لودھراں میں غریب خاندان کے معصوم بچے سکول
جاتے ہوئے ٹرین کے نیچے آکردنیا سے رخصت ہوگئے کیا پاکستان میں غربت اور بے
چارگی موت کا دوسرا نام ہے کیونکہ حادثے جب بھی ہوتے ہیں غریب ہی اس کی زد
میں آتے ہیں ہمارے حکمرانوں کے بچے ان ٹرینوں کے نیچے آکر کیوں نہیں مرتے ؟کیوں
نہیں مرتے ہمارے حکمران جو غریب عوام کا خون چوس چوس کر انہیں غربت کی دلد
ل میں دھکیل رہے ہیں ۔عوام کے ٹیکسوں پر پلنے والے بڑی بڑی توندوں والوں کے
بچے کیوں بچ جاتے ہیں؟حادثات سائیکل ،موٹر سائیکل اور موٹر سائیکل رکشہ پر
سفر کرنے والوں کا ہی مقدر کیوں ہوتے ہیں کیا انکے اندر لوٹ مارکرنے کی ہمت
نہیں ہے یا پھر انہیں حب الوطنی کی زنجیروں نے جکڑکر غلام بنا رکھا ہے؟کیا
وزیر ریلوے اس حادثہ کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے محکمہ ریلوے کی جان چھوڑ
سکتے ہیں یا یونہی معصوم بچوں کی زندگیوں سے کھیلتے رہیں گے اور پھر کسی
اور پھاٹک پر سکول جاتے ہوئے بچے اپنی جان کی بازی ہار جائیں گے یا پھر ملک
پر قابض خواجہ صاحبان قوم کو بھی کوئی ایسا طریقہ بتا دیں کہ لاکھوں ،کروڑوں
اور اربوں کے انعام نکل آئیں راتوں رات پرائز بانڈ سے امیر بن جائیں اور
اپنے بچوں کو بھی بڑی بڑی گاڑیوں پر مہنگے مہنگے سکولوں میں داخل کرواسکیں
بلکہ پوری قوم ہی لاہور یا اسلام آباد شفٹ ہو جائے جہاں نہ کھلے مین ہول
ہونگے نہ کھلے پھاٹک ہونگے اور نہ ٹوٹی سڑکیں ہونگی ۔لودھراں میں ٹرین کے
حادثہ میں جاں بحق ہونے والے بچوں کے والدین کے دکھ کا اندازہ ہے کسی کو؟
ایک قیامت برپا ہے قیامت سے پہلے۔کیاوزیرریلوے کی طرف سے اپنی جان چھڑوانے
کے لیے محض ایک پریس کانفرنس اور انکوائری کا حکم ان غمزدہ والدین کے ایک
آنسو کے قطرے کے برابر دکھ کا مداوا ہوسکتی ہے ؟۔کیا پاکستان میں مرنے کے
لیے غریب ،ایماندار اور محب وطن ہی رہ گئے ہیں جو قیام پاکستان سے پہلے بھی
قربانیاں دیتے رہے تھے اور جن کی اولادیں آج بھی بے گناہ مررہی ہیں یہاں پر
ہر ظلم اور بربریت کی داستان مظلوم اور غریب کے ساتھ ہی پیش آتی ہے اور ان
مظلوموں کے ووٹوں سے انکی زندگی میں تبدیلی لانے والے بادشاہ بن کر ملک
وقوم کی تقدیر کے مالک بن جاتے ہیں پھر وہ خود اور انکی اولادیں لوٹ مار کی
ایسی مثالیں قائم کرتی ہیں کہ سرے محل اور پاناما جیسے اسکینڈل بن جاتے ہیں
عوام کے نام پر سیاست کرنے والوں کے سر میں بھی درد ہو تو ملک سے بھاگ جاتے
ہیں جبکہ یہاں کے غریب ووٹر ہسپتال کے ٹھنڈے فرش پر اپنی جان دے دیتے ہیں
سرکاری ہسپتالوں میں جو مریض ٹھیک سے لیٹ نہیں سکتا اسے ساری رات دوسرے
مریض کے ساتھ تکلیف میں بیٹھنا پڑتا ہے ڈاکٹر جو ہمارے طبقے کا مسیحا ہے وہ
بھی کسی حکمران سے کم نہیں ہے سرکاری ہسپتالوں میں ایسے ڈیوٹی کرتے ہیں
جیسے کسی ریاست کے شہنشاہ ہوں اور مریض انکے بچوں کے خادم جبکہ مریضوں کے
لواحقین انکے خاندانی غلام ہوں وارڈ کے اندر ڈاکٹروں کے کمرے میں جانا تو
دور کی بات ہے انکے دروازے پر دستک دینا بھی بہت بڑا جرم ہے مریض مررہا
ہوتا ہے اور ڈاکٹر آپس میں چائے کے کپ پر گپیں ہانک رہے ہوتے ہیں تین چار
مرتبہ بلانے کے بعد ڈاکٹر ایسے تشریف لاتا ہے جیسے ہمارے ملک میں شاہی
مہمان شکار کھیلنے آتے ہیں ڈاکٹر بھی ایسے ہی مریض کو شکار سمجھ کر اس پر
اپنی پریکٹس کرتا ہے تاکہ کل کو اسے پرائیوٹ پریکٹس کے دوران کچھ تجربہ
حاصل ہو اور وہ بھی حکمرانوں کی طرح لوٹ مار کرسکے یہاں وزیر انتہائی بے
شرمی اور ڈھٹائی سے اپنے اپنے محکموں کا دفاع کررہے ہوتے ہیں سفارش کی
بنیاد پر تعینات ایم ایس حضرات صرف اپنے سفارشیوں کو خوش کرنے میں مصروف
رہتے ہیں اور ایسے ایم ایس کی نہ ڈاکٹر سنتے ہیں نہ ہی انکا اپناسٹاف کوئی
بات مانتا ہے جیسے سروسز ہسپتال لاہور کا ایم ایس ہے ایسے ہی بہت سے خوش
آمدی قسم کے پنجاب کے مختلف ہسپتالوں میں تعینات ہیں جہاں عوام کی عزت نفس
مجروع کی جاتی ہے بلکہ مریضوں کی اموات کی شرع بھی زیادہ ہے آئے روز کے
حادثات اور ہسپتال میں مریضوں کی اموات سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے
حکمران جان بوجھ کر ملک کی آبادی کو کم کرنے کے لیے ایسے طریقے استعمال
کررہے ہیں اسی لیے تو کبھی کسی پھاٹک پر ٹرین کے نیچے آکر بچے موت کے منہ
میں چلے جاتے ہیں اور کہیں ڈاکٹروں کی بے حسی کی وجہ سے مریض موت کو گلے
لگارہے ہیں آج تک ملک میں کہیں بھی کوئی سانحہ رونما ہوجائے خواہ چھوٹا
ہویا بڑا اسکی ذمہ داری کسی وزیراور افسر نے قبول نہیں کی کیونکہ یہ سب لوگ
پیسے کمانے کے لیے ان سیٹوں پر بیٹھے ہوئے ہیں انکے اندر نہ انسانیت ہے اور
نہ ہی ہمدردی یہ کروڑوں اربوں روپے لگاکر عوام کی خدمت اور ذہنی ٹینشن کے
لیے وزیر نہیں بنتے اور پھر ان وزیروں کی خوش آمد اور انہیں نذرانے پیش
کرکے اہم سیٹوں پر قبضہ جمانے والے بھی کسی ملکی خدمت کے لیے نہیں آتے بلکہ
یہ سب اپنے اثاثے بڑھانے ،بیرون ملک جائیدادیں بنانے اور اپنے بچوں کے لیے
زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے لیے یہ سب کچھ کرتے ہیں کیونکہ ہمارے
حکمرانوں کا انداز حکمرانی ہی ایسا ہے جو آتا ہے وہ ک ایک لمبے عرصے کے لیے
ملک کی تقدیر سے کھیلنے کے آتا ہے فوجی دور ہویا فوج کی گود سے نکلنے والے
جمہوری سیاستدان ہوں سب نے دل کھول کر ملک کی تقدیر سے کھیلا اپنے لیے دولت
کے ڈھیر لگائے بچوں کو باہر سیٹ کیا اور پھر ملک کی غریب عوام کے ساتھ
کھیلنا شروع کردیا اور پھر یہ کھیل ہی کھیل میں اپنے بعد اپنے بچوں کو
حکمرانی کے لیے تیار کرلیتے ہیں یہ وہ بچے ہیں جنہوں نے آج تک گرمیوں کے
موسم میں گرمی اور سردیوں کے موسم میں سردی نہیں دیکھی بلکہ یہ گرمیوں میں
سردیوں اور سردیوں میں گرمیوں کے مزے لیتے ہیں وزرا سے لیکر چپڑاسی تک انکے
آگے ہاتھ باندھے کھڑے رہتے ہیں کسی کے دکھ کا انہیں احساس نہیں کیونکہ یہ
کبھی اپنے ووٹر کے پاس ہی نہیں گئے اس لیے انہیں کوئی فرق نہیں پڑتا کوئی
مرے یا جیئے ہاں انہیں ایک صورت میں احساس ہوسکتا ہے کہ کبھی ان حکمرانوں
کے بچے ٹرین کے نیچے آئیں تو انہیں احساس ہو،کبھی انکے بچے سرکاری ہسپتال
کے بیڈ پر دوسرے مریض کے ساتھ بیٹھ کر پوری رات گذاریں تو انہیں احساس ہو ،کبھی
یہ ڈاکٹر کادروازہ کھٹکھٹائیں اور اندر سے انہیں ڈاکٹر ڈانٹ کر بھگادے تو
انہیں احساس ہو ،کبھی یہ بھی موٹر سائیکل پر بیٹھ کر جارہے ہوں تو ٹریفک
والے اپنی گنتی پوری کرنے کے لیے انکا بھی چالان کردیں اور پھر یہ ذلیل
وخوار ہوکر ایک لمبی لائن میں لگ کربچے کے دودھ کے پیسے جمع کرواکر
موٹرسائیکل کے کاغذات واپس لیں تو انہیں احساس ہو ،کبھی یہ بھی اپنی بھوک
مٹانے کے لیے داتا صاحب کے باہر لنگر والی لائن میں لگ کر ایک روٹی حاصل
کرنے کے لیے دھکم پیل کریں اور بعد میں کسی تھانے کی پولیس اپنے نامعلوم
مقدمات پورے کرنے کے لیے انہیں پکڑ کرڈالے میں پھینکیں دو تین دن تھانے میں
پولیس والے مالشیں کروائیں اور پھر جیل بھیج دیں جہاں جاتے ہیں ان کے ساتھ
غیر انسانی سلوک شروع ہوجائے تو انہیں احساس ہو کہ اس ملک کے غریب ،مجبور
اور محب وطن لوگوں کے ساتھ کیا کیا ظلم ہورہے ہیں۔ |