ہاں! مجھے یاد آگیا وہ یکم ستمبر
ہی کی صبح تھی، جب ہم چاروں بہن بھائی سوکر اٹھے تو پتہ چلا کہ امی اور ابا
جان واپس آچکے ہیں- ہم سب کے چہرے خوشی سے کھل اٹھے! امی چار ماہ پہلے
ہمارے دو چھوٹے بھائیوں کے ہمراہ نائجیریا گئی ہوئی تھیں جہاں ابا جان
ملازمت کے سلسلے میں مقیم تھے- واپسی میں یورپ سے ہوتے ہوئے آئے تھے- تحفے
تحائف اور وہاں کی سوغاتیں ہماری خوشیوں کا لیول بڑھا رہی تھیں-
شام تک آنے جانے والوں کا تانتا بندھ گیا- انہی میں دو گلیوں آگے رہنے والی
فرزانہ باجی بھی تھیں- وہ چند ماہ قبل ہی انڈیا سے بیاہ کر یہاں آئی تھیں-
ان کی آمد امی کے لئے خوشی کا باعث تھی مگر ان کا مطالبہ باعثِ حیرت! ! !
انہوں نے امی سے میرا برقعہ مانگا کہ میں اس کا ماڈل بنواؤں گی- امی کسی کی
مانگ کو رد نہیں کرتیں مگر اس پر انکو معذرت کرنی پڑی یہ کہہ کر کہ میری
بیٹی تو برقعہ نہیں پہنتی ہے-آپ میرا برقعہ لے جائیں- اس پر وہ امی سے
اصرار کرنے لگیں کہ میں تو اس سے راستے میں مل چکی ہوں- انہوں نے امی کو
جھٹلاتے ہوئے کہا- اس سے پہلے کہ تکرار بڑھتی اور امی کی حیرانگی عروج پر
پہنچتی، میں نےاپنا برقعہ انکے حوالے کردیا یہ کہتے ہوئے کہ جلدی واپس
کردیجئے گا کیونکہ یونیورسٹی کھل رہی ہے۔
اب درست طریقے سے امی کا رد عمل تو یاد نہیں ہے! مگر بہر حال خوشگوار تاثر
ذہن میں موجود ہے جب امی کے سامنے اقرار کیا ہم نے آپ کی غیر موجودگی میں
برقعہ پہننا شروع کردیا اور اس کا آغاز عیدالفطر کے دن سے ہی ہوا، جس پر
بھائی نے تبصرہ کیا تھا کہ کیا عید کے دن نئے کپڑوں کی جگہ برقعہ پہنو گی؟
جی نہیں ! پہن کر عید ملنے جاؤں گی ۔۔۔۔۔۔۔۔ فوری جواب تھا۔
اور یہ ہی ہوا تھا لوگوں کے لئے سرپرائز تھا اس کایا پلٹ پر! مگر سچ تو یہ
ہے کہ جب حکمَ الہٰٰی کا ادراک ہوجائے تو لمحہ بھی نہیں لگتا عمل کرنے پر!
مدینے کی خواتین یونہی تو نہیں گلیوں میں ٹھٹھک گئی تھیں اور بچوں کو گھر
دوڑایا تھا چادر لانے کے لئے؟، میں نے تو پھر چند ماہ لئے اس فیصلے کو عملی
جامہ پہنانے کے لئے! اس میں کپڑا خریدنے سے لیکر سلوانے تک کے مراحل تھے۔
ظاہر بات ہے کہ میں ایمان میں ان صحابیات کا مقابلہ کہاں اور کیسے کرسکتی
تھی؟- ہاں البتہ ان کی پیروی کی کوشش ضرور ہوئی لیکن کچھ اگر مگر کے ساتھ!!
میں صحیح طور پر امی کے احساسات ریکارڈ نہ کرپائی مگر اتنا اندازہ ہے کہ
انہوں نے اطمینان کا سانس لیا تھا کہ وہ اپنی بات نہ ماننے کے اندیشے کے
باعث مجھے برقعہ اوڑھنے کا نہ کہہ سکی تھیں مگر قرآن کے ترجمے نے مجھے یہ
زیور عطا کردیا تھا! تھوڑی سی شرمندگی یا پھر آکورڈ پوزیشن ان بزرگ حضرات
سے پردہ کرنے سے ہوئی جنکے سامنے ہم چھوٹے سے بڑے ہوئے! ان کا برا ماننا
یوں تھا کہ اب ہم سے بھی پردہ؟؟؟ گویا ہم ان کو بد نیت سمجھ رہے ہیں، بڑا
وقت لگا اس مشکل سے نکلنے میں! انکو باور کرانے میں کہ آپ کا ادب، احترام
اور نیک نیتی اپنی جگہ رب کا حکم اپنی جگہ، مگر ادراک ہونے کے بعد ان سے
اپنے تعلقات میں اضافہ ہی محسوس ہوا۔۔۔۔
اس زمانے میں عموماً طالبات چادر یا بڑا دوپٹہ استعمال کرتی تھیں مگر برقعہ
اتنا عام نہ تھا- کچھ طالبات تو یونیورسٹی میں داخل ہی برقعے کے ساتھ ہوئیں
تھیں ان کے لئے تو کوئی مسئلہ نہیں تھا، مگر میں جو آنرز تک تین سال بغیر
حجاب پڑھ چکی تھی اب فائنل ائیر میں پردے کے ساتھ نیا سیمسٹر جوائن کرنا
ایک چیلنج تھا یا میں سمجھ رہی تھی- بہر حال اب مقابلہ تو کرنا ہی تھا!
مجھے اعتراف کرلینا چاہئے کہ اگر ساتھیوں کی حوصلہ افزائی نہ ہوتی تو میرے
لئے یہ سب اتنا آسان نہ تھا۔
سب سے پہلے تو نقاب والی تصویر جب فارم پر لگی تو کلرک سے لیکر چئیرمین تک
سب چونکے اور پھر جب اس بدلے ہوئے گیٹ اپ کےساتھ میں سیمسٹر کے آغاز پر
یونیورسٹی پہنچی تو اندر ہی اندر نروس تھی اگرچہ بظاہر پرسکون تھی، مگر
مجھے اندازہ ہوا کہ میرے اندیشے بے بنیاد تھے- میرے اس اقدام نے تو مجھے
بہت معتبر اور پُراعتماد بنا دیا تھا- کلاس فیلو اور اساتذہ سے لیکر نان
ٹیچنگ تک کی نظروں میں معزز بن گئی تھی میں! لیکن کانشس بھی تو رہنا پڑتا
تھا مجھے کہ کوئی سطحی حرکت نہ سرزد ہوجائے جس کی ضرب پردے پر پڑے!
مجھے یاد ہے ٹیسٹ کے دوران میں ذرا مڑی تو پی ایچ ڈی کے ایک اسٹوڈنٹ نے جو
انویجیلیٹر کی ڈیوٹی انجام دے رہے تھے، میرے پردے کے بارے میں ریمارکس دیا
تھا اور میں غصے میں کھول کر رہ گئی تھی! اور ایک سینئر استاد جن کی لیب
میں حاضری کے باقاعدہ نمبر ہوتے تھے میری شناخت کے بارے میں کس قدر متجسس
ہوگئے تھے- اس وقت تو مشکوک ٹھہرنے پر میں پزل تھی مگر آج میں ان کو حق
بجانب سمجھتی ہوں کہ پردے کے بارے میں منفی تاثرات بہر حال موجود ہیں! ایک
خاتون استاد نے بھی اوور اسمارٹ بننے کا طعنہ دیا تھا!
لیکن ان اکا دکا باتوں کے علاوہ میرا حجاب میرا زیور اور میرا ہتھیار بن
گیا تھا- ایک تو بری نیت اور بری نظر کے خلاف ڈھال اور دوسری جانب میری
شناخت کو زینت عطا کرنے والا! اس کے فوائد تو میں نہیں گنوا سکتی میرے دل
کی تسلی کے لئے یہ ہی کافی ہے کہ اللہ نے مجھے اپنے ایک حکم پر عمل کی
توفیق دی! اور چراغ سے چراغ جلتا ہے تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ میری چھوٹی
بہن نے بھی نقاب میں یونیورسٹی جانے کا فیصلہ اور اہتمام کرلیا-
اور آج اتنا عرصہ گزرنے کے بعد میں دیکھتی ہوں کہ میرے گھر اور خاندان میں
برقعہ استعمال کرنے والوں کی تعداد اکثریت میں ہوگئی ہے بلکہ پوری دنیا میں
اضافہ ہوتا نظر آتا ہے اگرچہ اس کی شکل ہر جگہ مختلف نظر آتی ہے مگر مقصد
ایک ہی ہے یعنی اپنا تحفظ اور اپنی شناخت!
اور اب نئی نسل تو ایک نئے عزم اور شعور کے ساتھ اس کو اپنا رہی ہے کیونکہ
اب تو عالمی یومِ حجاب بھی منایا جارہا ہے- چار ستمبر ! مسلم خواتین کے
یکجہتی میں پوری دنیا شریک ہوگئی ہے اور کیوں نہ ہو اس کے مخالفین پابندی،
جرمانے دھمکی اور سر عام قتل عام تک کررہے ہیں ! یہ ادراک کئے بغیر کہ اس
کے نتائج نقاب کی تعداد میں اضافے ہی کا باعث بنے گا اور مجھے فخر ہے کہ
میں بھی اس کلب کا حصہ ہوں جسے میں نے اپنی بائیسویں سالگرہ پر برقعہ پہن
کر جوائن کیا تھا !!!! حجاب زندہ باد |