انسان انسانیت کی قاتل ، آخر کیوں؟

تحریر: میرال فاطمہ، لاہور
ایک بلی نے چھوٹے سے معصوم بلی کے بچے حملہ کر دیا اور لمحوں ہی میں اسے زخمی کر دیا۔ ابھی اس کے زخموں پر مرہم لگاتے میں سوچ رہی ہوں کہ یہ صرف ایک چھوٹی بلی اور بڑی بلی کا قصہ نہیں بلکہ پورے معاشرے کی کہانی ہے۔ صدیوں سے آدم کی آدم خوری کا کھیل چلتا آ رہا ہے۔ اگر ہم آدم کی آدم خوری کے آغاز کی بات کریں تو یہ سلسلہ تو تب ہی شروع ہو گیا تھا جب پہلا نا حق قتل ہوا تھا۔ قابل فکر پہلو یہ ہے کہ آدم خوری کا یہ کھیل بنا کسی رکاوٹ کے جاری و ساری ہے۔ یہ آدم خوری مختلف انداز اور مختلف زاویوں سے ہمارے اپنے اندر آج بھی موجود ہے۔ کہیں اقتدار کی جنگ میں لاشوں پر سیاست ہوتی ہے۔ تو کہیں ایک زمین کے ٹکڑے کے لیے لاشوں کا انبار لگا دیے جاتے ہیں۔

وحشت و درندگی تھوڑی اور آگے بڑھتی ہے تو ہاتھوں میں قلم پکڑے معصوم بچوں سے ان کے قلم کے ساتھ ساتھ ان کی سانسیں بھی لے لیتی ہے۔ کبھی برادریوں کی برادریوں کو خاک و خون میں تپڑا دیا جاتا ہے تو کہیں کالے کوٹوں کو خون سے آلودہ کردیا جاتا ہے۔ بات دنیا کی سطح پر کی جائے تو خود کو سپر پاور کہلوانے والے پورے پورے ممالک پر بمباری کر کے انہیں تہس نہس کر کے بھی حقوق انسانی کا نعرہ مارتے ہیں۔ اگر بات ہمارے اپنوں پر آئے تو ایک دوسرے کو کافر قرار دے کر انہیں چیتھڑوں میں بدل دیا جاتا ہے۔ جسے کچھ بیگانوں نے بھی خوب ہوا دی اور خوب مدد فراہم کی۔ تمام اسلامی ممالک میں تکفیری سروس کو ایسے چلایا گیا کہ آج ہم شام میں ایک دوسرے کو مارتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں ہم نے کفر کے خلاف جہاد کرلیا۔
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں

انسان انسان کو کاٹ رہا ہے۔ ایک بازار قتل و غارت سجا ہوا ہے۔ مگر اس میں ہم کہاں کھڑے ہیں یہ سوچنے والی بات ہے۔ ہم کچھ نہیں کررہے مگر اس کے باوجود ہم بہت کچھ کررہے ہیں۔ یاتو ظالم کے ساتھ کھڑے ہیں یا مظلوم کا ساتھ دے رہے ہیں۔ اگر ہم خاموش ہیں تو گویا ظلم و جبر کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں کہ جو کچھ ہورہا ہے سب ٹھیک ہورہا ہے۔ اگر ہم بول رہے ہیں اگرچے ہماری آواز کہیں پہنچ نہیں رہی تو گویا ہم سے جو کچھ ہورہا ہے ہم کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ ایک اور کام بھی ہے جسے کرنا ہمارے لیے بہت ضروری ہے۔ وہ ہے خود کی اصلاح اور خود احتسابی۔

لازمی نہیں ہوتا کہ ہم انسان کو ماریں گے تو ہی ہم ظالم کہلوائیں باصورت دیگر ہم تو کہیں بھی ظلم کر ہی نہیں رہے۔کبھی سوچا کہ ہم بڑی بڑی باتیں تو کر سکتے ہیں لیکن اپنے حصے کی آدھی روٹی کسی بھوک سے بلکتے معصوم بچے کو نہیں دے سکتے ۔ شاید ہمارے پاس سب کچھ ہے۔ ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ غریب و کمزور پر ہمیشہ حکمرانی ہوتی آئی ہے۔

ایک بات سنی تو آج وہ دیکھنے کو اکثر ملتی ہے۔ ایک ڈاکٹر صاحب مسجد میں نماز پڑھ رہے تھے۔ دعا کے وقت کہا گیا کہ اے اﷲ تمام مریضوں کو شفاعطا فرما۔ سب نے آمین کہا مگر ڈاکٹر صاحب خاموش رہے۔ کسی نے پوچھا کہ آپ نے اس پر آمین کیوں نہیں کہا تو وہ بولے اگر سب ٹھیک ہوگئے تو میں مر جاؤں گا۔ میرا کاروبار تو چلتا ہی لوگوں کے بیمار ہونے سے ہے۔ آج اقتدار میں بیٹھے افراد بھی کسی غریب اور کمزور کی بھوک ، پریشانیوں کی طرف توجہ نہیں دیتے۔ شاید وہ جاتنے ہیں کہ اگر ان میں شعور آگیا تو یہ ہمارے ہی خلاف اٹھ کھڑے ہوں گے۔ وہ اس لیے ان کی بھوک نہیں مٹاتے کہ پھر یہ خود سے بے فکر ہوکر دوسرے کے حقوق کے لیے اٹھ کھڑا ہوگا۔

مگر یاد رکھیں آج کسی کا استحصال ہوا اور آپ وجہ تھے تو آپ نے بھی ظلم کیا۔ ظلم معصوم بچوں پر بمباری ہی نہیں بلکہ کسی غریب اور کمزور کے حقوق دبانا بھی ظلم ہے۔ آج آپ کے ساتھ اپنے آفس، اپنے ادارے یا اپنی وزارت کی کرسی ہے۔ اقتدار ہے جو چاہیں کرسکتے ہیں تو خیال رکھیں کہ کہیں جانے یا انجانے میں غلطی سے بھی کسی کا استیصال نہ نہیں کرنا، ہر کسی کو اس کی محنت مزدوری مکمل اور وقت پر دیں۔ آپ دنیا فتح نہیں کرسکتے نہ کریں مگر فی الحال یہ عزم کر لیں کہ آج سے آپ کسی کو اس کے حق سے محروم نہیں کریں گے۔ آج اگر آپ نے یہ کر لیا تو ایک دن آپ سے مل کر بہت سارے اس ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں اور پھر یہ ملک پوری دنیا کے مسلمانوں کی امید ہی تو ہے اور اس امید کی پہلی کرن آپ ہی ہوں گے۔ میں ہوں گی ، ہم سب ہوں گے۔ تو عزم کریں کہ آج سے کسی کی پریشانی کا سبب کم از کم ہم نہیں ہوں گے اور صرف اتنا ہی کسی اور کو بھی ایسا نہیں کرنے دیں گے۔
Maryam Arif
About the Author: Maryam Arif Read More Articles by Maryam Arif: 1317 Articles with 1142692 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.