اعوذباﷲ من الشیطٰن الرجیم
بسم اﷲ الرحمن الرحیم
۲۰ دسمبر۲۰۱۶ء
رات کے اس پہر جب میں نیند کی آغوش میں ، خوابوں کی دنیا میں جانے کے لئے ،اپنے
دل و دماغ کو سکون دینے کے لئے ،بہت امید سے ،بہت پیار سے، پوری تیاری کے
ساتھ سونے کے لئے لیٹتا تب اسی پہر میرے دل ودماغ حرکت میں آتے، مطلب پورا
دن اﷲ کے فضل و کرم سے حرکت میں تو رہتے اور کام بھی اچھے سے کررہے ہوتے
لیکن رات میں جب کہ آدھی دنیا سوچکی ہوتی تب میرے دل و دماغ جاگتی آنکھوں
سے یا تو خوابو ں کی دنیامیں چلے جاتے یاپھر ماضی ،حال اور مستقبل کے
خیالوں میں گُم ہوجاتے اور میری پیاری سی نیند ان سب میں کہیں کھو جاتی اور
مجھے دل و دماغ کے پاس تنہا چھوڑ جاتی ،حالانکہ میں دل و دماغ سے بہت لڑتا
کہ مجھے ابھی سونے دو لیکن وہ مجھے پریشان رکھتے ،الجھائے رکھتے دنیااور
آخرت میں ، کفر و اسلام میں ،جزا و سزامیں،دن و رات میں ،کام میں آرام میں
، پریشانی میں سکون میں ، پیار میں نفرت میں ، غصّے میں نرمی میں، گھر کے
لوگوں میں ،خاندان میں ، بیماری و شفا میں،حالات و واقعات میں ، ماں باپ
میں ، بہن بھائیوں میں ، بس کیا بتاؤں رات کے پہر دل ودماغ کی وہ دنیا مجھے
تڑپاتی رہتی ۔
میں جب سُکون کی تلاش میں ہوتا ،تب ہی مجھے پریشانی دیتی اور گھنٹوں مجھے
جگائے رکھتی میں اسی کش مکش میں ، اسی لڑائی میں بہت کچھ سوچنے کے بعد پتہ
نہیں کب سو جاتا، کب نیند کی آغوش میں چلا جاتا ،مجھے نہیں معلوم ،ہاں اتنا
ضرور معلوم ہے کہ جو خیالات میرے دل ودماغ میں آتے وہ بھول نہیں پاتا۔
بس پھر کیا ہونا ہے اک رات جب میری برداشت ختم ہوگئی تب ٹھیک فجر کی نماز
کے بعد مجھے قلم اٹھانے کا خیال آیا ، ان خیالات میں سے چند کو اپنی کاپی
میں قلمبند کرنے کا خیال آیا ۔اس میں بھی میرا من لڑ رہا تھا کہ چھوڑو بھئی
،بہت سے قلمکار ہیں تو لکھنے کی کیا ضرورت ؟لیکن میرا ہاتھ میرے جذبات و
احساسات میرا قلم آخر کار جیت کی خوشی لئے اٹھ ہی گیا اور کچھ ہی لمحوں کی
تاخیر سے یہ تحریر شروع ہوئی ۔لکھنا شروع کیا تو ہاتھ قابو میں نہیں آرہے
تھے لیکن میں نے بھی ان کو ماموں بنانے کی کوشش کی ،وہ ایسے کہ میرے پاس
لکھنے کے لئے تو بہت کچھ تھا لیکن یہ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کہاں سے شروع
کروں ؟ کون سا عنوان قارئین کو لبھائے گا؟ کون سا عنوان میری تحریر کو
خوبصور ت بنائے گا؟کون سا عنوان توجّہ کا مرکز بنے گا؟ کیونکہ اگر میں نے
ہاتھ ،جذبات و احساسات کو نہیں تھاما تو تحریر بہت طویل ہوجائے گی اور جو
آپ قارئین ہیں ان میں سے اکثر پوری نہیں پڑھیں گے ،اکثر اس کی طوالت دیکھ
کر چھوڑ دیں گے اور چند ہی ہوں گے جو پڑھیں گے ان میں سے بھی نوجوان کم اور
بزرگ زیادہ ہوں گے۔حالانکہ میں جوانوں اور نوجوانوں کو مخاطب اور متوجہ
کرنا چاہ رہا ہوں جو بہت ہی زیادہ مشکل ہے ،کیونکہ آج کے اس سوشل میڈیا اور
الیکٹرونک میڈیا کے دور میں جہاں ہر کوئی بس لگا پڑا ہے لیکن سمجھ نہیں
پارہا کہ اس کا مقصدِ زندگی کیا ہے ؟
اپنے جذبات و احساسات پر قابو پاسکوں اور رات کے پہر دل و دماغ سے لڑائی کے
بدلے سکون کی نیندسو سکوں اسی لئے میں نے قلم اٹھایا اور اس تمہید اور
کیفیت کے بعد امّت مسلمہ کے حالات کے بارے میں لکھنا شروع کیا ابھی توجہ ہی
چاہی تھی کہ میرے دل ودماغ پر شام (حلب)کا منظر گھومنے لگا اور مجھ سے کہنے
لگا کہ وہاں آنہیں سکتے تو کم از کم قلم کے ذریعے سے ہی آواز بلند کردو
۔میری آہوں سسکیوں کو ہر جگہ قلم کے ذریعے سے ہی پھیلادو ،کیونکہ حلب کے
حالات حال ہی کے قیامت زدہ ہیں اسی وجہ سے حلب دماغ پر سوار ہوگیا ،ورنہ
حالات تو کشمیر ،بنگلہ دیش، فلسطین ، برما، چیچنیا، یمن، مصر،وغیرہ کے بھی
ٹھیک نہیں ۔یہ سب بھی میرے دماغ پر ایسے ہی سوار ہیں کہ مجھے سونے نہیں
دیتے بلکہ اگر یہ کہوں کہ دن کی بیداری بھی میرے سمجھ نہیں آرہی تو شاید یہ
الفاظ ٹھیک ہی ہوں گے ،کیونکہ امت مسلمہ جس کرب و تکلیف کے عالم میں ان
ممالک میں اپنی زندگی گزار رہی ہے اس کا اندازہ ہم آزاد ملک میں رہتے ہوئے
کبھی نہیں لگا سکتے ۔اب آزاد سے یاد آیا کہ آزاد تو ہم بھی نہیں ہیں ،بنام
ستر سال آزادی کو ہوگئے لیکن ہم ابھی بھی انہی فرنگیوں اور ہندوؤں کے غلام
ہیں ۔زندگی چپ چاپ گزار رہے ہیں ،اگر کوئی اچھا کام کرتا بھی ہے تو اس پر
معلوم نہیں لوگ (جو کچھ بھی نہیں کرتے )کیوں تنقیدیں ہی کرتے رہتے ہیں
،چلئے یہ بھی ایک طویل موضو ع ہے اور پھر پاکستان کے بارے میں تو ویسے ہی
سب ہی اپنے آپ کو باپ سمجھ لیتے ہیں تو ہم اس کو چھوڑ کر ابھی شام ہی کی
بات کرلیتے ہیں ۔کیونکہ موجودہ حالات تو شام (حلب)کے ہی قیامت زدہ ہیں
۔لیکن پھر خیال آتا ہے کہ امّت مسلمہ کچھ ضروری کاموں میں مصروف ہے بس یہ
طے ہوجائے کہ نبی ﷺ نور تھے یابشر،حالانکہ قرآن و حدیث سے یہ ثابت ہے کہ وہ
عبد تھے پھر بھی ،بس یہ فیصلہ ہوجائے کہ میلاد منانا ثواب ہے یا بدعت
حالانکہ سالگرہ تو اسلام میں ہے ہی نہیں بلکہ عیسائیوں کی رسم ہے اور پھر
نبی ﷺ نے کسی بھی قوم کی مشابہت اختیار کرنے کو بھی منع فرمایا ہے اور
دوسری جگہ نبی ﷺ نے خود تین دن سے زیادہ کے سوگ کو بھی منع فرمایا ہے پھر
بھی بس اتفاق ہوجائے کہ نبی ﷺ غیب جانتے تھے یا نہیں معلوم ہوجائے کہ
،تراویح آٹھ ہیں یا بیس ،کوئی تصدیق کردے کہ نماز پڑھنے کا طریقہ کیا ہے
ہاتھ کہاں اور کیسے باندھنے ہیں ؟اور اسی طرح کے کچھ مسائل میں امت الجھی
ہوئی ہے اور یہودی اپنا کام احسن طریقے سے آگے بڑھا رہے ہیں ۔نجانے کب ہم
جہالت کے اس گھٹا ٹوپ اندھیرے سے باہر نکلیں گے ؟نجانے کب ؟اور کیسے؟
اب احادیث کی روشنی میں جائیں تو امّت کو ایک تو ہونا ہی ہے لیکن کتنے گھر
اجڑنے کے بعد؟ کتنے بچے زمین میں دبنے کے بعد ؟ کتنی ماؤں بہنوں کی عصمتیں
نیلام ہونے کے بعد ؟ نجانے کب؟ جو امّت کو ایک کرنے کی کوشش میں لگے ہیں ان
کو سیاسی کہہ کر ایک طر ف کردیا جاتا ہے اور سیاسی بھی وہ نہیں جو نبی ِﷺ
نے کی بلکہ جو آج کل مسلمانوں کے بے غیرت حکمران کررہے ہیں ان سے موازنہ
کیا جاتا ہے جبکہ اگر ہم یہ سوچ لیں کہ ’’اقامت ِ دین کی جدو جہد میں ہم تو
دیہاڑی کے مزدور ہیں ہمیں اپنے حصے کا کام کرنا ہے اور مالک ’’اﷲ ‘‘ سے
دیہاڑی لینی ہے ہمیں اپنا کام ایمانداری سے کرنا ہے ‘‘(موددی ؒ)
خیر اس دکھ درد کی کیفیت میں بات کہاں سے کہاں چل گئی نبی ﷺ کی وہ حدیث جس
کا مفہوم ہے ’’عنقریب شام ،عراق اور یمن سے منتخب لشکر اٹھیں گے اﷲ ہی بہتر
جانتے ہیں کہ آغاز کہاں سے ہوگا اور تم پر لازم ہے شام ، آگاہ رہو، تم پر
لازم ہے شام آگاہ رہو تم پر لازم ہے شام‘‘( مسند احمد)
اس کا تو مطلب یہ ہوا کہ قیامت بہت زیادہ قریب ہے خیر اس میں الگ طوالت ہے
کہ قیامت کب آئے گی ،میں اس بحث کو آگے نہیں بڑھا رہا ابھی امّت کو بس
جگانے کی ضرورت ہے ،قیامت جب بھی آئے اپنا کام تو کرنا ہے ۔
ایک حدیث یاد آئے تو اﷲ بہت سی احادیث یاد دلا دیتا ہے جو موضوع منتخب کیا
تھا اسی حوالے سے امّت کے لئے نبی کریم ﷺ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ ’’مسلمان
ایک جسم کی مانند ہیں ،جب ایک حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم تکلیف کا
شکار ہوتا ہے ‘‘۔
اب اس حدیث کی روشنی میں ہمیں اپنے احتساب کی ضرورت ہے کہ کیا ہم مسلمان
بھی ہیں؟میں تو کہتا ہوں کہ مسلمان تو کیاہم تو انسان بھی نہیں ہیں۔ہوسکتا
کہ پڑھنے والے کو برا لگے لیکن درد ہے کہ میرا ہاتھ ،میرا قلم ،میرے د ل کا
ساتھ نہیں دے پارہے ،میری سوچ میرے جذبات و احساسات کچھ بھی میرے قابو میں
نہیں ،بس دل کررہا ہے کہ جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے کسی طرح
اُدھر جاؤں اور کفّاراور منافقین کی صفوں کو چیر ڈالوں ،مجھے موت تب تک نہ
آئے جب تک میں ایک ایک کافر و منافق کوقتل نہ کردوں اور وہاں کے مسلمانوں
کو آرام نہ دے دوں ۔میرا ضمیر میرے جذبات کا ساتھ نہیں دے رہاکہ میں ایسے
کیوں بیٹھوں ؟میرے مسلمان ننھے بچوں کے چیتھڑے دیواروں سے لگتے رہیں اور
میں سوتا رہوں؟ میری عزّت مآب بہنیں اور ماؤں کی عصمتیں لٹتی رہیں اور میں
بس دعائیں کرتا رہوں؟میرے جوان بھائی کٹتے رہیں اور میں نماز پڑھتا رہوں
اور میرے بزرگ ختم ہوتے رہیں اور میں چپ رہوں ؟تو میرے مسلمان ہونے کا کیا
فائدہ ،نقصان تو دور کی بات میں مسلمان ہی کہاں رہا ؟کیونکہ اس حدیث پر تو
میں پورا ہی نہ سہی تھوڑا بھی نہیں اُتر رہا ،اس حالت میں اگر مجھے موت
آگئی تو میں نبی ﷺ کے سامنے حاضر ہونا تو بہت دور مجھے تو کوئی نیک بھی
نہیں بلکہ بدی کا فرشتہ بلکہ شیطان ہی اﷲ کے حکم سے لینے نہ آجائے کیونکہ
نبی ﷺ کی امّت کٹتی رہی ،جوانیاں تباہ ہوگئیں ،بڑھاپے ختم ہوگئے، عصمتیں
لٹتی رہیں اور میں دعا کرتا رہا ،بلکہ میں دعا بھی نہیں کیونکہ ’’دل سے جو
بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے ‘‘ میری تو دعاؤں میں ہی تاثیر نہیں تو مطلب میں
دعا بھی نہیں کررہا بلکہ چپ سادھ لی ہے تو ظاہر ہے امّت پر اس مشکل وقت میں
میرے کچھ نہ کرنے کی وجہ سے میں شیطا ن کے ذریعے سے ہی اٹھایا جاؤں گا۔
اب آپ سوچ رہے ہوں گے کہ ہر کلمہ گو مسلمان ہے اور وہ جنت میں جائے گا۔نہیں
!ہم نے اس کا مفہوم نہیں سمجھا ،ہر کلمہ گو مسلمان ہے تو وہ جنت میں اس
صورت میں جائے گا جب اس نے اﷲ اور نبی ﷺ کے احکامات کی پیروی ، اٰمَنّاوَ
اَعْطَا نَاکہہ کر کی ہو گی۔نبی ﷺ کی امّت جو مظلوم ہے اس کے لئے بے دریغ ،
بے دھڑک آواز اٹھانی ہوگی اور جہاں تک ہوسکے مالی تعاون کرنا ہوگا اور جہاں
ضرورت ہو وہاں تو اپنی جان بھی لگانی ہوگی۔اس کے بعد تھوڑی گنجائش ہے کہ
فرشتے لینے آجائیں کیونکہ ہماری اوقات نبی ﷺ کے سامنے حاضری کی بھی نہیں ہے
۔
آہ!دل کو کیسے ہلکا کروں ؟اﷲ تو میری مدد فرما، اے اﷲ!تو مظلوم مسلمانوں کی
داد رسی فرما اور اے اﷲ ، مسلمانوں کو جگا دے ،خاص کر آج کے نوجوانوں کو
آمین۔
مصر ،شام، فلسطین ،کشمیر ،برما ،بنگلہ دیش ،چیچنیا ،بوسنیا،عراق ،یمن ،اور
بھی ہرجگہ جہاں ’’مسلمان‘‘ نام ختم کیا جارہا ہے ،ختم میں اپنے دل سے کہتا
ہوں کہ وہاں جاکر دیکھو تو ذرا، یہ جو تصاویر اور ویڈیو ز میں دیکھ رہے ہو
یہ تو کچھ بھی نہیں بلکہ حقیقت میں جو وہاں ہورہا ہے شاید کہ تمہاری آنکھیں
نہ دیکھ پائیں ،شاید کہ تمہارا دل ،تمہارا کلیجہ منہ کو آجائے ،پھر تمہیں
معلوم ہو گا کہ نبی ﷺ کی ا مّت کس حال میں ہے ۔ارے لکھنے والے!تُو تو ایک
آزاد ملک کا آزاد شہری ہے ،شکر کر اﷲ کا ۔۔۔وہاں جاکر دیکھ جہاں آزادی چھین
لی گئی ہے ،وہا ں جاکر دیکھ جہاں مائیں ،بہنیں ،بیٹیاں ، بچے ،چھین لئے گئے
ہیں ، وہاں جہاں رہنے کو کچھ نہیں بچا ،دیکھ جاکر پھر تجھے معلوم ہوگا کہ
نبی ﷺ کیوں راتوں کو جاگا کرتے تھے، کیوں راتوں کو رویا کرتے تھے ، کیوں
دعائیں کرتے تھے ،کیوں میرے نبی ﷺ نے دس سالہ مدنی دو ر میں ستائیس غزوات
بنفس نفیس لڑے تھے ، کیوں میر ے نبی ﷺ نے اس سے زیادہ کے لشکر جہاد کے لئے
روانہ کئے تھے ،کیوں میرے نبی ﷺ نے کئی کئی دن اپنے گھر چھوڑے تھے ؟تب تجھے
معلوم ہوگا کہ امّت کیا ہے؟ اور امّت کا درد کیا ہے؟ پھر بھی کچھ معلوم نہ
ہوا تو تو مسلمان نہیں،اپنا محاسبہ کر پھر اور اپنی آخرت کا سوچ اور پھر
تُو اس وقت کا انتظار کر جب تیرے ملک، تیرے شہر ،تیری گلی ،تیرے گھر پر یہ
آفت ٹُو ٹے اور تیری پُکار سننے والا کوئی نہ ہو اور تُو چیختے چیختے
مرجائے ،پھر اﷲ کے حضور پیش ہو تو تیرا شکوہ نہ سنا جائے ۔ڈر! اپنے اندر
خوف پیدا کر، اور وہ وقت آنے سے پہلے آواز اٹھا اس سے پہلے کہ تجھے فرشتے
لینے آئیں تو انہیں بھی شرم آئے ، یاپھر ان کی جگہ اﷲ کے حکم سے شیطان لینے
آئے اور پھر تیرا کوئی نہ ہو۔
سن لے اے مسلم !اب وہ وقت نہیں کہ برائی کو دل سے برا جانا جائے بلکہ کم
ازکم آوازِ حق زبان سے بلند کی جائے ،اور برائی کو کم از کم زبان سے روکا
جائے ۔پھر کہیں جاکر تجھے کامیابی حاصل ہو گی ۔
اے میرے مظلوم بھائیوں، بزرگو،اے میری مظلوم ماؤں بہنوں ،بچیو ں اور اے
میرے پھول سے نرم نازک بچوں! ہم گنا ہ گار ہیں ،ہم تمہارے بھی گنا ہ گار
ہیں ،ہم تمہارے لئے کچھ نہیں کر پارہے ہیں ،کاش کہ اسلامی حکومت ہوتی ،حاکم
مسلمان ہوتا ،صوم و صلوٰۃ کا پابند ہوتا ،مسلمانوں کا درد سینے میں رکھنے
والا ہوتا ،کاش کہ ہمارا حاکم کفّار کا کُتّا نہ ہوتا ۔ اے مظلومو! ہمیں
معاف کردینا ،ہم جانتے ہیں کہ ہم اس کے بھی حقدار نہیں ،لیکن پھر بھی ہم
معافی چاہتے ہیں ،ہمیں معاف کردینا ،آج ہمارے حکمران ، ہمارے ملّا ، ہمارے
لوگ، آسائش میں لگے ہیں ،جشن منارہے ہیں ،سالگرہ منا رہے ہیں ،عیسائیوں کی
تقلید کررہے ہیں ،اور وہاں مسلمان مائیں ،بہنیں ،بیٹیاں ،بزرگ اور بچے
پیوندِ خاک ہوچکے اور ہورہے ہیں ۔لیکن مسلمان حکمرانوں کی شیطانیت ختم نہیں
ہورہی ، میں سوچتا ہوں کہ معصوم بچوں،بچیوں کو فرشتے بھی نجانے کیسے لے کر
جا رہے ہوں گے ،معلوم نہیں کس ہمّت کا درجہ اﷲ نے اُن کو دیا ہوگا کہ وہ
ٹکڑوں کو دیکھ کر بھی روحوں کو کیسے لے جارہے ہوں گے ۔کہاں چلے گئے امّت کے
صلاح الدین اےّوبی ، محمد بن قاسم، ٹیپو سلطان ، یہ صدائیں بھی فرشتے سن
رہے ہوں گے ،لیکن جو اﷲ نے حکم دیا ہوگا بس وہی کررہے ہوں گے ۔
اے اﷲ!آہ! اﷲ! اﷲ۔۔۔۔۔تیرے سواکوئی نہیں اﷲ !اﷲ تُو ہی کچھ کردے،اﷲ!قیامت
برپا کیوں نہیں ہوجاتی اس قیامت کے بعد اب اور کیا رہ گیا؟یا اﷲ !ہم جانتے
ہیں کہ ہم گناہ گار ہیں ہماری دعاؤں میں اثر نہیں ،ہمیں مانگنا نہیں آتا
،یا اﷲ!پر تُو تو رحمن و رحیم ہے نا!تجھے تو دینا آتا ہے نا!یا اﷲ ! تُو جب
کافروں کی دُعا فوراً سن لیتا ہے کہ اُن کی آواز دوبارہ نہ سننی پڑے ،پھر
ہم تو نام کے ہی سہی ،ہیں تو تیرے نبی ﷺ کے امّتی ، یا اﷲ!ہم نے تیرے دین
کو بھلا دیا ہے ،یااﷲ ہم خطا کار ہیں لیکن پھر بھی یا اﷲ! تُو تو درگزر
کرنے والا ،معاف فرمانے والا ہے نا!یا اﷲ !آپ ہی نے ہمیں پہلے بھی نوازا
تھا اور آپ ہی ہمیں آگے نوازیں گے ،ہر حلا ل چیز سے ،ہر فتح و نصرت سے ،ہر
کامیابی سے ،یا اﷲ!تُو تو کھلی و چھپی ہر ہر چیز کو دیکھ رہا ہے نا ، پھر
یا اﷲ! کیوں تُو یہ سب ان دیکھا کررہا ہے ؟یا اﷲ !ہم جانتے ہیں کہ امّت
ٹوٹی ہوئی ہے لیکن یا اﷲ تیری امّت کے چند لوگ ہی اس کو جوڑنے کی کوشش
کررہے ہیں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو جہاد بھی کررہے ہیں انہی کی خاطر سہی اس
سب کو دیکھ لے ،یااﷲ ہمیں تو معاف فرما دے ،پیارے نبی ﷺ کی خاطر ،یا اﷲ !
تُو ہمیں معاف نہ بھی کرے ،تو ہماری کوئی حیثیت نہیں ،کیونکہ ہم سیاہ کار
ہیں ،لیکن تُو یا اﷲ کم از کم ان بچوں کی لاشوں کو ہی دیکھ لے ،نجانے تیرے
فرشتے کس حال میں ان کی روحیں لے جارہے ہوں گے ،یا اﷲ! اب بس،یا اﷲ!اب
دیکھا نہیں جاتا ۔۔۔کلیجہ منہ کو آرہا ہے ،یا اﷲ!اب اور نہیں ،یا اﷲ! اہم
جانتے ہیں کہ ہمیں ہی اپنی مدد آپ کرنی ہے لیکن یااﷲ! تھوڑے ہی سہی لیکن
تیرے چاہنے والے کوششیں تو کررہے ہیں نا! انہی کی کوششیں دیکھ لے ،انہی کے
طفیل ہماری سن لے ،یااﷲ!اگر یہ تیری آزمائش ہے تو ایسی آزمائش ۔۔۔ یا اﷲ
!تیرا شیوہ نہیں ،تُو تو ستّر ماؤں سے زیادہ محبت کرنے والا ہے اگر یہ تیرا
عذاب ہے تو یہ ہمارے ہی گناہ ہیں ،لیکن یا اﷲ!ان معصوموں کے تو کوئی گناہ
نہیں ،انہیں کے صدقے یا اﷲ ہمیں صبر عطا فرما۔ملک شام کی غیب سے معجزاتی
طور پر مدد فرما۔یہودیوں اور ان کے کئی چاہنے والوں کو اور اس کا ساتھ دینے
والوں کو توُ چن چن کو نیست و نابود اور تباہ و برباد فرما، ان پر کوئی
آسمان سے یا زمین سے ،یا پانی سے ،یا ہوا سے ،یا آگ سے ،یا مٹّی سے یا
انہیں کے ہتھیاروں سے مصیبت نازل فرما ،ان کوغرق کردے ان پر کوئی ایسی
بیماری ڈال دے جس کا کوئی علاج نہ ہو ۔یا اﷲ !اور جو لوگ دنیا کے کسی بھی
ملک میں کیوں نہ ہوں ان یہودیوں او ر ان کے پٹھوؤں کا ساتھ دینے والے ہیں
اگر ان کے نصیب میں ہدایت نہیں تو تُو ان کو غارت اور لعنت زدہ فرما ،یا
اﷲ! شام ،مصر ،فلسطین ،عراق ،کشمیر ،برما، بنگلہ دیش،چیچنیا اور جہاں کہیں
بھی مسلمانوں پر ظلم ہورہا ہے اس کو غیب سے ختم فرما اور اسلامی آزادی نصیب
فرما ۔میرے اُن مظلوم بہن بھائی ، ماں باپ اور بچوں کی حفاظت فرما جن کی
جانیں فرشتے لے گئے ان کے اہل خانہ کو (جو بچ گئے) ان کو صبر عطافرما ،ان
کی جانوں کے صدقے امّت کو ایک اور نیک بنا اور کفّار و منافقین کو نیست و
نابود اور تباہ وبرباد فرما،آمین یا ربّ العالمین۔ |