کیا مردے قبر میں زندہ ہیں؟
(manhaj-as-salaf, Peshawar)
ڈاکٹر مرتضی بن بخش صاحب حفظہ اللہ کے
الفاظ کے ضمنا معنی ہیں. جو قول انہوں نے دو دو دفعہ بولا اسکو کئ دفعہ صرف
ایک دفع درج کیا گیا ہے
اکثر سوال کیا جاتا ہے کہ کیا مردے قبر میں زندہ ہیں؟ یاد رکھنے کی بات یہ
ہے مردے قبر میں زندہ ہیں یہ سوال عام طور پہ وہ لوگ کرتے ہیں جو مردوں کے
تعلق سے حد سے گزرجاتے ہیں.یہ غلط فہمی عام طور پر ان لوگوں کی جانب سے آتی
ہے جو بزرگوں کو پکارتے ہیں مرنے کے بعد. اور کہتے ہیں کہ بزرگ اپنی قبر
میں زندہ ہیں اور ہم زندوں کو پکارتے ہیں.اور زندوں کو پکارنا جائز ہے
شرعا، وسیلہ ہیں.
جب مردے کہا تو زندہ کیسے ہوۓ؟ پہلی بات تو یہ ہے، مردہ تو مردہ ہی ہوتا
ہے. ایک اعتبار سے مردہ ہے اور ایک اعتبار سے زندہ ہے. کس اعتبار سے مردہ
ہے کس اعتبار سے زندہ ہے. دنیا کے اعتبار سے وہ مردے ہیں. برزخ کے اعتبار
سے وہ زندہ ہیں. اور دنیا کی زندگی برزخ کی زندگی سے بالکل الگ ہے. ایک نئ
زندگی ہے برزخ کی جس کی ابتدا دنیا کی زندگی کے خاتمہ سے ہوتی ہے، موت سے
ہوتی ہے. جب تک کے دنیا کی زندگی ختم نہیں ہوتی برزخ کی زندگی شروع نہیں
ہوسکتی.
وہ الگ سی زندگی ہے. تو مردے مردے ہی ہیں، زندہ نہیں ہیں، دنیا کے اعتبار
سے. تو کیسے ممکن ہے کوئ شخص اپنے پیارے کو مرنے کے بعد اسے غسل دیتا ہے،
کفن پہناتا ہے، نماز جنازۃ بھی پڑھتا ہے اور دفن بھی کر دیتا ہے، مردہ تھا
یا زندہ تھا؟ کیسے ممکن ہے کہ کسی زندہ کو اس طریقہ سے غسل دے، کفن بھی
دے،نماز جنازۃ بھی پڑھے اور دفن بھی کر دے؟ اور اسکا کیا مطلب ہوا مرچکا ہے
مردہ ہے.
اور جو بھی اولیاء ہیں، صالحین حتی کے پیغمبر و رسول بھی وہ اسی طرح مرگۓ
ہیں، غسل دیا گیا، کفن دیا گیا، جنازۃ پڑھا گیا، دفن کیا گیا. دنیا سے چلے
گیے تو دنیا کے اعتبار سے مردہ ہیں، برزخ کے اعتبار سے زندہ ہیں.
پہلے یہ بنیادی بات سمجھ لیں. اب دلائل کی طرف آتے ہیں.
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
کل نفس ذائقة الموت
(ہر نفس کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے)
سورۃ الانبیاء: 21 آیت: 35 ہر نفس سے مراد ہر انسان، ہر جانور ہر زندہ چیز
دوسری جگہ پر اللہ نے فرمایا:
وَلَا تَقُولُوا لِمَن يُقْتَلُ فِي سَبِيلِ اللَّـهِ أَمْوَاتٌ ۚ بَلْ
أَحْيَاءٌ وَلَـٰكِن لَّا تَشْعُرُونَ
ترجمہ: اور اللہ تعالی کی راہ میں شہیدوں کو (قتل ہوجانے والوں کو) مردہ مت
کہو وہ زندہ ہیں، لیکن تم شعور نہیں رکھتے
(سورۃ بقرۃ آیت: 154)
اشکال اس آیت سے پیدا ہوتا ہے. اس آیت کے تعلق سے سیدنا ابن عباس کے خاص
شاگرد امام مجاہد فرماتے ہیں کہ شہدا برزخ میں زندہ ہیں، ان کو رزق دیا
جاتا ہے. جنت کے پھلوں میں سے وہ کھاتے ہیں. لیکن اس (جنت) میں نہیں ہیں
(تفسیر ابن جریر طبری)
حافظ ابن کثیررحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ شہدا کے لیے
ہے وہ برزخ میں زندہ ہیں اور پھر صحیح مسلم کی یہ حدیث بیان فرماتے ہیں کہ
شہدا کی روحیں سبز پرندوں کی پوٹوں میں ہیں جو جنت کے پھل کھاتے ہیں اور
عرش کے نیچے انکی قندیلیں ہیں
(ابن کثیر جلد 1، صفحہ 275 مترجم طبع مکتبہ اسلامیہ)
امام قرطبی رحمہ اللہ اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں اللہ تعالی شہدا کو
برزخ میں رزق عطا کرتا ہے اور اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ وہ (برزخ میں)
زندہ ہیں اور فرماتے ہیں اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ کافر بھی برزخ میں
زندہ ہے اور انکو عذاب دیا جاتا ہے اور اس سے عذاب قبر بھی ثابت ہوتا
ہے..الخ (گویا اس آیت سے مراد قبر یعنی برزخ کی زندگی ہے تو کیا انکو پکارا
جا سکتا ہے؟)
شیخ ڈاکٹرصالح فوزان حفظہ اللہ فرماتے ہیں ایک شخص نے کسی بزرگ سے کہا کے
وہابی یہ کہتے ہیں کہ مردے جب مر جاتے ہیں. تو پھر انکا کوئ فائدہ نہیں
ہوتا.
تو پھر اس شخص نے کہا ہم انکو پکارتے ہیں کیوں کہ وہ فائدہ دیتے ہیں وہ
زندہ ہیں. پھر اسنے کہا کہ اللہ تعالی فرماتے ہیں بل احیاء عند ربھم یرزقون
(سورۃ ال عمران) اس پر شیخ صاحب نے کہا کہ اللہ نے کیا فرمایا یرزقون
؟ (yarzuqoon) یا یرزقون (yurzuqoon)
کیا وہ (بزرگ) رزق دیتے ہیں یا انکو (بزرگوں کو) رزق دیا جاتا ہے؟ اسنے شیخ
صاحب کو جواب دیا: کہ اللہ تعالی نے فرمایا وہ رزق لینے والے ہیں. گویا
معلوم ہوا کہ ان آیات سے ثابت ہوا کہ مردے زندہ ہیں مگر برزخ میں. نہ ہی ان
آیات میں ایسی کوئ دلیل ہے کہ مردوں کو پکارا جاۓ. برزخ میں سب سے افضل
زندگی شہدا کی ہے اور ان سے افضل زندگی انبیاء کی ہے اور برزخ میں سب سے
افضل زندگی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے. |
|