کالا بکرا
(Muhammad Anwar Graywal, BahawalPur)
ایک تصویر پر نگاہ پڑی، ایک کالا
بکرا ذبح ہوا پڑا ہے، خون بہہ رہا ہے، چھری ذبح کرنے والے کے ہاتھ میں ہی
ہے، ماحول زیادہ سنجیدہ نہیں ہے۔ قریب ہی وردی میں ملبوس ایک فوجی جوان
کھڑا ہے۔ اور سب سے دلچسپ بات یہ کہ ساتھ ہی پس منظرمیں پی آئی اے کا ایک
عدد طیارہ بھی دکھائی دے رہا ہے۔ سچی بات یہ ہے کہ مجھے ایسی تصویر اچھی
نہیں لگتی جس میں خون بہہ رہا ہو، یا کوئی زخموں سے چُور ہو، یا کراہت کا
کوئی ماحول ہو۔ مگر کیا کیجئے کہ اگر اپنا میڈیا ایسی تصاویر دکھانے پر
مصّر ہو توانسان مجبور ہو جاتا ہے۔یہ تصویر سوشل میڈیا کی ویب سائیٹ پر
گردش کر رہی تھی، یار لوگ اس پر اپنے اپنے مزاج کے مطابق تبصرہ فرما رہے
تھے، حالانکہ جس فرد کی طرف سے وہ پوسٹ جاری ہوئی انہوں نے اسے احتیاطاً’
بلاتبصرہ‘ ہی چھوڑ دیا تھا۔ چلیں سوشل میڈیا کا کیا ہے کہ وہ بہت سی ایسی
تصویریں جو منظر عام پر نہیں آنی چاہیئں، انہیں بھی جاری کردیتا ہے، مگر
بات تو اس وقت بڑھی جب وہی خبر اخبارات کی زینت بھی بن گئی۔ باکمال لوگوں
کے لئے لاجواب سروس کی یہ پیش کش نہ جانے کس زرخیز ذہن کی تیار کردہ تھی،
مگر معاشرے میں مذاق کی علامت بن کر رہ گئی۔
بھلا کون شک کر سکتا ہے کہ صدقہ دینے سے بلائیں ٹل جاتی ہیں، اﷲ تعالیٰ نے
خود اس کا عملی نمونہ مسلمانوں کے لئے حضرت ابراہیمؑ اور حضرت اسماعیلؑ کے
واقعہ کی صورت میں دکھا دیا، جب باپ اپنے معصوم بیٹے کو اﷲ تعالیٰ کے حکم
سے ذبح کرنے پر آمادہ تھا، اور آدابِ فرزندی سے آشنا بیٹا بھی باپ کے سامنے
سرِ تسلیم خم کر چکا تھا، تو اﷲ تعالیٰ نے اپنی قدرت سے بچے کی جگہ پر دنبے
کو ذبح کر کے سنتِ ابراہیمیؑ کو رہتی دنیا تک کے لئے مسلمانوں پر لازم قرار
دے دیا۔ عام طور پر بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ جب کبھی کسی پر زیادہ مشکل
آتی ہے تو بکرا ذبح کرکے اﷲ تعالیٰ سے اپنے اوپر نازل ہونے والی بلاؤں کے
ٹلنے کی دعا کرتا ہے۔ ظاہر ہے صدقہ امیر لوگ ہی کرسکتے ہیں، غریبوں نے تو
اس کو کھانا ہوتا ہے۔ مگر اپنے ہاں اس صدقے میں ایک اہم بدعت درآئی ہے کہ
بکرا کالے رنگ کا ہونا چاہیے۔ عید پر بھی تو ہر رنگ کا بکرا ذبح کیا جاتا
ہے۔ اپنے ہاں کالے رنگ کے بھی بہت سے مسائل موجود ہیں، کچھ کو ہم نے توہم
پرستی کے ذریعے اپنے اوپر مسلط کر رکھا ہے۔ کالی بلی راستہ کاٹ جائے تو بہت
سے لوگ اس عمل کو بھی بدشگونی قرار دے دیتے ہیں، کالی بلیّوں کے راستہ
کاٹنے پر بھی پابندی کا بندوبست ہونا چاہیے۔
پی آئی اے بحرانوں کا شکار ہے، وجہ یہی ہے کہ اس کو کھانے والوں کی تعداد
نہ صرف زیادہ ہے، بلکہ وہ بہت بے دردی سے اور نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں۔
سالانہ اربوں روپے کا خسارہ ظاہر کیا جاتا ہے، مسافروں کی کھال تک اتارنے
کی کوشش کی جاتی ہے، سہولتیں دیتے وقت دم گھٹنے لگتا ہے۔ ضرورت سے بہت
زیادہ لوگ بھرتی ہوچکے ہیں، مگر سب کچھ کے باوجود یہ خبریں آئے روز سننے کو
ملتی ہیں کہ تکنیکی خرابی کی بنا پر طیارہ گراؤنڈ کردیا گیا، فلاں طیارے کے
انجن میں آگ بھڑک اٹھی، فلاں طیارے کو ہنگامی لینڈنگ کروالی گئی، وغیرہ
وغیرہ۔ ان مسائل کی بنا پر مسافروں کی خواری کا بندوبست عام طور پر موجود
رہتا ہے۔ ائیر پورٹ پر پہلے اڑان کے موخر ہونے کی اطلاعات دی جاتی ہیں، جن
کے تسلسل سے مسافروں کا پارا چڑھتا جاتا ہے، او ر بسا اوقات آخرمیں یہ خبر
بھی دے دی جاتی ہے کہ فلائیٹ منسوخ ہوگئی ہے، آپ لوگ ائیرپورٹ پر پریشان
ہونے کی بجائے گھر جاکر آرام کرسکتے ہیں۔ اب چونکہ چترال حادثے کے بعد اے
ٹی آر طیارے گراؤنڈ کر دیئے تھے، جس سے پی آئی کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو
رہی تھی، تاہم گزشتہ روز ایک طیارہ نکالا، اس کو چیک کیا اور اس کے چند فٹ
کے فاصلے پر ہی ایک کالا بکرا ذبح کر دیا کہ بلائیں ٹلتی رہیں۔ یہ اندازہ
نہیں لگایا جاسکا کہ اب ہر اے ٹی آرطیارے کی اڑان سے قبل کالا بکرا ذبح کیا
جائے گا، یا یہ کام صرف ایک مرتبہ ہوا ہے؟ تاہم مسافروں کو مطمئن رہنا
چاہیے کہ اب پی آئی اے والوں نے مسائل کے حل کا آسان راستہ نکال لیا ہے، بے
غم ہو کر سفر کریں، کیونکہ پی آئی اے والے اس سے زیادہ اور کچھ نہیں کر
سکتے، نہ ہی مقدر سے ٹکرا سکتے ہیں۔
|
|