ازقلم طیبہ عنصر مغل (راولپنڈی)
ابھی تو ہم سال کے بڑے بڑے نقصانات کا اندازہ لگانے میں ہی مصروف ہیں کہ
کتنے لوگ جو عام تھے اور کتنے جو خواص تھے مگر وہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ یہ
تو ہمارے ملک کی بات ہے کہ ایک سال کے تخمینہ میں ہزاروں افراد کو کھو دیا
کتنے انمول موتی تھے جو تہہ در خاک ہوگئے۔
ان گنت ناقابل تلافی نقصان جن کا نعم البدل ناممکن ہے ۔ ادھر پوری دنیا میں
دائرہ بڑھا دیں کہ مسلم ممالک میں کیا ظلم برپا ہے تو شام فلسطین توکیا اس
سال تو ہمارے دلوں پہ حملہ کیا گیا یعنی سعودی عرب میں بھی خودکش حملے اور
ان دنیا بھر کے حملوں میں اموات کی تعداد بے بہا،ان گنت،لاشیں،لاشیں
اورلاشیں،زخمیوں کا کوئی انت نہیں۔ ہر طرف خون اچھلتا ہے یہ خون اچھالنے
والے ہاتھ کہاں سے آتے ہیں اور کدھر کو غائب ہو جاتے ہیں سب نامعلوم ۔ اس
سال کواگر تباہی اور غم کا سال قرار دینا اور غم سے عبارت کرنا کچھ غلط نہ
ہوگا۔
کچھ بھی ایسا نظر نہیں آتا کہ جس کے بہانے خوشی منانے کا جواز گھڑ لیا جائے۔
یوں تو پچھلے کئی سالوں میں کوئی قابل قدر کام ہوتا نہیں دیکھا۔ اس سال نے
توبہت اداس کیا۔ کرپشن، بدعنوانی کی جتنی پرزور مذمت کی گئی اتنا ہی اس کو
عروج ملا۔ سیاستدانوں ایک ہی صف میں کھڑے ہو کر عوام کے جذبات سے کھیلتے
اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرتے دیکھا۔ غریب غریب تر اور امیر امیر تر
ہوتا گیا۔ توہم پرستی، فرقہ واریت،انتہاپسندی،لبرل ازم کے نام پر اسیتصال،
سیکولرزم کے نام پر بے راہ روی اور مذہب کا مذاق اڑایا جاتا رہا۔ زرد صحافت،
ادبی چربے، سوشل میڈیا کا بے دریغ اور بے جا استعمال سلطنت کے لیے نقصان در
نقصان ثابت ہوا لیکن بھی یہ سب درخوراعتنائی کیوں؟
ہم تو نیوائر منارہے ہیں۔ سائلنسر نکلی موٹر سائیکلوں کی آوازوں میں شاید
یہ آواز کسی کو سنائی نہ دے۔ ہلڑبازی، فحاشی اور شور و غل سے مزین مخلوط
محافل میں سب یہ بھول جائیں گے کہ گزرے سال میں بہت سے ایسے مواقع آئے تھے
کہ جب ہمیں لگا تھا کہ یہ ہماری زندگی کا آخر وقت ہے اور پھر مہلت مل گئی۔
کوئی بات نہیں چلیں چھوڑیں آتش بازی دیکھیں ہال بک ہیں۔ اپنے بچوں کی
شادیاں اگلے سال کے کسی دن رکھ لیں۔ پارٹیز ہورہی ہیں ۔ ڈانس جاری ہیں۔
میڈیا تو سب میں پیش پیش ہے۔ کسی چینل پہ یہ درس نہیں ہے کہ نیا سال کے
آجانے کا مطلب ہرگز یہ نہیں جو ہم نے دوسری اقوام کی تقلید میں بنالیا ہے۔
یہ کوئی نہیں سوچے گا کہ کیوں نہ نوافل پڑھیں اور گزشتہ سال میں ہونی والی
غلطیوں کا ازالہ اپنے رب سے اور ان افراد سے معافی مانگ کر کرے۔ اگلے سال
میں امت مسلمہ کی جیت کی دعائیں مانگیں۔ اس بات سے ڈرنا چاہیے کہ نہ جانے
اگلے سال ہمیں مہلت ملے یا نہ ملے۔
مگر کون یہ سب سوچے گا۔ ابھی تو سب ہیپی نیو ائیر کی تیاریوں میں مگن ہیں۔
عام خیال یہیں ہے سب کا کہ ’’یہ گناہ تھوڑی ہے، کس کتاب میں اس کے گناہ
ہونے کا ذکر نہیں ہے۔ خوشی منارہے ہیں قوم کو حالت سوگ سے نکال کے نیکی
کمارہے ہیں۔ اس میں کیا قباحت ہے‘‘۔ بڑی ذہین قوم ہیں ہم بہت جواز ہوتے
ہیں۔ لیکن غور تو کریں کہ کیا ہم حالت جنگ میں ہمہ وقت رہنے والی قوم مبارک
لینے یا دینے کی اہل ہے۔ کیا ہم باکمال قوم کچھ بھی ایسا کرکے بیٹھے ہیں کہ
اپنی کامیابیوں کی خوشی منا سکیں۔ اس بار تو دنیا بھر میں قیامتیں برپا
ہوئی ہیں۔ چاہیے پھر وہ برلن ہے یا جرمنی، یورپ ہو یا امریکا ہر جگہ تباہی
مچی خون کے دریا بہتے رہے۔
عالم اسلام پر کا جائزہ لیا جائے تو شام، حلب میں جو مناظر اس سال میں ہمیں
میڈیا پہ دیکھائی دیے وہ دل دہلا دینے والے تھے۔ 31دسمبر کی رات کو بھولے
بیٹھے ہیں کہ لاشوں کے ڈھیر پہ بیٹھ کر جشن نہیں منائے جاتے۔ ایسے حالات
میں ہم پرتو خوشیاں حرام ہیں۔ یاد رکھیں یہ چیز اﷲ کے عذاب کا سبب بھی بن
سکتی ہے۔ اس با ت کا اندازہ آپ گزشتہ ہفتے شام پر بمباری کرنے والے روس کے
ایک روسی طیارے کی تباہی سے لگایا جاسکتا ہے۔ کیا آپ نے سوچا کہ وہ کیوں
تباہ ہوا اور اب تک جدید ٹیکنالوجی یہ سراغ نہیں لگا پائی کہ بالآخر اسے
ہوا کیا تھا۔ اس بات کا پتا دنیا کی کوئی طاقت لگا بھی نہیں سکتی کہ وہ
بینڈ باجے اور شرابے لے کر اموات پر شام میں نیو ایئر کو ہیپی کرنے جارہے
تھے۔ ’’بے شک میرے رب کی پکڑ بہت سخت ہے‘‘(القرآن) ۔
کیا ہم بھی ان غموں کو بھول کر نئے سال کی خوشی منائیں گے ۔ ہم کشمیر کے غم
بھی بھول جائیں گے۔ ہمیں حلب بھی یاد نہیں رہے گا۔ ہمیں بیت المقدس پر
یہودی قبضہ بھی نہیں یاد رہے گا۔ ہاں ہم تو عادی ہوچکے ہیں کہ ایک غم کے
بعد دوسرا غم اب ہم بھولنے کے عادی ہوچکے ہیں۔ ہم بس اپنی ذات میں مگن رہتے
ہیں۔ نہیں نہیں ایسا نہیں ہے۔ ہم کچھ بھی نہیں بھولے۔ وطن کتنی قربانیاں دے
کر ملا ہم نہیں بھولے۔ پاکستان کے ایک انگ کا جدا ہونا بھی اچھی طرح یاد
ہے۔ آرمی پبلک اسکول اور چارسدہ کے بچوں کی چیخیں بھی ہمیں یاد ہیں۔ پولیس
کا ہاسٹل ہو یا عدالتوں کے وکیل ہوں ان کے بکھرتے اجسام بھی ابھی تک نظروں
کے سامنے ہیں۔ سجدوں میں شہادتیں، مسجدوں کی بے حرمتی یادداشتوں میں گم
نہیں ہوئیں۔ ارے ابھی تو ہم نے طیارے کا ملبہ بھی نہیں اٹھایا۔
تمہیں نئے سال کی خوشیوں کی پڑی اور ہم وہ سب سوچ سوچ کر جواز ڈھونڈنے میں
لگے ہیں کہ شاید ان خوشیوں کو منانے کی کوئی ایک وجہ مل جاتی۔ مگر اب تو
حسرت ہی رہے گئی کہ کوئی ایک سال ایسا ہو کہ جس کے اختتام پر ہم بھی خوشی
منائیں۔ بہت سالوں سے نہیں دیکھا جو خوشیوں کا کارواں لے کر آئے۔ جس میں
کوئی 8اکتوبر کا زلزلہ نہ آئے۔ خیبر پختونخواہ سے لے کر سندھ تک سیلاب سے
کچھ تباہ نہ ہو۔ کاش کوئی ایک حکومت ایسی آجائے کہ جس کے دور اقتدار میں
کوئی تھر کا بچہ بھوک ، پیاس اور افلاس سے نہ مرے۔ مائیں ایڑھیاں رگڑ رگڑ
کر اپنے بچے کو تڑپتا نہ دیکھیں۔ کوئی ایک حکمران ایوان میں لگے کھانے کے
دستر خواں سے ایک لقمہ اس معصوم بچے کی ماں کو کھیلا دے۔ کاش کہ پھر ایسا
ہو روشنیوں کے شہر میں گولیاں نہ چلیں۔ ماؤں کو جواں سالہ بیٹوں کے لاشے نہ
اٹھانے پڑیں۔ مگر یہ سب ایک کاش پر آکر رک جاتا ہے۔ آہ مجھے ایک بار پھر
2016ء یاد آگیا۔ دل میں ایک بار پھر درد کی لہر دوڑ گئی۔ شاید مجھ میں ہمت
نہیں تھی کہ میں بھی کہتی ہیپی نیو ایئر۔
ہم لاشوں کے ڈھیر پہ چراغاں نہیں کرتے
دل جس میں جل جائیں وہ ساماں نہ |