کھوٹے رشتے

کس قدر زیادہ علماء کرام نے قرآن و سنت کی روشنی میں باہمی الفت و محبت کے ساتھ رشتہ استوار کرنے اور صلہ رحمی کو یقینی بنانے کی تاکید کی ہے۔اسی وجہ سے بہت سے لوگ علماء و مشائخ اور فتیان کرام کے پاس اپنے مسائل کا رونا روتے ہیں کہ ہماری اولاد نافرمان و ناخلف ہوچکی ہے،چچا و ماموں اور رشتہ داروں کے مابین دوریاں اور نفرتیں اس حدتک جڑ پکڑ چکی ہیں کہ اب ایک دوسرے کو دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا۔یہی وجہ ہے کہ خاندانوں میں تفریق و پھوٹ پڑچکی ہے البتہ کسی داعی و واعظ کی ندا و دعوت یا توجہ مبذول کرانے پر تعلقات میں کچھ بہتری آتی ہے اور وہ بھی دکھلاوے کی ہوتی ہے کہ کبھی کبھار ملاقات کرلی یا کبھی موبائل پر کال یا ایس ایم ایس کے ذریعے حال احوال معلوم کرلئے۔مگر کم ظرفی کی بات ہے کہ جدید ٹیکنالوجی کے ذرائع پر رابطہ استوار کرلینے کو کافی و شافی سمجھ لیا جاتاہے اور یہ ذہن بنا لیتے ہیں کہ ہم قطع رحمی کی لعنت و پٹھکار سے محفوظ ہوگئے ہیں جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایسے تعلقات اصلی نہیں ہوتے بلکہ یہ نقلی و کھوٹے رشتے داریاں ہیں کسی طور پر اصلی و حقیقی نہیں ہوسکتیں۔

حقیقی صلہ رحمی اس وقت قائم ہوتی ہے جب انسان کا رابطہ صرف موبائل و انٹرنیٹ کی بجائے صدق دل سے اور اخلاص و محبت اور ہمدردی کے ساتھ ملاقات کرنا رشتہ داروں سے اور ان کی صورتحال کا باریک بینی سے جائزہ لینا وہ مصیبت وتکلیف میں ہیں یا راحت و اطمینان کی زندگی جی رہے ہیں،آیا وہ صحت و تندرست ہیں یا بیمار و لاچار، کہیں وہ فقر و فاقہ اور مالی مسائل کی کمی سے پریشان حال تو نہیں یہ سب معلوم کرنا اور معلوم ہونے پر دکھ درد میں ہاتھ بٹانا ہی اصل رشتہ داری و صلہ رحمی ہوسکتی ہے۔اور اگر اس کے علاوہ تعلقات کی بحالی چاہتا ہو تو اعزہ و اقارب کو اس کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی اسلام ایسی قربتوں کو محبوب نظروں سے دیکھتاہے۔یہ کس طرح کی قرابت داری ہے کہ باپ و بھائی ،چچا اور کزن اور خالو وغیرہ فقرو فاقہ کی حالت میں ہو اور ان کے دکھ و درد اور تکلیف کا احساس انسان کے دل میں پیدا نہ ہو اور نہ ہی ان کی دل جوئی کیلئے کوئی مدد کرے۔دوسری جانب خطبا حضرت بھی مساجد میں اپنے خطبوں کے دوران صلہ رحمی کی حقیقت و واقعیت کو مکمل و جامع طورپر بیان نہیں کرتے ۔جبکہ صلہ رحمی کے فرائض و واجبات کو بھی بیان کرنے سے پہلوتہی سے کام لیتا ہے اور یہ بہت بڑی کوتاہی ہے دعوت کے میدان میں کام کرنے والوں کی۔

بڑے بڑے آئمہ کرام جن میں امام ابوحنیفہ اور امام احمد ابن حنبل شامل ہیں نے صلہ رحمی و قرابت داری کے حقیقی معنی کو خوبصورت الفاظ میں بیان کیا اور وہ قرآن و سنت کی تعلیمات کا عین آئینہ بھی ہیں۔امام اعظم ابوحنیفہ نے اﷲ تعالیٰ کے ارشاد گرامی ’’قرابت داروں کو مکمل حق دو‘‘اس ’’حقہ‘‘ کے بارے میں بیان کیا ہے کہ کامل و اکمل طور پر دیکھا جانا چاہئے کہ اگر کوئی عزیز مصائب و الآم میں گرفتار ہو تو اس کو چاہے کہ اس کی مصیبت فقر کی صورت میں ہو یا بیماری کی شکل میں معاونت و مدد اور دلجوئی کرنی چاہئے۔
 
Khalid Fuaad
About the Author: Khalid Fuaad Read More Articles by Khalid Fuaad: 22 Articles with 18841 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.