نفسِ ذکیہ - قسط 2

آج صبح مجدی بڑا خوش خوش اسکول آیا تھا۔ بھاری بھرکم بیگ کے ساتھ ساتھ ایک شاپنگ بیگ بھی تھا اس کے ہاتھ میں…… سب بچے گھور گھور کر اس کو اور اس کے پلاسٹک بیگ کو دیکھ رہے تھے کہ جانے اس میں کیا ہے!!! آج مجدی کیا لایا ہے……

ہمیشہ کی طرح آج بھی مجدی کلاس کی آخری بینچ پر دبک کر بیٹھ گیا اور خوشی خوشی اپنا پلاسٹک بیگ اپنی ڈیسک کے نیچے چھپا دیا۔ میں ساتھ والی بینچ پر بیٹھا اسے دیکھ رہا تھا۔

’’مجدی لیٹ کیوں آئے ہو؟؟؟‘‘ ٹیچر نے سخت آواز میں اس سے پوچھا۔
’’مِس وہ…… ‘‘
’’آج امی اسکول چھوڑنے آئیں تھیں…… آج میری ہیپی بڈ ڈے ہے نا…… اس لئے انہوں نے یہ چیزیں بھجوائی ہیں بچوں کے لئے……‘‘ سب بچوں کے چہروں پر یہ سن کر مسکراہٹ آ گئی۔
’’اچھا! ہیپی برتھ ڈے ٹو یو…… ہیپی برتھ ڈے ٹو یو…… ‘‘ ٹیچر نے تالیاں بجانی شروع کر دیں اور باقی بچے بھی ان کے ہمنوا ہو گئے اور مجدی کو برتھ ڈے وِش کیا۔
تھوڑی دیر میں سب خاموش ہوگئے ۔ مجدی کے چہرے پر خوشی جھوم رہی تھی۔
’’مِس میں یہ چاکلیٹ دے دوں بچوں کو……؟؟؟‘‘ اس نے جوشیلے انداز میں پوچھا۔
’’ نہیں بیٹا ابھی رکھو…… بریک میں دے دینا……‘‘ مِس نے منع کر دیا اور مجدی کا جوش ہوا ہو گیا۔ ’’ آج کام بھی بہت کرانا ہے……‘‘ مِس نے اپنے آپ سے کہا اور اپنے بیگ سے کاپیاں وغیرہ نکالنے لگیں۔

چار پیریڈ بعد ان کی بریک ہوتی تھی۔ بریک کی بیل بجتے ہی مجدی نے فوراََ اپنا چاکلیٹ سے بھرا بیگ نکالا اور اپنے ساتھ بیٹھے ایک بچے کو چاکلیٹ دے دی۔
اب تو کچھ بچوں کا جھمگھٹا سا لگ گیا اس کے آس پاس…… میں بھی ان ہی بچوں میں سے ایک تھا جو اس سے چاکلیٹ کھانے کے منتظر تھے۔
مگر تھوڑا ہٹ کر ایک اور جھمگھٹا بھی لگا ہوا تھا۔ کچھ بچے اس میں ایک دوسرے کے کان میں کچھ کھسر پھسر کر رہے تھے۔

جونہی کوئی کسی کے کان میں کچھ کہتا وہ بچہ مجدی کی چاکلیٹ لئے بغیر واپس مڑ جاتا۔
’’اس کی چیزیں کھاؤ گے تو تم بھی کرسشن بن جاؤ گے……‘‘ مجدی نے ایک بچے کی بات سن لی۔ وہ بچہ جس کا چہرہ صبح سے کھلا کھلا سا تھا یک دم مرجھا گیا۔ ہاں ، وہ کرسشن تھا۔ ایک غیر مسلم بچہ……
‘‘تم تو ہو ہی بھوکے……‘‘ ایک اور بچے نے دوسرے سے کہا جو مجدی سے چاکلیٹ لے رہا تھا…… یہ طعنہ سنتے ہی اس نے ہاتھ اٹھا کرچاکلیٹ ڈسٹ بن میں پھینک دی۔ مجدی کے نازک دل پر جیسے کسی نے چھری چلا دی۔
اس نے لڑھکتے قدموں ڈسٹ بن کے پاس جا کر اپنی پھینکی ہوئی چاکلیٹ اٹھائی اور بھیگی نظروں سے اپنے ساتھیوں کو دیکھنے لگا۔ کتنا برا ہو رہا تھا اس کے ساتھ……
’’لاؤ مجھے دے دو مجدی……‘‘
’’ یہ لوگ تو ہیں ہی بدتمیز……‘‘ ہم لوگ ابھی چوتھی کلاس میں تھے۔ اتنی عمر کے بچوں کو معاملات کی نزاکت کا احساس کہاں ہوتا ہے۔ مگر مجھے تھا۔ میں جان گیا تھا جو کچھ کہ مجدی پہ بیت رہا تھا۔ اندر ہی اندر مجھے بہت دکھ ہو رہا تھا۔
مجدی اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں…… شاید وہ ڈر رہا تھا کہ کہیں میں بھی اس سے چاکلیٹ لے کے پھینک نہ دوں……
’’ہاں ہاں…… کھا لو…… کھا لو…… تم بھی کرسشن ہو جاؤ گے……‘‘ کسی نے مجھ سے کہا۔ ان کو احساس نہ تھا کہ ان کی یہ باتیں کسی کے لئے کتنی اذیت کا باعث ہونگی۔

اچانک دورسے ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا اور مجدی کے ہاتھ سے جھپٹ کر ایک چاکلیٹ لے لی۔
’’ہیپی بڈ ڈے یار……‘‘ دلاور نے بے نیازی سے چیخ کرکہا۔ وہ کلاس کے شرارتی بچوں میں سے ایک تھا۔بڑا خوبصورت بچہ…… اتنا ایکٹو اور شور شرابہ کرنے وال کہ کبھی کبھی گماں ہوتا کہ بچپن میں اس کو گلوکوز کے انجیکشن لگائے گئے ہوں گے۔
وہ وہی کھڑا کھڑا چاکلیٹ کھول کر کھانے لگا۔ باقی تمام بچے جو اب تک مجدی پر باتیں بنا رہے تھے اب چپ ہو گئے۔ دلاور کے سب ہی دوست تھے …… سب ہی اس کے ساتھ رہنا پسند کرتے تھے…… وہ بہت مزاحیہ اور ہنس مکھ تھا۔
’’یار تم ہمیں ایک ایک اور چاکلیٹ دے دو…… تم سے تو کوئی کھانہیں رہا……‘‘ دلاور کی اس بات میں ایک بڑی پہیلی تھی۔ ایک طرف مجدی کو اچھا لگا کہ کوئی اس سے چاکلیٹ لے کر کھا رہا ہے اور دوسری طرف اس کی بات میں ایک طنز بھی تھا کہ مجدی سے کوئی چیزیں لے کر نہیں کھاتا۔
’’یہ لو ……‘‘
’’یہ لو ذولقرنین!‘‘ مجدی نے کچھ ذیادہ سوچے سمجھے بغیر ایک ایک چاکلیٹ نکالی اور جلدی جلدی دلاور اور مجھے دے دی۔

یہ سارے بچے ہی معصوم تھے۔ کسی کو کیا پتا کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ ان کی باتیں کسی کے لئے کتنے دکھ کا باعث ہوں گی۔
کون ہے جو اپنی مرضی سے کرسشن گھر میں پیدا ہوتا ہے……یا مسلمان گھر میں؟؟؟ کوئی خدا کا کیا بگاڑ لیتا اگر وہ اسے کسی جنگلی قبیلے میں پیدا کر دیتا …… جو اپنا تن تک نہیں ڈھانپتے!!!
جو کچھ بھی یہ بچے کہہ رہے تھے معاشرے کی عکاسی کر رہا تھا۔ وہ تو وہی کچھ منہ سے نکالتے جو کانوں سے اپنے بڑوں سے سنتے……

آج اسکول سے واپسی پر بھی مجدی کی امی اسے لینے آئیں۔
’’بیٹا چاکلیٹ دی نہیں بچوں کو……‘‘ اس کی امی نے سوالیہ نظروں سے چاکلیٹ کی تھیلی کو دیکھا۔
’’امی……!‘‘ وہ کہتے کہتے رک گیا۔
’’ کسی نے کھائی ہی نہیں……‘‘۔ اس نے اتناآہستہ کہا جیسے اپنے آپ سے ہی کہہ رہا ہو۔
’’ہاہ!‘‘ ایک معصوم کے ساتھ زمانہ کیسے کھیل کھیلتا ہے…… کسی کو پتا ہی نہیں ہوتا……

۔۔۔۔۔۔۔

’’……یہ دنیا ناقص ہے۔ یہاں جو کچھ بھی ہو رہا ہے تمہاری مرضی کے بغیر ہو رہا ہے۔اس دنیا میں بس دکھ ہی دکھ ہیں۔انسان سمجھتا ہے کہ وہ آزاد ہے۔ مگر حقیقت کچھ اور ہے۔ وہ قیدمیں ہے۔ جکڑا ہوا ہے۔ چکی میں پس رہا ہے۔انسانوں کی حیثیت مویشیوں سے ذیادہ کچھ نہیں۔جانور بھی سوتا ہے، کھاتا ہے، اپنی نسل بڑھاتا ہے اور انسان کی بھی تمام تر محنت اور جدوجہد ان ہی چیزوں کو حاصل کرنے میں صرف ہوتی ہے۔ کوئی اور ہستی ہے جو ہر انسان پر مسلط ہے اور اسے قابو کئے رکھتی ہے۔وہ کچھ چاہ نہیں سکتا الا کہ اسے اجازت ہو……‘‘

میں نے کتاب میں نشانی لگائی اور بند کر کے ایک طرف رکھ دی۔ کتابیں پڑھنے کا مجھے شروع سے ہی شوق تھا۔عموماََ مختلف قسم کے عجیب و غریب موضوعات میں مجھے دلچسپی محسوس ہوتی تھی۔ انہونی باتیں…… انوکھے موضوعات…… جن کے بارے میں لوگ بہت کم پڑھتے ہوں۔

’’سَر میں لنچ کر کے آ رہا ہوں……‘‘ فہد نے کہا اور اسٹور سے باہر نکلنے لگا۔ وہ میرا پرانا سیلز مین تھا۔ کئی سال سے میرے پاس کام کر رہا تھا۔
مجھے بوریت سی محسوس ہونے لگی۔ موسم بڑا خوشگوار تھا۔ روز ہی بارش ہوتی تھی اور اگر نہیں بھی ہوتی تو آسمان کالے بادلوں سے بھرا رہتا۔
میں نے اپنا موبائیل اٹھایا اور ادھر ادھر مختلف ایپلیکیشنز کھولنے بند کرنے لگا۔ پھر ایک چیٹنگ کی ایپلیکیشن کھول لی۔ بہت سی لڑکیاں وہاں چیٹ لسٹ میں موجود تھیں۔ میں نے ایک ہی میسج ’’ ہیلو…… ہاؤ آر یو‘‘ ٹائپ کر کے دس بارہ لڑکیوں کو بھیج دیا۔

یکے بعد دیگر کئی لڑکیوں کے جواب آنے شروع ہو گئے۔
میں نے سبھی سے گپ شپ شروع کر دی۔

’’ہائی …… آئی ایم فائن یو؟؟؟‘‘
’’آئی ایم او کے‘‘ میں نے جواب لکھا۔
’’کیا کرتے ہیں آپ؟؟؟‘‘
’’ میرا اپنا بزنز ہے‘‘۔ میں نے پھر لکھا۔
’’اوہ!‘‘
’’کس چیز کا بزنز؟؟؟‘‘ دوسری طرف سے پھر ایک سوال ہوا۔
’’ شوز بناتے بھی ہیں اور بیچتے بھی ……‘‘ میں نے میسج بھیجا۔
’’ام م م …… گڈ‘‘ وہاں سے جواب آیا۔
’’آپ کیا کرتی ہیں؟‘‘ اب سوالوں کی باری میری تھی۔
’’میں ایم بی اے کر رہی ہوں‘‘
’’اچھا…… گڈ! کہاں سے؟؟؟‘‘
’’ بحریہ یونیورسٹی سے……‘‘
’’ اوہ بحریہ سے…… وہ تو ہمارے گھر کے قریب ہی ہے‘‘ میں نے بات بڑھائی۔
’’اچھا! کہاں رہتے ہیں آپ؟‘‘ اس نے پوچھا۔
’’میں گلشنِ رضوان میں رہتا ہوں‘‘
’’ اوہ…… ہم م م …… وہ تو یونی سے قریب ہی ہے‘‘
’’کیا نام ہے آپ کا؟‘‘
’’میرا نام…… ا م م م …… سوچنے دیں‘‘ وہ اپنا غلط نام بتانا چاہ رہی تھی۔
’’ہاہاہا……‘‘ میں نے میسج بھیجا۔
’’میرا نام بی جمالو رکھ لیں‘‘
’’ہاہاہا…… ‘‘
’’اچھا …… ماشاء اﷲ ماشاء اﷲ…… بہت اچھا نام ہے‘‘ میں نے ہنستے ہوئے طنز کیا۔
’’ہم سا ہو تو سامنے آئے……‘‘ اس کا میسج آیا۔
’’ بالکل …… سامنے آ جاتا ہوں…… بتائیں کہاں سامنے آنا ہے‘‘ میں نے سوچا اچھا موقع ہے ۔ ملنے کی بات کر لیتا ہوں، کیا بتا مان ہی جائے۔
’’اتنی جلدی نہیں …… ابھی تو بات شروع ہوئی ہے…… آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا!!!‘‘ وہ سمجھ گئی اور بات گھما دی۔
’’ :) ‘‘ میں نے ہنستا ہوا چہرہ بنا کر اسے بھیجا۔
ٔوہاں سے بھی ایک ہنساتا ہوا چہرا موصول ہوا۔

’’چلیں پھر بات ہو گی…… مجھے جانا ہے‘‘
’’بائی‘‘
’’او کے بائی‘‘ میں نے بھی چیٹ ختم کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔

’’ارے یار چھوڑو اس کو……‘‘
’’تم بھی ہر بات دل پہ لے لیتے ہو……‘‘۔ مجدی مجھے حوصلہ دینے لگا۔ میں نے اس رات کی ساری روداد مجدی کے گوش گزار کر دی تھی، کہ کیسے میں طوفانی رات میں دلاور کی مدد کرنے نکلا اور خود ایک مصیبت میں گرفتار ہو گیا۔ دلاور صاحب تو اپنی دھن میں مست تھے۔ اس کے بعد سے چار دن گزر گئے تھے فون کر کے پوچھا تک نہ تھا۔
’’تمہیں پتا ہی ہے اس کا…… بچپن سے ساتھ ہے……‘‘ میں نے منہ بنایا۔
’’میرے سامنے آ جائے وہ…… اتنا ذلیل کروں گا کہ یاد رکھے گا!!!‘‘ میں نے غصے میں کہا۔
’’ہا ہا ہا …… ارے مل کر ذلیل کریں گے…… نیکی کے کام اکیلے اکیلے……‘‘۔ مجدی کی یہ بات سن کر مجھے بھی ہنسی آ گئی۔
’’ویسے اسے کوئی فرق نہیں پڑنے والا…… پتا نہیں کتنی بار پہلے بھی اس کی لے چکے ہیں……اسے کچھ نہیں ہوتا…… ہا ہا ہا……‘‘ مجدی پھر ہنس پڑا۔

’’یار آج کل تو میں بھی پریشان ہوں……‘‘ ۔ اب مجدی کی دُکھڑا سنانے کی باری تھی۔
’’کیوں ؟؟؟ تمہیں کیا ہوا؟؟؟‘‘ ۔ میں نے حیرانی سے پوچھا۔
’’ارے یار…… ہوا ووا کچھ نہیں…… بس آفس کی کچھ ٹینشن ہے‘‘۔
’’کمپنی میں ذیادہ کام نہیں ہے…… وہ لوگ بندے نکال رہے ہیں‘‘۔
’’چار لوگ نکال چکے ہیں…… ڈر لگ رہا ہے کہیں میرا نمبر بھی نہ آ جائے……‘‘ مجدی نے اپنی پریشانی بتائی۔

’’ اوہ! ‘‘
’’ہم م م…… یار یہ تو کافی پریشانی کی بات ہے……‘‘ ۔ میں بھی پریشان سا ہو گیا۔ مجدی میرا بہت قریبی تھا۔ اس کی پریشانی جیسے میری پریشانی تھی۔ اس کا مسئلہ میرا مسئلہ……
’’ہاں یار ! بس دعا کرو……‘‘ مجدی نے اداس سی آوازمیں کہا۔
’’انشاء اﷲ …… اﷲ خیر کرے گا‘‘۔ میں نے مچدی کو حوصلہ دیا۔
’’تم ابھی سے کہیں اور اپلائے کرنا شروع کر دو نا……‘‘ میں نے مشورہ دیا کہ جاب خطرے میں ہے تو پہلے سے ہی کسی اور کمپنی میں اپلائے کر دے۔
’’ہاں یار! کر تو رہا ہوں …… پر ابھی تک کہیں سے جواب نہیں آ یا‘‘۔
’’اچھا! چلو انشاء اﷲ……‘‘

’’انشاء اﷲ!‘‘۔ مجدی تھا تو کرسشن پر پاکستان میں ہمیشہ سے مسلمانوں کے ساتھ رہ رہ کر انشاء اﷲ ماشاء اﷲ ہی کہتا رہتا تھا۔ جیسے عام طور پر مسلمان کہتے ہیں۔

’’تو مکلی کا قبرستان کب جانا ہے؟؟؟‘‘ مجدی نے بات بدلی۔
’’پہلے اُس کمینے کی ٹھکائی کریں گے پھر جائیں گے……‘‘ ۔ میں نے دلاور کے بارے میں کہا۔
’’یار! ایسا کرتے ہیں مکلی کے ٹرپ کا سارا خرچہ اس پر ڈال دیتے ہیں…… اس کا خرچہ کرانے کا اس سے اچھا موقع کب ملے گا…… ہی ہی ہی ……‘‘ مجدی نے دماغ لڑایا۔
’’ہم م م…… چلو یہ ٹھیک ہے‘‘۔ میں بھی خوش ہو گیا۔

۔۔۔۔۔۔۔

صبح سویرے چھ بجے میں اور مجدی اٹھے۔ میں نے مجدی کو رات کو ہی گھر بلا لیا تھا۔ کیونکہ صبح جلدی اٹھ کر جلدی گھر سے نکلنا تھا۔ہمارا ارادہ تھا کہ ہم سات بجے تک گھر سے روانہ ہو جائیں۔ یہلے کلری جھیل جانا تھا اور وہاں سے مکلی کا قبرستان…… یہی ہمارا پلان تھا۔

دلاور تو پڑوس میں ہی رہتا تھا۔ اسے بھی رات کو خبر کر دی گئی تھی کہ آج صبح نکلنا ہے۔

’’یار اس کو تو فون ملاؤ…… آئی ایم شور وہ سو رہا ہو گا……‘‘ میں نے مجدی سے کہا۔ وہ واش روم سے دانت وغیرہ صاف کر کے نکلا تھا۔
’’ا م م م…… ‘‘ مجدی پر ابھی بھی غنودگی طاری تھی۔
’’ پہلے تم تو جاگ جاؤ!!!‘‘ میں نے منہ بناتے ہوئے کہا۔
’’ اچھا یار!‘‘ مجدی نے فون ہاتھ میں اٹھایا اور دلاور کا نمبر ڈھونڈنے لگا۔

میں بستر پر ہی بیٹھا تھا۔ چادر ہٹا کر اٹھا اور باتھ روم کا رخ کیا۔ سامان وغیرے ہم نے رات کو ہی پیک کر لیا تھا۔ بس کھانے پینے کی جو چیزیں فرج میں رکھیں تھیں وہی اٹھانی تھیں۔

’’ہاں ……بھائی صاحب جاگ گئے ہیں……‘‘ دلاور کی آواز سنتے ہی مجدی نے پوچھا۔
’’ام م م…… ہاں یار جگا ہی دیا ہے تم نے…… ‘‘ دلاور نے مسکراتے ہوئے انگڑائی لی۔
’’اٹھ جائیں اب…… ذولقر صاحب ویسے ہی جلدی میں ہیں……‘‘
’’اس کو چھوڑ یار…… اس کی تو آج میں خوب لوں گا…… ہاہاہا……‘‘ دلاور بھی جان بوجھ کر مجھے تنگ کرتا تھا۔ کیونکہ میں چھوٹی موٹی بات پر بھی چِڑ جاتا تھا۔ اور ان دنوں تو ویسے بھی میری اس سے ہٹی ہوئی تھی۔
’’ ہا ہا ہا……‘‘ مجدی کی بھی ہنسی نکل گئی۔
’’ اچھا اب تیار ہوجاؤ فوراََ …… ہمیں سات بجے تک نکلنا ہے……‘‘ مجدی نے یہ کہہ کر فون بند کیا۔
۔۔۔۔۔۔۔

میں اور مجدی گاڑی میں بیٹھے ہوئے تھے۔ سارا ضروری سامان ہم نے رکھ لیا تھا۔ مجھے بڑی ایکسائٹمنٹ ہو رہی تھی۔ بہت دنوں بعد میں کہیں دور پکنک پہ جا رہا تھا۔ ورنہ عام طور پر کراچی والوں کی کیا تفریح ہوتی ہے…… کہیں ریسٹورینٹ میں کھانا ٹھونس لینا…… شاپنگ مالز کے چکر کاٹنا…… یا ذیادہ کوئی تیر مار لیا تو سی سائیڈ چلے گئے اور بس ……

مگر اس دن تو میں اپنی فیورٹ جگہ جا رہا تھا۔ مکلی کا قبرستان…… مجھے ایسی تاریخی اور قدیم ، کھنڈروں ٹائپ کی جگہیں ہمیشہ ہی پر کشش لگتی تھیں۔ ایسا لگتا تھا جیسے میری روح کی پیاس مجھے ایسی جگہوں پر کھینچ بلاتی ہو…… کراچی میں بنی ہوئیں پرانے زمانے کے انگریز دور کی عمارتوں میں گھومنے کا مجھے بہت شوق تھا۔ اکثر کبھی آتے جاتے میرا کسی ایسی عمارت کے سامنے سے گزر ہوتا تو جی چاہتا کہ بنا پوچھے ان میں گھس جاؤں…… شاید یہ میری فطرت میں شامل تھا۔

ناشتہ کسی نے بھی نہیں کیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں سب کو بھوک پیاس ستانے لگی۔ مجھے بھی بھوک لگ رہی تھی۔

’’یار! اب کسی ہوٹل پہ رک جائیں گے……‘‘ دلاور بولا۔ ہم ہائی وے پہ گاڑی دوڑا رہے تھے۔
’’او۔کے‘‘ میں گاڑی ڈرائیو کر رہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں مجھے دور چھوٹا سا کچھ بنا ہوا نظر آنے لگا۔
’’آئی تھنک یہ ہوٹل ہی ہے……‘‘ میں نے کہا۔
’’ہاں‘‘ مجدی بولا۔ وہ میری ساتھ والی چیئر پر بیٹھا گاڑی کے شیشے اتارے ٹھنڈی ہوا کا مز ہ لے رہا تھا۔ صبح صبح کی ہوا تو ویسے بھی سب کو تازہ دم کر دیتی ہے۔

ہوٹل آ گیا۔ میں نے گاڑی سائیڈ پر لگا دی۔

’’اوہ مائی گاڈ……!!!‘‘
’’از ز ز……‘‘ ایک پیاری سی بلی کو کسی گاڑی نے ٹکر مار دی تھی۔ نہ وہ مری تھی نہ زندہ تھی۔ بلکہ انتہائی زخمیحالت میں گری ہوئی اپنی ایک ٹانگ کو زمین پر گھسٹ گھسٹ کر گھوم رہی تھی۔
’’شٹ یار…… اس بیچاری کو کس نے مار دیا……‘‘ مجدی اور دلاور بھی ٹکٹکی باندھی اس بلی کو تڑپتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ مگر میری طرح آہ اوہ نہیں کر رہے تھے۔
’’آئے ہائے……‘‘ مجھے بہت ترس آنے لگا۔ ’’ کیسے تڑپ رہی ہے یار…… اس سے تو اچھا ہوتا مر ہی جاتی……‘‘ وہ بلی درد سے کراہ کراہ کر اپنے آپ کو گھسٹ رہی تھی۔ مٹی اڑا رہی تھی…… جیسے خود اپنے آپ کو ہی زمین میں دفن کر دینا چاہتی ہو۔
’’از ز ز…… او ہووو و……‘‘

’’ اچھا چلو……!!!‘‘ دلاور اور مجدی دونوں ہی الٹے قدموں پیچھے کوہٹے کہ کیا کر سکتے ہیں اب…… انہیں بھی اس بے زبان جانور پر تر س آ رہا تھا۔

’’اس کو بچا نہیں سکتے؟؟؟‘‘ میں نے ہلکی سی آواز میں کہا۔ مجھے پتا تھا دلاور اور مجدی دونوں کوئی الٹا جواب دیں گے۔

’’بھائی جان! آ جاؤ گرم گرم پراٹھے کھالو…… ابھی ابھی بنائے ہیں……‘‘ ہوٹل کا پٹھان بیرا ہمیں دیکھ کر پکارا۔
مجدی اور دلاور دونوں ہوٹل کے باہر لگی چارپائیوں کی طرف بڑھنے لگے ۔ میں بھی چار و نا چار ان کے پیچھے پیچھے چل دیا۔ مگر منہ موڑ موڑ کر بلی کو تڑپتا ہوا دیکھتا۔

دلاور کے چہرے پر ایک بڑی سی مسکراہٹ آ گئی۔ وہ مجھے چڑانا چاہ رہا تھا۔
’’ہائے بلی مر گئی……‘‘ دلاور نے پتلی سی آواز بنا کر میرا مذاق اڑایا۔
’’ہی ہی ہی……‘‘ مجدی بھی ہنس پڑا اور میں نے منہ بنا لیا۔
’’ ہاں ہنسوں ہنسوں …… ایک بندہ مَر گیا ہے اور تم لوگ ہنسو……‘‘ میں نے کہا اور خود بھی مسکرا دیا۔ میں بلی کو بندہ کہہ بیٹھا تھا۔
’’ہا ہا ہا……‘‘ اب تو ان دونوں کے قہقہے گونجنے لگے۔
’’بھائی وہ بندہ نہیں ہے…… ایک بلی ہے……‘‘ دلاور بولا۔
’’ہاں تو کیا ہوا …… بلی بھی انسان ہی ہوتی ہے……‘‘ مجھے بھی مذاق سوجھنے لگا۔ مگر اندر سے ابھی بھی مجھے اس بلی کی تکلیف کا احساس ہو رہا تھا۔

’’کیا لاؤ ں بھائی؟؟‘‘ بیرا آ گیا۔ ہم بھی چارپائیوں پر چونکڑا مار کے بیٹھ گئے تھے۔
’’یار پراٹھے …… آملیٹ اور چائے لے آؤ……‘‘ دلاور نے آڈر دیا۔
’’…… یار! بسکٹ وغیرہ بھی لے آنا دو تین پیکٹ……‘‘ مجدی نے کہا۔

پکنک شروع ہی ہوئی تھی کہ ایک ناخوشگوار سین نے میرا موڈ بدل دیا تھا۔ ابھی تک جوش و خروش میں گانے شانے گاتے سنتے آگے بڑھ رہے تھے اور اب……

میں منہ گھما گھما کر اس بلی کو اب بھی تڑپتا دیکھ رہا تھا۔ دلاور اور مجدی بھی مجھے دیکھ دیکھ کر مسکرا رہے تھے۔
آخر کار میں نے خود ہی اپنا ذہن جھڑک دیا اور تمام تر توجہ گرم گرم پراٹھے چائے اور بسکٹوں کا مزہ لینے پر مرکوز کر دی۔
۔۔۔۔۔۔۔
Kishwer Baqar
About the Author: Kishwer Baqar Read More Articles by Kishwer Baqar: 70 Articles with 85373 views I am a Control Systems Engineer, working in Saudi Arabia.

Apart from work, I am interested in religion, society, history and politics.

I am an
.. View More