نظام قدرت ہے اور وہ اپنے معین کردہ دائرے
میں چلتا رہتا ہے ،دن آتا اور اس کی پرچھائی میں رات کے عکس ہوتے ہیں۔ازل
سے یہ کاریگری جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔ وقت نظام قدرت کا ایک اہم
جزو ہے،سیکنڈ،منٹ،گھنٹے،دن،شام،ہفتہ،مہینہ اور سال تقسیم وقت کی گنتی میں
آتے ہیں۔ وقت کا کام چلنا ہے اور وہ بنا کسی قید کے چلتا رہتا ہے۔ دن ، ماہ
، سال بہت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں چاہے وہ شخصی زندگی ہو یا ملکی حالات
ہوں۔وقت ہر جاندار چیز پہ اپنا اثر مرتب کرتا ہے اور اسے باعث تقلید بناتا
ہے یا انفرادی اور اجتماعی غلطیوں کے باعث عبرت کا نشان بنا دیتا ہے۔ اک اک
منٹ تاریخ رقم کرتا ہے اور اسی اک منٹ کی اہمیت سے رو گردانی کرنے والے
سوالیہ نشان بن جاتے ہیں۔ مذہب کی رو سے ہمارے نیے سال کا آغاز ڈھائی ماہ
پہلے ہو چکا ہے۔محرم الحرام اسلامی کلینڈر کے حوالے سے ہمارا پہلا اسلامی
مہینہ ہونے کا آغاز رکھتا ہے مگر چونکہ ہم مغرب سے متاثرہ عوام ہیں اور
ہمارے حکمران ہمارے قوانین بھی مغرب کے زیر تسلط ہیں تو یہ یقینی امر ہے
ہمارا ہے کہ ہمارے ماہ و سال بھی مغرب سے مطابقت رکھتے ہوں گئے۔ ہم میں سے
اکثریت ایسے لوگوں کی ہو گئی جو یہ تک نہیں جانتے ہوں گئے کہ ہمارے پہلے
اسلامی مہینے کا نام کیا ہے۔ خدارا آپ اس پہ حیرت زدہ نہ ہوں جب ہم اپنی
اقدار بھول سکتے ہیں تو یہ بھول جانا کوئی بڑی بات نہیں ہے۔ خیر بات وقت کی
ہو رہی تھی اور ہم کہاں چل پڑے مگر کیا ہے نا "الم اتنے ہیں کہ کس کس کو
روئے" کے مطابق ہم کہیں اور منزل کا رخ کا رخ کر رہے تھے۔2016 اپنے اختتام
کو بڑھ رہا ہے۔چند دنوں بعد ہم مغرب زدہ عوام آتش بازی کر کے اپنے غموں پہ
ہنس رہیں ہوں گئے۔۔۔۔بلکل ہنسنا چاہیے ایسے بھی کوئی پہاڑ نہیں ٹوٹ پڑے ہم
پہ ایسی بھی کوئی قیامت برپا نہیں ہو گئی اور خوش ہونا تو سب کا بنیادی حق
ہے۔۔۔۔اس حوالے سے میرے ذہن میں پنجابی کا اک محاورہ اور رہا ہے جو میں
ضرور بیان کرنا چاہوں گئی "جس تن لاگے اوہ تن جانے"
نیا سال آ رہا خوش ہونے کا حق سب کو ہے کیوں نہ ہوں نیا سال نئی خوشیاں نئی
امیدیں۔۔۔ خوش ہوئے مگر عقل مندی کی نصیحت اور دانش منڈوں کا شیوہ ہے آگے
ایک قدم اٹھانے سے پہلے پچھلے قدم کے نشان ضرور دیکھنے چاہیے، مگر ہم کیوں
دیکھیں ہمیں آگے بڑھنا ہے اور آگے بڑھنا ہے چاہے کچھ بہت خاص ہم سے بچھڑ
جائیں چاہے سب کچھ ہمارے قدموں تلے روندا جائے ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں
ہونی چاہیے۔۔۔۔ ہمیں اپنی خوشیوں سے فرصت ہو تو ہم دیکھے ہم نے بحیثیت قوم
کیا ہیرے کھو دئے۔۔۔ہمارے پیارے وطن کے حصے میں کیا کیا خسارے درج ہوئے۔
بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح کی سالگرہ آنے والی ہے ہماری محب
الوطن عوام لمبی لمبی تقریریں جھاڑی گئی ، بحث و مباحثے ہوں گئے۔ ان کی
زندگی ،موت،اولاد اور جائیداد پتا نہیں کیا کیا زیر بحث لایا جائے گا۔ بڑے
بڑے دانشور وہی پرانے الفاظ دہرائے گئے مگر کوئی اس عظیم انسان کے مقصد کو
سمجھتے ہوئے کچھ کرنے کی کوشش نہیں کرے گا، کوئی اس مرد مجاہد کی طرح ملک و
ملت کے حالات پہ تاکہ سوز پہ بیٹھ کے رونے کی بجائے عملی اقدام نہیں اٹھائے
گا۔سب لوگ "ہمیں کیا؟؟؟" کے مفروضے پہ عمل درآمد کرتے ہوئے کان لپیٹے خواب
خرگوش کے مزے لیتے رہے گئے۔۔۔
گزرے سال میں بہت سے غم سیاہ کالک کی صورت ہمارے منہ پہ مل دئیے گئے۔بے شک
سب کچھ حکم ربی ہوتا ہے مگر ہماری ملکی خرابیاں ، ناقص ادارے اور ناکام
حکمران اس میں سر فہرست ہیں۔ عوام اپنے جھمیلوں میں مگن ہیں اور حکمران
اپنی تو تو میں میں میں مصروف ہیں۔سارا سال سارے حکمران تماشے کرنے میں مگن
رہے دوسرے لفظوں میں یہ سب بندر کے کرتب دکھاتے رہے اور عوام مگن ہو کر یہ
تماشے دیکھتی رہی اب واﷲ اعلم کے مداری کون تھا اور اعلی پائے کا بندر
کون؟؟؟؟
کسی کو اپنے کاروبار سے فرصت نہیں اور کسی کو اپنی پشین گوئیوں سے۔۔۔کوئی
گٹار بجانے میں مہارت رکھتا ہے اور کوئی ملک و قوم کے پیسے پہ سب سے بڑا
غبن کر کے مکڑا ہوا ہے اور سینہ تھوک کے میدان عمل میں کھڑا ہے اور مزے کی
بات ہے اس پہ پنجابی محاورہ بڑے کمال کا آٹا ہے "نالے چور نالے چتر" کسی کو
اعلی و ارفع شخصیات خواب میں دیدار کراتے ہوئے آنے والے لائحہ عمل سے آگاہ
کر جاتیں ہیں اور کوئی نغموں اور دھنوں سے پنڈال سجا کر بیٹھ جاتا ہے اس
بات سے آگاہ ہوتے ہوئے بھی کہ بندر شتر بے مہار ہو چکا ہے اس پہ نہ ڈنڈے کا
اثر ہے اور نہ ہی تالیوں سے کوئی غرض ہے۔۔۔۔ان لوگوں کا دارالحکومت میں آ
کر بیٹھ جانے کو میں تو صحرا میں بیٹھ کر شراب دیکھنے کے مترادف سمجھوں
گئی۔
اب آتے ہیں قومی المیے کی طرف تو کیا بتائے ہم پہ ٹوٹے ہیں آسماں کیسے
کیسے۔
کس کس غم روئیں۔۔۔۔آپریشن ضرب عضب ہو رہا تھا کامیاب ہوا اور آبادی کو ان
کے گھروں میں دوبارہ آباد کیا گیا۔۔ کراچی رینجرز کے حوالے کیا گیا اور اس
کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوئے۔ پاک فوج کے اداروں میں احتساب کا عمل شروع
ہوا اور اس کے نتیجے میں اعلی افسران کو جو جرم کے مرتکب ہوئے تھے ان کو
سزا دی گئی۔ پاک فوج نے کئی نئے ایٹمی ہتھیاروں پہ کامیاب تجربے کیے اور
پاکستان کے دفاع کو مضبوط کیا۔ عالمی سطح پر پاکستان کے وقار میں اضافہ ہوا
اور جنرل راحیل شریف نے بیرون ممالک پاکستان کی سلامتی کے لیے طوفانی دورے
کیے۔۔۔۔ فوبی عدالتیں تشکیل دی گئی اور سالوں پرانے مقدمات کا فیصلہ کیا
گیا۔۔ اسی سال اس وطن عزیز کی امید جنرل ریٹائرڈ راحیل شریف اپنی مدت
ملازمت پوری کرتے ہوئے عوام کو افسردہ کر۔ پاکستان کرکٹ ٹیم نے ویسٹ انڈیز
کے خلاف کامیابی حاصل کی۔ پاکستانی طالب علموں نے مختلف شعبہ ہائے جات میں
اعلی کارکردگی دکھا کر عاملین سطح پر مقابلے جیتے اور ملک و قوم کا نام
روشن کیا۔۔۔ صرف چند ایک واقعات ذہن کی دیواروں پہ ایسے روشن ہوتے ہیں جو
ذہنوں کو سکون دیتے ہوں۔
2016 میں اگر باقی دیکھے تو درد ہی درد نظر آتا ہے۔کراچی کے حالات خون کے
آنسو رلانے ہیں۔ کراچی خون میں ڈوبا ہوا ہے اور ان کے حکمران اپنی عیش و
عشرت میں مست ہیں۔ کوئی گٹار بجا رہا ہے اور کوئی باہر سے ہمارے ملکی وقار
پہ حملہ کر رہا ہے۔۔۔جو باقی بچتے ہیں وہ تو عقل سے ماورا ہیں۔ وہ یہ شدھ
بدھ بھی کھو چکے ہیں کہ کون مرا ہے اور بیان وہ کس کا دے رہے ہیں۔۔۔اگر نئے
لوگ آئے بھی تو وہ جن کی عوام نے دیکھ بھال کرنی ہے وہ خود اتنی طاقت نہیں
رکھتے۔ اسی سال ہم سے انسانی روپ میں فرشتہ صفت انسان عبد الستار ایدھی بھی
بچھڑ گئے اور عزم و ہمت کا اک باب ختم ہوا۔ یہ ہی سال ہم سے ہمارے نامور
گلوکار اور قوال امجد صابری کو بھی چھین کر لے گیا۔۔بربریت کا ایسا مظاہرہ
کہ سر عام جسم سے جان کھینچ لی گئی اور ادارے محو تماشہ رہے۔۔۔۔
ایک اور دل کو جھنجھوڑ دینے والا سانحہ پاچا خان یونیورسٹی میں تخریب کاری
کی واردات تھی۔ دشمن نے اے پی ایس پشاور کی تاریخ دوبارہ دہرائی تھی۔نقصان
ہوا اور کئی قیمتی جانوں سے ہم ہاتھ دھو بیٹھے۔ اس کے بعد ائیر بیس پہ حملہ
ہوتا ہے۔ہمارے چوکس جوان جو ہیں جس حالت میں ہیں صف آراء ہو جاتے
ہیں۔۔۔نظریں دیکھنے پہ شرمندہ ہو جاتی ہے کہ کیسے کیسے جوان ہم سے چھین لیے
گئے اور ہم دما دم مست قلندر میں محو ہیں۔۔پاکستانی مٹی کو ایسے جوانوں پہ
فخر ہے جو جان پرکھیل گئے مگر ملکی اثاثہ بچا گئے۔۔۔جنہوں نے سینوں پہ
گولیاں کھائی مگر ایک انچ کا چپہ بھی دشمن کے حوالے نہ کیا۔
کوئٹہ میں دلدوز منظر دیکھنے میں آتا ہے۔اس ادارے میں حملہ جہاں ملکی دفاع
کے لیے فولاد تیار کیا جاتا ہے۔۔ انٹیلی جنس اداروں کی اطلاعات کے باوجود
ایسا ظالمانہ واقعہ ہوتا ہے اور غلطی وہی جس کے نتیجے میں ہم صرف ایک سال
پہلے 150 جانوں کا نقصان کر بیٹھے تھے۔۔۔ مگر ہائے یہ عوام اک سانحے پہ چند
دن روئے اور اگلے کے لیے تیار ہوگئے۔۔۔ان معصوم اور بے گناہ جوانوں کی
میتیں بھی بے حرمتی کا شکار ہوتی ہیں ہیں ،لوکل بسوں کی چھتوں پہ ان کو
آبائی علاقوں کی سمت روانہ کیا جاتا ہے اور خود بدمست ہاتھی جیسے حکمران
اپنے حال میں مگن ہیں۔۔ہیلی کاپٹر کے ذریعے مری میں کھانے منگوائے جاتے ہیں
اور بچے جانے والے وہیں پھینک کر غریب عوام کی بھوک پہ لعنت بیجھی جاتی ہے۔
ہمارے مہان ہمسائے بھارت مسلسل اشتعال آمیز کاروائیاں کر رہے ہیں۔۔ہمارے بے
گناہ شہری اور وطن عزیز کے محافظ اپنی جانوں سے ہاتھ دھو رہے ہیں مگر ہمارے
حکمران اپنی دنیا میں مست ہیں۔ چند دن غیرت جاگی ہے اور بھارتی فلموں پہ
پابندی لگائی جاتی ہے مگر پھر سے پاکستانی دل مردہ ہونے لگے ہیں۔ ابھی حال
میں ہی ہونے والا واقعہ جس میں بے گناہ 48 جانیں لقمہ اجل بنی وہ بھی صرف
اور صرف اداروں کی نا اہلی کے سبب۔۔۔۔کئی بچے ماوں سے بچھڑے کئی مائیں
گھروں کو ویران کر گئی اور کئی پورے کہ پورے گھر سنسان ہوگئے۔ پورے خاندان
میں سے ایک 14 سالہ بچے جانے والی لڑکی کس کے دامن پہ اپنوں کا لہو تلاش
کرے۔۔۔کس کا گریبان پکڑے اور کسے پھانسی کے پھندے تک لے کے جائے۔۔۔اس سانحے
میں پاکستان کا اک روشن باب جنید جمشید بھی ہم سے بچھڑے گیا مگر ہماری عوام
اور حکمران کا اک ہی رد عمل ہو گا۔۔۔چند دنوں روئے گئے پھر وہی ازلی
خاموشی۔۔۔
یہ صرف ندیم واقعات ہیں جو ذہن و دل پہ ان مٹ نقوش چھوڑ گئے۔۔جو دل کا
ناسور بن گئے۔۔ابھی اور بہت سے زخم ایسے ہیں جن سے لہو رس رہا ہے ، جو
مسیحائی کے طلب گار ہیں جو دست شفا چاہتے ہیں۔۔۔ مگر دور دور تک کوئی ایسا
نظر نہیں آتا جو عقل و خرد کا دامن تھامے اور وطن عزیز کو اس منجدھار سے
نکالے۔۔۔
یہ صرف میرے وطن کے دکھ ہیں جو ابھی بھی اک طویل کہانی رکھتے ہیں میں کیسے
اس امت کے دکھ بیان کرو ابھی میرا وطن لہو لہو ہے۔۔۔میں کیسے کشمیر ،
فلسطین ، عراق ،یمن اور شام کو روں ابھی میرے اپنے زخم تازہ ہیں۔۔۔میں کیسے
ان کی قبروں پہ گریہ خوانی کروں ابھی میں اپنے جوانوں پہ افسردہ ہوں۔۔۔۔
|