اسی ہفتے کی پہلی خبر…… امریکی ریاست کیلی
فورنیا میں ایک مسلمان نماز کی ادائیگی کے بعد مسجد سے باہر آ رہا ہے۔سامنے
پارکنگ میں بڑی تعداد میں گاڑیاں کھڑی ہیں۔اچانک ان گاڑیوں کی اوٹ سے دو
گورے مسٹنڈے یکلخت باہرنکلتے ہیں اور مسجد سے باہر آتے مسلمان پر پِل پڑتے
ہیں۔اسے لاتوں، مکوں اور گھونسوں کی بارش کر کے زمین پر گراتے ہیں۔پھر خوب
دل ٹھنڈا کر کے اور اسے ادھ موا حالت میں وہیں چھوڑ کر راہ فرار اختیار کر
لیتے ہیں۔اس سارے طویل عمل کے دوران میں آس پاس سے کوئی فرد مار کھاتے
مسلمان کو چھڑانے کیلئے آگے نہیں بڑھتا اور نہ ہی بعدمیں فرار ہوتے
بدمعاشوں کو پکڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ کافی دیر بعدبس اتنا رحم کھایا گیا کہ
بے سدھ ونیم بے ہوش مسلمان کو مقامی ہسپتال منتقل کر دیا گیا۔ بعد میں پتہ
چلا کہ حملہ آوروں میں سے ایک تو پکڑا گیا ہے جبکہ دوسرے کا کوئی پتہ نہیں
اور جو پکڑا گیا ہے اس نے یہ حرکت نشے کی حالت میں کی تھی (لہٰذا اب اس پر
کوئی فرد جرم لگ نہیں سکتی کیونکہ وہ تو ہوش میں ہی نہیں تھا) اس المناک
واقعہ کے بعد لاس اینجلس کی ایک مسلم تنظیم کے بیورو ڈائریکٹر حسن علوش نے
بتایا کہ واقعہ ریاست کیلی فورنیا کی پانچ مساجد کو مقامی لوگوں کی جانب سے
دھمکی آمیز خطوط ملنے کے بعد پیش آیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ حالیہ امریکی
صدارتی انتخابات میں اگلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت کے بعد ایک مسلم تنظیم
کیئر Care کو ایسے 150مسلم کُش واقعات کی اطلاعات موصول ہو چکی ہیں جن میں
مسلمانوں کے ساتھ اسی طرح کاسلوک کیاجا چکا ہے۔
دوسری خبر، برطانیہ کا دارالحکومت لندن اور اس کا ایک معروف تجارتی مرکز
ینگ فورڈ، ایک 20سالہ مسلم لڑکی سر پر سکارف پہنے پیدل چلتی جا رہی ہے،
اچانک پیچھے سے دو گورے بدمعاش دوڑتے ہوئے آتے ہیں، مسلم لڑکی کو پیچھے سے
دبوچ لیتے ہیں اورلڑکی کو زمین پر گرا کر اس کا حجاب وسکارف زبردستی کھینچ
اتار کر دور پھینک دیتے ہیں۔ لڑکی کی آہ و بکا اور چیخ پکار سن کر جب آس
پاس کے لوگ اس جانب متوجہ ہوتے ہیں تو وہ دونوں بدقماش گورے نو دو گیارہ ہو
چکے ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے جب مجرم ’’فرار ‘‘ہو چکا ہے تو اس کو کون اور کیسے
پکڑے؟
تیسری خبر، فرانس کے جنوبی علاقے کے قصبہ شیتوجیری میں نماز فجر کے بعد
اچانک مقامی مسجد پر حملہ کر دیا گیا ہے۔ حملہ آوروں نے مسجد میں گھس کر
پہلے قرآنی نسخے ایک جگہ اکٹھے کئے، ان پر پٹرول چھڑکا،آگ لگائی اور پھر یہ
آگ ساری مسجد میں پھیلا کر چل دیئے۔خبر باہر نکلی تو علاقے کے میئر تھیری
جیکولس نے واقعے کو ’’انتہائی سنگین‘‘ واردات قرار دے دیا، ’’شدید مذمت‘‘
کی اور کہا کہ ان کے ہاں ایسا واقعہ پہلی مرتبہ ہوا ہے اور ہماری جانب سے
تحقیقاتی کارروائی کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ یہ واقعہ اسی فرانس میں پیش آیا
ہے جہاں گزشتہ سال کے پیرس حملوں کے بعد ایک درجن سے زائد مساجد کو ’’دہشت
گردی‘‘ کے اڈے قرار دے کر بند کیا جا چکا ہے ۔وہی فرانس جہاں پہلے ہی مسلم
آبادی کے تناسب کے مقابل مساجد کی تعداد بہت کم ہے، جو مساجد موجود ہیں، ان
میں سے صرف چند ایک کو ہی کسی زمانے میں مسجد کی شکل دینے اور مینار بنانے
کی اجازت ملی تھی ،باقی مساجد گھروں کی شکل میں ہی ہیں۔
اب اس سلسلے کی آخری خبر جو اسی ہفتے کی ہی ہے ……عالمی سپرپاور امریکہ کے
محکمہ خارجہ المعروف سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ترجمان مارک ٹونر کا ایک بیان جاری
ہوا ہے۔ بیان میں پاکستان کے لتے لیتے ہوئے کہا جا رہا ہے کہ پاکستان
اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنائے اور ان کی حفاظت کرے۔ اس بیان کی وجہ یہ
بنی کہ وطن عزیز کے علاقے چناب نگر چنیوٹ میں مقامی شہریوں کی ملک دشمن
مجرمانہ حرکتوں پر ان کے خلاف انتظامیہ حرکت میں آئی۔ چھاپہ مارا گیا۔ چار
پاکستانی گرفتار ہوئے تو خبر واشنگٹن کچھ یوں پہنچائی گئی کہ یہ چھاپہ
اقلیتی قادیانی کمیونٹی پر ظلم ڈھاتے ہوئے مارا گیاہے۔اس شکایت پرامریکہ
پوری قوت کے ساتھ پاکستان کے کان کھینچنے کیلئے میدان میں آ گیا ہے۔جی ہاں!
اسی پاکستان کے کان کھینچنے جس نے اپنے علاقے قصور(کوٹ رادھا کشن )میں
جلائے جانے والے عیسائی جوڑے کے پانچ قاتلوں کو سزائے موت، کئی ایک کو عمر
قید کی سزا سنائی ہے۔اس مقدمے میں نامزد علاقے کے سو سے زائد افراد دو سال
تک جیل میں گلتے سڑتے رہے لیکن جب تک اصل مجرموں کو سزا نہیں ہوئی ،کسی کو
کسی طور رہائی نہ ملی۔ یہ اس پاکستان کی بات ہے جہاں اگر کسی غیر مسلم
اقلیتی شخص کو معمولی گزند پہنچے، حکومت پاکستان اس کے ازالے کیلئے اپنی
ساری مشینری حرکت میں لے آتی ہے کیونکہ وہ اقلیتوں کو عام شہریوں سے کہیں
زیادہ بڑھ کر اہمیت و تحفظ دیتی ہے۔اسی لئے تو ہر اصول بالائے طاق رکھ کر
صرف اقلیتوں دوہرے ووٹ کا حق دیا گیا ہے۔ ساری دنیا کی روایت و قانون سے ہٹ
کر پاکستانی اقلیتوں کیلئے تمام اسمبلیوں میں الگ سے مخصوص نشستیں رکھی گئی
ہیں۔ اسی پا کستان کا ایک باسی پروفیسر حافظ محمد سعید جو امریکہ و یورپ
اور بھارت کی آنکھوں میں دن رات کھٹکتا ہے، سندھ کے ہندو اکثریتی علاقے
تھرپارکر میں کھڑے ہو کر بیان دیتا ہے کہ وہ ہندوؤں کے جان و مال کا خود
تحفظ کریں گے اور ان کے مندروں کو کسی طور کسی کو گرانے بلکہ ہاتھ ھی لگانے
کی اجازت نہیں دیں گے۔حافظ محمد سعید ملک بھر سے وسائل جمع کرتے اور
تھرپارکر کے ہندوؤں کو پانی پلانے کے لئے بے شمار کنویں کھودتے ،ان کا علاج
معالجہ کرتے اور ان کے بچوں کی تعلیم تک کا انتظام و انصرام کرتے ہیں۔سیلاب
و زلزلے میں ہر مذہب کے ماننے والوں کی خدمت کرتے نظر آتے ہیں۔
اُدھر دنیا میں پرندوں اور جانوروں کے حقوق اور ان کی ہمدردی میں ہلکان
ہونے والی یہ یورپی اور امریکی اقوام آج کس اخلاقی دیوالیہ پن کا شکار ہیں،
اس کا اندازہ ہر روز وہاں سے آنے والی خبروں سے ہوتا ہے جن کی ایک معمولی
سی جھلک یہاں بھی پیش کی گئی ہے،لیکن انہیں کوئی پوچھنے والا نہیں کہ دنیا
کی بھینس کی لاٹھی ان کے پاس ہے۔ سندھ اسمبلی میں ایک اقلیتی رکن کی تحریک
پر خصوصی بل پاس کر دیا گیا کہ 18سال کی عمر تک کسی شخص کو مذہب تبدیل کرنے
کی اجازت نہیں ہو گی اور اگر کوئی اس کے بعد مذہب بدلنا چاہے تو اسے 21دن
تک حکومتی تحویل میں رکھ کر تمام مذاہب کا مطالعہ کرنے اور سمجھنے کا موقع
دیا جائے گا۔ پھر اس سے کہا جائے گا کہ اب وہ جس مذہب کو اپنے لئے پسند
کرتا ہے اسے اختیار سکتا ہے۔ پھر کہا گیا کہ کوئی شخص کسی کومذہب بدلنے یا
اپنے مذہب کی طرف آمادہ کرنے کے لئے قطعی دعوت نہیں دے سکتا۔ یہ سب اُس
اقلیتی رکن اسمبلی کی تحریک پر منظور کر لیا گیا جسے آئینی لحاظ سے بھی
ایسی قرارداد لانے یا پیش کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ جب اس پر ہر طرف سے لے
دے ہوئی تو کہا گیا کہ ہمارا مدعا یہ ہے کہ کسی کو جبراً مسلمان نہیں بنایا
جا سکتا۔نیت میں فتور رکھنے والوں کو ہمارا چیلنج ہے پاکستان کی 70سالہ
تاریخ سے آج تک کوئی ایک مثال پیش نہیں کی جا سکی کہ کبھی کسی نے کسی ہندو
یا کسی اور غیر مسلم کو جبراً مسلمان بنایا ہو۔ ایسا عمل تو اسلام میں قطعی
حرام ہے لیکن یہ کہاں کا انصاف ہے کہ کسی کو اسلام قبول کرنے سے جبراً روک
دیا جائے۔ اہل پاکستان نے تو دین حنیف کے ایک ایک حکم پر عمل کر کے دکھا
دیا ۔اقلیتوں کو ہر ممکن تحفظ بھی فراہم کر دیا۔اگر کبھی کسی جگہ کسی
اقلیتی گروہ کو کوئی نقصان پہنچا تو اس کا ہر طرح سے کئی گنا بہتر ازالہ
بھی کر کے دکھا دیا لیکن مہذب، قانون پسند، انسان دوست اور امن کے داعی
ہونے کے دعویدار یورپ و امریکہ اپنے گریبانوں میں کب جھانکیں گے؟ |