اساتذہ کی ڈیوٹیاں

 ملتان کے محکمہ تعلیم کے بڑے افسر نے ایک حکم نامہ جاری کیا ہے، جس کے مطابق اب سکولوں کے قریب پائے جانے والے ریلوے کراسنگ اور پلوں وغیرہ پر اساتذہ کی ڈیوٹی لگائی جائے گی، تاکہ اساتذہ کی نگرانی میں بچے احتیاط سے مشکل راہ سے گزر سکیں۔ افسر مذکور نے یہ حکم لودھراں میں ریلوے پھاٹک پر ہونے والے حادثے کے بعد جاری کیا ہے۔ یہی مشورہ انہوں نے ریلوے حکام کو بھی دیا ہے کہ وہ ایسی جگہوں پر پھاٹک لگانے کا اہتمام کریں۔ نئے سال کے آغاز میں بہت سے سرکاری عہدوں کے نام تبدیل ہوگئے ہیں، کسی میں سے ملازمین کو فارغ کرنے کی خبریں ہیں تو کسی میں بھرتیوں کی ضرورت پڑ سکتی ہے، اس لئے ابھی درست طریقے سے اندازہ نہیں لگایا جاسکتا کہ محکمہ تعلیم کے ضلعی افسر کو کس نام سے پکارا جائے گا اور ڈویژن بھر کے بڑے افسر کو کس نام سے یاد کیا جائے گا، خیر چند روز میں یہ نام بھی یاد ہونے لگیں گے۔ نام کچھ بھی ہو، حکم نامہ دلچسپ بھی ہے اور عجیب بھی۔ موصوف کا کہنا ہے کہ انہیں اس حادثے سے بہت صدمہ پہنچا ہے، اس لئے مندرجہ بالا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس حکم پر اب عمل شروع ہوگا، ابتدا تو ظاہر ہے ملتان ڈویژن کے سکولوں سے ہی ہوگی، تاہم یہ فیصلہ صوبے کے حکمرانوں کو بھی پسند آسکتا ہے، اگر ایسا ہوگیا تو آنے والے دنوں میں پنجاب بھر کے سکولوں میں یہ حکم نامہ لاگو ہو جائے گا، اور سکولوں کے قریب جہاں بھی ریلوے کراسنگ پر پھاٹک یا انڈر پاس وغیرہ نہیں ہیں، وہاں اساتذہ ڈیوٹی دیں گے اور بچوں کی آمدو رفت کی نگرانی کریں گے، تاکہ وہ بحفاظت اپنی منزل تک پہنچ سکیں۔

اساتذہ کی یہ ڈیوٹی سکولوں کے قریب ریلوے کراسنگ پر ہی لگائی جانے کی خبر آئی ہے، مگر جو کراسنگ سکول سے دور ہے، وہاں کا کون خیال رکھے گا، یقینا اگلا حکم دور دراز والی کراسنگ کے لئے جاری ہو جائے گا۔ سکولوں کے اساتذہ میں پہلے ہی اس بات پربہت بے چینی پائی جاتی ہے، کہ اساتذہ سے ’’غیر نصابی‘‘ کام زیادہ لئے جاتے ہیں، ان سے بہت سی ایسی ڈیوٹیاں لی جاتی ہیں، جن سے ان کا کوئی تعلق نہیں بنتا، الیکشن ہے تو اساتذہ، مردم شماری ہے تو اساتذہ، کوئی آگاہی مہم ہے تو اساتذہ، کوئی سیلاب یا آفت وغیرہ آجائے تو اساتذہ، سرکاری جلسے کی رونق بڑھانی ہو تو اساتذہ، حتیٰ کہ گندم کی فصل پر بادانہ وغیرہ کی نگرانی کے لئے بھی اساتذہ کی طلبی ہی ہوتی ہے۔ ان تمام کاموں کے بعد اساتذہ کے نتیجے پر بھی کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے، اگر اس کے زیرتعلیم بچے فیل ہو گئے تو نوکری خطر ے میں پڑ سکتی ہے، یا ترقی معکوس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اب ایجوکیشن افسر صاحب کے زرخیز ذہن نے نئی بات سوچ لی ہے، امید ہے اس پر عمل کرنے سے بہتر نتائج برآمد ہونگے۔جن اساتذہ کو ریلوے کراسنگ پر بھیجا جائیگا، ان کے نتیجے کے بارے میں فیصلہ خاموش ہے، کیونکہ جو استاد ریلوے کراسنگ پر ڈیوٹی دے گا،ا سے کم و بیش گھنٹہ پہلے وہاں پہنچنا ہوگا، اور سکول لگنے کے وقت کے کچھ دیر بعد وہاں رکنا ہوگا، اسی طرح چھٹی کے وقت بھی اساتذہ کو سکول سے ریلوے کراسنگ پہنچنا ہوگا، اور اس وقت تک وہاں رکنا ہوگا، جب تک آخری بچہ بھی وہاں سے نہیں گزر جاتا۔

افسرصاحب کی نگاہ ابھی ریلوے پر اس لئے پڑی ہے کہ تازہ سانحہ وجود میں آیا تھا، ابھی ان کا خیال ان نہروں اور تالابوں کی طرف نہیں گیا، جہاں سے بچے روز گزرتے ہیں، اور جن پلوں کے کنارے بھی خستہ ہیں، وہاں بھی ٹیچرز کی ڈیوٹی لگانے کی ضرورت ہے، ایسی شاہراہیں اور چوک،جہاں سے تیز رفتار اور بھاری ٹریفک گزرتی ہے، اساتذہ کی ڈیوٹی کی سخت ضرورت ہے۔ موسمی شدت جیسا کہ دھند ، بارش اور شدید گرمی میں بھی بچوں کی نگرانی ہونی چاہیے۔ جن علاقوں میں دریا قریب پڑتے ہیں، وہاں بھی کچھ اساتذہ ڈیوٹی دے دیں تو بہتر ہے۔ ویسے بچوں کے اغوا وغیرہ کی خبریں بھی عام سننے میں آتی ہیں، اگر اساتذہ شام کو گلی محلوں کے چکر لگا لیا کریں تو ان واقعات میں کمی آسکتی ہے۔ اس سے ایک تو بچے اغوا سے بچ جائیں گے، دوسرے یہ کہ اساتذہ کو گلیوں میں چلتے پھرتے دیکھ کر وہ آوارہ گردی وغیرہ سے بھی محفوظ رہ سکتے ہیں۔ امید ہے پنجاب حکومت ملتان کے محکمہ تعلیم کے افسر اور ہماری گزارشات پر بھی غور کرے گی، اور اساتذہ کو نئے سال کے نئے نظام میں کچھ نئی ڈیوٹیاں تفویض کردے گی، جن سے حالات کے سدھرنے میں مدد ملے گی۔
 
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 473601 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.