سمن:نایاب یار سوری میں لیٹ ہو گئی۔وہ
دراصل میں گھر سے نکلی بھی دیر سے تھی اور پھر تمہیں تو پتہ ہے کراچی کی
ٹریفک کا۔امی بتا رہی تھیں،آج فاخر آرہا ہے دبئی سے۔اس کی شادی کی ڈییٹ
طے ہو گی ہے ۔اسی ماہ کی ستائس کو ہو گی شادی اس کی۔ تب تک تو تم بلکل ٹھیک
ہو جاو گی ۔وہ اپنی باتیں کرتے جار رہی تھی ،جبکہ نایاب ابھی تک افسردہ
تھی۔
میں تم سے بات کر رہی ہو ،کہاں ہو ،سمن نے نایاب کے چہرے کے پاس چٹکی بجائی
۔کون سی بے ہوشی کی دُعا پلا دی ہے۔آفتاب بھائی نے۔
نایاب ۔نے مشکل سے مسکرانے کی کوشش کی ۔
فاخر ۔امی آپ نے کیا کیا ہے یہ؟آپ کو پتہ تھا نہ مجھے یہ دھوم دھام نہیں
چاہیے ،آپ کی خوشی کے لیے شادی کر رہا ہوں ،یہ ہی بہت ہے میرے لیے۔آپ
کیوں اتنا شور ڈلوانا چاہتی ہیں۔
نورجہاں ۔تم کیا چاہتے ہو،میرے کون سے دس بیٹے ہیں ۔تم ہی ہو اور تم بھی بے
کار کا دُکھ لیے بیٹھے ہو۔اس کے لیے جس نے تمہیں نہیں چنا۔بھول کیوں نہیں
جاتے اسے۔
فاخر: میرے بس کا ہوتا تو آپ کو کہنا نہیں پڑتاوہ کہہ کر اپنے کمرے میں
چلا گیا۔
فروا:امی آپ کو کیا ضرورت تھی ،نایاب آپی کا تذکرہ کرنے کی ،بھائی کا موڈ
خراب کر دیا آپ نے۔
نورجہاں:تم دونوں بہین بھائی خواہ مخواہ کے اس لڑکی پر مرتے ہو ،مجھے تو اس
میں کوئی خاص بات نظر نہیں آتی۔
فروا:امی چھوڑیں نا۔فاخر کے کمرے میں جاتے ہوئے۔
فروا:بھائی کیسے ہیں،آپ؟
فاخر :پتہ نہیں ،اپنا ہی کمرہ اجنبی سا محسوس ہو رہا ہے ،کچھ سالوں کا نہیں
کچھ صدیوں کی دوری لگ رہی ہے۔
فروا:بھائی ،پیچھے دیکھتے ہوئے،آپ کو پتہ ہے نایاب آپی کو گولی لگی ہے،وہ
ہوسپیٹل میں ہیں۔
فاخر:کیا؟کیسے وہ کیسی ہے اب۔
فروا۔بلکل ٹھیک ہیں اب۔
فاخر :شکر ہے اللہ کا ،اللہ اسے ٹھیک ہی رکھے۔کون سے ہوسپٹل میں ہے میں
دیکھنے جاوں گا۔
فروا:آغا خان میں مگر کل صبح گھر چلی جائیں گئیں۔میری بات ہوئی تھی سمن
آپی سے وہ ان کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
فاخر:نہیں میں اس کے گھر نہیں جاوں گا۔نہیں کبھی نہیں وہ کہہ کر خاموش ہو
گیا۔
فروا:رات کو بھی ملاقات کا ٹائم ہوتا ہے،آپ چلیں تو میں بھی جاوں گی آپ
کے ساتھ ،ہاں رات کو چلتے ہیں۔
نورجہاں :کہاں چلنے کی بات ہو رہی ہے۔
فاخر :کہیں نہیں امی۔کچھ کھلائیں تو اپنے بیٹے کو بہت بھوک لگی ہے۔
نایاب :دن کتنے لمبے ہو گئے ہیں یہاں ہوسپٹل میں ۔
سمن:تم اکتا چکی ہو اس لیے تمہیں ایسے لگتا ہے۔
آفتاب:گھر کا دروازہ کھولتے ہوئے۔دن کتنے لمبے لگ رہے ہیں،نایاب کے بغیر
گھر کی حالت بری ہو رہی ہے۔اس نے دل میں سوچا اور میری بھی ،وہ
مسکرایا۔کیوں نا گھر کو تھورا ٹھیک کیا جائے کل تو نایاب آہی جائےگی
انشاللہ تعالی۔
فاخر :امی میں ذرا باہر جا رہا ہوں۔
فروا:بھائی بھائی میں بھی جاوں گی ،نہیں میں اکیلا ہی جاوں گا۔
نورجہاں :جا کہاں رہے ہو تم۔ایک دوست سے ملنے۔اچھا اب چلتا ہوں کہہ کر نکل
گیا۔
فروا:نے منہ بناتے ہوئے اسے دیکھا۔تھوڑی دیر بعد فاخر نے فروا سے کمرہ نمبر
اور بیڈ نمبر میسج کرنے کا میسج کیا۔فروا نے فوراً سے رپلائی کیا۔
فاخر:اندر داخل ہوتے ہوئے ،وٹس اپ کزنز؟
سمن :ارے واہ تم دُبی سے سیدھے یہاں آرہے ہو یا پھر گھر بھی گئے تھے،سمن
نے جان بوجھ کے اسے چھیڑا۔
فاخر:اگر کوئی بتاتا تو ضرور سیدھا یہاں ہی آتا۔اس نے نایاب کی طرف دیکھتے
ہوئے کہا۔
سمن:اوہ تو آپ کو پتہ نہیں تھا کہ نایاب کو گولی لگی ہے۔
فاخر :اگر میں ساتھ ہوتا تو کبھی گولی نہ لگتی ،تمہیں وہ اب بیڈ کے پاس
کھڑا تھا۔
نایاب :تم یہاں کیوں آئے ہو۔
فاخر :کیوں اب ہمارا اتنا حق بھی نہیں رہا۔کزن تو ہو نا میری۔
سمن:میں ذرا باہر کا چکر لگا کر آتی ہوں۔
نایاب:تم سمن ،سمن نے نایاب کی بات سنے بغیر دروازہ کھولا اور باہر چلی
گئی۔
فاخر ۔کیسی سنگ دل ہو نا نایاب،کیسے کہہ دیا تم یہاں کیوں آئے ہو۔
نایاب :شادی مبارک ہو۔
فاخر :شادی ،مسکراتے ہوئے وہ شادی جودو لوگوں کو ایک کمرے میں بیٹھا دیتی
ہے،اس کے لیے مبارک باد دے رہی ہو،جبکہ تم جانتی ہو کہ میرے دل میں بیٹھنے
کے لیے اب جگہ ہی نہیں۔ہر جگہ تم اور تمہاری یادیں ہی ہیں۔میں تو اس لڑکی
کی بدقسمتی کا سوچ رہا ہوں جو مجھ سے منسوب کی جانے والی ہے۔
نایاب:دیکھو،تم جاو یہاں سے ،مجھے اس قسم کی باتیں نہیں پسند،تم جانتے ہو۔
فاخر۔اداسی سے۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال یار ہوتا ۔۔۔۔
آفتاب :سمن تم یہاں کیا کر رہی ہو۔درخت کے نیچے کھڑی سمن کو جب آفتاب نے
دیکھا تو پوچھا۔
سمن:وہ وہ میں اسے سمجھ نہیں آرہا تھا کہ کیا چھوٹ بولے۔فون ،فون کرنے
آئی تھی امی کو۔
آفتاب :وہ تو وہاں سے بھی کر سکتی تھی۔نا۔
سمن:وہ میرا بیلنس ختم ہو گیا تھا۔
آفتاب کو بھی سمجھ آرہی تھی کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے ،پر کیوں بول رہی ہے
یہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔
نایاب:یہ سب بے کار باتیں ہیں،میں شادی شدہ ہوں اور تم شادی کرنے جا رہے ہو
۔
سمن اور آفتاب ساتھ ساتھ اندر داخل ہوئے۔
آفتاب:ارے واہ کیسے ہو یار تم تو دُبئی کے ہی ہو کر رہ گئے،سنا ہے شادی ہو
رہی ہے تمہاری۔
فاخر:جی جی آفتاب بھائی ایسا ہی ہے۔لوگوں نے غریب سمجھ کر چھوڑ دیا ۔امیر
ہو کر آیا ہوں۔اس نے نایاب کی طرف حسرت سے دیکھا۔
آفتاب:اچھا کس نے چھوڑا ہے تمہیں پیسے کی وجہ سے ؟ہمیں بھی تو پتہ چلے
،ویسے جب تم دُبئی گئے تھے تو ہم نے سنا تھا کہ تمہارا دل ٹوٹ گیا ہے یہ
نہیں پتہ چلا کہ توڑا کس نے ہے۔
سمن:چھوڑیں آفتاب بھائی کچھ چیزیں نہ ہی پتہ چلیں تو اچھا ہوتا ہے ،ویسے
بھی اب دل جوڑنے والی آگئے تو تو یہ سدھر جائے گا۔
فاخر :ایسا نہیں ہو سکتا ،پہلی محبت کبھی فراموش نہیں ہوتی۔
آفتاب :اسے سمجھاتے ناکہ پیسہ ویساکچھ نہیں ہوتا۔
فاخر:غزل تو لکھی تھی پر اس نے پڑھنےکی زحمت ہی نہیں کی ،ایک آہ بھرتے
ہوے۔
نایاب۔نے غصے سے فاخر کی طرف دیکھا اور تلخ سے لہجے میں بولی ممکن ہے کہ وہ
بھی کسی اور کو پیار کرتی ہو۔کوئی لڑکی پیسہ کی وجہ سے کسی کو ریجیکٹ نہیں
کرتی ۔
آفتاب:تم کیسے کہہ سکتی ہو ۔آج کل کی لڑکیاں کرتی ہیں ،پیسہ بہت ضروری شے
ہے۔
فاخر :سچ کہہ رہے ہیں آفتاب بھائی۔
آفتاب :مجھے سناو اپنی غزل میں سنوگا۔اگر ابھی تک یاد ہے تو۔
فاخر:اس بے وفا کی طرح اس سے وابستہ کسی چیز کو نہیں بھولا ہوں میں۔
آفتاب:ہاں تو پھر شروع ہو جاو۔
فاخر:چلیں اسی بہانے میرے دل کا درد کچھ تو کم ہو گا تو سنیں آفتاب بھائی
وہ نایاب کی طرف دیکھ کر آفتاب سے بات کر رہا تھا۔
بول نہ بول ہے جانے والے
سن تو لے دیوانوں کی
اب ہم سے دیکھی نہیں جاتی
یہ حالت ارمانوں کی
حسن کے چڑھتے پھول ہمیشہ
بے قدروں کے ہاتھ بکے
اورچاہت کے متوالوں کو
دھول ملی ویرانوں کی
پھول سے نازک جذبوں پر بھی
راج ہے سونے چاندی کا
یہ دنیا کیا قیمت دے گی
سادہ دل انسانوں کی
آفتاب:واہ یار کمال کی شاعری کرتے ہو تم تو۔
فاخر:شاعری نہیں میرے جذبات ہیں جن کو کسی نے پاو ں کی ٹھوکر مار کر دور
پھینک دیا اور پھر پوچھا بھی نہیں کہ کیسا ہوں۔
آفتاب:کوئی بات نہیں اب شادی ہو رہی ہے تو زخموں کو مرہم لگانے والی آ ہی
جائے گئی۔
فاخر :پتہ نہیں ،اب مرہم لگاتی ہے یاپھر،اب لوگوں پر اعتبار کرنے کو دل
نہیں کرتا۔
آفتاب :مرہم ہی لگائے گی یار ،اچھی امید رکھو۔
سمن:ہاں اگر کسی اور کے بدلے اس نے اُس سے نہ لیے تو۔مسکراتے ہوئے۔
آفتاب :آوکہیں باہر کھانا کھاتے ہیں۔
فاخر:جی نہیں ،آج ہی آیا ہوں تو امی کے ساتھ ہی کھانا کھاوں گا،پہلے ہی
مجھ سے خفا ہیں وہ کہ ان کے پاس نہیں رہتا۔
آفتاب :چلو یار جیسے تمہاری مرضی لیکن گھر آنا ،تم تو ہماری شادی پر بھی
نہیں آئے اور اتنے سالوں بعد آئے ہو۔ضرور گھر آنا خالہ اور فروا کو لے
کر۔
فاخر :نایاب نے تو نہیں کہا کہ ۔۔۔
نایاب :کیوں نہیں ضرور آئیے گا فاخر بھائی بلکہ بھابھی کے ساتھ آئیے
گا۔نایاب نے اپنے لفظوں کو دبا دبا کر ادا کیا تاکہ بھائی اور بھابھی کے
الفاظ فاخر کو دیر تک سنائی دیں۔
فاخر:نے بہت گھور کر نایاب کو دیکھا۔
اچھا۔
|