2016 ختم ہونے کو ہے، بس چند روز بعد
خوشیوں کے جشن میں نئے سال کا سورج طلوع ہوگا۔ ہر گھر میں کلینڈر بدل جائیں
گے کہ وقت تبدیلی کا نام ہے، لیکن کیا ہمارے دیس میں وقت بدلا ہے؟ سال کے
اختتام پر یہ سوال میرے ذہن میں گردش کر رہا ہے اور اس کا جواب ’’نہیں‘‘ کے
سوا کچھ نہیں۔
سال کے مہینوں، دنوں اور لمحوں پر نظر دوڑائیں تو کہیں کوئی روشن لمحہ مشکل
ہی سے نظر آتا ہے، کسی بدلاؤ کی شکل دور دور تک دکھائی نہیں دیتی۔ یہ پورا
سال بس ایک تبدیلی کی کوشش اور خواہش کے گرد گھومتا رہا۔ یہ تھی حکومت کی
تبدیلی یا کم از کم وزیراعظم کو ہٹادینے کی کوشش اور خواہش۔ بات بس چہرہ
بدلنے کی تھی۔ سو اس تبدیلی کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے گئے، کس کس سے آس
نہیں لگائی گئی، کون کون سے کشٹ نہیں اٹھائے گئے۔ دوسری طرف اس تبدیلی کو
روکنے کے لیے جان لڑادی گئی اور کتنے ہی تلوروں کی جان گنوادی گئی۔ پورے
سال بس اسی تبدیلی کے لانے اور روکنے کے لیے ہنگامہ ہوتا رہا، سیاست کے
گلیاروں سے انصاف کے ایوانوں تک اور سڑکوں سے میڈیا تک یہ تبدیلی موضوع بحث
رہی۔ ایسے میں کون توجہ دیتا کہ ہماری زندگی کے تمام ہی شعبے مثبت تبدیلیوں
کے منتظر ہیں، پورے ادارے گل سڑ رہے ہیں، نظام کے نظام فرسودگی کا شکار
ہوکر تباہ ہونے کو ہیں۔
پورے سال ان تبدیلیوں کی بات کم ہی سننے میں آئی جو ہماری بنیادی ضرورت ہیں۔
آپ ہی بتائیے صحت کا شعبہ، تعلیم، انصاف، معیشت، زراعت، انفرااسٹرکچر، پانی،
بجلی، اور ٹرانسپورٹ جیسے شعبوں میں موجود خرابیاں دور کرنے اور ان شعبوں
میں تبدیلیاں لانے کے لیے کتنے دھرنے دیے گئے؟ مقصد کے لیے کتنے جلسے کیے
گئے، کتنے جلوس نکالے گئے، کس نے عدالتوں کا دروازہ کھٹکھٹایا، کس نے کوئی
کمیشن بنانے کی آواز اٹھائی، ان معاملات پر احتجاج اور جدوجہد کرنا تو دور
کی بات ان پر پوری سنجیدگی اور تواتر کے ساتھ بات کرنے کی زحمت بھی کسی نے
نہیں کی۔
سال کے اختتام پر اگر یہ تجزیہ کیا جائے، یہ سوال اٹھایا جائے کہ پاکستان
میں بنیادی ضرورتوں کے کسی شعبے میں کوئی مثبت تبدیلی آئی ہے؟ تو جواب نفی
میں ہوگا، البتہ زوال نے اپنی پوری کارکردگی دکھائی ہے۔ اس سال بھی پانی کی
قلت کا مسئلہ لوگوں کو رلاتا رہا، بجلی کے بحران نے زندگی اجیرن بنائے رکھی،
پبلک ٹرانسپورٹ کے مسائل اپنی جگہ رہے، تعلیم کے شعبے میں خرابیاں جوں کی
توں رہیں، سرکاری اسپتالوں میں حالات جیسے تھے ویسے ہی رہے، سرکاری اداروں
میں ناانصافیاں ہوتی رہیں، معیشت میں بہتری کے دعوے کیے جاتے رہے لیکن اس
بہتری کا ثمر عام آدمی تک نہیں پہنچا، اس ملک کا غریب منہگائی کے بوجھ تلے
تڑپتا رہا۔ کچھ نہیں بدلا بس سال بدل گیا۔
چلیے یہ سال تو گیا، لیکن کاش آنے والے برس میں ہم تبدیلی کا حقیقی مقصد
سمجھ لیں۔ ہمارے ہاں تبدیلی کے لیے صرف سیاست کا راستہ چنا جاتا ہے۔ کوئی
فوج سے ریٹائر ہو، عدلیہ کے کسی اعلیٰ منصب سے فارغ ہو، بیوروکریسی کی
ملازمت سے ناتا ٹوٹے، کسی کھلاڑی کا کھیل سے دامن چھوٹے، کسی کی دولت اسے
’’عوام کی خدمت‘‘ پر اکسائے یا کسی کی شہرت اور عزت ملک کے لیے کچھ کرنے کا
خیال دل میں لائے، سب کو صرف سیاست ہی کا راستہ دکھائی دیتا ہے اور کم ازکم
دعوے کی حد تک وہ سیاست میں آکر ملک میں تبدیلی لانے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ تبدیلی کے لیے کوشش اور جدوجہد سیاست اور اقتدار کی محتاج
نہیں۔ اس کی سب سے بڑی مثال عبدالستار ایدھی کی روشن شخصیت ہے، جنہوں نے تن
تنہا سماج کی خدمت کا سفر شروع کیا اور کسی حکومتی سہارے، سرکاری منصب اور
سیاسی قوت کے بغیر اپنا پاکیزہ سفر جاری رکھتے ہوئے ہمارے لیے خدمت خلق کا
اتنا بڑا نیٹ ورک چھوڑ گئے کہ یہ سوچ کر ہی دل کانپ اٹھتا ہے کہ اگر ہمارے
ملک میں ایدھی فاؤنڈیشن نہ ہوتی تو کیا ہوتا؟
عبدالستار ایدھی کی مثال یہ ثابت کرنے کے لیے کافی ہے کہ دل میں خدمت کا
جذبہ اور تبدیلی لانے کی خواہش ہو تو اسے عملی شکل دینے کے لیے ہزار راستے
نکل آتے ہیں۔ ہم میں سے ہر ایک کے دل میں حالات سے بے زاری اور تبدیلی کی
خواہش تو ہے مگر اس کے لیے کوئی اپنا چھوٹا سا حصہ دینے کو بھی تیار نہیں۔
آئیے، اس آنے والے سال کو تبدیلی کا سال بنانے کے لیے جدوجہد کریں، اس کے
لیے ہمیں کسی راہ نما کی طرف دیکھنے اور کسی کا انتظار کرنے کی ضرورت نہیں،
ہمیں اپنی طرف دیکھنا ہوگا، خود کو اپنا راہ نما بنانا ہوگا۔ نہ صرف ہم میں
سے ہر شخص اپنی ذمے داری پوری طرح ادا کرے بل کہ تبدیلی کے لیے مشترکہ اور
اجتماعی جدوجہد کا راستہ بھی اختیار کیا جائے۔ جیسے اپنے اپنے علاقے میں
صحت کے شعبے میں بہتری لانے کے لیے تنظیمیں بنائی جائیں، یہ تنظیمیں متعلقہ
علاقے میں موجود صحت کے سرکاری مراکز کی کارکردگی پر نظر رکھیں، ان کے ناقص
ہونے پر سوال اٹھائیں، حقائق سامنے لائیں، احتجاج کریں۔ اسی طرح تعلیم،
معیشت، انصاف، ٹرانسپورٹ اور دیگر شعبوں سے متعلق بھی تنظیمیں بناکر اور
جدوجہد کرکے ہم ان میں کچھ نہ کچھ مثبت تبدیلی ضرور لاسکتے ہیں۔ تو آئیے
عہد کرلیں کہ آنے والا سال تبدیلی کا سال ہوگا۔ |