منتظمین دینی مدارس کے نام کھلا خط

دینی مدارس کے لیے چند تجاویز، اگر ان پر عمل ہو جائے تو امید ہے ایک مثبت تبدیلی کا آغاز ہو جائے گا
یک بحث کافی عرصے سے چل رہی ہے کہ دینی مدارس کیا ہیں ان کی حیثیت کا تعین، ان کو امداد دینے والے کون ہیں؟ کیا ہیں؟ اور یہاں کیا سکھایا جاتا ہے؟کیا دینی تعلیم دی جاتی ہے؟ فرقہ واریت سکھائی جاتی ہے؟ جہاد کی تیاری کروائی جاتی ہے؟ یا یہ خودکش بمباروں کی فیکٹریاں ہیں؟

ایک بات تو ماننی ہی پڑے گی کہ خواہ کچھ ہوں مگر یہ مدارس این جی اوز کی حیثیت تو رکھتے ہی ہیں، اس سے انکار ممکن نہیں۔ بیشمار ایسے لوگ جن کے لیے اپنے بچوں کو پالنا اور انہیں تعلیم دلوانا مشکل ہوتا ہے ،وہ بچوں کو ان مدارس میں چھوڑ جاتے ہیں جہاں ان کو کھانا ، کپڑا اور تعلیم مفت ملتی ہے۔

مگر چند مستثنیات کو چھوڑ کر باقی سب مدارس میں تعلیم کا معیار یہ ہے کہ مولوی بنا دو، کسی نہ کسی مسجد کو پکڑ کر بیٹھ جائے گا۔ اس میں ناضرہ قرآن شریف پڑھا کر چند کورس کی کتابیں رٹوا کر، کچھ سورتیں حفظ کروا دی جاتی ہیں نماز وغیرہ کچھ موٹے موٹے مسائل رٹا دیے جاتے ہیں یوں مولوی تیار ہو جاتا ہے (عالم نہیں) جسے عام لوگ خصوصاََ گاؤں گوٹھ کے لوگ عالم ہی سمجھتے ہیں اور وہ بھی اپنا بھرم قائم رکھنے کے لیے جیسے سمجھ آتا ہے مسائل کا حل نکالتا رہتا ہے چاہے غلط ہو یا صحیح۔ اس کے علاوہ ایک اور بات جو ہم نے دیکھی ہے وہ یہ کہ جو شخص جس مدرسے سے پڑھ کر نکلتا ہے وہ اسلام سے زیادہ اس مدرسے کا ترجمان ہوتا ہے اس کے لیے اپنے مسلک کا دفاع پہلی ترجیح ہوتی ہے، معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ چاہے اس کا تعلق مدرسۃء دیوبند سے ہو، بریلی سے ہو اہل حدیث سے ہو غرض کسی بھی مدرسہء اہلسنت سے ہو یا اہل تشیع سے وہ جب بات کرے گا تو اسلام کی بات بعد میں ہو گی مدرسے کی اور مسلک کی پہلے ہو گی، اس کے اسلاف اساتذہ اگر کہیں غلطی کر گئے کچھ غلط لکھ گئے تو اب اس غلطی کو سدھارنا نہیں ہے، الٹی سیدھی تاویلوں سے کام چلانا ہے حالانکہ انہیں پتا بھی ہے کہ یہ غلط ہے مگر بس ان کا مؤقف ہوتا ہے کہ فلاں استاد نے لکھ دیا ہے وہ اتنے بڑے عالم تھے اب ہم اسے تبدیل نہیں کر سکتے۔

میرے بھائیو وہ کتنے ہی بڑے عالم سہی مگر ایک عام انسان تھے، وہ نبی نہیں تھے، معصوم نہیں تھے ان سے غلطی کا صدور ممکن تھا اوراس میں کوئی برائی نہیں کہ ان کی غلطی کو سدھار دیا جائے، یہ ایک مستحسن عمل ہو گا۔مگر اس سے بہتر ہے کہ ان جھگڑوں میں پڑنے کے بجائے اگر قرآن کو تعلیم کی بنیاد بنایا جائے تو اختلافات میں کمی واقع ہو سکتی ہے ہر وہ بات جو چاہے کسی بھی بزرگ نے لکھی ہو اگر وہ قرآن کے مطابق ہو تو قبول کر لیں ، اور اگر وہ قرآن سے ٹکرائے تو اسے دیوار پر مار دیں۔ ہمارے لیے حجت کتاب اللہ ہے جس کی حفاظت کا ذمہ اس کو نازل کرنے والے رب نے خود لیا ہے ۔ بہتر ہے کہ سب مدارس اس آیت پر عمل کریں کہ ترجمہ ’’ اے اہل کتاب ایسے کلمہ کی طرف آؤ جو ہم میں تم میں یکساں ہے، یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی کو اس کا شریک نہ کریں‘‘ کم از کم اس بات پر تو کوئی اختلاف نہیں ہو سکتا، نیز اچھے اخلاق کی تعلیم دیں نیکی کی تلقین کریں طلباء میں تقوی پیدا کریں، برائی کے بارے میں کسمجھائیں اس سے روکیں،ان کی کردار سازی پرمکمل توجہ دیں، ان تمام باتوں سے تو کسی کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا چاہے اس کا تعلق کسی بھی مدرسے سے ہو،اس لیے ان باتوں کی تعلیم دیں اختلافات کو بعد کے لیے اٹھا رکھیں جب تعلیم کا محور قرآن پاک ہو گا تو باقی باتیں بھی سمجھ میں آنے لگیں گی۔اس لیے بہتر ہے کہ بزرگوں کی کتابوں کو الگ رکھ کر قرآنی تعلیم کا اہتمام کریں تو امید ہے رفتہ رفتہ اختلافات بھی کم ہوتے چلے جائیں گے ان شاء اللہ تعالی۔

شنید ہے کہ کچھ مدارس میں عصری علوم کی تعلیم بھی شروع کر دی گئی ہے، اگر ایسا ہے تو یہ ایک بہت اچھا قدم ہے جس کی اشد ضرورت تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس پر کتنی توجہ دی جا رہی ہے؟ کیا وہ طالب کسی مسجد کا حجرہ پکڑ کر بیٹھنے کے بجائے کسی سرکاری یا نجی دفتر میں کام کر سکے گا؟ کیا وہ کسی انگریزی اسکول سے نکلے ہوئے طالب علم کا مقابلہ کر سکے گا؟(اور جیسا کہ کچھ مدارس میں ہوتا ہے کہ) کیا وہ جس سے چندہ منگوایا جاتا ہے اور جو دن رات دیکھتا ہے کہ مولوی صاحب یا ناظم مدرسہ اہل ثروت کے آگے بچھے جا رہے ہیں ان سے چندے نکلواتے ہیں مدرسے اور غریب طلبہ کے نام پرمگر اس کا بڑا حصہ خود ڈکار جاتے ہیں تو یہ باتیں اس کے ذہن پر کیسا اثر مرتب کریں گی؟ کیا وہ ایک نیک اور ایماندار شخص بنے گا یا ایک ایسا دھوکے باز بنے گا جو مذہب کے نام پر دھوکا دیتا ہے اور جس کی ظاہری صورت سے دھوکا کھانے والوں پر جب اس کی اصلیت کھلتی ہے تو وہ عالم طیش میں ایسے لوگوں سے بھی کھنچ جاتے ہیں ، نفرت کرنے لگتے ہیں جو واقعی نیک ہوتے ہیں اور کسی نیک مقصد کے لیے کام کرنے نکلے ہوتے ہیں۔

مدارس کی آمدنی کا بڑا ذریعہ ملکی یا غیر ملکی امداد ہوتی ہے یا جیسے کچھ مدارس میں ہوتا ہے کہ ان بچوں سے جو وہاں تعلیم حاصل کر رہے ہیں کہا جاتا ہے کہ چندہ مانگ کر لاؤ۔ بچے جاتے ہیں جگہ جگہ ہاتھ پھیلاتے ہیں کہیں پیسے ملتے ہیں کہیں جھڑکیاں ملتی ہیں نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان کی عزت نفس رفتہ رفتہ ختم ہو جاتی ہے اور جس ہاتھ کو کام کرنا چاہیے وہ پھیلنے کا عادی ہو جاتا ہے، اور جب ایک بارجھجک ختم ہو جائے تو ہاتھ میں کوئی وزن نہیں رہتا یہ کہیں بھی دراز ہو سکتا ہے، ورنہ یہی ہاتھ منوں وزنی ہوتا ہے، موت قبول کر لیتا ہے مگر کسی بھی حال میں نہیں پھیلتا ۔

اس سلسلے میں ایک تجویز یہ ہے کہ حکومت تمام فرقوں کے علماء کو بلا کر ان کے سامنے یہ تجویز رکھے کہ وہ قرآن کی تعلیمات کی روشنی میں ایک نصاب مرتب کریں، قرآن میں تو کسی کوکوئی اختلاف نہیں ہے نا۔ یہ نصاب جس میں قرآن کی تعلیم کے ساتھ ساتھ عصری علوم کی تعلیم بھی نصاب میں شامل ہو،عربی زبان لازم ہو تاکہ وہ قرآن کو سمجھ کر پڑھ سکے محض توتے کی طرح رٹے نہ لگائے ساتھ ہی انگریزی بھی ضرور سکھائی جائے کہ آگے اسے کوئی مشکل نہ پیش آئے۔ یہ نصاب تمام ا سکولوں اور مدارس کے لیے ہو۔ مدرسے سے نکل کر جب طالب اعلی تعلیم حاصل کرنا چاہے تو اس کی مرضی پر منحصر ہے چاہے وہ عالم یا مفتی بنے چاہے، یا کسی اور شعبے میں جانا چاہے ،اس کو کسی قسم کی کوئی رکاوٹ پیش نہ آئے۔کیونکہ اگر کسی کو کسی ایسے شعبے میں جانا ہو جس کے لیے عصری علوم کی تحصیل ضروری ہو تو اس کو اسی کے مطابق تیار کریں اور معیار ایسا رکھیں کہ آگے چل کر جب وہ کالج یا یونیورسٹی میں داخلہ لینا چاہے تو اسے کوئی مشکل پیش نہ آئے ۔ وہ احساس کمتری کا شکارنہ ہو بلکہ پورے اعتماد سے ہر قسم کا داخلہ ٹیسٹ پاس کر سکے۔

یہ جو آج کل کرپشن کا شور مچا ہوا ہے تو اس کا خاتمہ چند لوگوں کو سزا دینے سے نہیں ہو گاجیسا کہ کچھ لوگ شور مچا رہے ہیں ، نہیں ،اگر واقعی یہ کرنا ہے تو نئی نسل کے کردار کی تعمیر کریں اگر ایک نصاب والی تجویز پر عمل ہو جائے تو اس سے اچھی اور کوئی بات نہیں، دوسری صورت میں مدارس ازخود یہ بیڑا اٹھا لیں اور اپنے یہاں مسلک کی تعلیم کے بجائے ایسا نصاب رائج کریں، قرآن کی تعلیم دیں اور عربی زبان سکھانے کا خاص اہتمام کریں تاکہ طالب خود بھی قرآن کو سمجھ سکیں۔ اس کے علاوہ دیگر عصری علوم اور انگریزی کی تعلیم پر بھی بھرپور توجہ دیں جو طالب مدرسے سے نکلیں وہ نہ صرف یہ کہ کوئی باعزت پیشہ اختیار کرسکیں بلکہ ان کو ایسا تیار کریں کہ وہ کسی بھی انگریزی اسکول کے فارغ التحصیل طالب سے کم نہ ہوں۔

وہ مقابلے کے امتحان میں بھی بیٹھیں اور کامیاب ہو کر بیوروکریسی کا حصہ بنیں جو کرپشن کا گڑھ ہے مگر ان کی تربیت و تقوی نہ صرف ان کو کرپشن سے دور رکھے گابلکہ وہ دوسروں کے لیے بھی مثال بنیں گے۔ وہ پولیس میں بھی جائیں، پولیس اور کرپشن کا نام یوں جڑا ہوا ہے کہ الگ ہی نہیں ہو سکتا مگر یہ اعلی اخلاق کے لوگ جب اس شعبے میں آئیں گے تو یہاں بھی تطہیر کا عمل شروع ہو جائے گا ۔ ان کو فوج ، کسٹم اور دیگر سکیورٹی اداروں میں بھی جانا ہو گا، ان کو عدلیہ کا شعبہ بھی اختیار کرنا ہو گا اگر وہ وکیل بنیں تو ایسے وکیل ہوں جو صرف بیگناہوں کی مدد کرے، اگر جج ہوں تو انصاف سے کام لیں اور آخر میں یہ کہ ایسے نیک نفس لوگوں کو اپنے جیسے لوگوں پر مشتمل افراد کی پارٹی بنا کر ابتداء میں بلدیاتی ، پھر صوبائی سطح پر انتخابات لڑ کر ہر ہر جگہ کرپشن سے دور رہنے کی مثال پیش کر کے بالآخر قومی سطح پر پہنچنا ہو گا۔ اس عمل میں وقت ضرور لگے گا مگر پوری تندہی و جانفشانی سے کوشش کی جائے تو یہ ناممکن بھی نہیں، اور جب ایسا ہو گا تو پاکستان میں اصلی تبدیلی کا سورج طلوع ہو گا ان شاء اللہ۔

ہم منتظمین مدارس کے سامنے ایک اور تجویز بھی رکھنا چاہتے ہیں کہ ایک ایک مدرسے میں پڑھنے والے بچے درجنوں ہوتے ہیں جبکہ بڑے مدارس میں تو یہ تعداد سیکڑوں میں ہوتی ہے، تو کیوں نہ ایک پروگرام ترتیب دے دیا جائے۔ بچے فجر میں بیدار ہوتے ہیں نماز کے بعد پڑھتے ہیں پھر کچھ آرام کے بعد پھر پڑھائی میں لگ جاتے ہیں یونہی نمازوں کے وقفوں میں کبھی پڑھتے ہیں کبھی آرام کرتے ہیں ،بعض مدارس میں چادریں اور ڈبے لے کر چندہ جمع کرنے کی ڈیوٹی پر نکلتے ہیں تو کبھی کھانا مانگنے جاتے ہیں، عشاء کے بعد اکثر سو جاتے ہیں ۔ اگران کو دن کے پانچ چھ گھنٹے( چاہے ایک ساتھ یا دو وقفوں میں ) دے دیے جائیں جس دوران ان کو پڑھائی سے ہٹ کر کوئی کام سکھایا جائے ،کوئی ہنر جو آئندہ زندگی میں ان کے کام آئے ، وہ بڑھئی ، الیکٹریشن ، ویلڈر، ڈینٹنگ و پینٹنگ ، مکینک ،پلمبر، ٹی وی و فریج مکینک، ہیلتھ کیئر، کمپیوٹر آپریٹنگ غرض کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، وہ ہنر سیکھنے کے دوران جو پیسہ کمائیں اس سے مدرسہ کچھ پرسنٹیج خود رکھ لے اور باقی ان بچوں میں بانٹ دے تو اس سے جہاں مدرسے کے لیے چندے کی ضرورت کم یا ختم ہو جائے گی وہیں ان بچوں کی عزت نفس اور خودداری زندہ رہے گی، وہ مانگنے کے بجائے کچھ کر کے پیسے حاصل کرنا سیکھیں گے اور جب مدرسے سے نکلیں گے تو کہیں بھی کوئی اچھا سا کام کر کے روزی کما سکیں گے ، چونکہ انہوں نے دینی تعلیم بھی ساتھ ہی ساتھ حاصل کی ہے تو وہ کردار کے لحاظ سے بھی مثالی ہونگے جب ایسے اچھے محنتی اور نیک لوگ معاشرے میں شامل ہوتے رہیں گے تو مستقبل قریب میں نہ سہی مگر آئندہ پچیس تیس سال میں یقیناََ تبدیلی آ جائے گی ان شاء اللہ۔

یہاں یقیناََ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب کیسے ہو گا؟ تو جہاں اہل ثروت اتنا چندہ دیتے ہیں وہاں اس کام میں بھی ہاتھ بٹا سکتے ہیں۔ منتظمین مدارس مخیر حضرات سے درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ ایسی انسٹیتیوٹ قائم کرنے میں مدد کریں جہاں بچے نہ صرف کام سیکھیں بلکہ کام کر کے کمانا بھی شروع کر دیں۔ جو بچے ان کاموں میں دلچسپی نہیں رکھتے ان کے لیے انہی مخیر حضرات کی مدد سے بڑے یوٹیلٹی اسٹورز کھولے جا سکتے ہیں جہاں منافع کی شرح بہت مناسب ہو چیزوں کا معیار بہترین ہو اور ہر طرح ایمانداری سے کام کیا جائے دیگر اسٹورز کی طرح ناجائز منافع خوری نہ کی جائے، وہاں مدرسے کے طلباء کو کام دیا جائے اس کے لیے شفٹیں بنا دی جائیں تاکہ ان کی تعلیم کا حرج بھی نہ ہو سب باری باری پارٹ ٹائم کام کریں ان کی مناسب تنخواہ مقرر کر دی جائے۔ ذرا سوچیے ایسا اسٹور جس میں مناسب قیمت پر معیاری اشیاء دستیاب ہوں عملہ با ادب اور با اخلاق ہو، خرچہ کم ہو تو وہ کتنا زبردست چلے گا اور کم منافع کے باوجود اس کی آمدنی کہاں پہنچ جائے گی؟۔

اللہ ان پھولوں کو ضائع نہ کریں ان کو بھکاری یا ٹھگ نہ بنائیں ،ان کو معاشرے میں باعزت مقام دلائیں ایک اچھا اور مثالی معاشرہ بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔ ان پر دنیاوی تعلیم کے دروازے بند نہ کریں ، اگر ہر مدرسہ اس پر عمل کرے تو مثبت تبدیلی جلد آ سکتی ہے، جب کوئی سائنسدان انجنیئر ڈاکٹر کمپیوٹر پروگرامر غرض کسی بھی شعبے میں جائے گا تو اپنے ساتھ مدرسے کی دینی تربیت بھی لے جائے گااور دوسروں کے لیے ایک مثال بنے گا۔ یعنی یہ بچے جو مدارس سے نکلیں گے وہ بوجھ نہ بنیں گے مثال بنیں گے، ایک نئے اور اچھے معاشرے کی بنیاد رکھیں گے ۔کرپشن کا خاتمہ اسی طرح ممکن ہے ،یہ اچھے نیک اور ایماندار لوگ سسٹم میں شامل ہوتے رہیں گے جو اللہ سے ڈرنے والے ہوں گے حرام کو حرام سمجھیں گے تب ہی تبدیلی آئے گی-
Tughral Farghan
About the Author: Tughral Farghan Read More Articles by Tughral Farghan: 13 Articles with 12875 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.