کیا مسجدوں کے امام اس معاشرے کا حصہ نہیں ہیں؟

کسی کا جنازہ پڑھانا ہو ، مولوی صاحب کو بلاؤ ،قرآن خوانی کرانی ہو،مولوی صاحب کو بلاؤ ، کسی نومولود بچے کے کان میں اذان دینی ہے مولوی صاحب کو بلاؤ۔کسی کا نکاح پڑھوانا ہے تو مولوی صاحب کو بلا ؤ ۔ہم مولوی صاحب کی عزت تو بہت کرتے ہیں لیکن تنخواہ اتنی نہیں دیتے ،جس سے وہ معاشرے میں باوقار طریقے سے زندہ رہ سکیں ، اپنا اور اپنے بیوی بچوں کا پیٹ بھر سکیں، بیماری کی صورت میں کسی اچھے ہسپتال میں علاج کروا سکیں ،کسی معیاری تعلیمی ادارے میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکیں ۔یہی وجہ ہے کہ مولوی صاحب کے بچے مولوی تو بن سکتے ہیں ، انجینئر ، سائنس دان ، سرکاری افسر، آرمی چیف، وزیر اعظم بننا ان کے مقدر میں نہیں ہوتا۔میں جس مسجد( اﷲ کی رحمت) میں نماز اداکرتا ہوں ، اس مسجدکے امام( قاری محمداقبال عارف)بہت نفیس انسان، اعلی پائے کے عالم دین ، بہترین مقرر، حافظ قرآن اور قاری بھی ہیں۔ وہ باکمال اور بے د اغ کردار کے حامل نیک سیرت انسان ہیں۔وہ انسانوں کی شکل میں فرشتے ہیں۔ وہ امام، خطیب، موذن اورمسجد کے خدمت گار بھی ہیں ۔ ان اہم ترین ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے والے صاحب علم و دانش شخص کو امامت کے فرائض انجام دینے پر صرف 13 ہزار تنخواہ ملتی ہے۔ اس سے زیادہ تنخواہ تو حکومت نے مزدور کی مقرر کررکھی ہے۔بلکہ ڈرائیور 20 ہزار سے زائد تنخواہ وصول کرتے ہیں جن کے لیے تعلیم کی کوئی قید نہیں ۔کیا ہمارا معاشر ہ اپنے امام کو ایک مزدور سے بھی کمتر تصور کرتا ہے ۔ امام کے مصلے پر صرف وہی شخص کھڑا ہوسکتا ہے جو شخص نبی کریم ﷺ جیسی صفات کا حامل ہو ۔ دوسرے لفظوں میں سب سے بہترین شخص کو امام بنایا جاتاہے لیکن اس صاحب علم و دانش اوراعلی ترین شخص کو ہم کم ترین اور ان پڑھ افراد سے بھی کم تنخواہ دیتے ہیں۔یہاں یہ عر ض کرتا چلوں کہ خطیب اور امام بننے کے لیے بچپن سے جوانی تک دینی مدرسوں کے تنگ و تاریک حجروں اور ٹھنڈے فرش پر پھٹی پرانی دریوں اور گرمیوں میں بغیر پنکھوں کے زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ انتہائی نامساعد حالات میں عربی ، فارسی اور اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تیس سپاروں پر مشتمل قرآن پاک ، اس کی تفسیر ، حدیث نبوی ﷺ ، فقہ ، تجوید جیسے مشکل مضامین کو بھی ازبر کرنا پڑتا ہے ۔امام مسجد اور عالم دین بننا آسان نہیں کہ ہر کوئی بن جائے ۔اگر امام صاحبان کا تقابل سرکاری سکولوں کے اساتذہ کرام سے کریں تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں ۔ امام کی نسبت سکول ٹیچر بننا نہایت آسان ہے لیکن ٹیچر کی تنخواہ امام مسجد یا دینی مدرسے کے استاد سے پانچ گنازیادہ ہے ۔ اس وقت بھی ایک عام ٹیچر کی تنخواہ 50 سے 70 ہزار روپے تک ہے۔جبکہ امام صاحب اور دینی مدرسے کے سینئر ترین استاد کو بمشکل آٹھ سے بارہ ہزار روپے ہی بطور تنخواہ ملتے ہیں۔ ٹیچر کو ریٹائرمنٹ کے بعد تاحیات تنخواہ کا 75 فیصد پنشن ملتی ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت بھی۔ لیکن امام صاحب اگربوڑھے ہوجائیں یا کسی بیماری کی وجہ سے معذورہوکر امامت کے قابل نہ رہیں تو انہیں اپنااور بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے بھیک مانگنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے ۔خدانخواستہ اگر موت واقع ہوجائے تو حکومت سمیت کوئی ادارہ ان کے بیوی بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے کو تیار نہیں ہوتا گویا دینی مدرسوں کے اساتذہ ہوں یا امام مسجد ہر جگہ معاشرے اور حکومت کے بے رحمانہ رویے کا شکار رہتے ہیں۔ حکومت اگر کسی کو انسان سمجھتی ہے تو صرف سرکاری ملازمین کو۔جو کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں اور کام کرنے کی رشوت مانگتے ہیں۔ خطیب حضرات ہوں یاپرائیویٹ اداروں کے ملازمین کسی کے نصیب میں نہ تو اچھی تنخواہ ہے اور نہ ہی پنشن اور علاج کی سہولت ۔گویا سرکاری ملازمت ملتے ہی انسان دنیا میں رہتے ہوئے جنت میں داخل ہوجاتاہے۔ کیا خطیب حضرات اور دینی مدرسوں کے اساتذہ کے بیوی بچے نہیں ہوتے ،کیا ان کی خواہش نہیں ہوتی کہ رہنے کے لیے ایک خوبصورت گھر ہو ۔ کیا ان کا دل نہیں چاہتا کہ انکے بچے بھی اعلی تعلیم حاصل کرکے انجینئر ، ڈاکٹر اور جرنیل بنیں۔یہ کہنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں ہوتی کہ جو لوگ دین کی خدمت اور اسلام کی تبلیغ کا راستہ اختیار کرتے ہیں وہ سراسرخسارے کا سودا کرتے ہیں ۔اگر و ہ مولوی بننے کی بجائے پراپرٹی ڈیلر ہی بن جائیں تو ان کے پاس بھی بہترین کوٹھی بنگلے ، تین تین بیویاں اور لینڈ کروز بھی آسکتی ہے ۔ دوسرے لفظوں میں دین کی تبلیغ اور ترویج کا راستہ اختیار کرنا ہی ان کا حقیقی جرم بنادیاگیا ہے؟ ۔ کیا ان کی جائز ضرورتیں ، خواہشات کو پورا کرناحکومت اور معاشرے کا فرض نہیں ۔ کیا حجروں کی شکل میں اندھیری اور تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں زندگی بسرکرنا ہی ان کا اور ان کے بچوں کا مقد ر بنادیاگیاہے ، کیا ان کا اور ان کے بچوں کا دل نہیں چاہتا کہ وہ دوسروں کی طرح وہ بھی موسمی پھل کھائیں ،اچھے کپڑے پہنیں ، انہیں فقیروں کی طرح لوگوں کے خیراتی ٹکڑوں پر پالنے کے لیے کیوں چھوڑ دیاجاتا ہے ۔کیا انہیں اپنی امامت بچانے کے لیے معاشرے کے ہر فرد کا غلام نہیں بننا پڑتا ۔افسوس تو اس بات کا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ ان کو تو آسمان سے ہی حضرت موسی علیہ السلام کی قوم کی طرح من و سلوی اترتا ہوگا جبکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔انگریزوں نے دانستہ امام مسجد کی تنخواہ خاکروب کے برابر مقرر کرکے اسلام سے اپنی نفرت کااظہار کیا تھا ،انگریز تو چلے گئے لیکن اب بھی ہم بحیثیت مسلمان اپنے امام کو ان کا حقیقی مقام دینے کو تیار نہیں۔ میں سمجھتا ہوں امام ہو یا خطیب ، حافظ قرآن ہو یا دینی مدرسوں کے استاد ۔ انہیں کم ازکم سرکاری ٹیچر کے برابر پندرھویں اور سترھویں گریڈ کے برابر تنخواہ اورپنشن کی سہولت ضرور فراہم کی جائے تاکہ ان کو بھی معاشرے میں باوقار طریقے سے زندہ رہنے کا حق مل سکے۔سعودی عرب اور ایران کی طرح مسجدیں اور مدارس محکمہ اوقاف اپنی تحویل میں لے کر آئمہ کرام اور اساتذہ کرام کی سنیارٹی لسٹ تیار کرے اور تعلیمی اہلیت کے مطابق سرکاری ملازمین ڈیکلر کرکے انہیں ہر وہ سہولت فراہم کی جائے جو سرکاری ملازمین کو دوران ملازمت یا ریٹائرمنٹ کے بعد دی جاتی ہے ۔ 13 ہزار روپے میں امام ،نائب امام ، موذن ، خادم ، قاری اور حافظ قرآن کے فرائض انجام دینے والے شخص کی زندگی کیسے ہوگی۔ یقینااس کا اندازہ ہر شخص کر سکتا ہے۔ عظیم ہیں وہ لوگ جوپھر بھی صبر و شاکر ہوکر دین اسلام کی خدمت میں مصردف عمل ہیں ۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 802 Articles with 784991 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.