تعلیمی ادارے اور منشیات؟

 تعلیمی اداروں میں سیگریٹ نوشی اور منشیات کے استعمال کی خبر کسی دہشت گردی سے کم نہیں۔ ایوانِ بالا کی قائمہ کمیٹی برائے ’نیشنل ہیلتھ سروسز‘ کے اجلاس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ اسلام آباد سمیت پانچ بڑے شہروں کے تعلیمی اداروں میں تمباکونوشی اور منشیات کا استعمال عام ہے۔ بتایا گیا ہے کہ 9.2فیصد طلبہ اور 4.1فیصد طالبات تمباکو نوشی اور منشیات کے عادی ہو چکے ہیں۔ اب یہ معاملہ کالجوں سے ہوتا ہوا سکولوں تک پہنچ گیا ہے، جن میں اسلام آباد کے تین ماڈل کالج اور تین ماڈل سکول بھی ملوث پائے گئے ہیں۔ کمیٹی کے اجلاس میں اس صورت حال کو تشویش ناک قرار دیتے ہوئے پریشانی کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس عمل سے نوجوان نسل کا مستقبل تباہ اور ملک خراب ہو جائے گا۔ اگلے اجلاس میں تعلیمی اداروں میں منشیات کے خلاف اقدامات کی تفصیل بھی طلب کی گئی ہے۔ اس سے یقینا بہت سے گھروں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ کمیٹی کو یہ بھی بتایا گیا کہ اسلام آباد کے ایک بڑے تعلیمی ادارے میں انسدادِ منشیات فورس کی کارروائی سے منشیات کا صفایا ہوگیا ہے۔ اگلے اجلاس میں چیف کمشنر اسلام آباد اور نارکو ٹکس حکام کو بھی طلب کیا گیا ہے۔ کمیٹی نے پیمرا کو ہدایت کی ہے کہ وہ اشتہارات کی مد میں دس فیصد اشتہارات تمباکو نوشی کے خلاف استعمال کرے۔

اسلام آباد سے نمودار ہو نے والی اس خبر سے یقینا پورے معاشرے میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے، ہر کوئی اپنی اولاد کے بارے میں فکر مند ہوگیا ہے ۔ نوعمری میں تمباکو نوشی کا مرض عام بچے کو لاحق نہیں ہوتا، بلکہ یہ بیماری امیر اور دولت مند بچوں کو لگتی ہے۔ وہ خود کو کوئی مافوق الفطرت چیز سمجھتے ہوئے سیگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں، یہ نوجوانوں میں نہایت تیزی سے پھیلتا ہوا ایک فیشن بھی ہے اور اپنے تئیں ایک زعم بھی کہ انسان خود کو ہیرو تصور کرتا ہے، ظاہر ہے غلط فہمیوں کی عمر نوجوانی کی ہی ہوتی ہے۔ سیگریٹ پیتے پیتے اور بھی بہت کچھ پینے کے لئے میسر آجاتا ہے، یوں انسان بھٹک کے رہ جاتا ہے۔ ایک وقت آتا ہے کہ وہ اس بیماری سے جان چھڑوانا چاہتا ہے، مگر بیماری اس کی جان نہیں چھوڑتی۔ جب کوئی نشہ کا عادی ہو جاتا ہے، تو وہ مستقل مریض بن جاتا ہے، اس کو باقاعدہ علاج وغیرہ کے ذریعے ہی اس دلدل سے نکالا جاسکتا ہے۔ دوسری طرف نوجوانوں میں وہ بچے تمباکو نوشی کے عادی ہوتے ہیں، جو بالکل غریب ہوتے ہیں، وہ سکول نہیں جاتے، گلیوں میں شاپر چُنتے ہیں، یا آوارہ گردی کرتے ہیں، بعد میں یہی بچے عادی نشئیوں کی صورت میں گلیوں کے کونے میں پڑے ہوتے ہیں۔ بد قسمتی سے اب عام نوجوانوں کا رجحان بھی سیگریٹ نوشی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ گیارہ بارہ بجے کسی بھی چوک کی دکان کے باہر پندرہ سولہ سال کی عمر کے بچے سکول کالج سے چھٹی کرکے سیگریٹ نوشی سے ’لطف اندوز‘ ہورہے ہوتے ہیں۔

نوجوانوں میں سیگریٹ نوشی کا رجحان یقینا تشویشناک ہے،گھر سے معاشرے تک اس معاملے کو سنبھالنے کی حکمت عملی تیار ہونی چاہیے، مگر یہ کام جب سکولوں اور کالجوں میں ہونے لگے تو پھر یہ قومی مسئلہ بن جاتا ہے، بات حکومتوں اور بااختیار طبقات تک پہنچ جاتی ہے۔ یہ بات تو مقتدر طبقے بھی خوب جانتے ہیں ، سینٹ کی کمیٹی کو بھی علم ہے اور پیمرا بھی باخبر ہے کہ تمباکو نوشی کے خلاف اشتہارات سے سیگریٹ نوشی کے رجحان میں کمی واقع نہیں ہوتی، اگر ایسا ہوتا تو سیگریٹ کے پیکٹ پر بنی بیماریوں کی کراہت آمیز تصاویر سے ہی لوگ سیگریٹ نوشی چھوڑ دیتے، مگر ایسا نہیں ہوا۔ جب نوجوان اپنے ارد گرد بے شمار لوگوں کو سیگریٹ پیتے دیکھتے ہیں، ان کے گھر میں ان کے بڑے یہ کام نہایت یکسوئی اور خشوع سے کرتے ہیں تو وہ یہ کام کیوں نہ کریں؟ اپنے ہاں اس سلسلہ میں قانون موجود ہے، اور روایتی طور پر جس طرح کسی بھی قانون پر عمل کرنے سے ہم لوگ کتراتے ہیں، اسی طرح سیگریٹ پبلک کے مقامات پر پینے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا، کوئی روکنے والا نہیں ہوتا۔ کم سے کم نوجوانوں میں سیگریٹ نوشی روکنے کے لئے دکان دار پر پابندی لگائی جاسکتی ہے کہ وہ بیس برس سے کم عمر کے کسی نوجوان کو سیگریٹ فروخت نہ کریں۔ تعلیمی اداروں کے سربراہوں کو بھی اپنے اداروں کی سخت نگرانی اور کنٹرول کی ضرورت ہے، حکومت اس سلسلے میں جنگی اور ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے، ورنہ ہمارا مستقبل دھوئیں سے سیاہ اور نشے سے مفلوج ہو کر رہ جائے گا۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473417 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.