مولانا آزاد کا تصور تعلیم

مولانا آزاد جیسی کثیرالجہت شخصیت کے تصورات تعلیم کا جائزہ علاحدہ طور پر اس وجہ سے مشکل ہے کہ اسے انھوں نے انفرادی حیثیت میں بہت زیادہ گفتگو کا موضوع نہیں بنایا۔ دنیا کو کس ڈگر پرجانا ہے، مستقبل میں ہندستانی نوجوانوں کا رول کیا ہونا چاہیے، ہندستانی مسلمان اپنے مسائل کیسے حل کریں اور آنے والے دنوں میں ہمارا ملک کس سمت بڑھے گا، یہ اور ان جیسے امور پر مولانا نے اپنے افکار و نظریات پیش کرتے ہوئے بعض ایسی باتیں کہی ہیں جن سے ہم تعلیم و تعلم کے شعبے میں ان کی تجاویز سے رہنمائی حاصل کرسکتے ہیں۔
یہاں ابتدا ہی میں یہ بات صاف ہوجانی چاہیے کہ لغوی معنوں میں مولانا کوئی ماہر تعلیم نہیں تھے اور نہ اس موضوع پر، دیگر ماہرین کی طرح، انھوں نے کوئی مبسوط نظریہ پیش کیا ہے۔ تعلیمات کے تعلق سے دنیا جہان میں اس زمانے میں جو تجربات ہورہے تھے، غالباً! ان سے مولانا آزاد پورے طور پر آگاہ بھی نہیں تھے۔ لیکن اس کے باوجود، ابتدائی دور میں کلکتےّ اور رانچی کے قیام سے لے کر وزارتِ تعلیم کے فرائضِ منصبی کی انجام دہی تک، مولانا نے تعلیم کے زمرے میں خصوصی توجہ دینے کی کوشش کی اور بغور دیکھا جائے تو پتا چلے گا کہ یہاں وہ لکیر کے فقیر بننے پر اکتفا کرنے کے بجاے عصری تقاضوں اور مستقبل کے حساب سے انقلاب آفرین تبدیلیوں کی وکالت کرتے نظر آتے ہیں۔ اس لیے مولانا آزاد کے تعلیمی تصورات کی ترتیب میں ان کی ادبی، سیاسی اور مذہبی تحریروں اور تقاریر و خطبات سے استفادہ ضروری ہے۔ مولانا کے خود کی تعلیم حاصل کرنے کے زمانے سے لے کر ایوانِ سیاست میں داخل ہونے تک ابتدائی زندگی کی مختلف شقوں پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے کیوں کہ یہ دور آزاد کی شخصیت کی تشکیل سے متعلق ہے۔ جنگِ آزادی کے دوران گاندھی جی کے ساتھ تعمیری پروگراموں کے عمل در آمد کے مرحلے میں بھی تعلیم کے جو مسائل زیر بحث آتے ہوں گے، ان کے مطالعے سے بھی مولانا کا تعلیمی تصور اور مزاج سمجھ میں آسکے گا۔ اسی زمانے میں، آزاد ہندستان کے اولین وزیر تعلیم کے طور پر جب انھوں نے ہندستان کی تعلیمی پالیسیاں بنائیں، ان کا جائزہ بھی ضرور لیا جانا چاہیے۔ اس کے بعد ہی مولانا آزاد کے تصوّرِ تعلیم کا خاکا مرتّب ہوسکے گا اور پتا چل سکے گا کہ مولانا کے تعلیمی افکار و نظریات کے سہارے ہندستان کتنی دور تک، اور کتنی دیر تک چل سکتا ہے؟
ذہنی نشوونما
مولاناآزاد کی پیدایش مکہّ مکرمہ میں ہوئی اور وہیں ۱۸۹۳ء میں (۱)۔ جب وہ پانچ برس کے رہے ہوں گے، ان کی ابتدائی تعلیم و تربیت کا آغاز روایتی اور مذہبی طریقے سے ہوا۔ بسم اﷲ کی رسمِ مخصوص شیخ الحرم حضرت شیخ عبد اﷲ مرداد نے ادا کرائی (۲)۔ درسِ نظامی کے مطابق مولانا خیر الدین (ابوالکلام آزاد کے والد مکرم اور ممتاز عالمِ دین) نے آزاد کو تعلیم دی۔ مولانا خیر الدین نے درس نظامی سے علاحدہ کے مضامین بھی اپنے بیٹے کی دل چسپی کو دیکھتے ہوئے پڑھائے اور کوشش کی کہ آزاد کا تعلیمی معیار بلند تر رہے۔ مولانا خیرالدین ۱۸۹۸ء میں بال بچوں کے ساتھ اپنے علاج کی غرض سے ایک مختصر وقفے کے لیے ہندستان(کلکتہ) آئے۔ اّتفاق سے، بیماری کے طول کھنچنے، اہلیہ کی بے وقت موت اور ایک دولت مند شاگرد حاجی عبدالوحید کی پیہم گزارشات کے پیش نظر انھوں نے کلکتے میں ہی مستقل سکونت اختیار کرنے اور تعلیم و تعلّم کا سلسلہ جاری رکھنے کا فیصلہ کیا (۳)۔
ہرچند کہ مولانا خیر الدین جدید مغربی تعلیمات کے متشدّد مخالف نہیں تھے، پھر بھی ان کا خیال تھا کہ باہر کا ایک ہلکا سا جھونکا بھی ان کے اخلاف کے مذہبی اعتقادات میں رخنہ پیدا کرسکتا ہے۔ اسی لیے انھوں نے اپنے دونوں بیٹوں اور دونوں چھوٹی بچیوں کی ابتدائی اور درسی تعلیم کا اپنے گھر پر ہی انتظام کیا۔ بعد میں، دوسرے مضامین کے ماہرین کو بھی مولانا خیرالدین اپنے ہاں باضابطہ بُلاکر بچوں کی تعلیم کی جدید کاری اور تکمیل کا فریضہ ادا کرتے رہے۔ اس زمانے میں اپنے والد کے علاوہ جن لوگوں سے مولانا نے تعلیم پائی، ان میں مولوی محمد یعقوب، نظیر الحسن امیٹھوی، محمد ابراہیم، محمد عمر، شمس العلما سعادت حسین، حکیم سید باقر حسین وغیرہ اہم ہیں (۴)۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ مولانا آزاد کے والد ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھے، پھر بھی انھوں نے اپنے لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کی تعلیمات کا بندوبست کیا۔ روایت کی یہی روشن خیالی مولانا آزاد کے خمیر میں پہلے دن سے شامل ہوگئی، جسے بعد کے زمانے میں، سیاسی اور تعلیمی سرگرمیوں میں ان کے لیے سبب امتیاز مانا گیا۔
مولانا کی فارمل تعلیم کی تکمیل ۱۹۰۲ء میں ہوگئی۔ وہ اب بھی چودہ برس کے ہی تھے۔ ان کے والد نے پندرہ طلبہ کا ایک حلقہ ان کے سپرد کردیا کہ ان کی تعلیم و تربیت کی وہ ذمے داری اٹھائیں۔ مولانا نے انھیں فلسفہ، علم الحساب اور منطق کی اعلا تعلیم کامیابی کے ساتھ دی (۵)۔ مولانا خیرالدین کی تعلیمی درس گاہ سے مکمل فراغت کے لیے یہ آخری امتحان تھا، جس میں مولانا نے بہ احسن کامیابی پائی۔ حصولِ تعلیم کے آخری مراحل میں ہی مولانا نے ہندستان کے معروف اخبارات و رسائل سے اپنا تعلق خاطر جوڑ لیا تھا اور ان میں ادبی اور مذہبی مضامین بھی لکھنے لگے تھے۔ مخزن (لاہور)، خدنگ نظر (لکھنؤ)، احسن الاخبار (کلکتہ) وغیرہ میں ۱۸۹۹ء تا ۱۹۰۲ء ان کی تحریریں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ان میں اپنے خیالات، معلومات اور دیگر علمی و ادبی کوائف کو دوسروں تک پہنچانے کا اک جذبہ ٔ شدید پنپ چکا تھا۔ ’نیرنگ عالم‘ اور ’مصباح الصباح‘ جیسے پرچے، ہرچند کہ چند ماہ تک ہی نکل پائے، لیکن وہ دوسروں کے ساتھ مل کر ان کی اشاعت کا تجربہ حاصل کرچکے تھے۔ان کی عمر گرچہ اب بھی کھیلنے کودنے کی تھی، لیکن ملک و قوم کے لیے کچھ ٹھوس کام کرنے کی تڑپ انھیں پروان چڑھ رہی تھی۔ انھیں یہ بھی سمجھ میں آنے لگا تھا کہ اس کے لیے صحافت پیشہ ہوئے بغیر کام نہیں چلے گا۔
تعلیمی اور سماجی فلسفے کی جستجو
ایسی ہی صورت حال اور ذہنی تیاری میں ۲۰؍نومبر ۱۹۰۳ء کو مولانا کا پہلا پندرہ روزہ اخبار ’لسان الصدق‘ منظر عام پر آیا۔ اس کے بھی، جولائی ۱۹۰۴ء تک سات شمارے نکل سکے۔ مولانا کے کلکتہ سے بمبئی پہنچنے کے ساتھ، یہ اخبار بھی وہاں پہنچا لیکن ان کے عراق روانہ ہوجانے کے سبب فطری طور پر اسے بند ہوجانا پڑا۔ مولانا کے نظریات و تصوّرات کے اولین محور کے طور پر ’لسان الصدق‘ کی شناخت کے پیچھے اس کے وہ مضامین ہیں، جو مولانا کے رشحات قلم کا نتیجہ ہیں۔ پہلے شمارے میں انھوں نے ’سوشل ریفارم‘ کے عنوان سے جو پہلا مضمون لکھا، ایک طرح سے ، مولانا کے آیندہ افکار کی وہاں پیش بندی ہوجاتی ہے۔ مسلمانوں اور ہندوؤں کے میل جول اور اشتراک کی جہاں وہ پُر زور وکالت کرتے ہیں، وہیں ہندستانی سماج کے راسخ العقیدہ ہونے اور رسم و رواج اور توہمات سے بے وجہ بندھے ہونے پر انھوں نے سخت تنقید کی ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ کم از کم مسلمانوں کو تو اپنے ہم وطن بھائیوں کے ان فرسودہ اطوار سے ضرور ہی اجتناب برتنا تھا۔ ان احوال سے مولانا یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ ’تعلیم کو مسلمانوں میں آج تک جو ناکامیابی ہوئی وہ بہت کچھ رسم و رواج کی پابندی سے ہوئی (۶)۔
پندرہ برس کی عمر میں مولانا نے یہ سمجھ لیا تھا کہ حصول علم کے لیے اگر ذہن و دل کھلے نہ ہوں، مزاج میں وسیع المشربی ناموجود ہو اور قبول و رد کی منطقی اور منصفانہ پرکھ سے ذہن و دل خالی ہوں، تو کامرانی نہیں ملے گی۔ اسی لیے، اس زمانے کے مضامین میں مولانا کھلی آنکھ سے دنیا کو دیکھنے اور ہر معاملے میں تجزیاتی ذہن کو کام میں لانے کی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ یہاں دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ خود مولانا کے اندر بھی افکار و نظریات کی یہ جنگ جاری تھی اور وہ کھلی آنکھ سے ردوقبول کے مراحل طے کررہے تھے۔ اس کا ثبوت تو یہی ہے کہ انھوں نے اپنے والد کے مذہبی اعتقادات سے کُلّی طور پر اتفاق کرنے سے خود کو معذور پایا۔ انھیں یہ محسوس ہوا کہ اس سے نئے تعلیمی اور سماجی تقاضوں کے تحت سرگرم کار ہونے میں انھیں غیر ضروری طور پر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا اور کہیں نہ کہیں تنگ نظری کا کہرا ان کے روبرو رہے گا۔ اس لیے مولانا خیر الدین کے مذہبی اور تعلیمی افکار اور مولانا آزاد کے تصورات میں کافی فرق ہے اور دونوں کے اندازِ نظر میں بعض معاملات مین تو بُعدِ مشرقین ہے۔ مولانا کی وسیع المشربی اور ساتھ ہی روایتی آداب کی پاسداری کا اسے نتیجہ سمجھا جانا چاہیے کہ وہ تاحیات اپنے والد سے اسلامی تعلیمات کے موضوع پر محوِ گفتگو رہے اور دونوں ایک دوسرے کے خیالات کی قدر کرتے رہے۔ اسی سے ان کے انگریز سوانح نگار ڈگلس نے اپنے مطالعے میں بجا طور پر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ مولانا آزاد اپنے والد کے روایتی اندازِ نظر کے مخصوصات سے مکمل طور پر کبھی بھی علاحدہ نہیں ہوئے(۷)۔
مولانا ۱۸۹۸ء میں اپنے والد کے ساتھ مکہ معظمہ سے ہندستان آتے ہیں۔ یہ سنہ اس طور پر بھی برصغیر کی تاریخ میں عظیم تعلیمی ریفارمر سرسید احمد خاں کے ارتحال کی وجہ سے یاد کیا جاتاہے۔ اسے اگر عقیدت کے ساتھ قدرت کا کرشمہ تصور کیا جائے تو کہنا چاہیے کہ ایک ریفارمر کی موت کے ساتھ قدرت نے اس ملک کو دوسرا ریفارمر ابوالکلام آزاد کے روپ میں عطا کردیا۔ اس مقالے کے نتائج میں یہ بات خصوصی بحث کا موضوع بنے گی کہ مولانا نے سرسید کے خوابوں کو کہاں تک آگے بڑھایا۔ لیکن اتنا تو طے ہے کہ سرسید کے جاتے جاتے ہندستانی قوم نے اسی فریم ورک میں کام کرنے والے کسی آدمی کی تلاش ضرور کی ہوگی اور آنے والے دس پندرہ برسوں میں مولانا آزاد کو جو قبولِ عام حاصل ہوا، اسے دیکھتے ہوئے بہ آسانی کہا جاسکتا ہے کہ لوگوں نے انھیں سرسید کا جانشیں بھی تصور کیا ہوگا۔
ابتدائی زمانے میں مولانا آزاد کے افکار پر سرسید کے اثرات دکھائی دیتے ہیں اور اس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ مولانا کے تعلیمی تصورات میں سرسید کے نظریات اور عملی جدوجہد کا بیج بھی شامل ہے۔ ’لسان الصدق‘ میں کانگریس کے سلسلے سے سرسید کے خیالات پر مولانا نے صاد بھی کیا تھا اور کانگریس کے ہندو تنظیم ہونے کے وہ بھی ہم خیال تھے۔مولانا کے مذہبی، خیالات کا جودور تشکیک سے عبارت ہے، وہ اصلاً سرسید کی تحریروں کے طفیل ہی ہے (۸)۔ اس زمانے میں مولانا نے نمازیں تک چھوڑ دی تھیں (۹)۔ حالاں کہ آل احمد سرور کے لفظوں میں ’ مولانا آزاد کا یہ اعلان معنی خیز ہے کہ سرسید کی تفسیر نے انھیں پھر یقین کی راہ دکھائی(۱۰)۔ اس دوران میں انھوں نے ’الندوہ‘ (حیدرآباد)، وکیل (امرتسر)، دارالسلطنت (کلکتہ) کی ادارت کے ذریعے اپنے خیالات و نظریات کی تشہیر کی اور اس طرح ذاتی طور پر کسی بڑے کام کی ابتدا کے لیے ضروری بنیادیں انھوں نے خود میں استوار کرلیں۔ اب ہندستانی سیاست و سماج کا منظر نامہ ابوالکلام آزاد کے سرگرم کار ہونے کا منتظر تھا۔
قومی سطح پر ورورِ مسعود
’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کے ذریعے مولانا نے بالخصوص ہندستانی مسلمانوں کو اپنے ساتھ لیا۔ ۱۹۱۲ء تا ۱۹۱۶ ئان اخبارات کی دھوم رہی لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ اردو صحافت نے اس دوران میں اپنا ایک خاص اسلوب وضع کرلیا۔ ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ تو نکلے اور بند ہوگئے لیکن آزادی کی لڑائی میں جن دوسرے اردو اخبارات نے قابلِ ذکر حصہ لیا اور بڑی ملکی خدمات انجام دیے وہ بیشتر ’الہلال‘ اور ’البلاغ‘ کے اسلوب میں ہی اپنی آواز بلند کرتے رہے۔ مذکورہ اخبارات کے ابوالکلامی اسلوب کا ہی اسے کرشمہ کہیے کہ آج بھی اردو صحافت بہت حد تک اسی سحر میں مبتلا ہے۔ (اسے کسی اگلی صحبت کے لیے چھوڑیے کہ یہ کس قدر مناسب تھا اور اس سے اردو صحافت اور قوم کا کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہوا؟)
مولانا نے اس زمانے میں کُھل کر اپنے سیاسی، مذہبی اور تعلیمی تصورات پیش کیے۔ انھوں نے موجودہ مذہبی تعلیم کے یک رخے مزاج پر چوٹ کی اور بعض علما کی جانب سے سیاسی سرگرمیوں سے مسلمانوں کی علاحدگی کے مشورے کی بھرپور مذمت کی۔ سیاست انسانی زندگی کا ایک جزو لاینفک ہے، اس سے الگ رہ کر زندگی بسر کرنے کے یہ معنی ہوئے کہ ہمیں اپنے فروغ کے متعلق نہ ہی کوئی دلچسی ہے اور نہ دوسروں کے شانے سے شانہ ملا کر چلنے کی کوئی خواہش۔ اس لیے بہت تلخی کے ساتھ ہوکر مولانا کہتے ہیں : ’مسلمانوں کی ساری مصیبتیں صرف اسی غفلت کا نتیجہ ہیں کہ انھوں نے اس اعلا تعلیم گاہ کو چھوڑ دیا اور سمجھنے لگے کہ صرف روزہ نماز کے مسائل کے لیے اس کی طرف نظر اٹھانے کی ضرورت ہے ورنہ اپنے تعلیمی، تمدنی اور سیاسی اعمال سے اسے کیا سروکار؟‘ (۱۱) ۔پھر مولانا بتاتے ہیں : ’ ہم نے تو اپنے پولیٹِکل خیالات بھی مذہب ہی سے سیکھے ہیں۔ وہ مذہبی رنگ ہی میں نہیں بلکہ مذہب کے پیدا کیے ہوئے ہیں۔‘ (۱۲)۔
مولانا نے اب کل وقتی طور پر انھی خیالات کی تبلیغ و اشاعت پر خود کو مامور کررکھا تھا۔ ’الہلال‘ اور پھر’البلاغ‘ میں ہندستانی قوم کی آزادانہ حیثیت پر بحث شروع ہوچکی تھی اور خاص طور پر ہندستان کے مسلمانوں کو آزادی کی طرف بلانے کے لیے وہ راستے ہموار کررہے تھے۔ اسی بیچ ۲۸؍ مارچ ۱۹۱۶ء کو حکومتِ بنگال نے انھیں صوبے سے باہر نکل جانے کا حکم دے دیا۔ غالباً ان کے باغیانہ خیالات سے حکومت کو کوئی بڑا خطرہ محسوس ہوا ہو۔ رانچی میں پونے چار برس کی نظر بندی کی زندگی گزارنے کے بعد وہ ۳۱ ؍ دسمبر ۱۹۱۹ء کو وہاں سے رہا ہوتے ہیں۔ ۱۸؍ جنوری ۱۹۲۰ء کو گاندھی جی کلکتے میں ان سے ملاقات کرتے ہیں اور پھر ۲۰ ؍جنوری ۱۹۲۰ء کے دہلی کے جلسے میں مولانا آزاد بھی شریک ہوئے جس میں گاندھی جی اور تمام اہم رہنما شامل ہوئے اور مسئلۂ خلافت پر مسلمانوں کے موقف کی تائید کی (۱۳)۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ مولانا آزاد بہار اور بنگال کی حدود میں رہ کر جو جدوجہد کررہے تھے، اس کی خبر گاندھی جی کو تھی اور انھوں نے رانچی کی نظر بندی کے دوران میں مولانا سے ملاقات کی کوشش کی تھی لیکن انتظامیہ نے انھیں اس کی اجازت نہیں دی۔ بعد میں گاندھی اور ابوالکلام آزاد کی مذکورہ ملاقات ۱۹۲۰ء میں ممکن ہوسکی۔ مولانا آزاد ایک عرصے سے ہندو مسلم اتحاد کے ذریعے آزادی کی لڑائی کے لیے ماحول تیار کررہے تھے لیکن ’عدم تشدد‘ یا ’عدم تعاون‘ جیسے پروگراموں سے ان کا کوئی تعلق قائم نہیں ہوسکا تھا ۔جیسے ہی گاندھی جی سے ان کا رابطہ ہوا، مولانا کو اپنی جدوجہد کی ایک نئی ملک گیر معنویت سمجھ میں آئی اور انھوں نے خود کو گاندھی جی کا ہم نوا قرار دے دیا۔ کانگریس کے ساتھ سرگرم تعاون کرنے والے وہ ہندستان کے پہلے اہم مسلمان تھے۔ (۱۴) اس کے بعد کے احوال تاریخ کے صفحات میں روشن تر ہیں اور یہاں اس کا الگ سے ذکر کرنے کی ضرورت ہے۔
تعلیمی تصوّر کا ایک اہم پہلو۔ وسیع المشربی اور سائنسی جدید کاری
مولانا آزاد قدیم علوم سے وابستہ جماعت کے فرد تھے لیکن تلاش و جستجو ان کی فطرت میں تھی، اس لیے اس دائرے سے باہرکی دنیا سے بھی انھوں نے رابطہ رکھا۔ ہرچند کہ انھیں جو تعلیم ملی، وہ سراسر روایتی تھی لیکن انھوں نے اپنے علمی اکتسابات کو گوناگوں وسعت دی اور فکر و فلسفہ کی ان دنیاؤں تک بھی گئے جہاں تک ایک روایت پرست کے لیے جانا نہایت دشوار تھا۔ مولانا کے مزاج کی یہ وسیع المشربی ہی تھی جس کے سہارے وہ نئے سے نئے ذہن کے ساتھ چلنے میں ذرا بھی پریشانی نہیں محسوس کرتے تھے۔ مولانا اپنی تحریروں میں تعلیم کے سلسلے سے اس وسیع المشربی کی ہمیشہ تلقین کرتے رہے۔ ’انھوں نے ایک موقعے پر لکھا تھا کہ ہم اپنی مادی دولت اور سازوسامان کو جغرافیائی حد بندیوں میں قید کرسکتے ہیں لیکن علم و تہذیب کی دولت پر مہر نہیں لگاسکتے۔ وہ تو تمام انسانوں کی میراث ہیں۔ تہذیب کے میدان میں تنگ نظری سے بڑھ کر کوئی جرم نہیں اور قوموں کی ترقی میں یہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ (۱۵)
مولانا نے اپنے تعلیمی فلسفے میں اسی اصول کو بنیادی اعتبار بخشا ہے۔ اس میں بین الاقوامیت کے رجحانات فطری طور پر شامل ہیں۔ اس لیے یہاں ایک اور بحث طلب نکتہ سامنے آجاتا ہے۔ مشرق و مغرب کے آپسی تعلقات اور امتیازات۔ مولانا نے جس طرح علم و تہذیب کے معاملات کو تمام انسانوں سے جوڑا ہے اور جغرافیائی حد بندیوں سے گریز کرنے کی تنبیہ کی ہے، اس سے یہ پریشانی ہوسکتی ہے کہ مشرق و مغرب کے فرق کو شاید وہ اَن دیکھا کررہے ہیں جس کے نتیجے کے طور پر بہت سارے معاملات میں مشکل تر مسئلے بھی پیدا ہوسکتے ہیں۔ مولانا کی دوسری تحریروں کو دیکھیے تو اندازہ ہوجائے گا کہ ان مسائل سے وہ کماحقہ‘ واقف ہیں اور ان کے حل کے لیے ان کی ایک خاص رائے ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ مشرق و مغرب میں جو بُعدِ مشرقین ہے، اسے تو ضرور دور کیا جانا چاہیے۔ دونوں کو ایک دوسرے کے قریب آنا چاہیے۔ وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ دونوں فلسفوں میں کوئی خاص بنیادی فرق نہیں ہے اور نہ ہی کسی کو کسی پر فضیلت حاصل ہے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ انسانی فطرت کی تفسیر و تعبیر کے مختلف دھاروں پر توجہ دی جائے تو کہیں کہیں مشرق و مغرب کے رجحانات میں حدِّفاصل بھی مل جائے گی۔ اب آدمی کو چاہیے کہ ایک تال میل کا سلیقہ اپنائے اور روشن تر امکانات کی جانب متوجہ رہے۔ مخاصمت اپنے آپ دور ہوجائے گی۔
مشرق و مغرب کی اسی آویزش کا ایک اہم پہلو سائنس اور ٹکنالوجی ہے۔ ظاہر ہے، اس پہلو سے مشرق اب بھی مغرب سے بہت پیچھے ہے۔ سائنس اور ٹکنالوجی کی تعلیم اور اس کے استعمال کے معاملے میں مولانا کا نظریہ بالکل واضح ہے۔ ’گو مولانا نے خود خالص مشرقی تعلیم پائی تھی (مگر) انھوں نے انگریزی کی تعلیم پر بعض مغربی تعلیم یافتوں سے زیادہ زور دیا۔ وہ واقف تھے کہ یہ نہ صرف مغربی علوم اور سائنس کے لیے بلکہ بین الاقوامی تعلقات کے لیے بھی ایک کنجی کا کام دیتی ہے۔‘ (۱۶) سائنس کا بہترین استعمال کرنے کی ترغیب مولانا بار بار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ سائنس کے ذریعہ انسان کو ان مقاصد کے حصول کی کوشش کرنی چاہیے جو اس کی فطرت کے بہترین تقاضوں کی ترجمانی کرتے ہیں۔ مولانا کاخیال ہے کہ اگر انسان محض ایک ’ترقی یافتہ حیوان‘ ہے تو وہ سائنس کے ذریعے صرف انھیں اغراض و مقاصد کو حل کرنے کی کوشش کرے گا جن کی بنیاد اس کے حیوانی جذبات اور جبلّتوں پر رکھی گئی ہے۔ برخلاف اس کے اگر وہ ذاتِ الٰہی کا ایک پرتَو ہے تو سائنس کو بھی مشیت الہٰی کی تکمیل کا وسیلہ بتائے گا۔ یعنی کاوش کرے گا کہ کسی طرح اس کی مدد سے دنیا میں امن ، سلامتی اور انسان دوستی کی کارفرمائی قائم ہوسکے۔
مولانا چاہتے ہیں کہ سائنس کے خطرات اور غلط استعمال سے بچنے کے لیے اسے تہذیبی اور مذہبی کنٹرول میں رہنا چاہیے۔ سائنس کی خوبیوں، کمالات اور خدمات کو وہ سراہتے تھے لیکن وہ یہ بھی مانتے تھے کہ ہمارے سماج میں عوام و خواص کا فصل پید اہوگیا ہے اور جدید تعلیم سے آراستہ طبقہ اپنی قومی میراث سے بے تعلق ہوگیا ہے۔ اس کا علاج ایک ہی ہے کہ ہمیں تہذیبِ مشرق کی یاد کرنی ہوگی۔ مولانا کا واضح ماننا تھا کہ ہماری تعلیم کی روح مشرقی اور ہندستانی ہونی چاہیے تاکہ لوگ اپنی تہذیب کی قدروں کو پہچانیں اور اس کے سرچشموں سے فیض حاصل کریں۔
آج اتنے دن گزر جانے کے بعد سائنس کی ہزار تباہ کاریوں سے متاثر ہونے کے ساتھ ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سائنس نے انسان اور فطرت کے رشتے کے توازن کو بگاڑ رکھا ہے، اسی لیے دنیا میں طرح طرح کے مسائل اور پریشانیاں پیدا ہورہی ہیں۔ آدمی نے خود اپنا ایسا ظالم اور خودمختار حاکم بنالیا کہ مشین کے ایک بٹن کے ذریعے پوری دنیا ایک لمحے میں راکھ کے ڈھیر میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ ترقی کی دوڑ میں بڑھے ہوئے ہمیں ڈراؤنے خواب ستانے لگے ہیں۔ لیکن اس کا علاج وہی ہے، جو آج سے دہائیوں قبل مولانا نے سمجھایا تھا۔ سائنس ’ حیوانی جذبات‘ کے فروغ میں لگے گا تو اس سے تباہی مچے گی ہی۔ سائنس انسان اور انسانیت کے مسائل حل کرنے میں جب تک تعمیراتی رول ادا کرے، اسی وقت تک وہ قابل قبول ہے۔ اب اگر فطرت اور انسانیت مکمل طور پر تباہ کرنے کے وہ درپے ہوجائے تو اسے محدود تر کیا جانا بے حد ضروری ہے۔ مولانا نے اس کے لیے تہذیبی اور مذہبی تاویلات پیش کی ہیں، ہم زیادہ سے زیادہ، حقائق اور اعداو شمار کے حوالے سے اس کی توثیق کرسکتے ہیں۔ حل بہرحال وہی ہے، جو مولانا نے چالیس برس سے زیادہ پہلے پیش کردیا تھا کہ کیوں کہ مولانا کا نظریہ بالکل صاف تھا کہ وہ سائنس سے امن و سلامتی اور انسان دوستی کی توقعات رکھتے ہیں، اس سے زیادہ وہ اس کی خدمات لینے کے حق میں نہیں ہیں۔
کلچرل یگانگت کی تعلیم
ہندستان کے مخصوص حالات کے پیش نظر مولانا کا خیال تھا کہ اگر ہم تعلیم کے فروغ میں ہندو۔ مسلمان کے رشتوں میں ایک فلسفیانہ یگانگت کا ماحول نہیں پیداکرسکے تو یہ ہماری نامرادی ہی ہوگی۔ وہ جانتے تھے کہ اس کے بغیر یہ ملک ایک لمحے کے لیے بھی ترقی اور خوش حالی کی طرف نہیں بڑھ سکتا۔ کانگریس کے خصوصی اجلاس منعقدہ دہلی (۱۹۲۳ء) میں مولانا نے جو خطبہ دیا تھا، اس میں اپنے مخصوص انداز میں انھوں نے کہا تھا ۔ ’آج اگر ایک فرشتہ آسمان کی بدلیوں سے اتر آئے اور قطب مینار پر کھڑے ہوکر یہ اعلان کردے کہ سوراج ۲۴ گھنٹے کے اندر مل سکتا ہے۔‘ بہ شرطیکہ ہندستان ہندو مسلم اتحاد سے دست بردار ہوجائے تو سوراج سے دست بردا ر ہوجاؤں گا، مگر اس سے دست بردار نہ ہوں گا کیوں کہ اگر سوراج کے ملنے میں تاخیر ہوئی تو یہ ہندستان کا نقصان ہوگا لیکن اگر ہمارا اتحاد جاتا رہا تو یہ عالمِ انسانیت کا نقصان ہے۔‘ (۱۷) اسی موقع سے مولانا نے فرقہ وارانہ صورت حال کی وضاحت ان الفاظ میں کی۔’ ایک طرف سے کہا جارہا ہے کہ ہندوؤں کو مسلمانوں سے بچاؤ۔ دوسری طرف سے کہا جارہا ہے کہ اسلام کی لاج کی ہندوؤں کے حملے سے حفاظت کرو۔ جب ہندوؤں اور مسلمانوں کی حفاظت کی پکار بلند ہورہی ہے تو ظاہر ہے کہ بدنصیب ہندستان کی حفاظت کا ولولہ کب تک قائم رہ سکتا ہے۔‘ (۱۸)
مولانا کا ماننا ہے کہ ’اگر افراد کی شخصیت میں وحدت ہم آہنگی اور یک جہتی نہ ہوگی تو اس کا اثر سوسائٹی پر پڑے گا اور سماج میں باہمی اختلافات پرورش پاتے رہیں گے۔ تعلیم کا اصل کام یہ ہے وہ ایک صالح اور مربوط سوسائٹی کے لیے ایسے افراد کی تربیت کرے، جن کی شخصیت ہم آہنگ اور مربوط ہو۔‘ (۱۹) اصل میں مولانا کا یہ ذاتی تصور تھا کہ وہ کسی بھی قیمت پر ہندستان کو قومی یکجہتی سے علاحدہ نہیں دیکھیں اسی لیے اپنے تعلیمی تصورات میں اسے انھوں نے اولیت دی۔ مولاناکے اس کمٹ منٹ کو لوگوں نے ہندستان کی آزادی اور تعلیم کے موقع پر شدت کے ساتھ محسوس کیا کہ وہ تنہا پہاڑ کی طرح سے کھڑے رہے اور ہندستانی مسلمانوں سے اپنے ملک کو نہیں چھوڑنے کی استدعا کرتے رہے۔ انھوں نے مسلمانوں سے اپیل کی کہ اپنے ہم وطن بھائیوں پر مکمل بھروسہ کریں۔ مولانا کی اپیل کا بھی اثر ہوا کہ ہندستانی مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ کسی بھی حالت میں اپنے وطن عزیز ہندستان کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہوا۔ یہ طبقہ آزاد ہندستان میں مولانا آزاد کو اپنے واحد رہنما کے بہ طور دیکھ رہے تھے۔ اس کے ساتھ برادران وطن کا ایک بڑا طبقہ مولانا آزاد کے اس طرح ثابت قدم رہنے اور جناح کے مقابل کھڑے ہونے کے سبب عزت و احترام سے انھیں دیکھ رہا تھا۔ (۲۰)
مذہب کا فلسفہ تعلیم
مولانا نے مذہب یا تعلیم کو الگ الگ خانوں میں نہیں رکھا بلکہ ایک مکمل نظامِ حیات کے حصول میں ان کے رول کی اہمیت بیان کی ہے اور یہاں بھی کسی بہت بڑے مقصد کے تحت یگانگت اور یکجہتی کا اصول وضع کیا ہے۔ مولانا نے سورۃ الفاتحہ کی تفسیر بیان کرنے کے مرحلے میں خدا کے رحمان اور رحیم ہونے سے یہ نتیجہ نکالا کہ انسان کو بھی ایسی صفت کی اتباع کرنی چاہئے۔ اسے اپنے سماج کی ہر منزل پر اس کی ترقی میں معاون ہونا چاہئے۔ اسے عدل اور خیر کو اپنا رہ نما بنانا چاہئے تاکہ وہ تمام انسانیت کے لیے باعثِ رحمت ہوسکے۔ (۲۱)
مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں جو دنیا بھر میں آویزشیں ہوتی رہتی ہیں، مولانا بہ حیثیت ایک امن پسند مفکر، اس سے نالاں تھے۔ ہندو مسلمانوں کے تعلق سے یگانگت کی تلقین کا ذکر گزشتہ صفحات میں آچکا ہے لیکن یہ مسئلہ تو دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے درمیان بھی ہے۔ اسی لیے تفسیر القرآن میں مولانا نے ایسی تشریح کی ہے کہ مسئلہ ہمیشہ کے لیے سلجھتا ہوا دکھائی دیتا ہے اور پھر کوئی مذہبی بنیاد پر ایسے شر کو ہوا نہ دے سکے، ایسی امید کی جانی چاہئے۔ مولانا کہتے ہیں ’ مذاہب میں جس قدر بھی اختلاف، ان کا اصلی اختلاف ہے، وہ دین کا اختلاف نہیں ، محض شرح و منہاج کا اختلاف ہے۔ یعنی اصل کا ہیں، فرع کا ہے …… اور ضروری تھا کہ یہ اختلاف ظہور میں آتا۔ مذہب کا مقصود انسانی جمیعت کی سعادت و اصلاح ہے لیکن انسانی جمیعت کے احوال و ظروف ہر عہد میں اور ہر ملک میں یکساں نہیں رہے ہیں اور نہ یکساں رہ سکتے ہیں۔ کسی زمانے کی معاشرتی اور ذہنی استعداد ایک خاص طرح کی نوعیت رکھتی تھی۔ کسی زمانے میں ایک خاص طرح کی۔ کسی ملک کے حالات ایک خاص طرح کی معیشت چاہتے تھے۔ کسی دوسرے ملک کے حالات دوسری طرح کی۔ پس جس مذہب کا ظہر جس زمانے اور جیسی استعداد اوور طبیعت کے لوگوں میں ہوا، اس کے مطابق شرح و منہاج کی صورت بھی اختیار کی گئی۔ جس عہد اور جس ملک میں جو صورت اختیار کی گئی، وہی اس کے لیے موزوں تھی۔ اس لیے ہر صورت اپنی جگہ بہتر اور حق ہے اور یہ اختلاف اس سے زیادہ اہمیت نہیں رکھتا، جتنی اہمتی نوع بشری کے تمام معاشرتی اور طبعی اختلافات کو دی جاسکتی ہے۔ (۲۲)
آل احمد سرور نے کہا ہے کہ وحدت ادیان، دین اور شرع میں فرق اور عمل صالح پر زور مولانا کی تفسیر سورہ فاتحہ کے بنیادی ارکان ہیں۔ ان اصولوں پر زور دینے سے ایک اہم نتیجہ یہ ضرور نکلتا ہے کہ مذاہب کے اختلافات پر اتنی توجہ نہیں دینی چاہیے۔ مذہب کی روح کو ملحوظ رکھنا چاہیے اور عملِ صالح پر اصرار کرنا چاہیے۔ خلافت اور ترک موالات کے زمانے میں مولانا نے برطانوی حکومت سے کسی قسم کے تعلق کو اسلام کے منافی قرار دیا تھا وار یہ کہا تھا کہ ہندوؤں اور مسلمانوں میں دوستی اور تعاون ان کو ایک امتِ واحدہ بناسکتا ہے۔ (۲۳)
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ حضور اقدس صلعم نے مدینے کے آس پاس کے علاقے میں بسنے والے غیر مسلموں سے جو معاہدے کیے تھے، ان کے لیے ‘امتِ واحدہ‘ کی اصطلاح مستعمل ہوئی تھی۔ مولانا ازاد کی مذہبی تعلیم میں اتنی وسیع المشربی اور جرأت ہے کہ وہ ہندوؤں کے لیے مذہبی فضیلت کی یہ اصلاح قائم کرنے اور ہندستان کے ماحول کو امن پسند بنانے کے لیے ایک مذہبی پس منظر اور اصول وضع کرتے ہیں۔
مولانا آزاد کے فلسفۂ مذہب کی تعلیم کا ایک رخ مشرق جدید کو ایک اکائی کے طور پر دیکھنے میں مضمر ہے۔ انھوں نے اپنے کانگریس خطبات میں بار بار مشرق کو ایک طاقت، وحدت اور اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے مولاناکہتے ہیں۔’ ہندستان مشرق کی اس عام جدوجہد سے اپنی قدرتی اور جغرافیائی وابستگی فراموش نہیں کرسکتا۔ وہ مشرق کی ہر اس قوم کا خیرمقدم کرتاہے جو انصاف اور آزادی کے لیے جدوجہد کررہی ہے اور ہر اس قوم پر افسوس کرتا ہے جو اس راہ میں اپنے ساتھیوں سے پیچھے ہے۔ (۲۴)
یہاں غور کرنے کا مقام ہے کہ مولانا نے ۱۹۲۳ء میں مشرق کی یکجائی کا جو خواب دیکھا تھا اگر اس پر کسی نے عملی کام کیا ہوتا تو مشرق کی سیاسی قوت ’ورلڈ یاور‘ کے مانند ہوتی۔ اسی سے مولانا کی دوراندیشی سمجھ میں آتی ہے۔
رانچی میں نئی تعلیم کا خاکہ
رانچی پہنچنے کے قبل ہی مولانا آزاد عربی مدارس کے نصاب کا تنقیدی جائزہ لے چکے تھے اور اس سے اپنے عدم اطمینان کا اظہار کر چکے تھے۔ حکومت بنگال کی گزارش پر انھوں نے عربی مدارس کے نصاب میں اصلاح کی غرض سے اپنی سفارشات بھی پیش کردی تھیں۔ درس نظامیہ پر مولانا کا سب سے بڑا اعتراض یہ تھا کہ اس مین علمائے دیوبند نیجو تبدیلیاں کیں، وہ اس لھاظ سے زمانے کے تقاضوں کے برعکس تھیں کہ نصاب کا بنیادی، عملی اور کاروباری عنصر نکال دیا گیا وار نصاب کو محض مبلغین اور علما کی ضرورت کے مطبق ڈھال دیا گیا۔ مولانا کے خیال مین یہ ایک تعلیم مخالف اقدام تھا اس لیے انھوں نے نئے نصاب تعلیم کی ترتیب میں اس امر کا خاص خیال رکھا کہ وہ عصری تقاضوں سے مالا مال ہو۔ مولانا نے اس کا سب سے پہلا تجربہ مدرسہ اسلامیہ رانچی میں کیا اور بالخصوص ابتدائی جماعتوں میں یہ تجربہ از حد کامیاب رہا۔ انھوں نے اس کے مثبت اثرات بھی دیکھے۔ اس نصاب میں مولانا نے عربی اور انگریزی دونوں زبانوں کی ابتدائی تعلیم کی ضرورتوں کا پاس رکھا تھا۔
ڈاکٹر جمشید قمر نے لکھا ہے کہ ’ مولانا آزاد نے رانچی میں اپنے قیام کا جو زمانہ گزارا، اس میں ان کی بیشتر محنت و خدمت تعلیم کے صیغے میں صرف ہوئی۔ اس کے لیے انھوں نے یہاں کی جامع مسجد اور اپنے ذریعہ قائم کردہ مدرسہ کو مقامی مسلمانوں کی اصلاح و بیداری اور غیر مسلموں سے براہ راست تعلق اور ان کے درمیان یکجہتی اور یگانگت کے رشتوں کے کئی مظاہر ہمیں اس مقام پر دیکھنے کوملتے ہیں۔ (۲۵) حقیقت یہی ہے کہ مولانا آزاد نے رانچی کے قیام کے دوران میں جو تعلیمی تجربے کیے۔ اس سے بہار و بنگال کے اصحابِ نظر خاص طور پر متوجہ ہوئے اور انھوں نے مدرسے کی روایتی تعلیم میں ہوا کے یک تازہ اور خوبو دار جھونکے کا احساس کیا۔ اتفاق سے مولانا کا یہ تعلیمی ارتکاز ملک کی سیاسی صورت حال کے سبب قائم نہ رہ سکا اور وہ براہ راست جدوجہد میں اس طرح کود پڑے کہ اس انضباط سے پھر دوبارہ کام کرنے کی مہلت نہیں ملی۔ ورنہ مولانا کو قدرت نے الگ سے اس کام کے لیے وقت دیا ہوتا تو مدرسے کے نظامِ تعلیم کی بوسیدگی اور روایت پرستی شاید تمام و کمال ختم ہوچکی ہوتی۔
مولانا آزاد ہیومنسٹ روایت کے امین
تعلیم کا مقصد انسان کو اس کے ماحول کے ساتھ اور ماحول کوا نسان کے ساتھ ہم آہنگ کرتا ہے۔ (۲۶) بہ ظاہر یہ کوئی بڑا کا نہیں لگتا ہے مگر دھیان دیجیے تو محسو س ہوگاکہ انسان تمام زندگی کی محنت و مشقت اور ریاض ، تپسیا کے بعد بھی اگر مذکورہ نشانے کو پالیتا ہے تو وہ دنیا کے سب سے کامیاب چند لوگوں میں سے ایک ہوگا۔ جہاں تک مولانا آزاد کا تعلق ہے، تو ان کے ہاں تعلیم کا علاحدہ بالذات تصور کہیں بھی نہیں ہے۔ ’خطبات آزاد‘ سے لے کر مولانا کی چھوٹی بڑی تحریروں کے درجنوں ایسے مجموعے ہیں جہاں گھوم پھر کر تعلیم کا معاملہ آجاتا ہے۔ لیکن اگر ۱۹۴۷ء کے پہلے کی بات ہے تو ہم دیکھتے ہیں کہ کہیں بھی مولانا نے آزادی کی جنگ سے زیادہ اسے اہمیت نہیں دی۔ اس کے بعدوہ ہندو مسلم اتحاد پر زور دیتے رہے اور غیر ملکی فروغ اور وسائل کی ترقی کے معاملے میں تعلیم کو سب سے اوپر رکھتے ہیں۔ سوچنے کی بات ہے کہ مولانا آزاد، جے کرشن مورتی یا ان کے ہم خیال لوگوں کی جماعت کے ہمنوا نہیں رہے، جن کا ماننا ہے کہ اگر انسان تعلیم حاصل کرلے تو سماج میں موجودہ گڑبڑیاں پورے طور پر ختم ہوجائیں گی اور دوسرے مسائل خود بہ خود حل ہوجائیں گے۔
مولانا آزاد کانگریس کے اس نظریاتی طبقے سے آتے ہیں جس کے رہنما گاندھی جی رہے ہیں سرسید، مہاتما گاندھی، رابندر ناتھ ٹیگور، ڈاکٹر ذاکر حسین، خواجہ غلام الدین، آچاریہ رام مورتی، کرشن کمار وغیرہ۔ یہ ایک کڑی ہے ہندستان کے غریب، بھوکے ننگے لوگوں کی تعلیم سے بہرہ ور کرنے کے لیے فکر مند رہنے والے لوگوں کی۔ غور کیجیے تو ان میں سے سبھی انے اپنے اپنے حصے کی وہ خدمات دی ہیں کہ ہندستان کی تاریخ اسے فراموش نہیں کرسکتی۔ ہرچند کہ ان لوگوں کے خیالات میں بعض مراحل پر اختلافات بھی ہیں، لیکن اتفاق کی ایک لہر بھی موجود ہے اور وہ یہ کہ تعلیم کوئی جادو کی چھڑی نہیں ہے کہ آدمی کے ہاتھ میں آجانے سے سب کچھ بدل جائے گا۔ بلکہ سماج کے آگے بڑھنے اور ترقی یافتہ ہونے کے بہت سارے وسائل مین ایک تعلیم بھی ہے۔ جیسے سماج کو سیاست کی گندگی سے پاک کرنا ہے، معیشت کے اعتبار سے خوش حال بنانا ہے۔ ان میں سے اگر کوئی ایک بھی کام نہیں ہوگا تو اس کا دوسرے کام پر اثر پڑے گا۔ اور دوسرے کی تکمیل میں رکاوٹ پیدا ہوجائے گی۔ سماج اور انسان کا ڈھانچہ اس طرح سے ایک دوسرے پر منحصر اور متاثر کرنے والا ہے کہ یہ کبھی ممکن ہی نہیں کہ صرف تعلیم یا صرف تکنالوجی یا صرف معیشت یا صرف سیاست، یعنی کسی ایک شعبے میں خوشحالی یا ترقی کے بیج روپ دئیے جائیں اور سماج روشنی کی روہ پکڑلے۔
تعلیمی اصطلاح میں سوچیے تو سیدین کے لفظوں میں تعلیم میں ہومنسٹ روایت کے فروغ سے اسے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔ (۲۷) سرسید، گاندھی جی، ٹیگور، مولانا آزاد، ذاکرحسین اور مذکورہ دیگر افراد، سب کے سب جماعتِ انسانی کے مکمل فروغ اور تکالیف، پریشانیوں اور دکھ درد سے نجات کے خواہاں رہے ہیں۔ اس کے لیے کسی نے سیاست، کسی نے تعلیم کسی نے ادب کے شعبے میں اپنے لیے مخصوص کیے اور ان میں اپنی خدمات دیتے رہے۔ اس طرح سماج کی ہمہ جہت خدمت اور ترقی کا راستہ ہموار ہوتا ہے۔ مولانا آزاد کے تصورات تعلیم میں دنیا کے آخری آدمی کی ترقی کے لیے جو خواب ہے، اس کی معنویت اسی ہیومنسٹ روایت سے جوڑ کر دیکھنے میں زیادہ اجاگر ہوتی ہے۔ مولانا نے کبھی بھی ہندستان کے تمام باشندوں کو بہت زیادہ تعلیم یافتہ بنالینے کو ہمارے مسائل کا حل نہیں کہا۔ حالاں کہ وہ ہندستان کے پہلے وزیر تعلیم تھے اور ایک دہائی سے زیادہ تک وہ اس منصب پر لگاتار قائم رہے لیکن انھوں نے ’صرف تعلیم‘ کی وکالت کبھی نہیں کی۔ ان کا سماجی شعور تو اس قدر بالیدہ تھا کہ وہ ہندو مسلم اتحاد کھونے کی قیمت پر آزادی بھی لینے کو تیار نہیں تھے۔ وہ جانتے تھے کہ ایسی آزادی سے کیا فائدہ جب ہم سالمیت اور اخوت کے ساتھ رہ ہی نہیں پائیں گے۔
گزشتہ صفحات میں مولانا کی فکری بنیادوں پر بحث ہوچکی ہے۔ ان کی ذاتی تعلیم اگرچہ مشرقی ماحول میں ہوئی تھی، لیکن وہ دوسورے افکار سے بے خبر نہیں رہتے تھے۔ اچھی بات تو یہ تھی کہ نہ وہ مشرقی تعلیم کی وجہ سے کسی احساسِ کمتری میں مبتلا تھے اور نہ مغربی تعلیم سے آراستہ لوگوں سے مرعوب۔ ان کی شخصیت میں ایک علمی توازن تھا۔ یہ اس لیے پیدا ہوا تھا کہ وہ تعلیم کے سماجی انسلاکات اور انحصار کو سمجھتے تھے غور کیجیے تو یہ انہون نے اپنی ابتدائی تعلیم میں ہی سیکھ لیا تھا۔ اسلامی تعلیم کی جو سب سے بڑی خوبیہے، وہ یہی ہے کہ یہان علم و عمل پر بڑی تاکید ہے اور دونون میں سے کسی ایک کے نہیں ہونے کو یک رخا قرار دیا جاتا ہے۔ علم، عمل کے بغیر باطل ہے اور عمل صالح سے علم کے بغیر کوئی توقع نہیں کی جاسکتی۔ اسی لیے علم کے حصول کے چین جانے کی بات جب حضور صلعم نے کہی تو اس کامطلب یہ تھاکہ یہ ایک نہایت ضروری کام ہے لیکن بغیر کسی فارمل تعلیم کے حضورؐ جیسے امی کو خدا نے دنیا جہان کے علم سے نواز دیا تو اسے عمل کی برکت ہی سمجھنا چاہیے۔ اس تذکرے کا یہاں مقصود یہ ہے کہ مولاناکے تصورات تعلیم میں جو ایک توازن ملتا ہے اور وسیع سماجی تناظر میں تعلیم کی خدمات طے کی جاتی ہیں، تو اس کے پس پشت اسلامی تعلیمات کا عرفان بھی ہے۔ ہندستان کو جدید تعلیمی دور سے آشنا کرانے کی ذمے داری وزیر تعلیم کے بہ طور مولان کے سپرد تھی، اور انھوں نے یہ کام بخوبی انجام دیا، لیکن وہ اپنے اسلامی تعلیمات پر ہمیشہ فخر کرتے رہے اور اس کے نتائج عوام و خواص کو باخبر کرتے رہے۔ اسی جدید و قدیم کے تال میل نے مولانا کو متوازن طریقے سے تعلیمی پروگرام نافذ کرنے میں مزید سہولت پیدا کردی۔
مولانا آزاد کے تصورات تعلیم کے اطلاقی پہلو
یوں تو گزشتہ صفحا ت میں مولانا کے تعلیمی تصورات اور فلسفے پر بالتفصیل بحث ہوچکی ہے اور ایک عمومی رائے بھی قائم ہوچکی ہے، لیکن یہ مقالہ ختم کرتے ہوئے یہ ضروری معلوم ہتا ہے کہ مولانانے وزیر تعلیم کی حیثیت سے جو تعلیمی پروگرام وضع کیے، ان کا ذکر بھی ضرور ہوجائے۔‘ لیکن مولانا نے جس خوبصورتی کے ساتھ اپنی فکر کا نقش تعلیم و تربیت کے ہر پہلو پر ثبت کیا، اس کا اندازہ محض تعلیمی رپورٹوں اور اعداد و شمار کو دیکھ کر نہیں ہوتاہے کہ اس نازک دور میں، وقت کے اس سخت موڑ پر ان کی رہنمائی کی دولت نصیب نہ ہوتی تو ہماری تعلیم اور کلچر کا تصور کس قدر مسخ اور مختلف ہوتا۔‘ (۲۸)
مولانا کی وزارت کے اہم کارناموں اور فیصلوں کی بابت اطلاع فراہم کرنے سے پہلے جناب کرشن کمار کا ایک اقتباس تعلیم اور سیاست کے آپسی تعلقات کی ضرورت بتانے کے لیے پیش ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’اگر آپ تعلیم کے تعلق سے فکرمند ہیں اور تعلیم کے مقاصد کو لے کر سماج میں بحث چلانا چاہتے ہیں تو آپ کو یہ مان کر چلنا چاہیے کہ آپ کی یہ کوشش سیاست سے الگ نہیں رہ سکتی۔ آپ جو بھی کہیں گے یا کریں گے اس سے سیاست کا ایک حلقہ مضبوط ہوگا یا کوئی دوسرا کمزور ہوگا کویں کہ جو امس ، بیچینی اور بے سمتی ہم چاروں طرف دیکھ رہے ہیں، وہی تعلیم میں بھی موجود ہے۔ آج کی ضرورت یہ ہے کہ تعلیم کا سیاسی انسلاک پہچانیں اور سیاست کی تخلیق نو میں تعلیم کیے رول کو طے کریں۔‘ (۲۹) تعلیم کے سماجی اور سماجی انسلاکات کا آچاریہ رام مورتی نے بھی یہی فلسفہ وضع کیا ہے اور ایسی رپورٹ میں انھیں بنیادوں پر سفارشات پیش کیں ہیں۔‘ (۳۰)
مولانا جیسی اہم سیاسی شخصیت کے فیصلوں سے ان کے کام کاج کو سمجھنا ایک طرح سے ناانصافی بھی ہے اور ان کے قد اور کارنامے کو چھوٹا کرکے بھی دیکھنا، لیکن ہندستان جدید کے دانشوروں اور سیاست دانوں میں بہت کم لوگ ہوں گے ، جنہوں نے اتنے گراں قدر کارنامے تن تنہا انجام دئیے ہوں گے۔
(۱) تعلیم بالغان کے تصورات پر کام تو غلام ہندستان میں بھی ہورہے تھے، لیکن مولانا نے اس میں وسعت پید اکی اور ایک مبسوط پروگرام بناکر، اسے ملک کی ترقی اور خوشحالی کا ایک اہم جزو مانا۔ وہ مانتے تھے کہ جمہوریت کی جڑیں اس کے بغیر مضبوط ہوہی نہیں سکتیں۔
(۲) چھ برس سے چودہ برس کے بچوں کے لیے تعلیم کو لازم کرنے کا فیصلہ مولانا نے لیا۔ ہندستان میں خواندگی کی سطح کو بلند تر کرنے کے لیے ایسے فیصلوں کی معنویت کل تو بہت زیادہ تھی لیکن یہ آج بی اس قدر اہم ہے اور ہمارا آج بھی یہی نشانہ ہے۔
(۳) ثانوی اور اعلیٰ تعلیم کی سطح کو بلند کرنے کے لیے مولانا بہت زور دیتے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بنیادی تعلیم پر محنت ہوگی تو ثانوی تعلیم کے لیے اچھے طلبا ملیں گے اور ثانوی تعلیم پر زیادہ توجہ دی جاسکے گی۔ تب ہی اعلیٰ تعلیم کی سطح بلند ہوگی۔ مولانا مانتے ہیں کہ یہ سب ایک زنجیر کی مختلف کڑیاں ہیں۔ اس لیے کسی کی ان دیکھی نہ کی جائے اور تعلیم کی تمام سطحوں پر سنجیدگی اور حساس رویہ قائم رہے۔
(۴) مولانانے جس نئے ہندستان کے وزیر تعلیم تھے، اس میں مغربی ہواؤں کے جھونکے بہت تیزی سے آرہے تھے۔ ایسے میں مشرقی علوم کی طرف سے لوگ توجہ ہٹارہے تھے مولانا نے توازن کی راہ نکالی اور مشرقی علم و ادب میں تحقیق اور ریسرچ کے فروغ کے لیے بہت سارے علمی اقدام اٹھائے۔
(۵) انھوں نے سائنسی تحقیقات اور ٹکنیکل ایجوکیشن کے فروغ کے لیے اپنی وزارت کا دروازہ کھول رکھا تھا لیکن ان کی شرط تھی کہ ہندستان کی ضرورت اور تہذیب و کلچر کو دیکھتے ہوئے یہ ریسرچ ہو۔ یعنی وہ سائنس اور ٹکنالوجی کو تخریبی حدوں میں جانے سے روکنے کا ایک ثقافتی حربہ بھی ساتھ رکھتے تھے۔
(۶) اسی کے ساتھ انھوں نے سائنس اور ٹکنالوجی کی اصلاحات کو قومی زبان (ہندی) میں تبدیل کرنے کا بڑے پیمانے پر منشور بنایا اور انگریزی تعلیم بالخصوص سائنس کے شعبے میں انگریزی کے انحصار سے ہوشیاری کے ساتھ علاحدہ ہونے کی صورت پیدا کرنے کوشش کی۔
(۷) ہندستان کی مخصوص تہذیب و کلچر کو وہ جس قدر عزیز رکھتے تھے، یہ الگ سے بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لیے وزیر تعلیم کے بطور انھوں نے فنونِ لطیفہ اور تحفظ کے لیے عملی اقدامات اٹھائے۔ ساہتیہ اکادمی، سنگیت ناٹک اکادمی اور للت کلا اکادمی کے آج جو کارنامے روز روشن کی طرح عیاں ہیں وہ سب مولانا کے تصورات کے عملی ثبوت ہیں۔
(۸) مولانا تعلیم کے شعبے میں حکومتوں کی دخل اندازی کے مخالف تھے۔ بالخصوص اعلا تعلیم و تحقیق کو بالکل آزادانہ چھوڑ دینے کے ہم خیال تھے۔ اسی لیے یونی ورسٹیوں کی آزادی کے تحفظ کے لیے انھوں نے یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن جیسا عظیم الشان ادارہ قائم کیا تاکہ اعلا تعلیم کو مزید وسائل بھی میسر آسکیں اور سرکاری پہنچ سے بھی اس کو مکتی مل سکے۔
(۹) مولانا خود خالص مشرقی ماحول کے پروردہ تھے لیکن عورتوں کی تعلیم اور ان کے ترقی پسندانہ سماجی رول سے وہ مکمل طور پر متفق تھے۔ اس لیے انھوں نے آزاد ہندستان کی تعلیمی پالیسیوں میں عورتوں کے لیے خصوصی پروگرام اور سہولیات کا نظم کیا ور انھیں قومی دھارے میں مساوی اہمیت دلانے کی پہل کی۔
(۱۰) اساتذہ کے تعلیمی اور سماجی رول کو بھی مولانا خوب اچھی طرح سے سمجھتے تھے۔ یہ غالباً انتفاق ہی ہے کہ وزیر تعلیم ہونے کے بعد پہلی تقریر اور موت سے قبل کی ، وزیر تعلیم کی حیثیت سے آخری تقریر مین انھوں نے اساتذہ کرام کو اپنا نذرانہ عقیدت پیش کیا ہے۔ انھوں نے اساتذہ کے تعلیمی معیار کو بلند رکھنے کی باتکہی ہے لیکن اساتذہ کی تنقید میں سماج کے ذمے داروں سے اعتدال برتنے کی گزارش کی ہے کیوں وہ اسے اساتذہ کی ہمت شکنی سمجھتے ہیں۔
(۱۱) آزاد ہندستان میں ذریعۂ تعلیم کے نازک مسئلے پر مولانا آزاد نے اپنا متوازن اور عملی نقطۂ نظر پیش کیا۔ انھوں نے ہندی، غیر ہندی کے مسائل پر لوگوں کو جذبات کے بجائے عقل سے کام لینے کی تلقین کی اور افراط و تفریط کے خطرات سے آگاہ کیا۔ ان کے نقطۂ نظر سے دونوں فریق کی اشتعال انگیزی جاتی رہی۔
اتنے کام کیا کسی غیر سیاست داں کے لیے ممکن تھے؟ ہرگز نہیں۔ ان فیصلوں اور پالیسیوں کی جو فلسفیانہ اساس ہے، وہ یہ بتانے کے لیے کافی ہے کہ ان کے پیچھے کسی بڑی شخصیت کا ہاتھ ہے۔ مولانا کے دورِ وزارت کا یہی اختصاص بعد کے زمانے میں ہندستان نے بار بار تلاش کیا ہے اور ناکامی کا سامنا ہوا ہے۔ مولاناجیسی گوناں گوں صفات کی حامل شخصیات دنیا میں بھی کم کم ہی آتی ہین اور ایوان سیاست یا وزارت میں تو شاذ و نادر ہی۔
اختتامیہ
گزشتہ صفحات میں ابوالکلام آزاد کے تعلیمی تصورات کے مختلف پہلوؤں پر تفصیل سے گفتگوکی گئی ہے ار تجزیاتی نقطہ ٔ نظر کے ساتھ ان تمام امور، اسباب و علل پر نظر ڈالنے کی کوشش کی گئی ہے، جن سے مل کر ابوالکلام آشاد کی شخصیت مکمل ہوتی ہے۔ انکی ذہنی نشوونما جس ماحول میں ہوئی، وہاں سے لے کر آخری وقت تک، بدلتے ہوئے منظروں میں مولانا کے اندازِ نظر میں جو تبدیلی آئی اور بالخصوص تعلیمات کے شعبے میں ان کے جو گراں بہا اور وقیع کارنامے سامنے آئے ان کا تجزیہ کرکے ایک اجمالی رائے قایم کرنے کی سعی کی گئی۔
آزادی کی جنگ کے دوران گاندھی جی کی نگرانی میں کانگریس کے دوسرے رہنماؤں کی طرح مولانا آزاد کی جس طرح تربیت نو ہوئی اور مولانا کے یہاں جو بشر دوست Humanist ) رجحانات پنپنے لگے، اور اس سے مولانا کے نظریۂ سابق میں جو تبدیلی آئی، ان تمام امور پر کھل کر بحث کی گئی ہے۔ ان کے تعلیمی افکار کا جائزہ لیتے ہوئے ان کے عصری میلانت کا ذکر بھی کیا گیا اور وہ کس طرح ایک طرف اسلامی افکار سے متاثر تھے، دوسری طرف مغربی رجحانات پر بھی متوجہ تھے اور ساتھ میں ہندستان کی جنگِ آزادی کے ایک اجتماعی تصور، ہندو مسلم اتحاد یا ہندستانی کلچر کے بھی شیدائی تھے۔ اس طرح وہ اپنے تعلیمی اور سماجی تصور میں ان تمام افکار کے میل جول سے ایک ہم آہنگی اور توازن قائم کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے انھوں نے کبھی تعلیم کا الگ تھلگ کوئی فلسفہ وضع کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ ایک ایسے کلچر کو اپنا خواب تصور کرتے تھے جو ہندو اور مسلمان کے اشتراک سے قائم ہو، اور جسے ترجمان القرآن میں ’امتِ واحدہ‘ تک تسلیم کیا غالباً اسی لیے محمد عبدالرزاق نے قبول کیا کہ ’وہ تعلیم کو تمدن کا تابع بنانا چاہتے تھے۔‘ (۳۱) دراصل گاندھی جی اور ٹیگور کے تعلیمی افکار کا مقصد بھی کم و بیش یہی تھا اور ہیومنسٹ دبستان کے تمام مفکرین بہ شمول مولانا آزاد، جنھیں سماج کو مکمل طور پر آگے بڑھانے کی خواہش ہے وہ تعلیم کو کلچر کے تحفظ اور فروغ میں تعاون دینے والا ہتھیار مانتے ہیں۔ تعلیم کے لیے اس سے اہم فریضہ اور کیا ہوسکتا ہے؟
حوالہ جات
۱۔ آزاد کی کہانی خود آزاد کی زبانی : مرتبہ عبد الرزاق ملیح آبادی، کلکتہ ۱۹۵۹ء ص۔ ۱۶۸
۲۔ Life and Times of Maulana Abul Kalam Azad, Ed. S. B. Singh, Patna 1993 p-1
۳۔ Jbid P.18
۴۔ آزاد کی کہانی۔ ص ۷۳۔ ۱۶۹
۵۔ ہماری آزادی : ابوالکلام آزاد ترجمہ: محمد مجیب ، ناشر اورینٹ بمبئی فروری ۱۹۶۱ ص ۔ ۱۱
۶۔ بہ حوالہ امام الہند ابوالکلام آزاد۔ مرتبہ سیدہ سیدین حمید، نئی دہلی ۱۹۹۰، ص۔ ۲۹
۷۔ Abul Kalam Azad : an intellectual and Religious Biography.
by John Henderson Douglas,Delhi. 1999. P. 44
۸۔ آزاد کی کہانی۔ ص ۸۳۔ ۲۸۲، ۷۵۔ ۳۷۳، ۳۵۹
۹۔ ذکر آزاد: عبدالرزاق ملیح آبادی۔ کلکتہ۔ ۱۹۶۰، ص۔ ۶۰۔ ۲۵۹
۱۰۔ ڈاکٹر سید عابد حسین یادگاری خطبات : مرتبہ، ڈاکٹر نثار احمد فاروقی، دہلی ۱۹۵۸۔ ص۔ ۵۷
۱۱۔ الہلال، کلکتہ جلد اول، شمارہ، ۸ ، ۸؍ستمبر ۱۹۱۲ء بہ حوالہ امام الہند ابوالکلام آزاد۔ ص ۴۰
۱۲۔ ایضاً۔ ص ۲۷
۱۳۔ مولانا ابوالکلام محی الدین آزاد وہلوی : عبد الغنی دسنوی، پٹنہ۔ ۱۹۸۸
۱۴۔ Bright Lives : Brij Mohan Gandhi, Holy Books, inter, New Delhi 1986, P-225
۱۵۔ آج کل، نئی دہلی۔ اپریل ۱۹۵۹ء ص۔ ۶۔۵
۱۶۔ ایضاً۔ ص ۵
۱۷۔ ایضاً
۱۸۔ خطبات آزاد مرتبہ مالک رام، ساہتیہ اکادمی، نئی دہلی، ۱۹۹۰، ص ۲۰۵
۱۹۔ آج کل، نئی دہلی، اپریل، ۱۹۵۹ء ص۔ ۵
۲۰۔ Eight Lives P-249
۱۲۔۲۲۔۲۳۔ ڈاکٹر سید عابد حسین یادگاری خطبات۔ ص ۵۷، ۵۸۔ ۵۹، ۵۸
۲۴۔ خطبات آزاد ، ص ۔ ۱۶۷
۲۵۔ مولانا آزاد کا قیام رانچی: احوال و آثار، جمشید قمر، رانچی ۱۹۹۹ء، ص ۔۱۳
۲۶۔ علی گڑھ کی تعلیمی تحریک: خواجہ غلام السیدین، علی گڑھ، ص۔۲
۲۷۔ The Humanist Tradition in Indian Educational thought : K. G. Saiyidain,
New Delhi, 1961
۲۸۔ آج کل، نئی دہلی، اپریل ۱۹۵۹، ص۔ ۷
۲۹۔ jkt] lekt vkSj f'k{kk % d`".k dqekj] jkt dey iz0] ubZ fnYyh 1992 i`"B 247
۳۰۔ Report of the Acharya Ram Murti Committee, New Delhi
۳۱۔ ابوالکلام ازاد کے تعلیمی تصورات : محمد عبد الرزاق فاروقی، گلبرگہ، ص۔ ۱۵۵
 
Safdar Imam Qadri
About the Author: Safdar Imam Qadri Read More Articles by Safdar Imam Qadri: 50 Articles with 138828 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.