وہ جو حق پر ہونے کے باوجود بدلہ نہیں لیتا

کچھ لوگ ہر دور میں یہی کہتے چلے آئے ہیں اور ہر دور میں یہی کہتے رہیں گے کہ آجکل درگزر سے کام نہیں لینا چاہیے لوگ سر پہ چڑھ جاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ ہر دور میں یہی کہتے چلے آئے ہیں اور ہر دور میں یہی کہتے رہیں گے کہ ایک دوسرے کو درگزر کرنے کی جتنی ضرورت آج ہے پہلے کبھی نہ تھی۔ یہ تو سب اپنے اپنے ظرف اور سوچ کی بات ہے صاحب ورنہ درگزر اور پیار کسی دور کے ساتھ خاص نہیں ہے یہ تو ہر دور کے لیے عام ہے
یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لاالٰہ الا اللہ

غلطی کس سے نہیں ہوتی لیکن ہمارے اپنے غلط کام کسی نہ کسی وجہ سے غلط ہوتے ہیں جبکہ دوسروں کے غلط کام ان کے بُرے ہونے کی وجہ سے غلط ہوتے ہیں۔واہ رے واہ کیا خوب تجزیہ ہے اپنے بارے اور دوسروں کے بارے۔ اصل میں یہ سب نصیبوں کی بات ہوتی ہے یہ معاف کردینے کا ظرف ہر کسی کو عطا نہیں ہوتا۔ کچھ تو بدلہ لینے کے بہانے ڈھونڈتے ہیں کہ اس نے بات ہی ایسی کی ہے۔وہ ہے ہی اسی قابل۔ یہ لوگ معاف کرنے کے قابل نہیں ہوتے۔ معاف کرنے سے سر پر چڑھ جاتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن وہ جنہیں خدا درگزر کرنے کے ظرف سے مالا مال کرتا ہے ان کے پاس بھی معاف کرنے کے بڑے بہانے ہوتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں بدلہ لینے میں غلطی کر جانا معاف کرنے میں غلطی کرجانے سے زیادہ بُرا ہے اس لیے ہمارے لیے معاف کرنا ہی بہتر راستہ ہے۔ وہ کہتے ہیں معاف تو اسی کو ہی کیا جاتا ہے جو معافی کے قابل نہیں ہوتا ورنہ قابلِ معافی کو معاف کیا تو کیا کیا۔

بہت عقلمند بننے والے کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اپنے پہ تو کوئی بات لینی ہی نہیں ہے نا۔ ہر بات دوسروں پہ ڈال دو یہی کامیابی ہے ورنہ ہار جاؤ گے۔ لیکن کچھ لوگ کہتے ہیں دوسروں پر تو ڈالنی ہی نہیں ہے نا۔ ہر بات اپنے پر ہی لینی ہے یہی کامیابی ہے ورنہ ہار جاؤ گے۔ یہ وہ راز ہیں جو ہر کسی کو سمجھ نہیں آتے صرف انہی کو سمجھ آتے ہیں جن کو خدا سمجھانا چاہتا ہے۔

آجکل معاف کردینے والوں کو لوگ کہتے ہیں اگر ایسے ہی ہر اک کو معاف کرتے رہے تو پھر دنیا میں جی لیا تم نے۔ یہ دنیا تمھیں جینے نہیں دے گی۔ ارے بھائی نہ جینے دے یہ دنیا۔کیا دنیا میں جینا ہی سب کچھ ہے۔ معاف کرنے والے اپنی دنیا کے لیے تھوڑا ہی معاف کرتے ہیں وہ تو اپنی آخرت کے لیے معاف کرتے ہیں کہ آج کسی کو معاف کریں گے تو کل قیامت کے دن ہمیں بھی کوئی معاف کرے گا۔ جب اندر سے تبدیلی آتی ہے نا تو معاف نہ کرنے کے سب بہانے پانی کی طرح بہہ جاتے ہیں ۔ رہ جاتا ہے تو صرف پیار ہر کسی کے لیے۔۔۔۔۔۔۔ایک بات ہم بڑے اکڑ کر کہتے ہیں کہ میں بدلہ کیوں نہ لوں میرا کیا قصور ہے میں تو بدلہ لینے کا پورا حق رکھتا ہوں۔ارے بھائی کیا اس وقت کو سامنے رکھ کر آپ یہ بات کہنے کی جراءت کر سکتے ہیں اگر آپ سے آپ کا رب یہ کہہ دے کہ میں کون سا تم پر ظلم کر رہا ہوں میں تو عدل ہی کر رہا ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اپنے رب سے عدل کی بجائے فضل مانگتے ہو لیکن اگر لوگوں سے عدل کی بجائے فضل سے پیش نہیں آؤ گے تو کل کو رب سے رب کا فضل کس منہ سے مانگو گے۔
ہم جس مقدس ہستی کا کلمہ پڑھتے ہیں اب ذرا ان کے ارشادات بھی سن لیجیے

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے حیائی کی باتیں طبعاً کرتے تھے نہ تکلفاً اورنہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے ، اوربرائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور درگذر فرماتے تھے۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا-

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺنے فرمایا کہ صدقہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی اور جو شخص دوسرے کے قصور معاف کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ اسے اور عزت دیتا ہے اور کسی کے قصور معاف کردینے سے کوئی بے عزتی نہیں ہوتی۔

حضرت معاذبن انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا: سب سے بڑی فضیلت یہ ہے کہ تو قطع تعلق کرنے والے سے تعلق قائم رکھے اور جو تجھے نہیں دیتا اُسے بھی دے اور جو تجھے برا بھلا کہتا ہے اس سے تو درگزر کر۔

 
Muhammad Abdul Munem
About the Author: Muhammad Abdul Munem Read More Articles by Muhammad Abdul Munem: 20 Articles with 20368 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.