فیس بک کے چھوکرے

فیس بک کے شیدائی بھی کیا عجیب مخلوق ہیں ۔نہ موقع دیکھتے ہیں ، نہ کسی کے جذبات۔ بس اپنی دوکان چمکنی چاہیے۔ پروفائل پہ کتنی ـلائک (like)ملتی ہیں، اس سے غرض ہے۔ خود پسندی کی وہ روش چل پڑی ہے کہ ہر شخص بس اپنی لائک اور فالوئنگ (following)بڑھانے میں لگا ہے۔ ہمارے ایک دوست کی عادت تھی، کوئی بھی تصویر لگاتے وقت ہم سے کہتے تھے، لائک ضرور کرنا، بھابھی کے سامنے عزت کا سوال ہے۔ اب احساس ہوتا ہے، ہمارا دوست تو بڑا سیدھا آدمی تھا، لوگ تو پتہ نہیں فیس بک کو کیا سمجھ بیٹھے ہیں۔

فیس بک نہ ہوئی، عدالتِ عظمیٰ ہو گئی ۔ یَہیں کَٹہرا لگتا ہے، یہیں انصاف ملتا ہے یہیں اکھاڑا سجایا جاتا ہے اور یہیں چِت کیا جاتا ہے۔ بس ایک تصویر لگائیے اور اسی میں ثبوت دیجیے، اسی میں فیصلہ سنائیے، اسی میں دشمن کو للکاریے بھی اور اسی میں فتح پہ جھومیے بھی۔کیا خوب مصوّر ٹھیرے یہ فیس بک والے بھی!

مگر اتنا توماننا پڑے گا کہ فیس بک کی وجہ سے ہمارے علاقوں کا چھچھورا پن سمٹ کر آن لائن دنیا تک محدود ہورہا ہے۔ اب دوپہر میں کسی لڑکی کا انتظار نہیں ہوتا، بس پروفائل وزٹ کی جاتی ہے۔ کوئی کاغذی کاروائی نہیں ہوتی، اظہار ِ محبت ہو یا استفسارِ محبت، اِن باکس کافی ہے۔ یہ نوجوان توجہ حاصل کرنے کیلیے اشارے نہیں کرتے، چیخ چیخ کر لڑکی کے گھر کے باہر باتیں نہیں کرتے، کوئی سیٹی نہیں، کوئی شاہ رخ خان کی فلم کے گانے نہیں، بس فیس بک پر ٹیَگ کر دو۔یہ توہوا ان چھوکروں کا حال جو شوخ رنگ کے کپڑے پہنتے ہیں، پتلونیں ناف سے گَز بھر نیچے رکھتے ہیں۔

اس معاشرے کا ایک طبقہ وہ بھی ہے جو ایسے چھوکروں کو غافل کہتا ہے، خود کو حق پر جانتا ہے۔ ہولی کو حرام کہتا ہے اوردوسروں پر کیچڑ اچھالنے کو حلال جانتا ہے ۔ ابھی حالیہ طیارہ حادثے پر بھی یہی کچھ دیکھنے میں آیا۔ فیس بک پر گویا دو گروہ دست و گریباں ہو گئے۔ ایک طبقہ تو ربیع الاول کے آغاز سے ہی میلاد منانے والوں کو گمراہ اور جہنمی کہنا شروع ہو چکا تھا ۔ دوسرے کو موقع ملا تو اس نے بھی بغیر سوچے سمجھے جنید جمشید کو جہنم رسید کر دیا۔ کمال ہو گیا! فیس بک کو مناظروں کا مسکن بنا دیا ۔

آدمی کس کس کو روئے؟ اُن کو جو فیس بک پر چھچھورا پن کر رہے ہیں یا پھر ان کوجو غلاظت مچا رہے ہیں۔ اختلافِ رائے ہو یا اعترافِ عظمت، ہر چیز کے کچھ آداب ہوتے ہیں۔ سوشل میڈیا کی آزادی ان لوگوں کو ہضم نہیں ہورہی۔ سونے پہ سہاگا یہ کہ انکو کوئی روکنے ٹوکنے والا بھی نہیں، نہ والدین کی طرف سے نگہداشت ہو رہی ہے، نہ ہی اساتذہ کی طرف سے تربیت اور ریاست کو تو رہنے ہی دیجیے، اسکے پاس نسل سازی سے بڑھ کراور بھی بہت سے امور ہیں ۔ یہ معاشرہ ایسے ہی چلتا رہے گا۔ہم سے ڈینگی کا مچھر نہیں سنبھلتا، ان چھوکروں پر کون کمان ڈالے۔
Masood Muhammad
About the Author: Masood Muhammad Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.