کہاں ہیں عزت کے رکھ والے ؟

 کائنات کے منظرنامہ پر ساون کی پہلی بارش کے بعد چمکتے دمکتے اجلے سورج کی مانند دیکھا جاسکتا کہ ہر ترقی پسند ،جدیدیت کا دیوانہ ،الحاد و روشن خیالی کا پرستار مغربی طرز زندگی سے متاثر بے حیائی و فحاشی کا دلدادہ یہ صدا بلند کر رہا ہے کہ خواتین کو آزادی دی جائے ،انہیں مردوں کے برابر حقوق دئے جائیں ،ان کی عزت و ناموس کی حفاظت کی جائے ،وہ زندگی کی شاہراہ پر بلا خوف تردد دوڑ سکیں، ان کی راہ میں کوئی آہنی دیوار یا چٹان حائل نہ کی جائے ،رسم و رواج کی بیڑیاں ان کے پائے نازک کے لئے نہیں ہیں، ان کے خیالات و خواہشات کو فرسودہ اذہان کے احکام کا پابند نہ کیا جائے،انہیں کسی فلسفۂ حیات کا قیدی نہ بنایا جائے ،وہ مذہب ،عقیدہ ،ملکی شہری، علاقائی اور برادری ہر طرح اورقسم کی پابندیوں سے آزاد ہیں ،آئے دن اس طرح کے الفاظ ہمارے کانوں کو خوش فہمی میں مبتلا اور حقائق کو نگاہوں سے اوجھل کرتے ہیں اور ان الفاظ میں چھپ کر رہ جاتا ہے وہ درد و کرب جو ہر دن کسی دوراہے ،چوراہے ،یا کسی شاہ راہ پر، کوئی معصوم دوشیزہ جھیلتی ہے،سینکڑوں ہوس کے پجاری، بھیڑئے اپنی وحشت زدہ نگاہوں سے اسے تکتے ہیںاور اپنے گندے خیالات کو عملی جامہ پہنانے کی تگ و دوہ میں میں لگے رہتے ہیں اور ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ عزت و ناموس کا قیمتی جوہر چھین لیا جائے ،جس کی حفاظت کے لئے کروڑوں عورتیں اپنی جان کا نذرانہ پیش کر چکی ہیں،جو دنیا کا سب عظیم اور قیمتی زیور ہے اور یہ وہ تلخ حقیقت ہے جسے تاریخ کا ہر صفحہ چلا چلا کر بیان کرے گا ،مگر انسانی لباس میں ملبوس ان بھیڑیوں کی نظر میں اس قیمتی جوہر کی کوئی اہمیت نہیں ہے اور وہ اسے چھیننے میں کسی طرح شرم نہیں کرتے ، اپنے جذبات کی تکمیل کی خاطر انسانیت تو دور کی کوڑی ہے ،حیوانیت و درندگی کے معیار سے بھی گر جاتے ہیںاور تاریخ کے سینہ پر ایسازخم لگتا ہے ،جسے کائنات کا کوئی طبیب ناسور بننے سے نہیں روک سکتا اور اس رستا پیپ ٹپکتا لہو معاملہ کی سنگینی ہمیشہ کے لئے واضح کردیتا ہے اور مغرب سے متاثر افراد کے حفاظت عزت و ناموس اور آزادی کے دعووں کی پول کھول کر رکھ دیتا ہے ،اسی طرح کا ایک قلب شکن،انسانیت کو لرزہ براندام اور خوف میں مبتلا کردینے والا واقعہ ہندوستان کے دل دہلی میں پیش آیا اور یہ ایسا سانحہ تھا ،جس کی اس سے قبل تاریخ انسانیت میں نظیر نہیں ملتی ،دور جاہلیت پر عمیق نگاہ ڈالئے ،بیٹی کا قتل کرتے ہوئے زندہ در گور کرتے ہوئے لوگ نظر آئیں گے ،چوری ڈاکہ زنی کے واقعات کی کثرت بھی آپ کی نگاہوں کو خیرہ کرے گی ،شراب وشباب میں مست و مگن افراد پر بھی آپ کی نگاہ ضرور ٹھرے گی، انسانی اقدار کی توہین کا احساس بھی آپ کے قلوب میں شدت کے ساتھ پیدا ہوگا ،مگر اس بات کا دعوی کیا جاسکتا ہے ،کہ تاریخ کے صفحات ایسے بھیانک اور کربناک واقعہ سے خالی ہیں اور نگاہیں تاریخ کے اوراق پر گھوم پھر یہیں آکر ٹھر جائیں گی اور ہر صاحب دل یقینی طور سے آنسوؤں میں ڈوب کر مرنے کی تمنا کرے گااور وہ جو اپنی ہمت کے گھروندے کو سلامت رکھے گا، وہ ان درندوں کے وجود سے دنیا کو صاف کرنے کا متمنی ہوگااور اپنے دائرہ میں کوشش کرے گا کہ کس طرح ان وحشیوں کو ان کے کئے کی سزا ملے ،یہی صورت حال اس وقت ہندوستان کی تھی ،پورا ملک انقلاب کی چادر میں لپٹا ہوا تھا ،ہر طرف صدائے احتجاج بلند ہورہی تھی ،بدلہ کا سیلاب امڈ آیا تھا ،جس میں حکومت کی حیثیت تنکے سے زیادہ محسوس نہیں ہورہی تھی، لاٹھی ،ڈنڈے ،پولیس ،عوام کے حوصلوں کو توڑنے میں ناکام تھے اور ان درندوں کو سزا دلانے کے لئے حکومت نے بلند معیاری اقدامات بھی کئے، خاص قسم کی عدالتیں قائم کی گئیں ،اور جیوتی (نربھیا)کو جلد از جلد انصاف دلانے کے دعوے کئے گئے اور درندوں کو سولی پر لٹکانے کا دعوی بھی کیا گیا، عوام نے بھی مختلف طریقوں سے اپنے جذبات کا اظہار کیا، اور ان کے لئے سزائیں بھی متعین کیں۔بہرحال حالات اس جانب مشیر تھے کے جلد از جلد زمین کے سینہ کا یہ بوجھ کم ہوجائے گااور رہتی دنیا تک مثال قائم ہوجائے گی کہ چشتی اجمیری اور رام، لکشمن کے ملک میں درندوں کے ساتھ کیسا برتاو کیا جاتا ہے،مگر 29 دسمبر نربھیا کی موت کو چار سال پرانا واقعہ ثابت کردے گااور آج بھی وہ درندے زندہ ہیں بلکہ ان میں سے ایک تو نابالغ ہونے کا انعام پاچکا،اور ایک ندامت و شرمندگی کے بوجھ تلے دب کر مرگیا گیا اور باقی چار آج بھی جیل کی سلاخوں کے پیچھے بقید حیات ہیں،کمال کی بات یہ ہے وقت کہ مرہم نے یہ گھاؤ بھی بھر دیا اور ہم سب کچھ بھول گئے اور خون کی وہ حدت برودت میں تبدیل ہوگئی،دعوے محض زبانی ثابت ہوئے ،اور نربھیا کے قاتل آج بھی پھانسی کے پھندوں پر نہ جھول سکے ۔احتجاجات کا سلسلہ ایک مدت کے بعد منقطع ہوگیا ،انصاف انصاف چلاتی آوازیں دھیرے دھیرے خاموش ہوگئیں اور حافظہ پر دھننجے چٹرجی کا نام ابھر کر آیا جس کو 2004 میں ایک نابالغ دوشیزہ کی عصمت دری اور قتل کے معاملہ میں پھانسی دی گئی،مگر یہ معرکہ سر ہوتے ہوتے 14 سال کا عرصہ دراز گذر گیااور اس تاخیر نے بہت سے ہوس پرستوں کے حوصلے بلند کئے اور اس نوعیت کے بہت سے واقعات رونما ہوئے اور اب نربھیا کے قاتلوں کی سزا میں تاخیر ،کیا مجرموں کے حوصلوں کو بلند نہیں کرے گی ؟کیا اس طرح کی سستی جرائم میں اضافہ کا سبب نہیں ہے ؟برق گرنے کے بعد تو ہماری آنکھ کھلتی ہے ،وہ بھی اتنی جلد بند جائے اور پھر سے غفلت اور نیند کا شکار ہوجائیں تو انجام کتنا بھیانک ہوگا؟ یہ اندازہ لگانا کوئی مشکل امر نہیں ہے، حالانکہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو نے 24923 آبروریزی کے واقعات اسی 2012 کے تعلق سے نقل کئے ہیں ،لیکن کوئی احتجاج نہیں ،کوئی آواز نہیں ،کہیں چیخ و پکار نہیں ،کہیں عزت و ناموس کے محافظ نظر نہیں آئے ،مگر دسمبر کے اس بھیانک واقعہ نے سب کچھ تبدیل کردیا اور مردہ قلوب میں جان پھونک دی ،سرد ہوچکے انسانی جذبات کو گرما دیا،لوگوں نے ڈنڈے کھائے زخم برداشت کئے لیکن انصاف انصاف چلانا بند نہیں کیا، مگر اب پیچھے موڑ کر دیکھئے تو صورت حال وہی ہے،سب کچھ بدل چکا ہے ،پھر سے وہی آزادی اور آزاد خیالی اور عزت آبرو کی حفاظت کی صرف باتیں رہ گئیں ہیں،حقائق اور جذبات سے خالی ،جنہیں ہر شخص اپنے طرز اور طریقے پر استعمال کرتا ہے اور ان الفاظ کی قیمت وصول کر کے آگے بڑھ جاتا ہے، کہنے والے کا دل بھی ان الفاظ کے حقیقی مفہوم سے خالی نظر آتا ہے اور بعض افراد تو صرف مغرب کی نقالی میں ہی یہ الفاظ کہہ دیتے ہیں ،ورنہ درحقیقت وہ ان الفاظ کی روح سے محروم ہوتے ہیںاور انسانیت ، عزت کے معیار کی ان کو خبر بھی نہیں ہوتی ہے۔یہ وہ تلخ حقیقت ہے ،جو سوال کررہی ہے،کہاں ہیں عزت و ناموس کے محافظ ؟کہاں ہیں نربھیا کو انصاف دلانے والے ؟کہاں ہیں اس کے خراج عقیدت کا ڈھونگ کرنے والے ،چار سال کے اس قلیل عرصہ نے ان کی زبانیں گنگ کیسے کردی؟وہ انسانیت کے اس کرب کو کیسے بھول گئے جواب دیں ؟کیا کوئی ہندوستانی جیوتی کے والدین سے آنکھیں ملا سکتا؟تاریخ کا یہ المناک واقعہ کیوں ماضی کی داستان ثابت ہوگیا؟دہلی کی گلیوں سے جلی شمعیں کیوں پورے ہندوستان روشن کرنے میں ناکام رہیں ؟اور نربھیا کے انصاف کی تکمیل سے قبل ہی وہ روشنی کیوں گل ہوگئیں؟ کیا چشتی و اجمیری کی تعلیمات نے مغرب کا لبادہ اوڑھ لیا ہے ؟ان سوالات کے جوابات میں انسانیت کی شرمندگی کا عکس دیکھا جاسکتا ہے اور سسٹم کی سست روی کا تیز ترین عدالتوں کے قیام کے باوجود کیا عالم ہے ،کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے،ٹی ایس ٹھاکر کے آنسوؤں نے عدلیہ کی سستی روی کو عیاں کررکھا ہے ،اگر عدلیہ اور عوام دونوں شعبے مضبوط ہوتے تو نربھیا کے قاتل آج تک زندہ نہیںہوتے، اور ہر دن تقریبا 92 دوشیزاوں کو کربناک صورت حال سے دوچار نہیں ہونا پڑتا ۔
Rahat Ali Siddiqui
About the Author: Rahat Ali Siddiqui Read More Articles by Rahat Ali Siddiqui: 82 Articles with 76053 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.