حضرت محمد ﷺ بحیثیت والد اور شوہر

گلہائے سیرت ﷺ فارم بعنوان سیرت النبیﷺ
حضرت محمدﷺ بحیثیت والد

حیات انسانی کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کے پاکیزہ خدوخال سیدالبشر حضرت محمدﷺ کی زندگی میں نہ ملتے ہوں۔قائد انسانیت، خاتم النبین حضرت محمد ﷺ کی سیرت طیبہ پوری کائنات میں آئیڈیل کی حیثیت رکھتی ہے۔ آ پﷺ کی اعلی صفات و خصوصیات میں رحمت اللعالمین بہت نمایاں ہے۔

آپﷺ کو بچوں سے بے حد پیار تھا۔سفر سے تشریف لاتے تو راستے میں جو بچے ملتے ان میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ سواری پر بٹھا لیتے۔ بچوں کو سلام کرنے میں پہل فرماتے۔ان کے سرپرہاتھ پھیرتے اور دعا فرماتے۔ کبھی بچہ کے سامنے اپنی زبان مبارک نکالتے۔بچہ خوش ہوتا اور بہلتا۔ آ پﷺکا معمول تھا جب کوئی فصل کا نیا میوہ آپ کی خدمت میں پیش کرتا تو حاضرین میں سب سے کم عمر والے بچے کو دیتے۔بچوں کو چومتے اور پیار کرتے۔
ایک مرتبہ آپﷺ حضرت حسنؓ کو پیار کر رہے تھے۔ایک بدو آیا اور کہنے لگا۔
ـ ـمیرے دس بچے ہیں ،میں نے اب تک کسی سے پیار نہیں کیا۔
آپﷺ نے یہ سن کر فرمایا:
اﷲ تعالی اگر تمہارے دل سے محبت چھین لے تو میں کیا کروں۔
آپﷺغار حرا سے واپس تشریف لاتے تو بچے آپﷺکو گھیر لیتے۔جو بہت چھوٹے ہوتے وہ لپٹ جاتے ۔آپﷺان کو گود میں اٹھا لیتے اور جو بڑے ہوتے وہ باتیں کرتے۔ آپﷺ ان کی پیاری پیاری باتوں سے خوش ہوتے۔
اولاد کی وفات پر صبر:
دنیا کے سنگین مسائل میں سے ایک اولاد کی وفات کا صدمہ ہوتا ہے۔نبی کریمﷺ کو اس صدمے کا متعدد مرتبہ سامنا کرنا پڑا۔آپ ﷺ کے سب بیٹے ایک ایک کر کے اﷲ کو پیارے ہوگئے۔قاسم،طیب اور طاہر سب اﷲ سے جا ملے،لیکن آپﷺنے کمال صبرو استقامت سے اس دکھ کو برداشت کیا۔ حضرت انس بن مالکؓ فرماتے ہیں کہ میں نے (حضور ﷺ کے صاحبزادے) حضرت ابراہیمؓ کو دیکھا کہ حضورﷺ کے سامنے ان پر نزع کی کیفیت طاری تھی یہ دیکھ کر حضور کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے فرمایا آنکھ آنسو بہا رہی ہے اور دل غمگین ہو رہا ہے لیکن ہم زبان سے وہی بات کہیں گے جس سے ہمارا رب راضی ہو۔اے ابراہیم! اﷲ کی قسم! ہم تمہارے جانے کی وجہ سے غمگین ہیں۔
(بحوالہ کتب محمد عربی، نبی کریمﷺبحیثیت والد، حیاتہ الصحابہ ؓ )
بیٹی کا حسن استقبال:
سیرت طیبہ سے یہ ثابت ہے کہ نبی کریمﷺاپنی صاحبزادی کا انتہائی شفقت،پیار اور گرم جوشی سے استقبال کیا کرتے تھے۔ آپﷺ کی چار بیٹیاں تھیں، زینبؓ،رقیہؓ،ام کلثومؓ اور فاطمہؓ۔ حضرت محمدﷺ اپنی سب بیٹیوں سے بہت محبت اور شفقت سے پیش آتے تھے۔حضرت فاطمہؓ سے انہیں خصوصی لگاؤ تھا،چند مثالیں ملاحظ فرمائیں۔
حضرت فاطمہؓ جب آنحضرتﷺ کے ہاں آتیں، تو آپﷺان کے استقبال کیلئے اٹھ کر آگے بڑھتے،انہیں بوسہ دیتے خوش آمدید کہتے،ان کے ہاتھ تھامتے اور اپنی جگہ میں بٹھاتے اور جب آنحضرتﷺ ان کے ہاں تشریف لے جاتے تو وہ (بھی استقبال کی خاطر)اٹھ کر آگے بڑھتیں آپﷺ کو بوسہ دیتیں اور آپﷺ کے ہاتھ تھام لیتیں۔
سرور کائنات کا مستقل معمول تھا کہ جب بھی سفر سے آتے تو مسجد میں دورکعت ادا کرنے کے بعد سب سے پہلے اپنی پیاری بیٹی حضرت فاطمہؓ کے یہاں تشریف لے جاتے اور اسی طرح جب بھی سفر پر تشریف لے جاتے تو سب سے آخر میں حضرت فاطمہؓ کے یہاں سے رخصت ہوتے۔حضرت فاطمہؓ کو بھی اپنے شفیق باپ سے ایسے ہی مثالی محبت تھی۔
نبی کریمﷺکی بحیثیت باپ سیرت طیبہ کے حوالے سے ایک بات نمایاں یہ ہے کہ آنحضرتﷺ نے اپنی بیٹی اور ان کی اولاد کو تعلیم دینے کا اہتمام فرمایا۔
بیٹیوں کی اولاد سے غیر معمولی پیار:
نبی کریمﷺاپنی بیٹیوں کی اولاد سے بہت زیادہ لگاؤ،گہرا قلبی تعلق اور غیر معمولی پیار رکھتے تھے۔امام بخاری اور امام مسلم نے حضرت براءؓ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا:
میں نے حسن بن علیؓ کو نبی کریم ﷺ کے کندھے پر دیکھا اور آپﷺ فر ما رہے تھے:
اے اﷲ! بے شک میں اس سے محبت کرتا ہوں،آپ بھی اس سے محبت فرمائییـ۔
حضرت ابو قتادہ انصاریؓ سے روایت نقل کی ہے کہ:
میں نے نبی کریمﷺ کو امامت کرواتے ہوئے دیکھا کہ امامہ(امامہ،حضورﷺ کی صاحبزادی حضرت زینبؓ کی بیٹی تھیں) آپﷺکے شانہ پر تھیں۔آنحضرتﷺ جب رکوع کرتے تو انہیں نیچے اتار کر رکھ دیتے اور جب سجدے سے سر اٹھاتے تو انہیں دوبارہ (اپنے کندھے پر) رکھ دیتے۔
(بحوالہ کتاب نبی کریمﷺبحیثیت والد)
بعض روایات میں ہے کہ سر کار دو عالمﷺ کبھی کہیں باہر تشریف لے جاتے توراستہ میں آپ کا نواسہ مل جاتا تو آپ اس سے خوش طبعی اور مزاح فرماتے اور اس کو پکڑنے کیلئے لپکتے۔ آپ ﷺ کے ساتھ صحابہ بھی ہوتے لیکن آپ ایسا کرنے میں اپنی کوئی کسر شان نہ سمجھتے تھے۔ سیدنا جابرؓ فرماتے ہیں کہ:
ہم سرکار دوعالمﷺ کے ساتھ ایک دعوت میں مدعو تھے۔راستہ میں سیدنا حسینؓ بچوں کے ساتھ کھیل رہے تھے۔رسولﷺ لوگوں کے درمیان سے نکل کر ان کی طرف لپکے۔پھر آپ نے اپنے دونوں بازو پھیلادئیے۔ سیدناحسینؓ ادھر ادھر بھاگنے لگے۔ سرکاردوعالمﷺہنس ہنس کر انہیں پکڑنے لگے یہاں تک کہ آپﷺ نے انہیں پکڑ لیا۔آپﷺ نے ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی پر رکھا اور دوسرا سر پر،پھر انہیں اپنے سینہ سے چمٹا لیا اور ان کو چوما اوور بوسے دیئے۔
رسول اﷲﷺ نے ارشاد فر مایا:
بچے کا باپ پریہ حق ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے اور اس کو حسن ادب سے آراستہ کرے۔
سیدنا انسؓ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں:
میں نے رسولﷺسے زیادہ کسی کو بچوں کے ساتھ رحم کا برتاؤ کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔رسول کریمﷺ کے صاحبزادے ابراہیمؓ مدینہ کے دیہاتوں میں سے کسی دیہات میں دودھ پلوانے کے لئے لے جائے گئے تھے۔آپﷺ وہاں جاتے،ہم لوگ آپﷺ کے ساتھ ہوتے،آپﷺ گھر میں داخل ہوتے، حالانکہ اندر دھواں ہو رہا ہوتا کیونکہ دودھ پلانے والی عورت کے خاوند لوہار تھے،آپﷺ ا نہیں لے کر بوسہ لیتے پھر واپس آجاتے۔
(بحوالہ کتب اطاعت والدین،اسلامی طرز زندگی)
حضرت عبداﷲ بن عمروؓ فرماتے ہیں کہ میں نے ایک مرتبہ دیکھا کہ حضورﷺ منبر پر بیٹھے ہوئے لوگوں میں بیان فر ما رہے تھے کہ اتنے میں حضرت حسین بن علیؓ (گھر سے) نکلے ان کے گلے میں کپڑے کا ایک ٹکڑا تھا جو لٹک رہا تھااور زمین پر گھسٹ رہا تھا کہ اس میں ان کا پاؤں الجھ گیا اور وہ زمین پر چہرے کے بل گر گئے۔حضورﷺ انہیں اٹھانے کے ارادے سے منبر سے نیچے اترنے لگے صحابہؓ نے جب حضرت حسینؓ کو گرتے ہوئے دیکھا تو انہیں اٹھا کرحضورﷺ کے پاس لے آئے۔ حضورﷺنے انہیں لے کر اٹھا لیا اور فرمایا شیطان کو اﷲ مارے اولاد تو بس فتنہ اور آزمائش ہی ہے۔ اﷲ کی قسم! مجھے تو پتہ ہی نہ چلا کہ میں منبر سے کب نیچے اترآیا۔مجھے تو بس اس وقت پتہ چلا جب لوگ اس بچے کو میرے پاس لے آئے۔
حضرت انسؓ فرماتے ہیں بعض دفعہ حضورﷺ سجدے میں ہوتے۔حضرت حسن اور حضرت حسینؓ میں سے کوئی ایک آکر حضورﷺ کی پشت مبارک پر سوار ہو جاتے تو حضورﷺ ان کی وجہ سے سجدہ لمبا فرمادیتے بعد میں لوگ کہا کرتے یا نبی اﷲ ﷺ! آپ نے بڑا لمبا سجدہ کیا۔ آپﷺ فرماتے میرے بیٹے نے مجھے سواری بنا لیا تھا اس لئے مجھے جلدی اٹھنا اچھا نہ لگا۔
حضرت جابر ؓ فرماتے ہیں کہ میں ایک مرتبہ حضورﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے دیکھا کہ حضورﷺ اپنے دونوں ہاتھوں اور دونوں گھٹنوں پر چل رہے ہیں اور حضرت حسن اور حضرت حسینؓ آپ کی کمر پر بیٹھے ہوئے تھے اور فرما رہے ہیں تم دونوں کا اونٹ بڑا عمدہ ہے اور تم دونوں بہت اچھا بوجھ ہو۔
( بحوالہ کتاب حیاتہ الصحابہ ؓ حصہ دوم)
الغرض آپﷺ کی حیا ت طیبہ بچوں سے شفقت، محبت اور رحم دلی کا بھر پور نمونہ ہے۔والد ہیں تو بے مثال، نانا ہیں تولازوال۔۔۔۔نہ کبھی بچوں کو ڈانٹا،نہ مارا،بس محبت کا پیکر تھے ۔سیرت النبیﷺ بچوں سے لطف و کرم کا سر چشمہ ہے۔

حضرت محمدﷺ بحیثیت شوہر
حضرت ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا:
تم میں سے بہترین آدمی وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے بہتر ہو اور میں تم سب سے زیادہ بہتر ہوں اپنی بیویوں کے لیے۔
(بحوالہ کتاب زاد راہ)
آپﷺبڑی بڑی ذمہ داریوں کو سر انجام دیتے تھے اور دیگر عظیم کاموں میں مصروف رہتے تھے، پھر بھی اپنی ازواج کے ساتھ حسن معاشرت،نرم خوئی،کشادہ روئی،خوش طبعی اور ہنسی مذاق میں ایک مثالی شوہر تھے۔حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں:
میں نبیﷺ کی خدمت میں حریرہ ( آٹے اور دودھ سے تیار کردہ کھانا)لے کر آئی، جسے میں نے خود آ پ کے لئے تیار کیا تھا۔ وہاں سیدہ سودہؓ بھی تھیں۔نبیﷺ میرے اور ان کے بیچ میں تھے۔میں نے سودہؓ سے کہا: کھاؤ، انہوں نے انکار کیا۔میں نے کہا: کھاؤ ورنہ تمہارے چہرے پر لتھیڑدوں گی۔انہوں نے پھر انکار کیا۔ میں نے حریرہ میں اپنا ہاتھ ڈالا اور ان کے چہرہ پر لیپ دیا۔نبیﷺہنسنے لگے۔آپﷺنے سودہؓ سے فرمایا: اس کے بھی چہرے پر لتھیڑدو۔۔۔(ایک روایت میں ہے کہ سیدہ عائشہؓ کہتی ہیں کہ آپﷺنے اپنا گھٹنہ نیچے کر لیا تاکہ سودہؓ مجھ سے بدلہ لے سکیں) چنانچہ انہوں نے بھی پلیٹ سے کچھ لے کر میرے چہرے پر تھوڑا سا لیپ دیا اوررسولﷺہنستے رہے ۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ بیوی کے ساتھ خوشی و مسرت پیدا کرنے میں رسولﷺکا اخلاق کتنا پسندیدہ،آپ کی طبیعت کتنی خوش طبع اور آپ کا دل کتنا کشادہ تھا۔
سیدہ عائشہؓ روایت کرتی ہیں کہ:
وہ ایک سفر میں رسولﷺ کے ہمراہ تھیں۔ انہوں نے رسولﷺ سے دوڑ میں مقابلہ کیا اور جیت گئیں۔پھر جب (کچھ عرصہ بعدان کے)بدن پر گوشت چڑھ گیا اور وہ فربہ بدن ہو گئیں تو ایک سفر میں اسی طرح دوڑ کا مقابلہ کیا۔اس میں رسولﷺ آگے بڑھ گئے(یعنی جیت گئے)۔آپﷺ نے فرمایا: عائشہ! یہ اس جیت کا بدلہ ہے۔
رسولﷺ اپنی محبوب اور نوجوان بیوی کے دل میں خوشی و مسرت پیدا کرنے کے سلسلہ میں فراخ دل تھے۔
(بحوالہ کتاب اسلامی طرززندگی)
آپﷺ ازواج مطہرات کے حقوق میں پوری مساوات و عدل ملحوظ رکھتے تھے۔رہی محبت تو آپﷺ فرمایا کرتے تھے کہ یا اﷲ جس کا مجھے اختیار ہے اس کی تقسیم تو میں نے مساوی طور پر کردی لیکن جو بات میرے بس میں نہیں ہے اس پر مجھے ملامت نہ کیجئے گا( اختیاری چیز سے مراد معاملات و معاشرت اور غیر اختیاری بات سے مراد محبت و میلان طبع)۔
آپﷺ کے ازواجی تعلقات حسن معاشرت اور اخلاق کا اعلی نمونہ تھے۔حضرت عائشہؓ کے زانو سے ٹیک بھی لگا لیتے تھے اور اسی حالت میں قرآن کی تلاوت بھی فرماتے کبھی ایسا بھی ہوتا کہ وہ ایام سے ہوتیں مگر آپﷺ ان کی طرف التفات فرماتے۔یہ سب آپﷺ کے اپنی ازواج مطہرات کے ساتھ حسن اخلاق اور لطف و کرم کا نتیجہ تھا۔جب آپﷺسفر کا ارادہ کرتے تو ازواج کے درمیان قرعہ ڈالتے۔جس کے نام کا قرعہ نکل آتا وہی ساتھ جاتیں۔
جب آپﷺنماز عصر پڑھ لیتے تو تمام ازواج مطہرات کے گھروں میں روزانہ تشریف لے جاتے۔ ان کے پاس بیٹھتے،ان کے حالات معلوم کرتے۔جب رات ہوتی تو وہاں تشریف لے جاتے جہاں باری ہوتی،شب وہیں بسر کرتے۔حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپﷺ باری کی اتنی پابندی فرماتے کہ کبھی ہم میں کسی کو کسی پر تر جیح نہ دیتے اور شاذونادر ہی ہوتا کہ آپﷺ سب ازواج مطہرات کے یہاں روزانہ تشریف نہ لے گئے ہوں۔
(بحوالہ کتاب اسوہ رسول اکرمﷺ)
آپﷺ ایک مثالی شوہر تھے۔جب حضرت خدیجہؓ سے شادی ہوئی توآپﷺ عبادت کے ساتھ ساتھ ان کا بھی پورا خیال رکھتے تھے۔ان کے سارے حقوق ادا کرتے،ان کے دل بہلاؤ کا سامان کرتے۔ ان کے ذوق اور طبیعت کی پوری رعایت رکھتے۔ ان کے مال کی ہر طرح حفاظت کرتے ،ان کی تجارت کو فروغ دیتے ۔ ان کی وفات تک کسی دوسری خاتون سے شادی نہیں کی۔ غرض آپﷺ ایک انتہائی محبوب اور حق شناس شوہر تھے۔
(بحوالہ کتب محمد عربیﷺ، الرحیق المختوم)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ میں نبیﷺ کے یہاں گڑیوں سے کھیلا کرتی تھی اور میری سہیلیاں بھی میرے ساتھ کھیلتیں، جب نبیﷺ تشریف لاتے تو سب ادھر ادھر چھپ جاتیں۔ آپﷺ ڈھونڈ ڈھونڈ کر ایک ایک کو میرے پاس بھیجتے تاکہ میرے ساتھ کھیلیں۔
( بحوالہ کتاب آداب زندگی)
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں،
میں نے نبیﷺ کو اس حال میں دیکھا ہے کہ آپﷺ اپنی چادر سے آڑ کر لیا کرتے اور میں حبشی لوگوں کو مسجد میں جنگی مشق کرتے دیکھتی تھی۔آپﷺ اس وقت تک اپنی چادر کی آڑ کیے رہتے جب تک میں خود اکتا نہ جاتی۔
(بحوالہ کتاب زاد راہ)
جب عائشہؓ پانی پیتیں تو آپﷺان کے ہاتھ سے پیالہ لے کر وہیں لب مبارکہ لگا لیتے جہاں سے انہوں نے پیا تھا۔اور جب وہ ہڈی پر سے گوشت کھاتیں تو آپﷺ وہ ہڈی جس پر گوشت ہوتا لے کر وہاں منہ لگاتے جہاں سے حضرت عائشہؓ نے کھا یا تھا۔ بعض وقت ازواج مطہرات ادھر ادھر کے قصے یا گزرے ہوئے واقعات بیان کرتیں تو آپﷺ برابر سنتے رہتے اور خود بھی کبھی اپنے گزشتہ واقعات سناتے۔ سیدہ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ آپﷺ ہم میں اس طرح ہنستے بولتے بیٹھے رہتے تھے کہ معلوم ہی نہ ہوتا تھا کہ کوئی اولوالعزم نبی ہیں لیکن جب کوئی دینی بات ہوتی یا نماز کا وقت آجاتا تو ایسا معلوم ہوتا کہ آپﷺ وہ آدمی ہی نہیں ہیں۔
اس زمانہ میں ہاتھی دانت کے زیوروں کا رواج تھا۔آپﷺ اس قسم کے زیور پہننے کا حکم دیتے۔بیویوں کا پاک صاف رہنا پسند فرماتے۔ بیویوں پر لعن طعن نہ کرتے اور نہ ان سے سخت اور درشت لہجہ میں گفتگو کرتے۔ اگر کوئی بات نا گوار خاطر ہوتی تو التفات میں کمی کر دیتے۔ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ جب حضور اکرمﷺ گھر کے اندر تشریف لاتے تو نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ مسکراتے ہوئے داخل ہوتے۔
(بحوالہ کتاب اسوہ رسول اکرمﷺ)
دنیا کا سب سے عظیم شوہر:
حجتہ الوداع کے موقع پر نبی کریمﷺ اپنی ازواج مطہرات کو بھی ساتھ لے کر گئے،تو راستے میں ایک آدمی ازواج مطہرات کی سواریوں کو تیزی سے ہانکنے لگا،نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ ان آبگینوں(عورتوں) کی سواریوں کو آہستہ ہی لے کر چلو، دوران سفر حضرت صفیہؓ کا اونٹ بدک گیا ، ان کی سواری سب سے عمدہ اور خوبصورت تھی،حضرت صفیہؓ اس پر رونے لگیں،نبیﷺ کو معلوم ہوا تو وہ تشریف لائے اور اپنے دست مبارک سے ان کے آنسو پونچھنے لگے۔
(مجمع الزوائد: ۳۲۳،۴)
حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ رسول اﷲﷺ جب حضرت خدیجہؓ کا ذکر فرماتے تو ان کی تعریف فرماتے اور بہت زیادہ تعریف فرماتے تو مجھ کو ایک روز (بہت)رشک ہوا،اور میں نے کہا کہ آپﷺ ایسی عورت کا کیا کثرت سے ذکر فرماتے جس کی بانچھیں لال لال تھیں(یعنی دانت ٹوٹ جانے کی وجہ سے جلد سرخ نظر آنے لگتی ہے) اﷲ تعالی نے اس کی جگہ اس سے اچھی دے دی(یعنی میں) آپﷺ نے فرمایا اس سے اچھی اﷲ تعالی نے مجھ کو نہیں دی(یعنی تم ان سے اچھی نہیں ہو کیونکہ)وہ مجھ پر ایسے وقت میں ایمان لائیں جب اور لوگوں نے میرے ساتھ کفر کیا اور ایسے وقت میں میری تصدیق کی جب اور لوگوں نے میری تکذیب کی اور انہوں نے میری مالی مدد کی اور لوگوں نے مجھ کو محروم رکھا( یعنی کسی نے مجھ سے ہمدردی نہیں کی کیونکہ دعوت نبوت کے بعدعام طور پر لوگوں کو بغض ہوگیا تھا)اور اﷲ تعالی نے مجھ کو ان سے اولاد بھی دی جبکہ دوسری بیویوں سے مجھ کو اولاد نہیں دی۔
حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کی جب رسولﷺ حضرت میمونہؓ کے گھر میں بیمار ہو گئے تو آپﷺ نے اپنی بیبیوں سے اس کی اجازت چاہی کہ میرے گھر میں آپﷺ کی تیمارداری کی جائے ان سب نے اجازت دے دی۔اس سے معلوم ہوا کہ آپﷺ بیبیوں کے پاس عدل سے رہتے تھے۔
(بحوالہ کتاب اسوہ رسول اکرمﷺ)
ایک دفعہ ایک سفر میں حضرت عائشہؓ کی سواری کا اونٹ بدک گیا اور ان کو لے کر ایک طرف کو بھاگا۔آنحضرتﷺ اس قدر بے قرار ہوئے کہ بے اختیار زبان مبارک سے نکل گیا۔
واعرو سا ہ
ہائے میری دلہن۔۔۔
مختصرا یہ کہ آپ ﷺ ایک حق شناس، محبت کرنے والے، ازواج میں عدل قائم کرنے والے بے مثال شوہر تھے۔ آپﷺ کی اسوہ حسنہ میں بے شمار ایسے واقعات ملتے ہیں جن سے بخوبی اندازہ ہوتا ہے کہ آپ ﷺ بحیثیت شوہر ایک بہترین اور کامل شخصیت کے مالک ہیں۔آپﷺ نے کبھی اپنی بیبیوں کی دل آزاری نہ کی،ہمیشہ ان کے لئے آسانیاں پیدا کیں،گھر کے کام ہاتھ بٹاتے،ہنسی مذاق بھی کرتے۔
آخر میں بس اتنا کہنا چاہوں گی کہ حضرت محمد مصطفیﷺ جیسا والد اور شوہر تاریخ میں نہیں ملتا۔اگر ہم سب آپﷺ کی اسوہ حسنہ پہ عمل پیرا ہوں تو ہمارے سارے دکھ درد ختم ہو جائیں گے۔
Diya Khan Baloch
About the Author: Diya Khan Baloch Read More Articles by Diya Khan Baloch: 2 Articles with 9661 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.