“عمرِ زیاں “

وہ چھت پر کھڑے سامنے غفور صاحب کے گھر میں ان کی نازوں پلی بیٹی کو باغ میں ٹہلتے سیل فون پر بات کرتے اور اپنی لٹوں سے کھیلتے بڑے انہماک سے دیکھ رہے تھے ۔۔۔ ۔۔۔۔ گوری چٹی آسیہ بھی شاید جانتی تھی کہ کوئی احمقوں کی طرح اسے تکے جا رہا ہے ۔۔۔ اس لئے کچھ زیادہ ہی ہوش ربا ادائیں دکھارہی تھی ۔۔۔۔۔

شہیر بھائی !

وہ جو پھوپھو کے کہنے پر انہیں بلانے اوپر چھت پر آئی تھی ۔۔۔ انہیں یوں انہماک سے سامنے والے گھر میں جھانکتا دیکھ کر کوفت سی ہوئی تھی ۔۔۔۔ پھر پکارا تھا ان کا نام ۔۔۔۔ مگر شہیر میاں تو آسیہ کو تاڑنے میں مصروف تھے اس کی سریلی آواز کہاں سن پاتے ۔۔۔ جھنجھلا کر وہ ان کے قریب آئی تھی اور ان کی پشت کے پیچھے سے آسیہ کو دیکھا تھا ۔۔۔۔ آسیہ اسے ایک آنکھ نہیں بھاتی تھی ۔۔۔۔ عجیب چچوری سی تھی ۔۔۔۔ الٹرا مارڈرن اور ذرا بے باک سی فلرٹی ٹائیپ ۔۔۔۔۔ مگر اکلوتے ایک کزن کی منظورِ نظر ۔۔۔۔

شہیرررررررر بھاآئییییی!

اب کے بہت زور دار بلکے پاٹ دار طریقے سے اس کا نام لیا تھا ۔۔۔۔ اور شہیر میاں جو بہت ضروری کام میں مصروف تھے ۔۔۔ اچھل ہی پڑے اپنی جگہ سے ۔۔۔۔

یہ کیا بدتمیزی ہے ۔۔۔۔ وہ ذرا تپے اور جھنجھلائے لہجے میں اس کی طرف مُڑے تھے ۔۔۔۔اور اسے خونخوار نظروں سے گھورا تھا ۔۔۔

پھوپھو بلا رہی ہیں آپ کو نیچے ۔۔۔ بل جمع کرانا ہے آخری تاریخ ہے آج اور آپ یہاں اپنے چچورے شوق میں لگے ہوئے ہیں ۔۔۔۔۔

وہ لگی لپٹی رکھے بغیر بولی تھی تو تلملا اٹھے ۔۔۔۔۔ مگر کچھ جواب دے کر اس منہ پھٹ کے منہ لگنے سے بہتر نیچے جانے میں عافیت جانی اور سیڑھیاں اتر گئے ۔۔۔۔۔


××××××××××××××××××××
اماں !

شہیر اتنی زور سے کیوں چلارہے ہو ۔۔۔۔۔ ذرا آہستہ بولو ۔۔۔۔۔

اماں نے گھرکا تھا انہیں تو شہیر میاں سلگ ہی اٹھے ۔۔۔۔

مجھے تو آپ ذرا سا زور سے بولنے پر ڈانٹ ڈپٹ کر رہی ہیں اور وہ آپکی چہیتی پھٹے ہوئے ڈھول کی طرح ہر وقت بجتے رہتی ہے اسے کچھ نہیں کہتیں ۔۔۔۔

ارے اتنا پیارا دھیما بولتی ہے عروسہ اور اسے پھٹے ہوئے ڈھول سے ملا رہے ہو۔۔۔۔

ہاں اماں وہ ہی ایک سگی ہے آپ کی ۔۔۔۔ میں تو پڑوسی کا بچہ ہوں نا ۔

وہ ذرا روٹھے روٹھے لہجے میں بولے تھے ۔۔ تو اماں مسکرا دیں ۔۔۔۔

تم تو میرے شہزادے بیٹے ہو جانِ اماں ہو ۔۔۔۔ تم دونوں میری آنکھ کا تارا ہو ۔۔۔

اگر کچھ اچھے الفاظ مجھ غریب کے لئے نکل ہی آتے ہیں تو ساتھ میں اس میسنی کی شراکت ضروری ہے کیا ۔۔۔

وہ تلملائے سے لہجے میں بولے تھے تو اماں نے انہیں گھورا تھا ۔۔۔۔

تم دونوں ہی میرے لئے برا بر ہو شہیر ۔۔۔۔ وہ بن ماں باپ کی بچی نے آخر تمہارا کیا بگاڑا ہے جو اس کے ہر وقت پیچھے پڑے رہتے ہو ۔۔۔۔

اچھا اب آپ ناراض نہ ہوں میں آپ کی چہیتی کو کچھ نہیں بولتا ۔۔۔۔

وہ ماں کے گلے میں بانہیں ڈالتے ذرا لاڈ سے بولے تھے ۔۔۔۔۔

اچھا چلو اب بجلی اور گیس کا بل جمع کرنا ہے آج آخری تاریخ ہے ۔۔۔ جلدی جاؤ گے تو رش کم ملے گا ورنہ ۔۔۔۔

اچھا اماں اور کچھ چاہئے بازار سے تو بتا دیں ۔۔۔۔

ہاں مجھے تو نہیں لیکن عروسہ سے پوچھتی ہوں ۔۔۔ ذرا رکو ۔۔۔

اماں مجھے دیر ہو رہی ہے ۔۔۔ اس سے کہیں خود لے کر آجائے ۔۔ میرے پاس اتنا فالتو وقت نہیں ہے ۔۔۔۔

عروسہ کا سن کر تھوڑے بدمزاہ ہوئے تھے اور جلدی سے اپنی بات مکمل کر کے باہر نکل گئے ۔۔۔۔ پیچھے اماں آوازیں دیتی رہ گئیں ۔۔۔ عروسہ ان کے ماموں کی اکلوتی بیٹی تھی ۔۔ پانچ سال کی عمر سے ہی اسے اپنے گھر دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ انہیں اس سے پہلے کبھی بری نہیں لگی تھی ۔۔۔۔ مگر جب ماموں اور مامی کار ایکسیڈنٹ میں جاں بحق ہوگئے تو عروسہ جو اس دن دو تین گھنٹے کے لئے رہنے آئی تھی فقط ہمیشہ کے لئے انہی کے گھر ڈیرا ڈال لیا ۔۔۔۔ پہلے پہل تو اتنی بری نہیں لگتی تھی انہیں ۔۔۔ وہ اس وقت آٹھ سال کے تھے اور عروسہ پانچ سال کی ۔۔۔ وہ اس کی دل جوئی کی بھی کوشش کرتے رہتے تھے ۔۔۔ مگر وقت کے ساتھ ساتھ وہ سانولی سلونی گڑیا انہیں ڈائین لگنے لگی اور ایک عجب سی چڑ اور بغض نے دل میں جنم لیا تھا ۔۔۔۔ وہ اسے اماں ابا کی محبت میں شریک سمجھنے لگے تھے بلکے ان کا خیال تھا کے ابا بھی عروسہ کو ان سے زیادہ چاہتے ہیں ۔۔۔۔ اس لئے اور بھی اس کے خلاف ہوگئے ۔۔۔ وہ سرخ و سفید رنگت کے مالک تھے ۔۔۔ نقوش بھی اچھے پائے تھے ۔۔۔ ان کی بڑی بڑی بھوری آنکھیں کسی کو بھی اپنے سحر میں جکڑ سکتی تھیں ۔۔۔ اور انہیں اپنی وجاہت کا احساس بھی بہت اچھی طرح سے تھا ۔۔۔۔۔ اور لڑکیوں سے فلرٹ بھی کرنا اپنا قومی فریضہ سمجھ کر کرتے تھے ۔۔۔۔ سی اے کیا ہوا تھا اور مزید سرٹفائیڈ کورسز بھی کر رہے تھے ۔۔۔ لیکن جاب لیس تھے ۔۔۔۔ اور ان کے چڑ چڑے پن کی ایک بنیادی وجہ نوکری کا نہ ملنا بھی تھا ۔۔۔۔ ان کے بر خلاف عروسہ دھیمے مزاج کی قدرے سانولی رنگت اور کھڑے نقوش کی مالک تھی ۔۔۔۔ اماں نے شرافت گھٹی میں گھول کر پلادی تھی اسے ۔۔۔۔ انٹر کے بعد عروسہ نے جب دیکھا کے پھو پھو کی طبعیت اب ویسی نہیں رہتی ۔۔۔ جوڑوں کے درد اور ڈائیبٹیس کی وجہ سے وہ جلدتھک جاتی ہیں تو تعلیم کو خیر باد کہہ دیا ۔۔۔۔ اور گھر کی ساری ذمہ داری اپنے ناتواں کاندھوں پر اُٹھا لی ۔۔۔۔ وہ اپنے بیٹی ہونے کا حق ادا کر رہی تھی ۔۔۔۔ ہاں اگر گھر میں کسی سے ٹھنی رہتی تھی تو شہیر سے ۔۔۔۔ چھتیس کا آنکڑا تھا دونوں کے درمیان ۔۔۔ کوئی محاذ سے پیچھے ہٹنے کو تیار ہی نہیں تھا ۔۔۔۔

×××××××××××××××××××

انڈیا اور پاکستان کا میچ چل رہا تھا ۔۔۔۔ چپس کا پیکٹ ہاتھ میں لئے صوفے پر بیٹھے ٹی وی پر نظریں گاڑے وہ دنیا مافیہا سے پوری طرح لاتعلقی کا ثبوت دے رہے تھے ۔۔۔ جب ہی وہ اس وقت چھوٹے سے لاؤنج میں داخل ہوئی تھی ایک ہاتھ میں جھاڑو اور دوسرے میں گرد جھاڑنے والی جھاڑن (کپڑا) پکڑے ۔۔۔ پہلے تو انہیں لاؤنج میں دیکھ کر ٹھٹکی تھی ۔۔۔ مگر پھر کندھے اچکا کر جھاڑو دینے لگی ۔۔۔۔

ارے یہ کیا بد تمیزی ہے ۔۔۔۔۔

ان کے جھنجھلاہٹ بھرے لہجے پر نظر اُٹھا کر دیکھا تھا انہیں ۔۔۔۔ اور پھر اپنے کام میں جُٹ گئی ۔۔۔۔

کیا بہری ہوگئی ہو۔۔۔ سنائی نہیں دے رہا میں کیا کہہ رہا ہوں ۔۔۔۔

اب کہ قدرے غصے سے زمیں پر چپس کا پیکٹ پھیکا تھا ۔۔۔۔

جی سن بھی لیا اور آپ کے دانتوں کا کچکچانا بھی دیکھ لیا ۔۔۔۔ آپ دیکھ نہیں رہے میں کام کر رہی ہوں ۔۔۔۔

کام کی بچی تم دیکھ نہیں رہی میچ چل رہا ہے اور تمہاری کھٹر پھٹر سے میں ڈسٹرب ہو رہا ہوں ۔۔۔۔

شوق سے دیکھئے سڑے منہ کا میچ ۔۔۔ کس نے روکا ہے آپ کو ۔۔۔

وہ منہ بنا کر بولی تھی ان کی بات پر تو انکو تو پتنگے ہی لگ گئے ۔۔۔۔

اے منہ سنبھال کر بات کرو ۔۔۔۔ کلن کہیں کی ۔۔۔۔ شکل دیکھی ہے تم نے اپنی ۔۔۔۔۔۔

جی دیکھی ہے روز دیکھتی ہوں ۔۔۔ آپ کی طرح سفید آٹے کی بوری نہیں ہوں ۔۔۔۔ کبھی خود کی شکل ملاحظہ کی ہے آئینے میں ۔۔۔۔

وہ اُلٹا ان پر چوٹ چل گئی تو آگ ہی لگ گئی انہیں اس کی بات سن کر ۔۔۔۔

تمہاری تو ۔۔۔۔۔

یہ کیا ہورہا ہے یہاں ۔۔۔۔۔

اماں کی آواز پر اسے کچھ اور سخت سناتے سناتے رہ گئے اور میچ ادھورا چھوڑ کر لاؤنج سے ہی نکل گئے ۔۔۔۔

پھر کچھ اس نے الٹا سیدھا بولا ہے نا تمہیں ۔۔۔۔

پھوپھو نے پوچھا تھا اس سے ۔۔۔پھو پھو کی بات پر وہ انہیں رندھی شکل کے ساتھ دیکھے گئی بولی کچھ نہیں ۔۔۔۔۔ اس نے لڑائی میں کبھی پہل نہیں کی تھی ہمیشہ تند و تیز جملے شہیر کی زبان سے ہی اس کے خلاف نکلتے تھے ۔۔۔ کبھی کلن کہتے تو کبھی بلائے جان ۔۔۔ چڑیل وغیرہ ۔۔۔۔۔ وہ تو صرف جواب دیتی تھی ان کی باتوں کا ۔۔۔۔۔ ان کی باتیں اس کا دل دکھاتی تھیں ۔۔۔۔ مگر اوپر سے وہ سپاٹ انداز اپنائے رکھتی ۔۔۔۔ جیسے اسے ان کی جلی کٹی باتوں کی کوئی پرواہ نہ ہو ۔۔۔۔۔

کوئی بات نہیں پھوپھو ۔۔۔ میں بھی تو انہیں جواب دے دیتی ہوں ۔۔۔ چپ تو میں بھی نہیں بیٹھتی ۔۔۔۔

وہ مسکراتے ہوئے بولی تھی ان کے پوچھنے پر ۔۔۔۔۔

مجھے تم دونوں کی سمجھ نہیں آتی بیٹا ۔۔۔۔ میں تو تم دونوں کے لئے بہت کچھ سوچ رکھا ہے مگر تم دونوں ۔۔۔۔۔

وہ ایک سرد آہ بھرتے ہوئے بولی تھیں ۔۔۔ اور بیچ میں بات ادھوری چھوڑ کر لاؤنج سے نکل گئیں ۔۔۔۔ وہ خاموش سی ہوگئی تھی ان کی بات سن کر وہ جانتی تھی پھو پھو کیا چاہتی ہیں ۔۔۔۔ مگر شہیر تو اس سے نفرت کرتے تھے ۔۔۔ اس سے دور بھاگتے تھے ۔۔۔ اور وہ ۔۔۔ وہ کیا چاہتی تھی ۔۔۔ بہت کچھ ان سے کہنا چاہتی تھی مگر تمام احساسات پر قفل ڈالے بیٹھی تھی ۔۔۔۔ اپنے جذبات ۔۔۔ اپنے احساسات کو خود سے بھی چھپائے ہوئے ۔۔۔۔۔ اگر شہیر کو پتا چل جاتا کہ وہ ان کے بارے میں کیا محسوسات رکھتی ہے تو اسے تضحیک کا نشانہ بنادیتے ۔۔۔۔ اور انہیں اسے ٹیز کرنے کا ایک نیا موقع ہاتھ آجاتا ۔۔۔۔ اس نے ان کی آنکھوں میں اپنے لئے نفرت ہی دیکھی تھی ۔۔۔۔ انہوں نے کبھی اس سے نرمی سے بات ہی نہیں کی تھی ۔۔۔۔۔ جتنا پھوپھو اور ابا اس سے پیار کرتے تھے اس کا خیال رکھتے تھے اتنا ہی وہ اس سے نفرت کا اظہار کرجاتے تھے ۔۔۔۔ پھر بھی وہ ان کے سارے کام کر کے رکھتی تھی ۔۔۔۔ اماں سے زیادہ اسے ان کی فکر رہتی تھی ۔۔۔۔ مگر شہیر کو یہ سب کچھ کبھی نظر ہی نہیں آتا تھا ۔۔۔۔ انہیں اگر نظر کچھ آتا تھا بھی تو اس کی وجہ سے اپنی خود ساختہ محرومی اور بس ۔۔۔۔

××××××××××××××××××××××××××

وہ غصے میں بھرے گھر سے نکلے تھے ۔۔۔ اور اپنے دوست جو اسی گلی میں رہتا تھا کے گھر پہنچے ۔۔۔۔ اس میسنی کی وجہ سے وہ انڈیا اور پاکستان کا یہ میچ کس طرح مِس کر سکتے تھے ۔۔۔۔ بہرحال حامد صاحب انہیں اس وقت اپنے گھر پر دیکھ کر تھوڑا حیران ہوئے تھے ۔۔۔۔

ارے شیری (شہیر) تم اس وقت ۔۔۔۔ میں کہیں خواب تو نہیں دیکھ رہا ۔۔۔۔

ہاں کیوں اس وقت میں نہیں آسکتا کیا ؟

شہزادے غصہ تو نہ کر ۔۔۔۔ ویسے ہم سب دوستوں کو تیرا پتا نہیں ہے کیا کہ تم کرکٹ مچز اکیلے انجوائے کرتے ہو ۔۔۔ ہم سب دوستوں کے ساتھ کہاں کبھی دیکھا ہے میچ تم نے یار ۔۔۔۔۔

ہاں نہیں دیکھا مگر اب دکھنا ہے ۔۔۔ اب باتیں ہی بگھارتے رہو گے یا پھر ۔۔۔۔

اوہ اچھا آج تو مزاہ آجائے گا سب یہیں میرے پاس جمع ہیں ۔۔۔۔ اور ہاں وہ رشید ٹڈا بھی دبئی سے آیا ہوا ہے ۔۔۔۔ کل ہی آیا ہے یار کیا کایا پلٹ ہوگئی ہے اس کی ۔۔۔۔

وہ اس کے گھر میں قدم رکھ چکے تھے ۔۔۔ رشید ٹڈے کا سن کر منہ بن گیا ۔۔۔ ان کا یہ دوست نہایت چھوڑو قسم کا تھا ۔۔۔۔ اور اب تو دبئی کے پھیرے بھی لگاتا رہتا تھا ۔۔۔۔ اب تو اس کی اتراہٹ میں کچھ زیادہ ہی اضافہ ہوگیا تھا ۔۔

ویسے یہ تو بتاؤ بھائی تمہارا بوتھا کیوں سوجا ہوا ہے ۔۔۔۔

ایک کالی بلی راستہ کاٹ گئی تھی یار ۔۔۔۔۔ صبح سے ہر کام غلط ہو رہا ہے میرا ۔۔۔۔

اوہ بھائی تم کب سے شگن بدشگنی کے چکر میں پڑ گئے بھائی ۔۔۔۔

جب سے ایک کالی بلی گھر میں آگئی ہے تب سے ۔۔۔۔۔

ہیں اوہ سمجھ گیا ۔۔۔۔ تم کس کی بات کر رہے ہو ۔۔۔۔۔

وہ اتنا کہہ کر خاموش ہوگیا تھا ۔۔۔۔۔ بچپن کا دوست تھا جانتا تھا وہ اپنی کزن سے کتنی نفرت کرتے تھے ۔۔۔۔ اور جب بھی اس کی وجہ سے گھر میں ابا سے ڈانٹ پڑتی تو اسی سے آکر اپنے دکھڑے روتے تھے ۔۔۔۔۔ ویسے اب عروسہ کا ذکر کرنا بند کردیا تھا ۔۔۔۔ جب سے سمجھ آگئی تھی کہ گھر کی خواتین کا ذکر یار دوستوں میں کرنا اچھی بات نہیں چاہے وہ ان کے دشمنوں میں سے ہی کیوں نہ ہو ۔۔۔ اور عروسہ سے چاہے جتنی بھی پرخاش وہ دل میں رکھتے تھے اسے اب یوں دوستوں کے سامنے ڈسکس کرنا اب بالکل ہی بند کردیا تھا ۔۔۔۔۔۔ سارا دن آج دوست کے پاس گزرا تھا پھر وہیں میچ بھی دیکھا اور رشید ٹڈے کے دبئی کے قصے بھی بے دلی سے سنتے رہے ۔۔۔۔۔

باقی آئندہ ۔۔۔۔۔
farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 230450 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More