پہلی امید

کہتے ہیں مایوسی موت ہے اور امید زندگی ہے۔امید زندگی ہے لیکن امید کس پر رکھی جائے؟کس پر بھروسہ کیا جائے؟
اللہ اکبر اللہ اکبر(اللہ سب سےبڑا ہے ، اللہ سب سے بڑا ہے)۔مسجد سے اللہ کے پیغام کی صدا بلند ہو رہی ہے۔موذن ایک بار پھر پکارتا ہے اللہ اکبر اللہ اکبر ۔اللہ بہت بڑا ہے ، اللہ بہت بڑا ہے۔متوسط طبقے کے اکثر لوگوں کی طرح خاور کے ذہن میں بھی گھر کے مسائل کی فلم چل رہی تھی۔اس کا ذرا بھی دھیان اس پکار کی طرف نہیں گیا جو پکار کسی ایم۔پی۔اے یا ایم۔این ۔اے کی طرف سے نہیں بلکہ دو جہانوں کے مالک اللہ رب العزت کی طرف سے 24 گھنٹوں میں 5 دفعہ ہوتی ہے۔

"منشی جی! اللہ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ پیسہ ہے ، بنگلہ ہے ،گاڑی ہے ۔تمام بیٹوں نے ماشااللہ اپنے گھر سنبھالے ہوئے ہیں۔تمام بیٹیوں کی شادی اچھے گھرانے میں کی ہے۔"ملک اعظم اپنے منشی سے اپنے خیالات کا اظہار کر رہا تھا۔یہ تو بہت اچھی بات ہےملک صاحب۔اللہ آپ کے شان اور مرتبے کو اور بلند کرے۔منشی نے ملک صاحب کی شان میں قصیدے پڑھتے ہوئے کہا۔منشی جی! تم سے کیا چھپانا ،ہم نے پوری دنیا دیکھی ہے ، جب جوان تھے تو ہم بھی بازار ِ حسن کے چکر لگایا کرتے تھے ۔اب تھوڑے بوڑھے ہو گئے ہیں ۔اب دل سکون چاہتا ہے ۔لیکن دل کو سکون نہیں ملتا۔لاکھوں روپیہ خرچ کرکے دیکھا ہے۔ہر حربہ آزمایا ہے۔ہر سال بابا جی کے مزار پہ دو دیگیں چڑھاتے ہیں اور سب سے قیمتی چادر بھی ہم ہی چڑھاتے ہیں۔بابا جی کے دربار پہ جا کے ہم نے تو کہاں تھا کہ "بابا جی ! کچھ ایسا کرو کہ دل کو سکون مل جائے تو اگلی دفعہ لنگر کا وسیع انتظام کریں گے۔ملک صاحب نے اپنے دل کا حال بیان کرتے ہوئے بتایا۔ملک صاحب کچھ دنوں تک میرے بابا جی کا عرس ہے ۔آپ میرے ساتھ چلیے گا ۔وہاں پہ آپ کو سرور آجائے گا۔منشی نے اپنا مدبرانہ مشورہ دیا۔

اشھد ان الاالہ اللہ ( میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں )۔موذن سب بیان کر رہا تھا ۔صرف اللہ تعالیٰ ہی حقیقی معبود ہے ۔اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں ہے۔وہی سب کی بیڑیاں پار لگانے والا ہے۔ادھر خاور سوچ رہا تھا کہ اس دفعہ کی تنخواہ سے تو سارا قرض اترے گا۔ لیکن بچوں کی فیس اور گھر کا کرایہ کہاں سے ادا ہوگا؟ وہ سوچ رہا تھا کہ منشی صاحب سے کہتا ہو ں کہ کچھ ایڈوانس دے دے۔یہ سب کرنے کے لیے وہ فانی کو معبود کا درجہ دینے کی سوچ رہا تھا۔

ملک صاحب گاڑی تیار ہے ۔منشی نے ملک صاحب کو اطلاع دی۔ مشن ِ "سکون کی تلاش" میں نکلے ملک صاحب گاڑی میں براجمان ہو گئے۔گاڑی اپنی منزل کی طرف گامزن تھی ۔اچانک مخالف سمت سے آتے ہوئے ٹرک نے ان کے مشن میں مداخلت کر دی اور ملک کی گاڑی کئی چکر کھاتے کھیتوں میں جا گری۔

منشی نے آخری منظر جو اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ سامنے سے ایک تیز رفتار ٹرک گولی کی سپیڈ سے ان کی گاڑی کی طرف بڑھ رہا تھا۔اس کے بعد اسے کچھ بولنے کا موقع نہ ملا ۔اس کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئی۔وہ ملک صاحب کے بیٹے پہ اپنی پہلی امید لگائے بیٹھا تھا ۔کیونکہ ملک صاحب کے بڑے بیٹے نے کہا تھا کہ اگر تو بڑے ملک صاحب کو ٹھکانے لگانے میں مدد کرے گا تو وہ اس کو مالدار کر دے گا۔مگر منشی یہی پہ ایک بہت بڑی غلطی کر گیا تھا ۔

ملک صاحب آنکھ کھلی تو منظر نامہ ہی بدل چکا تھا۔اس کا سر بری طرح چکرا رہا تھا۔ اس نے اپنے بازو کو حرکت دینے کی کوشش کی لیکن ناکام رہا۔جب ملک صاحب نے نظر دوڑائی تو قریب کسی کو بھی نہ پایا اور پھر کمرے میں ایک سفید کپڑوں والی لڑکی داخل ہوئی۔ لیٹے رہیے آپ کے بازو کے بہت چوٹ آئی ہے۔نرس نے بلڈ پریشر چیک کرتے ہوئے بتایا۔آپ کو بہت سیریس حالت میں لایا گیا تھا مگر اللہ کا شکر ہے کہ آپ صحت کی طرف گامزن ہو رہے ہیں۔

خاور جب گھر آیا تو اس کو پتہ چلا کہ ملک صاحب کا ایکسیڈنٹ ہو گیا ہے۔منشی تو موقع پہ جاں بحق ہو گیا ہے۔ملک صاحب کا کوئی پتہ نہیں تھا۔ادھر یہ پریشانی کا دکھ اسے چین نہیں لینے دے رہا تھا کہ اسے کسی کے گرنے کی آواز سنائی دی۔تقریبا ً آدھے گھنٹے بعد وہ ہسپتال موجود تھا کیونکہ اس کی بیگم کو شوگر تھی جس کے ہائی ہونے کی وجہ سے وہ گر گئی تھی اور ہسپتال داخل تھی۔

زندگی کی تمام امیدیں ٹوٹ چکیں تھی کیونکہ ہسپتا ل والوں نے اس کا علاج کا بل اس کے سامنے رکھ دیا تھا ۔وہ تمام رشتہ دار جن پہ ملک صاحب کو بہت امیدتھی وہ اس کو ملنے آئیں گے ۔اس کی بیمار پرسی کریں گے ۔لیکن کوئی بھی نہ آیا ۔حتیٰ کہ اس کی سگی اولاد بھی اس سے منہ موڑ گئی۔ملک صاحب بالکل مایوس ہو چکے تھے۔ہسپتال والوں نے اس کا علاج بند کر دیا تھا ۔ابھی اس کے کچھ زخم ہی بھرے تھے لیکن ابھی تک وہ ہلنے کے قابل نہ تھا۔ اب اس کو اس ہستی کی یاد آرہی تھی جس پہ اس کو پہلی امید ہونی چاہیے تھی۔وہ بابا جی ! وہ دیگیں چڑھا، اس کے کسی کام نہ آیا۔ اب آخری امید کے طور پر اس نے اپنے مالک ِ حقیقی سے فریاد کی۔کہیں دور سےاللہ اکبر کی صدا بلند ہورہی تھی۔

حیی الصلوۃ (آؤ نماز کی طرف ) ۔پھر حیی الفلاح (آؤ فلاح کی طرف) ۔خاور نے آج اس صدا کو غور سے سنا تھا۔ دل نے سوچا کہ بس یہی آخری امید کارستہ ہے چلو نماز پڑھتے ہیں ۔اب بس اللہ ہی اس کی مشکلیں آسان کر سکتا ہے۔

کس طرح سے مشکلیں آسان ہو گیں ۔یہی سوچ میں گم وہ مسجد سے باہر نکلا اور ہسپتال کی طرف ہو لیا تھا۔ ادھر ملک صاحب رو رو کر اللہ رب العزت سے فریاد کر رہا تھا۔

خاور جب ایک مریض کے کمرے کے پاس سے گزرا تو اسے کسی کے کراہنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ اسے آواز جانی پہنچانی لگی۔ جب اس نے اندر جھانک کر دیکھا تو کوئی اور نہیں بلکہ ملک صاحب تھے۔جو بے بسی کے عالم میں اپنے رب کو یاد کر رہے تھے۔خاور کو اپنے آپ پر دکھ ہوا کہ وہ لوگوں پر امیدیں رکھتا رہا اورحقیقی مالک پہ آخری امید رکھی۔کاش اس کی پہلی امید اپنے رب پر ہوتی تو اس کو یہ دکھ دیکھنے نہ پڑتے۔اب اس کو پتہ چلا کہ رب العزت اپنے بندے سے واقعی ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتے ہیں۔اگر بندہ اس کی طرف ایک قدم بڑھتا ہے تو خالق کائنات اس کی طرف دس قدم بڑھاتا ہے۔

ملک صاحب نے اسے دیکھا تو یقین آ گیا کہ رب العزت پہ امید رکھیں تو واقعی رب اپنے بندے کی امید کو نہیں توڑتا۔اس نے خاور کو اپنے حالات سے آگاہ کیا تو خاور اپنا دکھ بھول گیا۔

چھ مہینے بعد جب خاور اور ملک صاحب نماز پڑھ کے نکل رہے تھے تو دونوں کے ذہن میں ایک ہی سوچ تھی کہ سکونِ دل صرف اللہ تعالی کے ذکر میں ہے۔حالات جیسے بھی ہو لیکن اپنی پہلی امید صرف اور صرف رب ذوالجلال پر ہونی چاہیے۔
پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ!
Abdul Kabeer
About the Author: Abdul Kabeer Read More Articles by Abdul Kabeer: 25 Articles with 40688 views I'm Abdul Kabir. I'm like to write my personal life moments as well social issues... View More