مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلمانوں کا رویّہ!
(Nadeem Ahmed Ansari, India)
مسلم پرسنل لا بورڈ مسلمانوں کی وہ معتبر و توانا
جماعت ہے ، جو ہندوستان میں مسلمانوں کے اس عائلی نظام کی نگہ بان ہے‘ جو
دینِ فطرت یعنی اسلام کا عطا کردہ ہے ۔ یہ بورڈ اور اس کا پیش کردہ نظام
مفکرین علما کی نیک تمناؤں اور کوششوں کا ثمرہ ہے ، جس کی حفاظت ہر مسلمان
کی ذمّے داری اور وقت کی اہم ضرورت ہے ، لیکن خیال رہنا چاہیے کہ اس ذمّے
داری کو ادا کرنے کے لیے جو لائحۂ عمل تجویز کیا جائے ، وہ اکابرین و
مفکرین کا سُجھایا ہوا ہو، تاکہ ملت کے جان و مال سے کوئی کھلواڑ نہ ہونے
پائے اور کامیابی کی زیادہ سے زیادہ امید و توقع رہے ۔
یہ باتیں عرض کرنے کی اس لیے ضرورت محسوس ہوئی کہ فی الوقت مسلم پرسنل لا
کے حوالے سے جو چے مے گوئیاں جاری ہیں اور اس پر جو الزامات لگائے جا رہے
ہیں، نیز اس میں ترمیمات کے جو ناحق مطالبات کیے جا رہے ہیں، ان سب کا جو
حل بورڈ کے ذمّے داروں نے تجویز کیا ہے ، بعض لوگ اس سے الگ ہی دھارا میں
بہہ رہے ہیں۔ اس وقت اکابرین کی خواہش یہ ہے کہ مسلمان زیادہ سے زیادہ
تعداد میں مسلم پرسنل لا کی حفاظت کے لیے دستخط روانہ کریں اور اپنے
معاملات کے لیے شرعی دارالقضا سے رجوع کریں، نیز اسلامی تعلیمات کو خود بھی
اپنائیں اور دوسروں کو بھی اس سے واقف کرانے کی فکر کریں، ان کے مطابق فی
الوقت جلسے و جلوس اور نعرے بازی وغیرہ سے مکمل احتراز کیا جانا چاہیے ۔یہی
بات ہم بھی اپنے قارئین کے رو بہ رو کچھ اجمال کے ساتھ کہتے رہے ہیں،اس کے
باوجود دمشاہدہ ہے کہ مسلم آبادیوں میں کثرت سے جلسے و جلوس منعقد اور محض
دستخظی مہم میں حصّہ لینے کے نام پر ملت کے لاکھوں کروڑوں روپئے اخبارات
میں اپنی تصویر و نام چھپوانے کی نذر کیے جا رہے ہیں۔عرض کر دیں کہ اس
تحریر کا مقصد کسی شخص یا جماعت کی تنقید نہیں، لیکن اس طرف توجہ مبذول
کروانا ضروری ہے کہ بورڈ کے ذمّے داران کی طرف سے جن کاموں کے نہ کرنے کے
لیے کہا گیا ہے ، کیا وجہ ہے کہ اُنھیں میں اپنی اور ملت صلاحیتیں اور
توانائیاں صَرف کی جا رہی ہیں؟قارئین نے خود مشاہدہ کیا ہوگا کہ گذشتہ دنوں
نوٹ بندی نے ملک کے دیگر حالات سے لوگوں کو صرفِ نظر کرنے پر مجبور کر دیا،
ورنہ اس سے پہلے اخبارات میں یہی خبریں ایک عرصے تک صفحات کی زینت بنتی
رہیں کہ فلاں جگہ جلسہ ہوا اور فلاں جگہ جلسہ ہوا۔جس پر بعض ماہرین کا خیال
ہے کہ نوٹ بندی کا شوشہ اسی لیے چھوڑا گیا تھا کہ کشمیر، اُڑی اور مسلم
پرسنل لا جیسے اہم معاملات سے عوام کی توجہ دوسری طرف موڑی جا سکے ۔ یہ عین
ممکن بھی ہے کہ مودی حکومت اکثر معاملوں میں عوام کا اعتماد برقرار رکھنے
میں ناکام رہی ہے ، اس لیے انھوں نے اس اعتماد کو جیتنے کی صورت یہ نکالی
کہ کالے دھن کی واپسی کے نام پر نوٹ بندی اور اب کیش لیس سوسائٹی کا تصور
لایا جائے ۔ جس کے فوائد بتانے کے لیے بھی میڈیا پر باقاعدہ عملہ طیعنات
کیا گیا اور جس کا خاصا فایدہ بھی اُنھیں یوں ہو رہا ہے کہ بینکوں کی
قطاروں میں کھڑے ہوئے جو عوام حکومت کی سرد مہری اور عدم قابلیت کی باتیں
کہتے نہیں تھکتے ، اپنا کام ہو جانے کے بعد اُنھیں میں سے بعض اس اقدام کی
ستائش کرتے بھی نظر آرہے ہیں۔ ویسے بعض نیوز چینلوں پر اس یک رخی تصویر کی
نمائش بھی کچھ اس چالاکی سے کی جا رہی ہے کہ عقل حیران ہے ۔
خیر اس منصوبے اور اس کی کامیابی و ناکامی پر بحث کرنا اس وقت منظور ہے نہ
ممکن، عرض یہ کرنا ہے کہ کسی نہ کسی حد تک باوجود پورے جوش و خروش کے مسلم
پرسنل لا کی دستخطی مہم میں اس سے رخنہ ضرور پڑا ہے ، لیکن یہ بھی حقیقت ہے
کہ اس دین کا تو خود خدا نگہ بان ہے ، اسی لیے حالیہ اطلاعات کے مطابق آل
انڈیامسلم پر سنل لا بورڈکے مرکزی د فتر(نئی دہلی) میں دوکروڑسے زائددستخط
جمع ہوگئے ہیں اور یہ تعدادصرف یہاں کی ہے ،اس کے علاوہ
پٹنہ،حیدرآباداورمالیگاؤں میں بھی تقریباََایک کروڑفارم جمع ہوئے ہیں، جن
کی اسکیننگ اورمیلنگ کاکام وہیں سے جاری ہے ،جس سے مبینہ طورپرآرایس ایس کی
ونگ’مسلم مہیلاآندولن‘کے ذریعے پچاس ہزاردستخط جمع کرانے اوراس کی
بنیادپرتمام مسلم خواتین کی مسلم پرسنل لاکے تئیں عدمِ اطمینان کی بات کو
زک پہنچی ہے اور واقعی جمہوری قانون کے تحت بورڈ کایہ بہترین جواب ہے ۔چوں
کہ یہ کام منظم تحریک کی شکل میں کیا گیا اور کوئی بھی ریاست ایسی نہیں‘
جہاں یہ مہم نہ چلائی گئی ہو، اس لیے اب تک بڑی تعدادمیں فارم مرکزی
دفترپہنچ رہے ہیں۔اس طرح جس معاملے میں چندہزارخواتین کے دستخط کادعویٰ
کرکے میڈیا میں ہنگامہ بپا کیا گیا تھا کہ نوّے فی صد مسلم خواتین مسلم
پرسنل لا سے غیر مطمئن ہیں،اب تین کروڑدستخط کے بعدان کے منہ پر زور دار
طمانچہ رسید کیا گیا ہے ۔بورڈ کے ارکان کا یہ اعلان مزید اطمینان بخش ہے کہ
جوسماجی برائیاں ہیں‘بورڈاس کے ازالے کے لیے بھی کوشاں ہے ،اسی کے تحت بورڈ
نے جہاں ویمن ہیلپ لائن کا آغاز جیسے اقدامات کیے وہیں جمعے کے خطبات میں
ائمۂ کرام سے اس موضوع پر بیانات کرنے کی اپیل کی ہے ۔ واقعی اس حقیقت سے
انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسجد کے منبر سے دی جانے والی صدا برائیوں کے
خاتمے میں بہت ہی مؤثر ہے ، لیکن اس مضمون کو صفحۂ قرطاس کرنے کے لیے ہمیں
مجبور اس لیے ہونا پڑا کہ اب بھی بعض لوگ محض بے داری و اصلاح کے نام پر
چھوٹے بڑے جلسوں کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں، بغیر یہ سوچے سمجھے کہ سڑکوں
پر اتر کر گھنٹے دوگھنٹے نعرے و بیان بازی مسائل کا کُلّی حل نہیں۔ ان
مسائل کو حل کرنا ہے تو ہر ہر مسلمان کو دین و شریعت کے قریب کرنا ہوگا، جس
کی تیاریاں زمینی سطح پر ہوتی ہیں، ہواؤں میں نہیں۔ہمارا ذاتی خیال ہے کہ
مسلم پرسنل لا پر اگر آج کسی ’مسلمان‘ کو اعتراض ہے تو اس میں کہیں نہ کہیں
وہ تمام افراد بھی اس کے ذمّے دار ہیں‘ دینی تعلیم کو عام کرنا اور سماجی
بیداری جن کے فرائضِ منصبی میں داخل ہے ۔ اس لیے کہ آج بھی بہت سے مسلمان
جو نماز و روزے کے پابندہیں‘ وہ نکاح و طلاق جیسے اہم ترین مسائل سے نابلد
ہی نہیں بلکہ انھیں دین سمجھنے کو بھی تیار نہیں، جس کی وجہ سے ایسی غلطیاں
رونما ہوتی ہیں کہ دشمن پورے نظام و قانون کو ہی موضوعِ بحث بنانے میں
کامیاب ہو جاتاہے ۔ ہم ایسے بہت سے افراد کو جانتے ہیں، جو اسلامی شریعت کے
مسائل کو مسلمانوں میں بیان کرنے تک کو عیب سمجھتے ہیں، کیا اس صورتِ حال
میں دینی بیداری اور پورے طور پر شریعت پر عمل درآمد کیا جا سکتا ہے ؟پھر
ان حالات میں یکساں سول کوڈ کو اپوذیشن جماعتوں کا بی جے پی حکومت کے سیاسی
ایجنڈے کا حصہ بتانا مزید قابلِ غور ہے کہ اگر ایسا ہوا، جس کا عین امکان
ہے ، تو مسلمانوں کا موجودہ رویّہ خود ان کے حق میں نہایت قابلِ افسوس ہے ۔ |
|