مسکراتے چہرے
(Prof Abdullah Bhatti, Lahore)
میں جیسے ہی آفس پارکنگ میں کار سے اُترا
ایک خوش لباس خو ش شکل گریس فل تقریبا پچاس سالہ شخص باوقار انداز سے دبے
پا ؤں چلتا ہوا میری طرف آیا اس کو اﷲ نے دلنواز مسکراہٹ کی کرامت دے رکھی
تھی وہ مسکراتی شفیق آنکھوں سے میری طرف دیکھ رہا تھا اُس کا مہذب انداز
اور چہرے پر پھیلی جاندار مسکراہٹ نے مجھے اپنے سحر میں جکڑ لیا میرے چہرے
پر بھی مسکراہٹ کی روشنی پھیل گئی وہ میری طرف بڑھا میں اُس کی طرف‘ قریب
آکر اُس نے گرم جو شی سے مصافحے کے لیے اپنا ہا تھ میری طرف بڑھا یا ہم نے
مصافحہ کیا تو اُس کی مسکراہٹ کے ساتھ ہی اُس کی نہا یت شیریں مدھم آواز
میرے کانوں سے ٹکرائی وہ یو رپ کے کسی ملک سے مُجھ سے ملنے آیا تھا ابھی
ہما ری گفتگو ابتدائی مرا حل میں ہی تھی کہ ایک درمیانے قد کا سانولا شخص
منہ پر ڈسٹ ما سک چڑھا ئے تیزی سے میری طرف بڑھا وہ اِس تیزرفتاری بے چینی
بے صبری سے میری طرف آیا جیسے مُجھ سے ٹکرا جا ئے گا اُس نے آتے ہی اپنی با
ت شروع کر دی اُس نے اِس با ت کا بالکل بھی لحا ظ نہ کیا کہ ہم پہلے سے با
ت کر رہے ہیں وہ اُس کا سانس چڑھا ہوا تھا جیسے وہ دوڑ کر آیا ہو سر میں
کئی دنو ں سے آپ کو ڈھونڈ رہا ہوں میں بہت پریشان ہو ں میری با ت سب سے
پہلے سنیں میں بہت پریشان ہوں میں بہت دھکے کھا کر آیا ہوں میں ہر طرف سے
ما یوس ہو کر آپ کے پا س آیا ہوں سر مجھے آپ سے بہت ساری امیدیں ہیں اگر آپ
نے میرا مسئلہ حل نہ کیا تو میں خود کوکچھ کر لوں گا اُس کی بے چینی بے
قراری اور پریشانی دیکھ کر مہذب انسان یہ کہتے ہو ئے پیچھے ہٹ گیا سر پہلے
آپ اِس انسان کی با ت سُن لیں یہ شاید بہت زیا دہ پریشان ہے آپ اِس کی با ت
سن لیں میں بعد میں آپ سے مل لو ں گا اُس شریف انسان کے پیچھے ہو تے ہی بے
چین آدمی شروع ہو گیا تھا وہ خو د کو دنیا کا مظلوم اور دکھی انسان ثابت کر
نے پر تُلا ہوا تھا اُس کے انداز حرکات و سکنات سے واضح ہو چکا تھا کہ وہ
ڈپریشن ما یوسی وسوسوں اور وہموں کا پرا نا مریض ہے خیالی دنیا میں رہتا ہے
حقیقی زندگی اور اُس کے تقاضوں سے دور اپنی ہی فینٹیسی میں زندگی گزار رہا
تھا اِس کے ہر بندے بیوی بچوں ماں با پ بہن بھائیوں معاشرے ملک اور دنیا سے
اعتراضا ت تھے ساری دنیا غلط تھی اور کر ہ ارض کا یہ واحد بند ہ حق پر تھا
جب کہ اصل تو یہ تھا کہ اِس نے اپنے اردگرد لوگوں کی زندگی اجیرن بنا رکھی
تھی جو بھی اِس کی زد میں آیا اِس نے اُس کی زندگی میں زہر گھولنے کی کوشش
کی اب یہ بیوی بچوں اور اہل دنیا کو ٹھیک کر نے میرے پاس آیا تھا یہ نان
سٹا پ بو لے جا رہا تھا اور میں سپا ٹ نظروں سے اُس کی طرف دیکھی جا رہا
تھا اُس کی باتوں اور جسمانی حرکات سے لگ رہا تھا کہ کر ہ ارض پر اس سے زیا
دہ دکھی اور پریشان اور کو ئی نہیں ہے اُس کی حر کتیں دیکھ کر مہذب انسان
میرے پاس آیا اور بو لا سر یہ بہت پریشان ہیں آپ مجھے حکم کر یں میں کس طرح
اس کی مدد کر سکتا ہوں وہ بیچارہ تو اس کی مدد کر نے آیا تھا لیکن پریشان
شخص اُس کو پڑ گیا کہ میں با ت کر رہا ہوں آپ پلیز ہم سے دور رہیں اور مجھے
آپ کی کسی قسم کی کو ئی بھی مدد درکار نہیں ہے اُس مہذب آدمی سے اِس کی نا
شائستہ گفتگو مجھے نا گوار لگی میرے لہجے میں بھی تلخی کا رنگ شامل ہو گیا
اور اُسے سختی سے کہا کہ آپ اِن سے بد تمیزی نہ کریں وہ تو تمہا ری مدد کر
نا چاہتے ہیں لیکن وہ تو شاید اپنا سارا ڈپریشن آج نکا لنے کے چکر میں تھا
بو لے جا رہا تھا جب وہ خو ب بول چکا تو میں نے اُس کو ذکر بتا یا اور کسی
اور دن آنے کو کہا میرے بار بار کہنے پر وہ چلا گیا اُسکے جا تے ہی پردیسی
آدمی میری طرف اور میں اُس کی طرف بڑھا ابھی ہم نے بات سٹارٹ ہی کی تھی کہ
ایک ادھیڑ عمر عورت اپنے بچے کے ساتھ ہما رے درمیان آکر کھڑی ہو گئی کہ
مجھے پہلے مل لیں اگر میں لیٹ ہو گئی تو میرے لیے بہت زیا دہ مسئلہ پیدا ہو
جائے گا میں نے اُس کی اِس طرح مداخلت کو نا گواری سے دیکھا لیکن میں قربا
ن جا ؤں اُس پردیسی آدمی پر وہ پھر مسکراتے ہو ئے چہرے کے ساتھ یہ کہتا ہوا
پیچھے ہٹ گیا کہ جنا ب آپ پہلے اِس عورت سے مل لیں یہ بہت پریشان سے میں
اِس کے جا نے کے بعد آپ سے مل لوں گا جب وہ پیچھے ہٹ رہا تھا تو مجھے خو
شگوار حیرت کا جھٹکالگا کہ اُس کے چہرے پر اب بھی روشن مسکراہٹ پھیلی ہو ئی
تھی غصہ بر ہمی نا راضگی کے تا ثرات اُس کے کو سوں دور تھے پردیسی کے خو
شگوار روئیے اور چہرے پر پھیلی مسکراہٹ کا میں شکا ر ہو چکا تھا مجھے اُس
کا تعاون سے بھر پو ر رویہ بہت اچھا لگا اُس کے دل میں دوسروں کی مدد تعاون
اور محبت مجھے اچھی لگی میں اُس عورت کی طرف متوجہ ہو گیا اُس عورت کو بھی
سنجیدہ مسئلہ نہیں تھا وہی خا وند کا رویہ اور بچوں کے لڑائی جھگڑے اور جا
دو ٹو نے کا وہم میں اُس کی تسلی کے لیے عورت کی ساری با تیں سنیں اور
تسبیحا ت بتا کر اُسے واپس روانہ کر دیا جیسے ہی وہ عورت واپسی کے لیے مُڑی
میں اُس مہذب انسان کی طرف بڑھا ابھی میں اُس شریف انسان کے پاس پہنچا بھی
نہ تھا کہ ایک طرف سے ایک لڑکا تیز کی طرف میری طرف بڑھا اُس نے ہا تھ میں
مو با ئل پکڑا ہوا تھا اور وہ کسی سے میری با ت کروانا چاہتا تھا اُس نے یہ
بھی نہیں دیکھا کہ میں مصروف ہوں کہ نہیں یا اخلا قی طو ر پر مُجھ سے اجا
زت لینے کی ضرورت بھی ہے اُس نے زبردستی مو با ئل سیٹ میں کان کے ساتھ لگا
دیا وہ زبردستی مو با ئل میرے کان میں گھسیٹنا چاہ رہا تھا میں نے الجھن
زدہ نظروں سے اُس کی طرف دیکھا اور فون اپنے کان سے لگا لیا فون میرے کسی
جاننے والے کا تھا جو اِس کی سفارش کر رہا تھا کہ سب سے پہلے سب کو چھوڑ کر
میں اِس کی با ت سنو ں میں نے فون پر با ت سنی جو بلکل عام نو عیت کی بھی
با ت سننے کے بعد میں اُس مسکراتے چہرے کی طرف بڑھا لیکن جب میں چلا تو فون
والے نے میرا پیچھا نہیں چھو ڑا وہ بھی میرے ساتھ ہی چلا اوراپنی با ت
سنانے لگا جب میں اُس انسان کے پاس پہنچا تو اُس نے خو د ہی کہا سر آپ پہلے
اِس کی بات سن لیں میں آرام سے اپنی با ت کر یں اسی دوران دس پندرہ لو گ
اور بھی آگئے ہر کو ئی جلدی میں تھا وہ پر دیسی آرام سے سامنے پڑے بینچ پر
بیٹھ گیا اور انتظار کر ے لگا میں نے لوگوں سے ملنا شروع کر دیا لوگوں سے
ملتے ملتے مجھے کئی گھنٹے جب گزر گئے تو میں نے دیکھا وہ شخص آرام سکون اور
مسکراتے چہرے کے ساتھ بیٹھا ہے میں جب بھی اُس کی طرف دیکھتا وہ مسکراہٹ کا
نذرانہ میری طرف اور میں اُس کی طرف اچھا لتا مسکراہٹوں کے اِس تبا دلے میں
جب کا فی دیر ہو گئی تو میں سب کو چھو ڑ کر اُس کے پاس کر جا کر بیٹھ گیا
اور کہا اگر آپ اِس انتظار میں ہیں کہ جب میں مکمل فری ہو نگا تو اُس وقت
آپ ملیں گیں تو آپ بہت بڑی غلط فہمی کا شکا ر ہیں یہ بندے تو اِسی طرح آتے
رہیں گے تو وہ شفیق مسکراہٹ اور مدہم میٹھے لہجے میں بولا سر میں کل آجا ؤں
گا ۔ میں حیرت سے اُس کو دیکھ رہا تھا اِسی دوران میرے گا ؤں سے ایک بندہ
آیا جس کے بیٹے کو مر گی کا مرض ہے آیا دم کرا یا اور کہنے لگا بھٹی صاحب
دعا کریں اِس کی دوائی کا کو ئی وسیلہ بن جا ئے دو سال تک ہر ما ہ اتنے
ہزارکی دوائی درکا ر ہے جو میں نہیں لے سکتا غریب با پ کی با ت سن کر پر
دیسی آگے بڑھا جو اِس غریب کی با تیں سن رہا تھا اور بو لا جنا ب اِس بچے
کی ما ہانہ دوائی پر کتنا خرچ آتا ہے با پ کے بتا نے پر اُس نے جیب سے پیسے
نکا لے اور کہا یہ تین ما ہ کے پیسے رکھ لیں با قی اِس ایڈریس سے ہر ما ہ
کی پہلی تا ریخ کو لے جا یا کریں میں تو پردیس میں ہو نگا لیکن میرا بھا
نجا ہر ماہ آ پ کو پیسے دے جا یا کر ے گا یہ اُس کا نمبر ہے وہ یہاں بھی
آکر دے جایا کر ے گا غریب باپ کی آنکھوں میں خو شی کے آنسوں کی برسات جا ری
ہو گئی اور میں احتراما اُس شخص کے سامنے کھڑا ہو گیا کیو نکہ میرے سامنے
کردار کا k2کھڑا تھا جس کے سامنے بڑے بڑے عالم دین حاجی نماز ی اور قد آوار
انسان کیڑے مکو ڑوں کی طرح نظر آرہے تھے اُس کے چہرے پر شفیق دلنواز
مسکراہٹ مجھے اپنا قیدی بنا چکی تھی مُردوں کے اِس با نجھ معاشرے میں جہاں
انسان ایک دوسرے کو کا ٹنے میں مصروف ہے ایسے ہی مسکراتے چہرے ہیں جو
انسانیت کی مردہ رگوں میں حیات بخش لہریں دوڑاتیں ہیں ایسے مسکراتے چہروں
کے نور سے ہی با نجھ معاشرے زندہ ہیں ۔ |
|