پھنسے رہیں۔ ہر سیاسی پارٹی نے عوام سے پھر ووٹ یہی کہہ
کر مانگا کے ہم تبدیلی لائیں گے اور آپ کی قسمت بدل دینگے اور یہ وہی چہرے
ہیں جن کو آپ لوگ دو دو دفعہ موقع دے چکے ہیں۔
میڈیا نے بہت ترقی کی ہے اوراس دفعہ میڈیا نے پہلے کے مقابلے میں تمام تر
سیاسی بیانات کو نا صرف ریکارڈ کیا بلکہ جب سے تمام وزراہ اور خصوصی طور پر
وزیراعظم نے اپنے عہدے کا حلف اُٹھایا، اُس وقت سے ذرائع ابلاغ کے مختلف
ادارے ان کے آن ریکارڈ وعدے عوام الناس کےسامنے رکھ رہی ہے۔ جس سے ارباب
اختیار کو اپنے وعدے یاد رہیں گے جبکہ دوسری طرف عوام کو یاد دہانی ہوتی
رہے گی اس طرح لوہا گرم ہی رہے گا اور چوٹ لگانا بھی آسان ہوگا۔
میڈیا کو چاہئے کہ وہ عوام کے مسائل (جن کا ذکر اُوپر کیا گیا ہے) حل کرنے
میں انکی مدد کریں اور وقتاً فوقتاً حکام بالا کو عوام کے سامنے پیش کرتے
رہیں۔ اس طرح کرنے سے عوام کا اعتماد بحال ہوگا اور میڈیا کا قد بھی بلند
ہوگا۔ میڈیا کو ایسے ہتھکنڈوں سے دور رہنا چاہئے جس سے ملک و قوم کا نقصان
ہو بلکہ ایسے پروگرامز شروع کئے جائیں جس سے صحتمند معاشرے وجود میں آئے۔
اللہ رب العزت ہم سب مسلمانوں کو قول اور فعل میں ایک کردے اور اے اللہ تو
ہمارا حامی و ناصر رہے۔ آمین |