رشوت ستانی معاشرے کا ناسور
(Peer Muhammad Tabasum Bashir Owaisi, Narowal)
اﷲ تعالیٰ نے انسانی زندگی کو پاکیزہ رکھنے کے لئے
حلال و طیب رزق کے کھانے کا حکم فرمایا ہے اور حرام کو منع فرمایا دیا ۔کیونکہ
حلال میں برکت ہے اور حرام میں بے برکتی و نحوست۔
حلال میں کاروبار، ملازمت وتجارت سے حاصل کیا گیا مال شامل ہے جبکہ حرام
میں سود، دھوکہ دہی کا مال اور رشوت وغیرہ ۔
رشوت انسانی سوسائٹی کے لئے ایسا ناسور اور مہلک مرض ہے جو کینسرسے بھی
زیادہ خطر ناک ہے ۔جو شخص اس کا شکار ہوتا ہے اس کو لقمہ جہنم بنا دیتی ہے۔
جب کہ کینسر کا مرض ایسا نہیں ،جب کسی معاشرہ میں رشوت کی بیماری عام ہوتی
ہے تو وہ پہلی فرصت میں عدل و انصاف کا گلاگھونٹ کر حق کا خون کر دیتی
ہے۔جس کے نتیجے میں وہ معاشرہ جو امن و سکون کا گہوارہ تھا ،اختلاف و
افتراق اور انتشار و خلفشار کا شکار ہو جاتا ہے ۔ افراد میں اخوت و محبت ،
ہمدردی و بھائی چارگی کے رشتے ٹوٹ جاتے ہیں ۔بغض و عناد، نفرت ،عداوت و
شقاوت کا شعلہ بھڑک اُٹھتا ہے ۔ہر شخص ایک دوسرے کے خون کا پیاسا ہو جاتا
ہے ، رشوت وخیانت سے امن و شانتی ،صلح و آشتی کا خرمن جل کر پیوند خاک ہو
جاتا ہے ۔معاملات میں دھوکہ دہی ،جھوٹی گواہی، ظلم و تشدد کی وجہ سے جب ایک
دوسرے کی حق تلفی ہوتی ہے تو سماج کا ہر فرد و بشر ایک دوسرے پر جبر و
استبداد کو اپنا شعار بنالیتا ہے ۔
حضرت ابو بکر صدیق رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:’’جب لوگ
برائی دیکھیں اور اسے نہ مٹائیں تو ممکن ہے کہ اﷲ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب
کی لپیٹ میں لے لے ۔‘‘(مسند احمد)
رشوت کے اخلاقی نقصانات: اس کے اخلاقی و دینی نقصانات مختصراً ذکر کرنے کی
کوشش کرتے ہیں ۔ویسے تو رشوت کے بے شمار اخلاقی نقصانات ہیں ۔ان میں سب سے
زیادہ مہلک اور خطر ناک یہ ہے کہ اس کا اخلاق کے بگاڑنے اور سماج کی وہ
زبان جس سے ’’قال ﷲ وقال الرسول ﷺ ‘‘ کی دلنواز صدائیں بلند ہوتی تھیں اس
سے رذیل اور دلسوزباتوں کا غلغلا بلند ہونے لگتا ہے ،یہی وجہ ہے کہ رشوت
خور وزرا ،حکام قضاۃ اور دیگر سرکاری ملازمین وغیرہ کے اخلاق خراب ہوجاتے
ہیں ۔ ان کے اندر اچھے ،برے کی تمیز ختم ہونے لگتی ہے ،وہ اپنی خواہشات
نفسانی کے پجاری بن جاتے ہیں ۔ اس سے حق و باطل ، حلال و حرام ،جائز و
ناجائز کی تمیز مٹنے لگتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ رشوت ستانی ان کی فطرت
کاحصہ بن جاتی ہے ۔ رشوت دیکر کام نکالنے کی کیا ایسی صورت میں اجازت ہو گی
؟ہر گز نہیں ۔ہر گز نہیں ۔آئیے ان تمام باتوں سے پہلے رشوت کا معنی ومفہوم
پر غور کرتے ہیں۔
رشوت رشا سے ہے اور رشا:یعنی ڈول کی رسی بقول بعض ’’رشا‘‘ رسی کو بھی کہتے
ہیں ۔چنا نچہ کہتے ہیں :ارشت الدلو ۔ ’’ڈول میں رسی لگایا ‘‘
چنا نچہ رشو ت ڈول کی رسی کی طر ح ہو تی ہے ۔ جوراشی اور مرتشی کے مابین
ایک جو ڑ کاکام دیتی ہے ۔ جیسے رسی اور ڈول جوڑ کاکام دیتے ہیں ۔
اصطلاحی تعریف : رشوت وہ ہے جو حق کو باطل اور باطل کو حق۔ یعنی سچ کو جھوٹ
ثابت کرنے کے لئے مال دیا جائے ۔
جب کہ ابن عابد ین کا کہنا ہے کہ:’’رشوت وہ چیز ہے جو آدمی کسی حاکم یا غیر
حاکم کو اس مقصد کے تحت دیتا ہے کہ فیصلہ اس کے حق میں ہو یا اسکے من پسند
منصب پراسے فائز کیا جائے۔‘‘
ان دونوں میں سے ابن عابدین کی تعریف زیادہ جامع معلوم ہوتی ہے ،کیونکہ
پہلی تعریف رشوت کی تمام اقسام کو اپنے اندر نہیں سمیٹ سکتی ۔
رشوت کا دوسرے جرائم سے موازنہ:ہر اس چیز کے لئے رقم خرچ کرنا جو مخالف
شریعت ہو ،ایک بد ترین فعل ہے ۔کیونکہ یہ روپیہ ایسی راہ میں صرف کیا جا
رہا ہے جس کی طرف رخ کرنے سے بھی اﷲ اور اس کے رسول ﷺ نے منع فرمایا ۔در
اصل یہی وہ رشوت ہے جس کی وجہ سے اﷲ کے وضع کردہ قانون کی پامالی ہوتی ہے ۔حق
کی فضا زہر آلود ہو ہو کر باطل کو فروغ ملتا ہے اور اس کے مرتکب کا ایمان
متزلزل ہو جاتا ہے ۔اس پر شیطان لعین اپنا تسلط جمالیتا ہے ،اس کو ہمیشہ
ظلم و طغیان اور برے کاموں پر ابھارتا ہے اور گناہوں کا ارتکاب کرواتا ہے ،جسکی
وجہ سے وہ دھیرے دھیرے دین الہٰی سے بیزار اور جھوٹی زندگی کی رعنائیوں
اورر نگ رلیوں میں غرق ہو کر کفر کے قریب ہو جاتا ہے ۔
رشوت قرآن و حدیث کے آئینے میں:بے شک رشوت حرام ہے ۔جج ہو یا قاضی ،وزیر ہو
یا گورنر، حاکم ہو یا ملازم ،پولیس ہو یا ڈی ایم، سیکرٹری ہو یا رئیس
الجامعہ ، غرض کہ اعلیٰ سے ادنیٰ تک تمام محکموں یعنی ڈیپارٹمنٹ کے ہر صاحب
منصب پر اپنے فرض منصبی کی ادائیگی ،بغیر کسی دُنیاوی غرض و غایت اور مقصد
و منفعت کے (خواہ وہ جانی ہو یا مالی) واجب ہے ۔رشوت ستانی کی حرمت کے
سلسلے میں علماء کرام اور محدثین عظام کی دورائے نہیں ہیں ۔جس طرح اﷲ نے
رشوت قبول کرنے کو حرام قرار دیا ہے ،اسی طرح رشوت دینے اور واسطہ بننے کو
بھی حرام قرار دیا ہے ۔البتہ رشوت دینے کی بعض صورتیں ایسی ہیں جن کو کچھ
علماء کرام نے جائز قرار دیا ہے ۔جس کو بیان کرنے سے قبل رشوت کی حرمت کے
دلائل کتاب وسنت اور اجماع اُمت سے صفحہ قرطاس کے سپرد کردینا مناسب سمجھتا
ہوں ۔
قرآن مجید سے دلائل:ارشاد ربانی ہے :’’اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق
نہ کھاؤاور نہ حاکموں کے پاس ان کا مقدمہ اس لئے پہنچاؤ کہ لوگوں کا کچھ
مال ناجائز طور پر کھا لو جان بوجھ کر ۔‘‘(پارہ 2،سورۃ بقرہ آیت نمبر188)
اس آیت کریمہ میں باطل طریقہ سے لوگوں کے مال کھانے کی صورت ایک انتہائی بد
ترین صورت ہے جس کے ذریعہ حکام اور کار پرداز اشخاص کو عدل و انصاف کی ڈگر
سے منحرف کردیا جاتا ہے اور صاحب حق کے خلاف راشی کے حسب منشا فیصلہ کیا
جاتا ہے یا کم از کم جس کاکام بعد میں ہونا چاہیے اس کا پہلے اور جس کا
پہلے ہونا چاہیے اس کا بعد میں کیا جاتا ہے ۔اسی بنیاد پر اﷲ تعالیٰ نے سرے
سے اسکی جڑکاٹ ڈالی ہمیشہ کے لئے اس پر قد غن لگا دی ۔ اس حرام خوری اور
رشورت ستانی کی بنیاد پر اﷲ تعالیٰ نے یہودیوں کی مذمت فرمائی اور اسی سبب
سے بڑا مجرم قرار دیا ۔ارشاد ربانی ہے : ’’(اے پیغمبر)یہ لوگ جھوٹ سننے
والے اور حرام مال (رشوت )کھانے والے ہیں ۔‘‘
نیز دوسری جگہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایا:’’اور ان میں تم بہتوں کو دیکھو گے کہ
گناہ اور زیادتی اور حرام خوری پر دوڑتے ہیں،بے شک بہت برے کام کرتے ہیں۔‘‘(پارہ6،المائدہ
آیت نمبر62)
کیونکہ وہ علماء اور مشائخ انہیں گناہ پر زبان کھولنے اور مال حرام کھانے
سے نہیں روکتے ہیں بہت ہی برا کارنامہ ٔ زندگی ہے جو کر رہے ہیں۔
احادیث سے دلائل:بیشتر احادیث مبارکہ میں رشوت خور حکام پر لعنت کی گئی ہے
اور انکی مذمت بیان کی گئی ہے ۔نیز اسکے بھیانک نتائج سے لوگوں کو متنبہ
کیا گیا ہے ۔
حضرت اُم سلمہ رضی اﷲ عنہافرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا:’’میں بہر حال
ایک آدمی ہی تو ہوں ،ہو سکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لاؤ اور تم میں
سے ایک کاذب فریق دوسرے کی بہ نسبت زیادہ شیریں کلام اور چرب زبان ہو اور
اس کے دلائل سن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں مگر یہ سمجھ لو کہ اگر اس
طرح اپنے کسی بھائی کے حق میں کوئی چیز نے تم میرے فیصلہ کے ذریعہ سے حاصل
کی تو دراصل تم دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کرو گے ۔‘‘ (متفق علیہ)
امام ترمذی ،احمد اور ابن حبان نے حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ اور امام ابو
داؤد نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ سے نقل کیا ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا:’’فیصلہ
کرنے کے سلسلے میں رشوت لینے اور دینے والے پر اﷲ نے لعنت فرمائی ۔‘‘
مذکورہ بالااحادیث رشوت کی حرمت پہ صریحاً دال ہیں ۔ کیونکہ لعنت یعنی اﷲ
کی رحمت سے دوری کسی عظیم گناہ کی بنیاد پر ہو تی ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ
رشوت کبیرہ گناہ ہے اس کے مرتکب کو جہنم کی وعید سنائی گئی ہے ۔
اجماع صحابہ سے دلیل:صحابہ کرام ،تابعین عظام اور تبع تابعین کا اس بات پر
اتفاق ہے کہ رشوت لینا دینا اور اسکے درمیان تگ و دو کرنا سب حرام ہے
،البتہ اختلاف ان امور میں ہے جس میں مجبوری کے تحت رشوت کی ضرورت لاحق
ہوتی ہے ۔اس سلسلے میں علماء کی دو رائے ہیں ۔
حق حاصل کرنے یا ضرر کو دفع کرنے کے لئے رشوت دینا جائز ہے بشرطیکہ انسان
اپنا حق حاصل کرنے یا ظلم و ضرر کو دفع کرنے سے قطعی طور پر عاجز ہو اور حق
کے ضائع ہونے کا ڈر لاحق ہو۔
نیز اسے اپنے حق کی تحصیل میں کسی قسم کی تائید اور نصرت و حمایت حاصل نہ
ہو ۔یعنی اس کی حمایت میں کوئی ایسا شخص نہ ہو جو اس پر ڈھائے جانے والے
مظالم کے خلاف اسے انصاف دلا سکے ۔اب اگر وہ رشوت دیتا ہے تو اس کا حق اس
کو دستیاب ہوتا ہے ورنہ نہیں ،تو ایسی صورت میں بہتر تو یہ ہے کہ وہ صبر و
تحمل سے کام لے ،ممکن ہے اﷲ اس کے لئے کوئی سبیل نکا ل دے ۔اگر صبر و تحمل
کا پیمانہ چھلک جائے تو رشوت دینا جائز ہو گا۔ ایسے وقت کے بارے میں اﷲ
تعالیٰ کے پیارے رسول ﷺ نے سخت وعید سنائی ہے ،چنانچہ ارشاد فرمایا:الراشی
والمرتشی کلاھما فی النار۔ ’’رشوت لینے والا اور دینے والا دونوں دوزخ میں
ہیں ۔‘‘مگرجو مال اﷲ تعالیٰ کے حرام کردہ راستوں میں صرف اور خرچ کیا جائے
۔بسا اوقات اسکے نتائج اتنے مہلک اور جان لیوا ہوتے ہیں کہ جن کا تصور کرنا
مشکل ہے ۔ کیونکہ رشوت کے ذریعہ عدل و انصاف کا جنازہ نکالا جاتا ہے اور بے
انصافی و بے مروتی اور بے ایمانی کو فروغ دیا جاتا ہے ۔
لیکن جواز کی صورت ایسے ہی ہے کہ :عبد الرزاق نے حضرت جابر بن زید اور شعبی
سے نقل کیا ہے ،وہ دونوں کہتے ہیں کہ کوئی شخص اپنی جان یا مال پر ظلم و
زیادتی کے ازالہ کے لئے رشوت دے تو اس کے اندر کوئی مضائقہ نہیں ہے ۔حضرت
عطا اور ابراہیم نخعی سے بھی یہی منقول ہے ۔
رشوت کی مختلف قسمیں ہیں مثلاً حق کو باطل کرنے یا باطل کو حق ثابت کرنے کے
لئے رشوت کا لین دین۔کسی کے حق کو حاصل کرنے کے لئے رشوت دینا۔ظلم و جبر کو
دفع کرنے کے لئے رشوت دینا۔کسی منصب پر فائز ہونے کے لئے رشوت دینا وغیرہ
رشوت اس صورت حال کے مطابق مختلف شکل و صورت میں نمودار ہوتی ہے ۔ کبھی نقد
رقم کی صورت میں ، کبھی سفارش اور ہدیہ و تحفہ کی شکل میں ، کبھی کسی کو
منصب وملازمت دیکر، کبھی جنسی لذت حاصل کر کے اور کبھی دعوتوں کے ذریعہ۔
علماء کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ہدیہ کا لین ایک مستحب امر ہے ۔تو پھر
یہاں ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ ہدیہ کب رشوت ہوتا ہے :ہدیہ کا لین دین اس
شخص کے لئے جائز ہوگا جو مسلمانوں کے کسی کام کا نگران و ذمہ دار نہ رہا ہو
۔وہ شخص جو کسی ایسے منصب پر فائز ہے کہ اگر وہ اس پر نہ ہوتو اس کو ہدیہ
نہ ملے تو ایسی صور ت میں اس کا ہدیہ قبول کرنا رشوت لینے کے مترادف ہوگا
اور یہ حرام ہے ۔
جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:’’کہ امام کو تحفہ خیانت ہے۔‘‘ نیزمحدثین نے
کہا گورنروں کو تحفہ دینا رشوت ہے ۔ایسے ہی قاضی کو ہدیہ دینا سخت قبیح فعل
اور حرام عمل ہے ۔وہ اس کا مالک بھی نہ ہوگا۔خلاصۂ کلام یہ ہے کہ اسلام میں
رشوت کا لینا دینا قطعاً ناجائز ہے ۔
|
|