خواتین کے حقوق کا نعرہ

خواتین کے حقوق ایک ایسا نعرہ ہے جسے استعمال کرتے ہوئے کوئی سیاست داں ہو، اینکر پرسن ہو، این جی او ہو، مقبولیت حاصل کرسکتا ہے۔ خواتین کے حقوق کا نعرہ لگاکر آگے بڑھنا دنیا کا سب سے آسان کام ہے اور مقاصد سیاسی ہوں یا سماجی، فلم اور ڈرامے کے شعبے ہوں یا تحریر کی دنیا یہ نعرہ بہت کام بھی آتا ہے۔ اسمبلی میں کتنی ہی قراردادیں خواتین کے حقوق کے حوالے سے منظور ہوچکی ہیں، لیکن وہی بات، پاکستان میں قانون پر اس کا چند فی صد بھی عمل نہیں ہوتا جتنا یہ صفحات پر موجود ہے۔ جتنے جس کے بس میں ہو اتنی لفاظی کروالیجیے، خواتین کے حقوق کو لے کر جس سے جتنا ہوسکے حسب ضرورت بلوا لیجیے، ہم سے گارنٹی لے لیجیے کوئی نہ تھکے گا۔

دو ہزار سترہ کی شروعات ہوئے آج دوسرا دن ہے، دو دن، یعنی 2017کے اڑتالیس گھنٹوں میں سے کچھ کم گزر چکے ہیں، فقط گوگل سرچ انجن پر انگلیوں کو جنبش دے کر معلوم کیا جائے تو ان گھنٹوں میں سب سے زیادہ زیربحث آنے والا موضوع خواتین ہوں گی۔ ساتھ ہی یہ بھی دیکھ لیجیے کہ ان چند گھنٹوں میں سب سے زیادہ ظلم وتشدد کا شکار ہونے والی بھی خواتین ہی ہوں گی۔ ہم باتیں کرتے رہیں گے، قوانین بنتے رہیں گے، ظلم ہوتا رہے گا، انصاف سوتا رہے گا اور ہم اور آپ بھی اسی طرح سے سوتے رہیں گے جس طرح دو ہزار سولہ میں طے پانے والے خواتین کی فلاح وبہبود کے کئی منصوبوں کے التوا پر سوتے رہے۔

یوں تو خواتین کے معاملے میں پورے ملک کی صورت حال ایک جیسی ہے، مگر ہم بات کرتے ہیں سندھ کی۔ مادرملت محترمہ فاطمہ جناح اور بے نظیر بھٹو کا صوبہ، وہ صوبہ جہاں رعنا لیاقت علی خان گورنر کے منصب پر فائز رہیں۔ جہاں برسراقتدار اور اقتدار کا حصہ رہنے والی جماعتیں خواتین کے حقوق کے لیے بلندبانگ دعوے کرتی نظر آتی ہیں۔ اس صوبے میں ہر سال کی طرح بیتے برس بھی محکمۂ ترقی نسواں کی کارکردگی عدم کارکردگی ہی رہی۔ خواتین کی فلاح وبہبود کے حوالے سے بنائے جانے والے زیادہ تر منصوبے کھٹائی میں پڑگئے۔ ان میں ملازمت پیشہ خواتین کے بچوں کی نگہ داشت کے لیے تین ڈے کیئر سینٹرز کا قیام بھی شامل تھا، 2011 میں منظور ہونے والا یہ اہم منصوبہ گزرے سال بھی عمل درآمد کا انتظار کرتا رہ گیا۔ اس کے علاوہ خواتین کے گھریلو جھگڑوں کو نمٹانے کا 2010 میں منظور شدہ نظام بھی بنایا نہ جاسکا۔ 2011 میں منظور ہونے والے منصوبے شہید بے نظیرآباد میں ملازمت پیشہ خواتین کے لیے ہاسٹل اور خواتین کا ڈیولپمنٹ کمپلکس سینٹر بھی زیرالتوا ہی رہے۔ کراچی میں خواتین کمپلیکس کے تو قیام کی منظوری بھی حالت انتظار ہی میں رہی۔ اسی طرح معذور خواتین کی فنی صلاحیت بڑھانے اور گھرمزدور عورتوں کے معاشی سدھار کے منصوبے بھی منظوری کا منہ نہ دیکھ سکے۔

اب آتے ہیں ملک کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کی طرف، جہاں تحفظ نسواں بل منظور ہوا، جس پر بہت شور بھی ہوا اور بڑی تالیاں بھی بجائی گئیں، لیکن اس پر عمل درآمد ہوتا نظر نہیں آیا۔ جن حلقوں کو اس بل پر تحفظات تھے، انھوں نے بھی اس حوالے سے تجاویز اور ترامیم پیش کی تھیں، لیکن ان پر بھی عمل ہوتا نظر نہیں آتا۔ البتہ منصوبے پیش کرنا ہو یا بل کی منظوری، صوبائی حکومتوں کے اقدامات کی دھوم ضرور مچی کہ یہ حکومتیں اور متعلقہ صوبوں میں برسراقتدار جماعتیں خواتین کے معاملات اور حقوق کے لیے کتنی فکرمند ہیں اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے کیا کیا اقدامات کر رہی ہیں، لیکن سب کچھ نعرے بازی ہی ثابت ہوئی۔

حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ملک میں خواتین کے مسائل کم ہونے کے بہ جائے بڑھتے جارہی ہیں۔ معاشی مسائل اور منہگائی نے خواتین کی ایک بڑی تعداد کو گھر سے باہر نکلنے اور روزگار کی تلاش پر مجبور کردیا ہے، چناں چہ معاشی جدوجہد میں مصروف ان خواتین کو گھر اور گھر سے باہر بہت سے سماجی مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ دوسری طرف ٹیکنالوجی کے فروغ نے اور سوشل میڈیا کی مقبولیت نے بھی ہماری خواتین کے لیے بہت سی مشکلات پیدا کی ہیں۔ ان مشکلات کا حل عورت کو ٹیکنالوجی، انٹرنیٹ، موبائل فون اور سوشل میڈیا سے دور کرنا نہیں، بل کہ انھیں آن لائن دنیا میں تحفظ فراہم کرنا ہے، جو نہیں کیا جارہا۔ غرض یہ کہ وقت کی رفتار کے ساتھ پاکستانی خواتین کے مصائب میں مختلف وجوہات کی بنا پر اضافہ ہوا ہے، لیکن عصری تبدیلیوں کا ادراک کرتے ہوئے ان مسائل کو سمجھنے اور حل کرنے کی کوئی سنجیدہ کوشش نظر نہیں آتی۔

ہم بڑی آسانی سے کہہ دیتے ہیں کہ مغرب میں خواتین کے حقوق کی پامالی ہو رہی ہے۔ مغرب سے موازنہ کرکے دراصل ہم بس اپنے جذبات کی تسکین اور مسائل سے چشم پوشی کی کوشش کرتے ہیں۔ سوال موازنے کا نہیں معاشرے کے کم زور طبقات کے حقوق کے تحفظ کا ہے، جس کے لیے کسی دوسرے ملک اور خطے کی طرف دیکھنے اور اس سے موازنہ کرنے کی ضرورت نہیں، بل کہ اچھے معاشرے کے قیام کے لیے ان طبقات کو حقوق اور مواقع کی فراہمی کی ضرورت ہے۔

حکومت سے گلے شکوے اپنی جگہ، لیکن دراصل یہ معاشرتی رویے ہیں جو خواتین کے مصائب اور مسائل کا بنیادی سبب بنے ہوئے ہیں۔ ہمارے ہاں ملازمت پیشہ خواتین کے بارے میں بہت منفی رویہ پایا جاتا ہے جو طرزعمل میں ڈھل کر ان خواتین کے لیے تکلیف اور مصیبتوں کا سبب بن جاتا ہے۔ ہمارے یہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو کسب معاش کے لیے گھر سے نکلنے والی عورت کو ’’پبلک پراپرٹی‘‘ سمجھ بیٹھتے ہیں۔ اس رویے اور طرز عمل ہی سے ملازمت پیشہ خواتین کو ہراساں کیے جانے اور ان کے عدم تحفظ کا المیہ جنم لیتا ہے۔ ہمیں اس سوچ کو فروغ دینے کی ضرورت ہے کہ گھر سے باہر جاکر اپنے خاندان کے لیے کام کرنے والی عورت بھی دراصل گھرداری ہی کر رہی ہے اور گھر میں رہتے ہوئے اپنی ذمے داریاں نبھانے والی خواتین ہی کی طرح محترم ہے۔ اسی طرح اس سوچ کا فروغ بھی نہایت ضروری ہے کہ ہر عورت قابل عزت واحترام ہے، اس کے لیے کسی کو ماں، بہن، بیٹی سمجھنا ضروری نہیں۔ اس فکر کو پروان چڑھانا ناگزیر ہے کہ عورت کو تعلیم حاصل کرنے کا حق بھی ہے اور اپنی صلاحیتوں کو منوانے کا بھی۔ گھر گھر اس شعور کو اجاگر کرنا بھی لازمی ہے کہ عورت پر ہاتھ اٹھانا اور اس کی تضحیک کرنا غیرانسانی عمل ہے۔ یہ سوچ اور شعور ایک منصوبے کے تحت فروغ پاسکتے ہیں، اور یہ منصوبہ ہر گھر میں شروع ہونا چاہیے۔ آپ اپنی بیٹوں کے ذہنوں کو اس سوچ سے مہکائیں اور بیٹیوں کو عزت نفس دیں، بس اتنا سا ہے یہ منصوبہ، اس پر عمل درآمد کیجیے، ہمارے ملک میں خواتین کے مسائل کسی حکومتی منصوبے کے بغیر بھی حل ہونے لگیں گے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ عورت کے حقوق کا تحفظ اور اسے باعزت مقام دینا معاشرے کی بنیادی ضرورت ہے، کیوں کہ عورت ہی معاشرے کو اچھے افراد دے سکتی ہے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 281975 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.