گزشتہ دنوں ضلع بہاولنگر کی ایک تحصیل
چشتیاں میں دو بھائیوں کی شادی کی ایک تقریب ہوئی جس میں ایک اندازے کے
مطابق ایک ارب روپے خرچ کئے گئے۔ اس شادی میں روزانہ 3 کروڑ روپے کا کھانا
مہمانوں کو کھلایا جاتا رہا۔ بیرون ممالک سے سینکڑوں مہمانوں کو بلایا گیا
اور اُن کیلئے امپورٹڈ گاڑیاں بھی منگوائی گئیں۔ بارات ہیلی کاپٹر میں آئی
اور راستے میں پاکستانی روپوں کی بجائے ڈالر لٹائے گئے۔ اس شادی میں راحت
فتح علی خان، رانی، عطا اﷲ عیسیٰ خیلوی اور دوسرے کئی مہنگے ترین گلوکاروں
کو بلوایا گیا۔ شادی کی یہ تقریب تقریباً 9 دن جاری رہی اور سینکڑوں میل کے
راستے میں کئی دن تک لائٹنگ کی جاتی رہی اور زبردست آتش بازی کی جاتی رہی۔
اس شادی کا احوال سن کر پہلے تو یقین نہ آیا لیکن پھر ٹی وی چینلز پر اس کی
ویڈیو دیکھ کر حیرت کم اور دکھ زیادہ ہوا۔ وہ پاکستان جہاں ہزاروں لڑکیاں
چند لاکھ کا جہیز نہ ہونے کی وجہ سے بوڑھی ہوجاتی ہیں اور اُن کی شادی نہیں
ہوپاتی۔ اُس ملک میں جہاں لوگ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر خودکشی کرلیتے ہیں۔
اُس ملک میں جہاں لوگ گندے نالے میں اور کوڑے کے ڈھیر پر اپنا رزق تلاش
کرتے ہیں۔ اُس ملک میں ایک شادی پر چند دنوں میں کروڑوں روپے یوں ضائع
کردیئے جائیں اور کسی ارباب اختیار نے یہ ہمت نہیں کی کہ یہ پتہ لگائے کہ
اس شادی کے کرتا دھرتا کے ذرائع آمدنی کیا ہیں، وہ کتنا ٹیکس ادا کرتا ہے
اور کروڑوں روپے خرچ کرکے وہ کیا ثابت کرنا چاہتا ہے۔ یہ بات بھی پورے یقین
کے ساتھ کہی جاسکتی ہے کہ اگر کوئی غریب شخص اُس سے چند ہزار بھی مانگ لیتا
تو وہ اس کو ٹکا سا جواب دے دیتا اور اپنی ختم ہوتے ہوئے کاروبار کا رونا
روتا کیونکہ کسی کی مدد وہی کرتا ہے جس کے دل میں خدا ترسی ہو اور جس کے دل
میں خدا ترسی ہو وہ کبھی اس طرح کی عیاشی نہیں کرتا۔ یہ خبر دو تین دن تک
اور میڈیا میں آئے گی اور بس، یہ شادی ختم ہوگئی اور کروڑوں روپوں کی نمائش
بھی ختم ہوگئی۔جن بیٹوں کی شادی پر اُس نے کرڑوں روپے خرچ کئے ہیں پتہ نہیں
اُس کے مرنے کے بعد وہ لوگ اُس کیلئے کوئی دعا بھی کریں گے یا نہیں۔ لیکن
کاش وہ شخص یہ کروڑوں روپے عیاشی میں اُڑانے کی بجائے غریب اور سے بے سہارا
لڑکیوں کی شادی میں خرچ کرتا، اپنے علاقے کے یتیم بچوں کی کفالت کرتا، غریب
خاندانوں کو سہارا دیتا تو شاید میڈیا میں تو اُس کا نام نہ آتا لیکن خدا
کے پسندیدہ لوگوں میں اُس کا نام ضرور آجاتا اور یہ نام ایسا ہوتا جو کبھی
بھی ختم نہیں ہوتا۔ اُس کا یہ عمل مرنے کے بعد بھی اُس کے کام آتا اور
لوگوں کی دعائیں بھی مرنے کے بعد اُس کے لئے ذریعہ نجات بنتیں۔ |