سیلاب کی تباہ کاریوں سے جہاں لوگوں کی
جانیں گئیں وہاں متاثرین کے گھر بھی گئے اور ساتھ ساتھ مال مویشیوں سے بھی
ہاتھ دھونا پڑا۔ یہاں ہر پاکستانی کا دل اپنے سیلاب متاثرین بہن بھائیوں کے
غم میں نڈھال تھا اور اسی غم اور احساس کے جذبوں نے پاکستانی قوم کو ایک
بار پھر ایک ہونے کا موقع فراہم کیا اور قوم نے بھرپور امداد کی اپنے
متاثرین بہن بھائیوں کیلئے مگر کچھ بے ضمیر لوگوں نے اپنی حرکتوں سے
متاثرینِ سیلاب کو نقصان پہنچانا شروع کردیا وہ اسطرح کہ جو امداد متاثرہ
جگہوں پر ٹرکس کے ذریعے پہنچائی جارہی تھی، وہ لوٹی جانے کا سلسلہ بھی جاری
ہے اور جسے ذرائع ابلاغ بے نقاب کرنے کی اپنی سعی کر رہے ہیں۔ مگر با حیثیت
پاکستانی ہمارا سر فخرسےبلند ہو یا ان بے ضمیر اور قومی غیرت اپنی نفسانی
خواہشات کے آگے بیچنے والوں کی حرکتوں کے سبسب شرم سے نیچے ہوں۔
یہ تو ایک پہلو تھا جسے قارئین کے سامنے رکھنا بہت ضروری تھا۔ رمضان کریم
کا عشرہِ مغفرت بھی اب ہم سے رخصت چاہتا ہے جبکہ ہم پتہ نہیں کیسے ڈھیٹ
ہوگئے ہیں کہ اپنے گناہوں کی مغفرت کیلئے اپنے رب کے حضور اُس طرح نہیں
توبہ کررہے ہیں جس طرح کے گناہوں کی وجہ سے ہمیں رب کی طرف سے وقت کے وقفے
وقفے سے ابتلہ دیا جارہا ہے مگر ہم اپنی مستی میں لگے ہوئے ہیں اور زلزلوں
کی تباہ کاریاں اور سیلاب سے متاثرہ ہزاروں خاندانوں کو بھول جاتے ہیں تو
بتائیں اور خود انصاف کریں کے جب تک اللہ سے صحیح طرح تو بہ نہیں ہوگی اس
وقت تک اللہ کا عذاب کم نہیں ہوگا۔
خدارا تمام لسانی، فرقہ وارانہ اور سیاسی مفادات سے بالا تر ہوکر اپنے
سیلاب زدگان کی مدد کیلئے آگے بڑھیں اور اس تکلیف و پریشانی کے عالم میں
انکا ساتھ دیں۔ اور اگر ہم نے اب بھی انتظار کیا تو ایسی آفت کا سامنا ہمیں
بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ معاشرے کے ہر فرد کو چاہئے کہ وہ اپنا احتساب کرے اور
جہاں تک ہو انفرادی اور اجتماعی توبہ استغفار کا اہتمام کریں۔ جہاں تک
ہوسکے صدقہ خیرات کو عام کریں اور حدیث کا مفہوم ہے کہ ہر اچھی بات صدقہ ہے
تو اچھی باتوں کو بھی آگے بڑھائیں یہ بھی اچھے عمال اللہ کے قہر اور
ناراضگی کو کم کرنے میں مدد کریگی۔
اللہ ہم سب کو اپنے حفظ و امان میں رکھے، آمین۔ |