جج کے گھر میں کمسن ملازمہ پر تشدد……قانون کہاں ہے؟

اسلام آباد میں قانون کے رکھوالے کے گھر میں دس سالہ بچی پر تشدد کر کے جس طرح قانون و انسانیت کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں، وہ انتہائی باعث شرم ہے۔ کمسن ملازمہ طیبہ کے جسم پر زخموں کے نشان، ماتھے سے لے کر گردن تک جمی ہوئی خون کی لکیر اور سوجی ہوئی آنکھ اس بات کی شاہد ہے کہ بچی پر بے انتہا تشدد کیا گیا، جس کی تصدیق میڈیا رپورٹس سے بھی ہوتی ہیں، جن کے مطابق کمسن ملازمہ طیبہ کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ جج صاحب کے پڑوسیوں نے بچی کی حالت زار دیکھ کر وزارت برائے انسانی حقوق کے کرائسس سینٹر کو شکایت بھیجی، جس پر کرائسس سینٹر کی ٹیم نے تحقیقات کی غرض سے جج کے خاندان سے رابطہ کیا۔ ابتدا میں یہی بتایا گیا کہ طیّبہ صبح کچرا پھینکنے گھر سے نکلی تھی اور اب تک غائب ہے۔ دلچسپ بات یہ کہ دوسرے دن بچی اسی گھر بازیاب ہوئی۔ گو کہ جج صاحب کی بیگم نے تسلیم کیا کہ بچی ان کے گھر میں ملازم ہے، لیکن وہ کہاں سے آئی، اس کے ماں باپ کہاں ہیں، کوئی سرپرست ہے یا نہیں، اس حوالے سے ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، نہ ہی خاتون بچی کے جسم پر موجود مار پیٹ کے نشانات پر کسی قسم کی اطمینان بخش وضاحت پیش کر سکیں۔ اسلام آباد پولیس نے ایڈیشنل سیشن جج راجا خرم علی خان کے گھر سے دس سالہ طیبہ کو برآمد کیا تو اس کے چہرے اور ہاتھ پر زخم کے نشانات نمایاں تھے۔ ڈری سہمی بچی نے پولیس کو سیڑھیوں سے گرنے اور گرم چائے سے ہاتھ جلنے کا ابتدائی بیان دیا، مگر مجسٹریٹ کے سامنے بیان میں اپنے اوپر تشدد اور ظلم کی داستان بیان کر دی۔ پمز ہسپتال کے میڈیکو لیگل افسر نے انکشاف کیا کہ بچی کا طبی معائنہ کیا گیا، جس میں ثابت ہوا کہ ملازمہ کے ہاتھ، ناک، ماتھے اور آنکھ پر زخم آئے ہیں، جبکہ طیبہ کے ہاتھ پر جلنے کے نشانات بھی تازہ ہیں۔رپورٹ جاری ہونے کے بعد اسلام آباد کے ایڈیشنل سیشن جج اور ان کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ بھی درج کرلیا گیا، لیکن پھر معاملے نے اس وقت ڈرامائی صورت اختیار کرلی، جب یہ اطلاعات آئیں کہ تشدد کا شکار ہونے والی کمسن ملازمہ کے مبینہ والد نے ایڈیشنل جج اور اس کی اہلیہ سے راضی نامہ کرکے کیس واپس لے لیا۔ ملازمہ طیبہ کے مبینہ والد کا کہنا تھا کہ کسی بھی دباؤ کے بغیر راضی نامہ ہوا ہے اور ہم نے جج کو معاف کردیا اور راضی نامہ لکھ کر عدالت میں جمع کرادیا۔ گھریلو ملازمہ پر مبینہ تشدد کے معاملے میں بچی کے مبینہ والدین کی طرف سے بیان حلفی جمع ہونے کی دیر تھی کہ ایک عدالت نے جج کی اہلیہ کی ضمانت منظورکرلی اور دوسری نے بچی والدین کے حوالے کردی۔ راضی نامے کی تصدیق نہ کرائی گئی۔ پھر اس واقعہ میں ایک بار پھر نیا موڑ آیا۔بچی کا والد اچانک جڑانوالہ میں اپنے گھر سے غائب ہو گیا، جو کہتا تھا کہ اس کے پاس اسلام آباد آنے کا کرایہ نہیں، وہ نہ صرف اسلام آباد آ پہنچا، بلکہ بچی حوالگی کے لیے وکیل بھی کر لیا۔ ایک موڑ اور اس وقت آیا جب بچی کے باپ نے اپنی لخت جگرسے ملے بغیر اور یہ جانے بغیر کہ اس کے ساتھ کیا بیتی، جج صاحب اور ان کی اہلیہ سے ’’بغیردباؤ‘‘ راضی نامہ کر لیا۔ بچی کے مبینہ والد نے کہا کہ مقدمہ جھوٹے واقعات پر درج ہوا، تحقیق کرلی ہے، جج صاحب کو فی سبیل اﷲ معاف کرتا ہوں، لیکن اسلام آباد میں جج کی اہلیہ کے ہاتھوں کمسن ملازمہ پر مبینہ تشدد کیس نے ایک اور نیا موڑ لے لیا اور اب کمالیہ کی خاتون نے طیبہ کی والدہ ہونے کا دعویٰ کردیا ہے۔ کوثر بی بی کا کہنا ہے کہ طیبہ کا اصل نام ثنا ہے، جسے فیصل آباد سے سات سال کی عمر میں اغوا کیا گیا تھا۔ بچی کے والدین پر اثرو رسوخ استعمال کر کے معافی نامہ تو لے لیا گیا، لیکن یہ بات تو واضح ہے کہ تشدد ہوا ہے اور بعد میں راضی نامہ ہوا۔ اس کہانی میں ایک موڑ اور بھی آیا، بیان حلفی جمع ہونے کی دیر تھی کہ ایک عدالت سے جج کی اہلیہ ماہین ظفر کی 30 ہزار روپے کے مچلکوں پر ضمانت منظور کر لی گئی، جبکہ دوسری عدالت نے کرائسز سینٹر سے بچی کوطلب کر کے والدین کے حوالے کردیا۔ پولیس سے تفتیش میں پیش رفت کا پوچھا نہ دوران سماعت ملزم کو کھلی عدالت میں طلب کر کے راضی نامہ کی تصدیق کرائی، جو ایف آئی آر درج کی گئی وہ ناقص تھی۔ دس سال کی بچی سے اگر گھریلو مشقت لی جا رہی ہے تو چائلڈ لیبر کی خلاف ورزی کی دفعات شامل کیوں نہ کی گئیں؟

چیف جسٹس پاکستان جسٹس ثاقب نثار نے وفاقی دارالحکومت میں ایڈیشنل سیشن جج کے گھر کام کرنے والی کمسن ملازمہ پر تشدد کے واقعے کا از خود نوٹس لیتے ہوئے بچی پر تشدد اور فریقین کے درمیان طے پانے والے معاہدے پر رجسٹرار اسلام آباد ہائی کورٹ کو 24 گھنٹے میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے یہ نوٹس ان خبروں پر لیا جن میں کہا گیا تھا کہ کمسن ملازمہ طیبہ کو بہیمانہ تشدد کا نشانہ بنایا گیا، تاہم مذکورہ جج کی اہلیہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کے بعد مبینہ طور پر دباؤ کے باعث بچی کے والد کو صلح پر مجبور کیا گیا۔ یہ عمومی رویہ معاشرے کی رگوں میں سرائیت کرچکا ہے، جہاں بااثر افراد کی جانب سے مجبور و لاچار لوگوں پر غیر انسانی تشدد یہاں تک کہ جان سے مار دینے کے واقعات پیش آتے ہیں، لیکن قانون تک رسائی کے پیچ و خم میں الجھ کر ان لاچاروں کی کہیں شنوائی نہیں ہو پاتی، عموماً تو ایسے واقعات کی تھانے میں رپورٹ ہی درج نہیں ہو پاتی اور اگر میڈیا میں رپورٹ آنے یا مختلف این جی اوز کے معاملے میں پڑنے کے بعد تھانے میں رپورٹ درج ہو بھی جائے تو بااثر افراد دھونس دھمکیوں کے ذریعے متاثرہ خاندان کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کردیتے ہیں۔ اس واقعہ نے ایک اور نیا موڑ لیا ہے کہ جوڈیشل افسر راجا خرم علی خان کے گھر میں تشدد کا نشانہ بننے والی کمسن طیبہ اور اس کے والدین اچانک لاپتہ ہو گئے۔ سپریم کورٹ کے نوٹس لینے کے بعد چائلڈ پروٹیکیشن بیورو کی ٹیم تشدد کا نشانہ بننے والی بچی طیبہ کے گھر پہنچی۔جب چائلڈ پروٹیکشن بیورو کی ٹیم جڑاں والہ پہنچے تو انہیں بتا یا گیا کہ طیبہ اور اس کے والدین اسلام آباد سے تاحال گھر نہیں پہنچے ہیں۔طیبہ کے دادا نے بتا یا کہ بچی اور والدین سے کوئی رابطہ نہیں ہے اور وہ کہاں ہیں، اس بارے میں بھی پتہ نہیں ہے۔چائلڈ پروٹیکشن بیورو کے ڈسٹرکٹ افسرمحمد الفت نے کہا کہ معلومات ملی کے طیبہ اور اس کے والدین آبائی گاؤں آ چکے ہیں، جس کے بعد ہم ان کے گھر پہنچے، لیکن یہاں طیبہ اور اس کے والدین موجود ہی نہیں ہیں۔بچی کو جس خاتون نے کام پر رکھوایا تھا وہ بھی لاپتہ ہو گئی ہے۔

یہ واقعہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں، بااثر شخصیات کے گھروں میں گھریلو ملازمین خاص کر بچوں کے ساتھ غیر انسانی سلوک کی چھوٹی بڑی سرخیاں اخبارات کی زینت بنتی رہتی ہیں، لیکن اس حوالے سے کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھائے جاتے۔ پاکستان میں چائلڈ لیبر کا مسئلہ سنگین صورت اختیار کر چکا ہے اور اس کی سب سے بدترین قسم گھریلو مشقت ہے۔ پاکستان کے شہری علاقوں کی ایک بڑی آبادی خاص کر لاہور اور اسلام آباد میں گھریلو کاموں کے لیے بچوں کو ملازم رکھتی ہے، جن میں اکثریت لڑکیوں کی ہے۔ غربت کے مارے یہ بدنصیب بچے ان گھرانوں میں انسانیت سوز حالات کا سامنا کرتے ہیں جن میں ذہنی و جسمانی تشدد سے لے کر جنسی زیادتی تک شامل ہے، لیکن انہیں اس جہنم سے آزاد کروانے والا کوئی نہیں، ان کی سسکیاں اشرافیہ کی کوٹھیوں کی اونچی دیواروں کے پیچھے دفن ہوکر رہ جاتی ہیں۔ ملک میں چائلڈ لیبر کے حوالے سے کئی قوانین پاس تو کیے گئے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان متعدد بین الاقوامی کنونشنزمیں فریق بھی ہے، اس کے باوجود بچوں سے جبری مشقت میں کمی کی بجائے اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ چائلڈ لیبر سے متعلق قوانین موجود ہونے کے باوجود ان پر کہیں بھی عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آتا۔ اس پر ستم یہ کہ جو لوگ ان قوانین کی عملداری کے ذمہ دار ہیں وہی ان کی دھجیاں اڑاتے نظر آ رہے ہیں۔ کمسن طیّبہ کا تعلق پاکستان کے ان لاکھوں بدنصیب بچوں میں سے ہے، جن سے مشقت کروائی جاتی ہے اور غریب ہونے کی پاداش میں غیر انسانی سلوک کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ غریب خاندان اپنے قرضوں کی ادائیگی کے عوض یا گھر کا خرچہ چلانے کے لیے ان معصوم بچوں کو فیکٹریوں، کھیتوں یا متمول گھرانوں میں چھوڑ جاتے ہیں، جہاں اکثر و بیشتر مالکان ان کے ساتھ جانوروں سے بھی بدتر سلوک کرتے ہیں۔ مناسب صحت بخش ماحول، نشونما اور تحفظ سے محروم یہ بچے ہر طرح کی زیادتی کا سامنا کرتے ہیں، لیکن اپنے لیے آواز نہیں اٹھا پاتے۔ گھریلو ملازمین فراہم کرنے والے ایجنٹ بھی مزدور بچوں کو ایسی جگہ لے جاتے ہیں جس کا نہ بچے کو علم ہوتا ہے اور نہ ہی اس کے والدین کو۔ طویل عرصے کے بعد خود ہی ملوا دیا تو غنیمت۔ یہ اس لیے کہ بچہ کہیں چھٹی نہ مانگ لے اور والدین اس سے ملاقات نہ کریں۔ معاملہ صرف ایک طیبہ کا نہیں، بلکہ ان گنت واقعات کا تسلسل ہے۔ یہ تو چند واقعات میڈیا کے ذریعے عوام کے سامنے آجاتے ہیں، ورنہ ان مظلوموں کے ساتھ جو ہوتا ہے، خدا کی پناہ۔ ان کو زبانی، ذہنی، جسمانی اور جنسی تشدد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، ان کو بھوکا رکھا جاتا ہے، قید کردیا جاتا ہے، ان کی تنخواہ ہڑپ کرلی جاتی ہے اور ان کی عزت و آبرو کی پامالی بھی کی جاتی ہے، حتیٰ کہ ان کو قتل کرنے اور کتوں کے آگے پھینکنے کے متعدد واقعات بھی اس ملک میں پیش آچکے ہیں۔ یہاں اکثر غریب مزدور اور گھریلو ملازمین غلامی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ اس وقت ملک میں گھریلو ملازمین اور مزدوروں کی تعداد لاکھوں میں ہے، جنھیں صحت، اجرت اور اپنی ملازمت سے متعلق کوئی تحفظ مہیا نہیں اور بیشتر مواقع پر ان کے حقوق کو یکسر نظر انداز کیا جاتا ہے۔ آئی ایل او کی رپورٹ کے مطابق گھروں میں کام کرنے والے ملازمین کی تعداد کا 81 فیصد خواتین پر مشتمل ہے، صرف 3 فیصد کو ہفتے میں ایک چھٹی کی سہولت حاصل ہے، جب کہ باقی خواتین کو زچگی کے دوران بھی چھٹیاں یا کوئی مالی مراعات مہیا نہیں کی جاتیں۔ کم از کم ا تنا ہی ہو کہ مالکان ان کے کام اور وقت کی کچھ حدود ہی متعین کردیں تو بھی شاید ان بے چاروں کے حقوق کا کچھ تحفظ ہو جائے۔ مگر اتنا بھی نہیں ہوتا۔ نوعمر بچوں اور بچیوں سے سولہ سولہ گھنٹے کام لینے، تین وقت کا بچا ہوا کھانا اور تنخواہ کے نام پر قلیل رقم دینے کو بالکل جائز سمجھا جاتا ہے اور ذرا سی چوں چرا پر گالیوں اور تشدد سے نوازا جاتا ہے۔

پاکستان کو بنے 69 سال بیت چکے، ابھی تک نوعمر بچے اپنے بنیادی حقوق وتعلیمی حقوق سے محروم ہیں اور مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ آج تک کسی بھی حکومت نے ٹھوس بنیادوں پر کوئی حکمت عملی مرتب نہیں دی جس سے چائلڈ لیبر کو روکا جا سکے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت نے چائلڈ لیبر کے خاتمے کو منشور کا حصہ بنایا اور نہ ہی معاشرے کے کسی اور طبقے کی طرف سے اس جانب کوئی پیش رفت سامنے آئی ہو ، ایسا لگتا ہے کہ ہم نے بحیثیت مجموعی چائلڈ لیبر کو اپنے اوپر تسلیم کر لیا ہے، جو یقیناً اس معاشرے کے لیے ایک المیہ فکر ہے۔ قانون کے رکھوالے جج کے گھر میں ان ملکی اور عالمی قوانین کی دھجیاں بھی اڑا ئی گئیں جو کم عمر بچوں کے حقوق کے تحفظ کے امین ہیں۔ عمر کے دسویں سال ہی قلم کی جگہ ہاتھ میں جھاڑوتھما دی گئی،کتابوں کی بجائے گندے برتن کھنگالنے پڑے، آنگن صاف کرنے کے لیے ملا مگر کھیلنے کو نہیں، کمسن طیبہ کو اپنے حقوق کا تو کچھ علم نہیں، لیکن وہ یہ جانتی ہے کہ اس پہ ظلم کے پہاڑ کس نے توڑے۔ دس سالہ گھریلو ملازمہ طیبہ کے ہاتھ جلائے گئے، چائے کی گرم ڈوئی مار کے آنکھ زخمی کی گئی۔ آئین کے آرٹیکل 3،25 اور 37کے تحت مملکت پاکستان، استحصال کی تمام اقسام کا خاتمہ یقینی بنائے گی، پانچ سے 16 سال تک کی عمر کے بچوں لیے تعلیم لازمی ہو گی اور مفت بھی، انتظام ریاست کرے گی۔ ریاست یقینی بنائے گی کہ بچوں اور عورتوں سے ایسے کام نہ لیے جائیں، جو ان کی عمر یا جنس کے لیے مناسب نہ ہوں۔ اس کے علاوہ درجنوں ملکی و عالمی قوانین 14سال سے کم عمر بچوں سے مشقت لینے کی ممانعت اور خلاف ورزی کرنے والوں کی سزائیں تجویز کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا اعلیٰ عدالتیں، پارلیمنٹ، سیاسی جماعتیں یا سماجی تنظیمیں طیبہ کے حقوق کی پامالی پر حرکت میں آئیں گی؟
عابد محمود عزام
About the Author: عابد محمود عزام Read More Articles by عابد محمود عزام: 869 Articles with 630553 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.