“ عمرِ زیاں“ - قسط 2

اماں ! ابا !

انہوں نے گھر کی دہلیز کے اندر قدم رکھتے ہی وہیں سے آوازیں انہیں دینا شروع کردیں ۔۔۔۔

کیا ہوا شہیر اتنا شور کیوں مچا رہے ہو ۔۔۔۔

اماں سے پہلے ابا ہاتھ میں اخبار لئے باہر نکلے تھے ۔۔۔۔۔

ابا مجھے ملٹی نیشنل کمپنی میں جاب مل گئی ہے ۔۔۔۔۔ اسسٹنٹ مینیجر کی پوسٹ پر اپاؤنٹ کیا ہے مجھے ۔۔۔۔

ارے واہ برخوردار ۔۔۔آج تو آپ نے بڑی اچھی خبر سنائی ہے ۔۔۔۔۔ جلدی سے منہ میٹھا کرائیں سب کا ۔۔۔۔۔۔

ارے کس بات پر منہ میٹھا کرانے کی باتیں ہورہی ہیں ۔۔۔۔۔۔

اماں اور عروسہ ایک ساتھ ہی باہر نکلی تھیں ۔۔۔۔ وہ ابا کے ساتھ لان میں رکھی ایک کرسی پر بیٹھے تھے ۔۔۔ اور دونوں باپ بیٹے بہت خوش اور مطمعن نظر آرہے تھے ۔۔۔۔ ورنہ ابا شہیر سے ہمیشہ نالاں ہی نظر آتے تھے ۔۔۔۔ اور شیہر میاں ابا کے سامنے کم کم ہی سامنا کرنے کی سعی کرتے رہتے تھے نہ زیادہ سامنے آئیں اور نہ ابا کے تند و تیز کڑوی کسیلی باتوں کا حدف بنیں ۔۔۔۔ لیکن ابا خوش تھے ان سے اور اماں اور عروسہ کے لئے ان کا بیٹے سے بدلا رویہ ایک خوشگوار حیرت کا سبب تھا آج ۔۔۔۔

بھئی رخشندہ بیگم آپ کے بیٹے بھی آج سے کماؤ پوت ہوگئے ہیں ۔۔۔۔۔

ارے ماشااللہ ۔۔۔۔ میرا بیٹا ۔۔۔۔۔

فرطِ مسرت سے آگے کچھ کہا ہی نہیں گیا ۔۔۔۔ فوراً ہی آگے بڑھ کر خوشی سے بیٹے کو گلے لگا لیا ۔۔۔۔۔ اور جھٹ سے بلائیں بھی لے ڈالیں ۔۔۔۔ اماں کے گلے لگے ان کے پیچھے کھڑی عروسہ پر نظر پڑ گئی تو عجیب سا منہ بنا لیا تھا انہوں نے ۔۔۔۔ وہ جو خوشی سے ان ماں بیٹے کو گلے لگا دیکھ رہی تھی اور انہیں مبارک باد دینے کے لئے لب بس وا ہی کئے تھے کہ ان کے چہرے کے تاثرات نے اسے روک دیا تھا کچھ بھی کہنے سے ۔۔۔۔ دل کو ایک عجیب سی تکلیف ہوئی تھی ۔ اور وہ اس منظر سے ہی بٹ گئی ۔۔۔۔ چپ چاپ کچن میں جا کر بے اختیار آنکھوں میں آئے اس پانی کو پینے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔

عروسہ بیٹے ۔۔۔۔۔

جی ابا آئی ۔۔۔۔

ابا کی آواز پر وہ باہر کچن سے نکل آئی ۔۔۔۔ دیکھا تو ابا اور پھو پھو بیٹھے تھے لان میں شہیر موجود نہیں تھے ۔۔۔۔۔

مبارک ہو ابا اماں ابا آپ کو ۔۔۔۔

خیر مبارک بیٹی ۔۔۔۔

تم کو بھی بیٹا بہت مبارک ہو۔۔۔۔ ویسے بیٹا تم کہاں چلی گئیں تھیں ۔۔۔۔ شہیر کو مبارک باد بھی نہیں دی تم نے ۔۔۔

وہ میں چائے بنانے کے لئے گئی تھی پھو پھو ۔۔۔۔

ارے واہ چائے بھئی ہماری بیٹی کو کتنا خیال رہتا ہے ہمارا ۔۔۔۔۔ اور ایک آپ ہیں بیگم ۔۔۔۔۔

جی ہاں مگر یہ بھی دیکھیں عروسہ میں سارے گن میرے ہی ہیں ۔۔۔۔ میرا ہی پر تو ہے میری بیٹی ۔۔۔۔

عروسہ نے سکون کا سانس لیا تھا ۔۔۔ اور دل ہی دل میں ابا کا شکر بھی ادا کیا تھا ورنہ پھو پھو کے پوچھنے پر پھر سے وہ آنکھوں میں آئے آنسو ان سے چھپا نہ پاتی ۔۔۔۔ اور شہیر کو پھر موقع مل جاتا جلی کٹی سنانے کا ۔۔۔۔۔ وہ ان دونوں کو یوں ہی کھٹی میٹھی نوک جھونک کے ساتھ چھوڑ کر کچن میں چلی آئی تھی ۔۔۔۔ اور فریزر میں رکھے وان ٹان اور سپرنگ رولز نکال کر مائیکروویو میں ہلکا سا گرم کر کے چولہے پر پہلے سے رکھی تیل سے بھری گرم کڑھائی میں ڈالنے لگی ۔۔۔۔ تھوڑی ہی دیر بعد وہ تلن سے فارغ ہو چکی تھی اور اب سلیقے سے وان ٹان اور سپرنگ رولز ٹرے میں سجائے وہ لاؤنج میں چلی آئی دیکھا تو موصوف آچکے تھے ایک عدد بڑے سے مٹھائی کے ڈبے کے ساتھ ۔۔۔۔۔

آ ہا ۔۔۔ واہ بھئ واہ ۔۔۔ ہماری بیٹی نے تو آج خوب اہتمام کیا ہے بھئی ۔۔۔۔

ابا کی نظر اس پر پہلے پڑی تھی اور اسے اپنے من پسند سپرنگ رولز لاتا دیکھ کر خوش دلی سے بولے تھے ۔۔۔۔ پھو پھو نے بھی ان کے کہنے پر مسکرا کر دیکھا تھا اسے ۔۔۔۔ مگر شہیر اس خوشی کے موقع پر بھی اس سے بیر لگائے بیٹھے تھے ۔۔۔ اور ایسی نظروں سے گھورا تھا اسے کہ وہ ٹرے رکھ کر واپسی کے لئے مڑ گئی ۔۔۔۔

ارے تم کہاں چل دیں ۔۔۔۔ بیٹھو ہمارے ساتھ ۔۔۔۔۔

پھو پھو کے کہنے پر وہ ناچار وہیں تخت پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔

بھئی شہیر میں نے تم سے کہا بھی تھا کہ کھوپرے والی مٹھائی ضرور ڈلوانا ۔۔۔۔ عروسہ کو کتنی پسند ہے ۔۔۔۔ مختلف مٹھائیاں نظر آرہی ہیں مگر وہی بھول گئے ۔۔۔۔

اماں مٹھائی کا ڈبہ کھولتے ہوئے خفگی بھرے لہجے میں بولی تھیں ۔۔۔۔

کوئی بات نہیں پھو پھو ۔۔۔۔ خوشی کے موقع پر کوئی بھی مٹھائی چلے گی ۔۔۔۔ وہ ایک دم اپنی جگہ سے اٹھ کر مٹھائی کے ڈبے سے ایک مٹھائی کا چھوٹا سا ٹکڑا اٹھاتے ہوئے خوش دلی سے بولی تھی ۔۔۔۔ بہرحال وہ دن اس گھر کے تمام مکینوں کے لئے ایک یاد گار دن ثابت ہوا تھا ۔۔۔۔ اور شاید پہلی دفع دونوں کے درمیان کسی قسم کے تند و تیز جملوں کا تبادلہ نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔


×××××××××××××××××××

انہیں نوکری کرتے چھے مہینے ہوگئے تھے ۔۔۔ جب سے نوکری لگی تھی دونوں کی نوک جھونک بھی اب خال خال ہی ہوتی تھی ۔۔۔۔ شام کے چھے بجے سے پہلے وہ گھر نہیں لوٹتے تھے ۔۔۔۔ پھر شام کا کھانا کھا کر جو گھر سے باہر نکلتے تو
رات گئے واپسی ہوتی تھی ۔۔۔۔ پھر تھوڑا بہت ابا اماں کے پاس بیٹھتے اور پھر اپنے کمرے میں آکر جو سوتے تو پھر وہی صبح فجر پر اٹھتے تھے ۔۔۔۔ یہی روٹین بن گیا تھا ۔۔۔۔ عروسہ بھی ان کے سامنے کم سے کم آنے کی کوشش کرتی تھی ۔۔۔ اماں ابا اس بات سے بےخبر تھے کہ یہ جو آفس سے آنے کے بعد جو کھانا کھاتے ہی گھر
سے باہر جانے کی جلدی ہوتی ہے برخوردار کو تو اس کے پیچھے کیا وجہ ہے ۔۔۔۔ یہ بات تو ان کی دشمنِ جاں کو پتا تھی کہ وہ باہر کس سے ملنے جاتے ہیں ۔۔۔۔۔ یار دوستوں کا تو بہانا تھا صرف ۔۔۔۔

اس دن بھی جب وہ گھر لوٹے تو اماں کو لاؤنج میں بیٹھے دیکھ کر ٹھٹکے تھے ۔۔

اماں آپ اس وقت ۔۔۔۔

دو دن ہی ملتے ہیں وہ بھی تم باہر گزاردیتے ہو ۔۔۔۔۔ خیر تمہارے ابا اور میں تم سے کچھ اہم بات کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔۔

کیسی بات اماں ؟

انہوں نے پوچھا تھا ۔۔۔

چلو میرے ساتھ ابا تمہارے کمرے میں ہی ہیں ۔۔۔۔ وہیں چل کر بات کرتے ہیں ۔۔۔۔

ان کے کہنے پر وہ خاموشی سے ان کے ساتھ اماں ابا کے کمرے کی طرف بڑھ گئے ۔۔۔۔ ابا پلنگ پر تکئے سے ٹیک لگائے بیٹھے تھے ۔۔۔۔ اور کسی کتاب کا مطالعہ کر رہے تھے ۔۔۔ ان کو اماں کے ساتھ کمرے کے اندر آتا دیکھ کر کتاب سائیڈ ٹیبل پر رکھ دی ۔۔۔۔۔

آئیے شہیر صاحب ۔۔۔۔ آپ کو فرصت مل گئی آوارہ گردی سے ۔۔۔۔

اب آپ شروع مت ہوجائیے گا بشیر ۔۔۔

اماں نے ابا کو وہیں ٹوک دیا تھا ۔۔۔۔ تو انہوں نے مزید شہیر کی کلاس لینے کی بجائے خاموشی اختیار کر لی تھی ۔۔۔۔

اچھا برخوردار اب تم نوکری بھی کرنے لگے ہو اچھی پوسٹ پر ہو ۔۔۔ اب تمہارے کیا ارادے ہیں ۔۔۔۔

میں سمجھا نہیں ابا ۔۔۔

بیٹے تمہارے ابا کا مطلب ہے کے تمہیں اب اپنی خود کی زندگی شروع کرنی چاہئے ۔۔۔۔ مطلب یہ ہے کہ ہم تمہاری شادی کرنا چاہتے ہیں اب ۔۔۔۔ اور اسی سلسلے میں تم سے بات کرنا چاہ رہے تھے ۔۔۔۔ میں نے آہستہ آہستہ کر کے سب جوڑ رکھا ہے تمہارے ابا کی تنخواہ سے ۔۔۔۔ زیور الحمدُاللہ اتنا ہے کہ مزید لینے کی نوبت نہیں آئے گی ۔۔۔۔ اگر عروسہ پسند کرے تو ورنہ تڑوا کر اس کی پسند کے بنوا دونگی ۔۔۔۔

ایک منٹ ٹہریں اماں آپ نے یہاں عروسہ کا نام کیوں لیا ہے ۔۔۔۔ عروسہ کا میری شادی سے کیا تعلق ۔۔۔۔۔

اماں کی بات سن کر وہ چونکے تھے اور ایک دم بول اُٹھے ۔۔۔۔

بہت گہرا تعلق ہے برخوردار ۔۔۔۔ تمہاری شادی ہم عروسہ سے کرنے جارہے ہیں ۔۔۔۔

یہ آپ لوگوں نے سوچا بھی کیسے ابا ۔۔۔ میں اس کلن سے شادی کرونگا ۔۔۔۔ جسے میں ایک منٹ بھی برداشت نہیں کرپاتا اسے ۔۔۔ میں اس کے ساتھ ساری زندگی گزاردوں ۔۔۔۔ نہیں ابا میں ایسا نہیں کرسکتا ۔۔۔۔۔


کیا مطلب شادی تو تمہیں اسی سے کرنی پڑے گی ۔۔۔

ابا غصے سے اس کی بات سن کر بولے تھے ۔۔۔ انہیں اور اماں کو اس کے خیالات عروسہ کے بارے میں جان کر بہت افسوس ہوا تھا ۔۔۔

ہنہ مرتا مر جاؤنگا ابا مگر عروسہ سے ۔۔۔۔ نہیں کبھی نہیں ۔۔۔۔

عروسہ سے اچھی لڑکی تمہیں نہیں ملے گی شہیر ۔۔۔ تم پچھتاؤگے ۔۔۔۔

رخشندہ بیگم ! اپنے الفاظ زائع مت کیجئے ۔۔۔ کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔ سمجھایا اسے جاتا ہے جو سمجھنے کو راضی ہو ۔۔۔ اور آپ کے برخوردار نے پہلے سے ہی ڈیسائیڈ کر لیا ہے کہ انہیں کیا کرنا ہے ۔۔۔۔ کمانے لگے ہیں نا خود مختار ہوچکے ہیں ۔۔۔ انہیں اب ہماری ضرورت نہیں ۔۔۔۔

ابا اب آپ زیادتی کررہے ہیں ۔۔۔۔ میں عروسہ کو پسند نہیں کرتا اس کا یہ مطلب نہیں کہ میں آپ کی عزت نہیں کرتا آپ کا ہر فیصلہ سر آنکھوں پر مگر مجھے اس کے لئے مجبور مت کیجئے ۔۔۔ اگر آپ اپنی ضد پر اڑے رہے اور اگر یہ شادی ہو بھی گئی تو نہ میں خوش رہ پاؤنگا اور نہ آپ لوگوں کی چہیتی عروسہ ۔۔۔۔ اور آپ لوگ بھی ہمیں اس طرح دیکھ کر بے سکون رہینگے ۔۔۔۔

ٹھیک ہے ۔۔ جاؤ بھائی ہم تمہیں اب مجبور نہیں کرینگے ۔۔۔۔

ابا ان کی بات سن کر تھکے تھکے لہجے میں بولے تھے ۔۔۔۔ اماں کو تو ان کی بات سن کر دلی صدمہ ہوا تھا ۔۔۔۔ وہ تو آگے سے کچھ بول ہی نہیں پائیں انہیں کچھ ۔۔۔ کتنا ارمان تھا انہیں اپنے مرحوم بھائی بھاوج کی نشانی کو ہمیشہ کے لئے اپنے پاس ہی رکھنے کا ۔۔۔ اپنے بیٹے کی بہو کے طور پر اسے ہمیشہ دیکھا تھا ۔۔۔۔ مگر افسوس انکے بیٹے نے ان کے اس خواب کو تعبیر ملنے سے پہلے ہی زمین بوس کردیا تھا ۔۔۔۔۔ بہرحال ابا کے کہنے پر وہ کمرے سے نکل گئے تھے ۔۔۔۔ مگر نکلتے ہی ٹھٹک کر رک گئے دروازے کے پاس وہ کھڑی تھی جس سے وہ بے انتہا نفرت کرتے تھے ۔۔۔۔ اور یہ بغض اور عناد بچپن سے ہی دل میں پرورش پا رہا تھا ۔۔۔۔ اس کی ہر اچھائی اور خوبی پھر کہاں انہیں نظر آتی ۔۔۔ وہ سامنے سر جھکائے کھڑی تھی ۔۔۔ اسے دیکھ کر ان کا غصہ اور بڑھ گیا تھا ۔۔۔ ابھی وہ اسے کچھ بولنے ہی والے تھے کہ اس نے اپنا جھکا سر اٹھایا تھا ۔۔۔ کچھ تھا ان بڑی بڑی آنکھوں میں جس کے سبب وہ کچھ کہتے کہتے رک گئے تھے ۔۔۔ اور نا جانے کیوں ایک عجب سے درد کا احساس جاگا تھا ۔۔۔ وہ اپنی کیفیت کو سمجھ نہ پائے ۔۔۔۔ بس اسے دیکھے گئے اور پھر ایک دم سر جھٹکا تھا انہوں نے اور تیزی سے وہاں سے نکل گئے تھے ۔۔۔۔

××××××××××××××××××××××

اماں ! مجھے آپ سے بات کرنی ہے ۔۔۔۔

بو لو سن رہی ہوں ۔۔۔

وہ میں چاہتا ہوں کہ آپ غفور انکل کے گھر میرا رشتہ لے کر جائیں ن کی بیٹی آسیہ کے لئے ۔۔۔

اماں جو پالک کاٹتے ڈائیننگ ٹیبل پر بیٹھی تھیں نے سر اٹھا کر انہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔۔ اور پھر سر جھکا لیا ۔۔۔۔۔

اماں آپ نے جواب نہیں دیا مجھے ۔۔۔۔

جو تم چاہتے ہو وہی ہوگا ۔۔۔ تمہارے ابا اور میں چلے جائینگے بیٹا ان کے گھر ۔۔۔۔

مگر کب اماں ۔۔۔۔

وہ انکی بات سن کر خوشی سے بولے تھے ۔۔۔۔

تم کہو تو آج ہی شام میں چلے جاتے ہیں اور اگر صبر نہیں ہو رہا تو ابھی جا کر بات کر آتی ہوں میں ۔۔۔

وہ بہت سنجیدہ لہجے میں انہیں دیکھ کر بولیں تھیں ۔۔۔۔

ارے نہیں اماں میں نے تو بس آپ کو اپنی پسند بتانا تھی اور بس ۔۔۔۔۔

ٹھیک ۔۔۔۔

ان کے اتنا بولنے پر بس اتنا کہا تھا انہوں نے ۔۔۔۔ وہ جو پیچھے کھڑی ماں بیٹے کی گفتگو سن رہی تھی ۔۔۔۔۔ کچھ ہوا تھا اس کے دل کو ۔۔۔ ٹوٹا تھا اندر کچھ اس کے ۔۔۔ جس کی آواز صرف وہ سن سکتی تھی ۔۔۔۔

چلو خوش فہمی بھی ہوا ہوئی
چلو یکترفہ محبت بھی
اپنے انجام کو پہنچ گئی
میرے دل ابھی ٹہر جا ذرا
کچھ اور ترکش میں تیر باقی ہیں
میر دشمن کے ابھی ۔
دل سے ندا آئی تھی ۔۔۔۔ درد سے بھرے شعر اس رات اس نے اپنی پیاری ڈائری کی نظر کئے تھے ۔۔۔۔۔ آخری بار وہ روئی تھی اس ہرجائی کے لئے ۔۔۔ آخری بار جشن منایا تھا اپنی محبت کی ناقدری کا ۔۔۔ آخری بار بس آخری بار

××××××××××××××××××

آج ان کی منگنی تھی آسیہ سے ۔۔۔ وہی آسیہ جس سے شادی کے خواب وہ دیکھتے تھے ۔۔۔اسے پانے کی چاہ رکھتے تھے لیکن بے روزگاری کے سبب اپنی خواہش کو دل میں چھپائے بیٹھے تھے ۔۔۔۔ آج وہ ان کے ساتھ اسٹیج پر بیٹھی تھی ۔۔۔۔ انہی کی طرح گوری چٹی خوبصورت نازک سی آسیہ ۔۔۔۔۔اسی وقت عروسہ اماں کے ساتھ اوپر اسٹیج پر اماں کو سہارا دیتے ان کا ہاتھ پکڑے چڑھی تھی اور اماں کو آسیہ کے پاس بٹھا دیا تھا اور خود اسٹیج پر رکھے سنگل سوفے پر بیٹھ گئی تھی ۔۔۔۔ گرے کلر کے خوبصورت ڈیسنٹ سوٹ میں وہ بہت پیاری لگ رہی تھی ۔۔۔۔ اس کا سانولا روپ دمک رہا تھا ۔۔۔ ایک بار ان کی نظر اس پر پڑی تھی ۔۔۔۔ اور پھر آسیہ کے سوہنے روپ نے انہیں اس کی اور دوبارہ دیکھنے نہیں دیا تھا ۔۔۔۔۔۔

××××××××××××××××××××××××××××

باقی آئندہ ۔۔۔۔۔
farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 214960 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More