دوسروں کا بھی احساس کیجیے!
(عابد محمود عزام, Lahore)
معلوم ہوتا ہے کہ دوسروں کے معاملات میں
بلا وجہ ٹانگ اڑانا بحیثیت مجموعی پاکستانی قوم کا محبوب ترین مشغلہ بن چکا
ہے۔ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جہاں ہم لوگ بلاوجہ اور بلاضرورت دوسروں
کے کاموں پر تنقید کرتے، اپنی رائے دیتے، دوسروں کی رائے کو مسترد کرتے، نت
نئے مشورے دیتے، ان مشوروں پر عمل درآمد کی تلقین کرتے اور دوسروں کی رائے
پر اپنی رائے مسلط کر کے دوسروں کے احساسات و جذبات کا خون کرتے نظر نہ آتے
ہوں۔ روزمرہ کے امور سے لے کر زندگی کے اہم فیصلوں تک کسی دوسرے کے معاملات
میں مداخلت کرنا شاید مجموعی طور پر ہماری عادت بن چکی ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ
ہر کوئی ہماری پسند کے مطابق اپنی شخصیت کو بنائے، قطع نظر اس سے کہ ان کے
احساسات و جذبات کیا ہیں اور انہیں کیا بات اچھی لگتی ہیں اور کیا بری لگتی
ہے، ہم مسلسل اپنی بات منوانے پر تلے رہتے ہیں۔
ہر شخص کے سینے میں ایک دل اور سر میں دماغ ہے، ہر شخص اپنے فیصلے اور اچھے
برے میں تمیز کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ہر انسان کے اپنے احساسات و جذبات
اور اپنی ترجیحات ہوتی ہیں، لیکن ہم ہر موقع پر ہمیشہ اپنی رائے کو دوسروں
پر مسلط کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ دنیا میں کوئی بھی شخص کسی
بھی شعبے میں کوئی بھی کام کررہا ہو، لیکن اس کو چاہیے کہ وہ ہم سے ضرور
پوچھے، جس طرح ہم چاہیں، اس طرح عمل کرے۔ اگر ہم کسی چیز کو ٹھیک نہیں
سمجھتے تو اسے ہرگز وہ کام نہیں کرنا چاہیے اور اگر ہم اس کے ٹھیک ہونے کی
تصدیق کردیں تو وہ کام کرنا فرض کا درجہ رکھتا ہے اور دوسروں کو تکلیف دینے
کے بعد ہم صرف یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ کوئی بات نہیں ، لیکن ہمیں
یہ احساس نہیں ہوتا کہ اگر ہمارے نزدیک کوئی بات نہیں تو یہ ضروری تو نہیں
کہ دوسرے کے نزدیک بھی کوئی بات نہ ہو، ممکن ہے دوسرے کے نزدیک بہت بڑی بات
ہو۔ جو چیز ہمارے نزدیک غیر اہم ہے، ضروری تو نہیں کہ وہ دوسرے کے نزدیک
بھی غیر اہم ہو۔ جس چیز کو ہم بالکل فضول سمجھ رہے ہیں، وہ دوسرے کے نزدیک
انتہائی زیادہ اہم بھی تو ہوسکتی ہے اور ہم اپنی جو رائے دوسرے پر مسلط
کرنا چاہتے ہیں، کیا معلوم وہ دوسرے کے نزدیک انتہائی زیادہ ناپسندیدہ ہو۔
ممکن ہے ہمارا مزاج، ہمارا ماحول، ہماری سوچ اور ہماری پسند، ناپسند اس شخص
سے بالکل مختلف ہو جس پر ہم اپنی رائے کو مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ ہم کسی بھی
بات کو دوسرے کے حالات اور مزاج کو سامنے رکھ کر نہیں سوچتے، بلکہ جو بات
ہمارے دماغ میں آگئی، اس پر عمل کروانا ہی ضروری سمجھتے ہیں۔ جب دوست آپس
میں ایک دوسرے کو کوئی کام کرنے پر مجبور کرتے ہیں تو اس دوران وہ یہ بالکل
بھول جاتے ہیں کہ جس کو ہم مجبور کر رہے ہیں، ممکن ہے ہمارے مجبور کرنے کی
وجہ سے اس کو فیملی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہو۔جب والدین اپنی
اولاد کو کسی بات کا حکم دیتے ہیں تو اس وقت وہ یہ بالکل بھی نہیں سوچتے کہ
اولاد کی عمر ، حالات اور ترجیحات کا تقاضا کیاہے۔ جب اولاد اپنے والدین کے
سخت رویے، ان کی ڈانٹ ڈپٹ پر تنقید کرتی ہے تو اس وقت وہ یہ بالکل نہیں سوچ
رہی ہوتی کہ والدین کی عمر اور مرتبے کا تقاضا اس سے بالکل مختلف ہے جو
اولاد اپنے دماغ میں سوچ رہی ہوتی ہے۔ والدین اولاد سے اپنی رائے پر عمل
درآمد کروانے پر بضد ہوتے ہیں، والدین کو اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ
اولاد کی بھی کچھ مجبوریاں ہوسکتی ہیں، اولاد کے بھی کچھ احساسات اور جذبات
ہوتے ہیں۔ اس کی بھی کچھ ترجیحات ہوتی ہیں، جن پر عمل کرنا اس کا حق ہے،
لیکن والدین سمجھتے ہیں کہ ہم چونکہ بڑے ہیں، اس لیے جو بات ہم نے کہی ہے،
صرف وہی ٹھیک ہے۔ بعض اوقات والدین اپنی انا اور ضد کے سامنے شکست کھا کر
اولاد کے احساسات اور جذبات کو اپنے پاؤں تلے روند دیتے ہیں۔ ہمارے معاشرے
میں لڑکیوں کے ساتھ عموماً رشتے کے معاملے میں ایسا ہوتا ہے۔ جہاں والدین
چاہتے ہیں رشتہ کردیتے ہیں، ان کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ اس رشتے سے
متعلق لڑکی کے احساسات و جذبات اور ترجیحات کیا ہیں اور اگر کسی طرح لڑکی
کی ترجیحات معلوم ہو بھی جائیں، تب بھی اس کی ترجیح کو کوئی اہمیت نہیں دی
جاتی۔ لڑکی والدین کی عزت کی خاطر ہاں تو کردیتی ہے، لیکن بعض اوقات اس کے
احساسات و جذبات ٹوٹ کر کر کرچی کرچی ہوجاتے ہیں، وہ کرچیاں زندگی بھر اسے
چبھتی رہتی ہیں، چبھن کی یہ تکلیف وہ اکیلی ہی برداشت کرتی ہے، کسی کے
سامنے اس چبھن کا اظہار بھی نہیں کرسکتی، لیکن والدین تو اپنے تئیں رشتہ کر
کے اپنا فرض ادا کرچکے ہوتے ہیں۔
میاں بیوی میں لڑائی جھگڑے بھی اکثر و بیشتر ایک دوسرے کے احساسات و جذبات
کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے ہوتے ہیں۔ شوہر حاکمیت کے نشے میں یہ بھول جاتا
ہے کہ بیوی کے بھی کچھ احساسات و جذبات ہیں، اس کو بھی اسی طرح تکلیف ہوتی
ہے جس طرح شوہر کو ہوتی ہے، جبکہ دوسری جانب بیوی انا کے خول میں بند ہوکر
شوہر کے مقام و مرتبے کو بھی روندنے لگ جاتی ہے، جس سے شوہر کا اشتعال میں
آنا فطری امر ہے۔ اس کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وہ شوہر کے احساسات و
جذبات کو پامال کر رہی ہے۔ جب نوبت دونوں کے درمیان یہاں تک آن پہنچے تو
معاملات لڑائی اور پھر طلاق تک جاپہنچتے ہیں۔ احساس کتنی بڑی دولت ہے، اس
بارے میں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ احساس ہی زندگی ہے۔ یہ نہ ہو
تو انسانیت زندہ نہ رہے۔ احساس انسان کو انسانی آلائشوں، خطاؤں، لغزشوں،
غلطیوں اور گمراہیوں سے نکال کر نیکیوں جودو سخا،حلم، تقویٰ، غنا، فقر،
تصوف، عبادت، جہاد، خوف خدا، محبت، اخوت اور حصول علم کی لگن کی طرف مائل
کرتا ہے، لیکن جب یہ مفقود ہو جائے تو انسان قاتل، ڈاکو، لٹیرا، ظالم و
جابر، منافق، جھوٹا، دھوکا باز اور خود غرض ہو جاتا ہے۔ بہ اعتبار ساخت
تمام انسان یکساں ہیں، لیکن فرق احساس کا ہے۔
جذبات اور احساسات کیا ہوتے ہیں، یہ صرف وہی جانتا ہے جو اس کیفیت سے گزرتا
ہے۔ ہم سب اپنی اپنی زندگی کی الجھنوں سے تو واقف ہوتے ہیں، لیکن کسی دوسرے
کے دْکھ درد سے نظریں بچا کر نکل جانے میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔ اپنے زخموں
کی تکلیف تو ہر کوئی محسوس کرتا ہے، دوسروں کے زخموں کو دیکھ کر کسی کا درد
محسوس کرنا ہی احساس ہے۔ ہم اگر کسی کو کوئی بات کہیں تو صرف ایک لمحہ کے
لیے خود کو اس کی جگہ پر رکھ کر سوچیں کہ اگر میں اس کی جگہ ہوتا تو کیسا
محسوس کرتا، اگر میں اس کی عمر، اس کے مزاج، اس کے حالات سے گزر رہا ہوتا
تو کیا محسوس کرتا، لیکن ہم میں سے شاید کوئی بھی اس بات کو نہیں سوچتا،
بلکہ جو بات ہمارے ذہن میں آجائے اسی کو دوسرے پر مسلط کرنا ضروری سمجھتے
ہیں۔ اگر ہم دل اور دماغ رکھتے ہیں، ہمیں دکھ اور درد محسوس ہوتا ہے تو کیا
دوسرے لوگ پتھر کے بنے ہوئے ہیں، جن کو کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی؟وہ بھی
دکھ اور در محسوس کرتے ہیں۔ اگر ہم نہیں چاہتے کہ کوئی دوسرا ہم پر اپنی
رائے مسلط کرے تو خود کیوں دوسروں پر اپنی رائے مسلط کرنا ضروری گردانتے
ہیں؟بات صرف احساس کی ہے۔ اگر ہم اپنے اندر احساس پیدا کر لیں تو شاید
ہماری وجہ سے کسی کو کوئی دکھ نہ پہنچے۔ اگر ہم دوسروں کی مجبوریوں کو
سمجھنے کی کوشش کریں، دوسروں کی تکالیف کو بھی محسوس کریں۔ خود کو دوسروں
کی جگہ رکھ کر دیکھیں تو معاشرہ جنت بن سکتا ہے۔ |
|