شروعات کہاں سے کی جائے لفظوں میں بیاں
کرنا ذرا مشکل نظر آتا۔ البتہ آنکہیں منتظر ہیں کسی نئی داستان کوتحریری
شکل میں دیکھنے کے لیئے۔
آج عرصہ دراز گزر گیا پر ہم یہ نہیں جان سکے کہ ہم اس دنیا فانی میں آئے کس
مقصد کو لے کر اور چلے کہاں خود کو لے کر۔
اکثر لوگوں سے یہ کہتے سنا ہے کہ زندگی گزر گئ پر پایا کچھ نہیں جو کہ سب
سے بڑی ہلاکت آج کے مسلمان کی کہ وہ نہ خود کو جان سکا نہ اپنے بنانے والے
کو جو اس پوری کائنات کا مالک بلا شک وشبہات کے۔
میری داستان بھی کچھ انہی دردناک مسلمانوں کی ناکامی کی وجہ بن گئی جو شاید
مختصر سی نہیں طویل دکھائ دیتی۔
دنیا کی رنگینی میں تین طرح کے مسلمان نظر آتے دکھائی دیتے ہیں جو یا تو
حیوانیت، انسانیت یا پھر ایمانیت سے بھر پور زندگی گزار رہے۔
۱ - حیوانیت سے بھرپور زندگی ان لوگوں میں نظر آتی جن میں اچھے برے کی تمیز
نہیں بلکہ ان کی زندگی کا نقشہ بھی کسی جانور کی زندگی سے کم نظر آتا نہیں۔
یہ وہ لوگ جن میں جہالت کثرت سے پائی جاتی اور یہ کسی کی سننا بھی گوارہ
نہیں کرتے۔
۲- انسانیت کا درس بھی کچھ اس طرح کا نظر آتا کہ لوگ انسان صرف نام کے عمل
کے نظر نہیں آتے۔ لوگوں کی تگ ودو، محنت ومشقت بھی صرف مطلب کی حد تک نظر
آتی۔ اچھی حیثیت پانے کے لیَے دن رات کی جدوجہد اکثریت میں پائی جاتی۔
۳- ایمانیت سے لبریز وہ لوگ بھی سوسائٹی کا حصہ ہیں جو اپنا ایمان بچانے کے
لیئے دن رات دین کی خدمت کرتے دکھائی دیتے۔ دینداری کی مثالیں بھی بھری پڑی
تاریخ میں کہ وہ لوگ بھی تھے جن کا جان مال صرف خلق خدا کے لیَے تھا اور بے
شک وہی لوگ ھمیشہ کی فلاح پا گئے۔
حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے فرماتے سنا
زندگی میں اچھے لوگوں کی تلاش مت کرو۔ خود اچھے بن جائو شاید کسی کی تلاش
ختم ہوجائے۔
ہماری زندگی کے پہلو بھی کچھ ایسے ہونے چاہیئے کہ ہم انسانیت کے ساتھ ساتھ
ایمانیت کے جذبے سے بھی سرشار ہوں۔
اگر ہم دنیا کو لے کر فکرمند نظر آتے تو اسی طرح دین کی فکر بھے کرتے رہنا
چاہیئے تاکہ معاشرہ دینی تعلیمات سے بھی آراستہ ہو اور ہم رب کریم کے
احکمات کو بھی بخوبی ادا کرسکیں۔ |