جذبے کسی کے بس میں نہیں (آٹھویں قسط)

فاخر :اچھا اب میں چلتا ہوں۔اس سے مذید کچھ بولانہ گیا۔
آفتاب :ویسے بھی ملاقات کا وقت ختم ہو گیا ہے ساتھ ہی نکلتے ہیں۔
فاخر:جی ملاقات کا وقت تو ختم ہو ہی گیا ہے ۔اس نے دانت پیستے ہوئے کہا۔
آفتاب:اچھا تو ہم چلتے ہیں ،کل آخری دن ہو گا، انشاللہ تعالی۔
آفتاب اور فاخر دونوں کمرے سے باہر نکل گئے۔
سمن:فاخر تو ویسے کا ویسا ہی ہے بلکل نہیں بدلا۔
نایاب:تم کمرے سے کیوں گئی۔
سمن:تاکہ وہ بے چارہ اپنے دل کی بھڑاس نکال لے۔مجھے تو ترس آتا ہے اس پر ،تمہیں نہیں آتا۔
نایاب:تو کیا کروں ،مجھے اس وقت بھی وہ پسند نہیں تھا اب بھی نہیں ہے ،دیکھا تم نے کہا کیا اس نے پیسہ کی وجہ سے ،پیسہ کی وجہ سے میں نے اسے چھوڑا ہے۔
سمن:تو کس وجہ سے چھوڑا ہے۔
نایاب:تم نہیں سمجھو گی۔
سمن :تو سمجھاو نا۔
نایاب :چھوڑو ،آگے وہ بہت سر کھا کر گیا ہے اس نے سر جھٹک کر کہا۔اب تم چپ کرو۔
ماہم:حریم یہاں آو۔یہ اچھی بچی ہے ہادی،دیکھو کیسے بات مانتی ہے۔
ہادی: نہیں میں اچھا بچہ ہوں،یہ گندی بچی ہے۔
احمر :اچھا ہے تمہاری پریکٹس ہو رہی ہے ،بچوں کو سنبھالنا سیکھ جاو گی۔
ماہم:بچہ خود سکھا دیتا ہے ماں کو سب کچھ ،اُسے کسی پریکٹس کی ضرورت نہیں ہوتی۔آپ اب سو جائیں صبح آفس جانا ہے۔
سمن:آفتاب بھائی کا فون آیا تھا ،جب تم واش روم میں تھی ۔وہ کہہ رہے تھے پیپر ورک ہو گیا ہے ،ابھی کچھ دیر میں ڈسچارج کر دیا جائے گا تمہیں کپڑے تبدیل کر لو کل رات آفتاب بھائی چھوڑ گئے تھے تمہارے لیے ۔یہ لو۔
نایاب:شکر ہے مسکراتے ہوئے ۔
آفتاب:اسلام علیکم ،میں نایاب کو لے کر تمہاری طرف ہی آوں گا پھر ہم وہاں سے گھر جائیں گئے۔
احمر:ہاں کیوں نہیں۔
آفتاب :ابھی ہم ہوسپٹل سے کچھ دیر میں نکلیں گئے۔اچھا اللہ حافظ
آفتاب :کمرے میں داخل ہوتے ہوئے ،آپ لوگوں نے سامان سمیٹ لیا ہے نا۔اور نایاب دوا وغیرہ کا پوچھ لیا ہے تم نے ۔
نایاب :جی۔
ماہم۔واہ بھئی اللہ کا شکر ہے تم تو بلکل ٹھیک لگ رہی ہو۔
نایاب:ماہم سے ملتے ہوئ ۔ہاں ٹھیک ہوں۔ہادی اور حریم کہاں ہیں۔دونوں سو رہے ہیں۔کمرے میں داخل ہوتے ہوئے نایاب نے دونوں کو سوتے دیکھ لیا ۔مسکرا کر حریم کو پیار دیتے ہوئے۔
آٖفتاب ۔ہم کچھ دیر میں گھر کے لیے نکلیں گئے۔
ماہم:بھائی آپ لوگ دن کا کھانا کھاکر جائیے گا۔
آفتاب :نہیں،وہ مجھے دراصل آفس جانا ہے پھر سے کام ہے۔کچھ
نایاب:ہادی،ہادی
ہادی :اچھل کر بیٹھتے ہوئے ماما آپ کو کہاں چوٹ لگی پتہ ہے مجھے بھی چوٹ لگی؛
نایاب :ہادی کے سر پر کیا ہوا۔
ماہم : اس کا پاوں ،وہ ۔اس دن میں نے تمہیں فون کیا تھا مگر سمن نے منع کر دیا کہ تمہیں کچھ۔
نایاب:ہادی کو پیار کرتے ہوئے۔میرا بیٹا ،بہت درد ہوا تھا کیا۔
آفتاب۔ہوسپٹل سے واپس آتے ہوئے ۔آج سے پٹی نہیں کرنی کیا؟ڈاکڑ یہی کہہ رہی تھی نا۔اب صرف دوا لگانی ہے یہ والی ۔
نایاب :جی جی
آفتاب :شکر ہے۔جان چھوٹی ہوسپٹل کے چکروں سے۔آج سے ڈھولکی بھی رکھ رہے ہیں نا فاخر کے گھر میں۔
نایاب :جی۔
آفتاب:تم جاو گی۔
نایاب:کچھ دیر خاموش رہی۔رہنے دیتے ہیں ۔
آفتاب :سارے جمع ہو رہے ہیں،چلی جاو ۔
نایاب:آپ جائیں گئے ،شادی تین دن بعدہے۔شادی پر ہی جاتے ہیں۔نایاب نے دھیرے سے کہا۔
آفتاب ،چلو کل چلے جاتے ہیں ۔آج نہیں ،دو دن وہاں رہیں گئے پھر بارات کے ساتھ جائیں گئے اور پھر شادی حال سے سیدھے گھر آجائیں گئے ۔ولیمہ اپنے گھر سے جا کر اٹینڈ کر لیتے ہیں ،کیا کہتی ہو۔
نایاب جی۔
ہادی اور حریم کو پک کرتے ہوئے چلتے ہیں نا۔ماہم کے پاس سے۔
آفتاب :نہیں گھر چلتے ہیں ،پھر میں ہادی اور حریم کو اکیلے جا کر لے آوں گا۔
نایاب:جی
گھر داخل ہوتے ہوئے۔
نایاب :آپ کو پانی دوں ۔
آفتاب:نایاب کی طرف دیکھتے ہوئے نہیں ۔
نایاب:ڈریسنگ ٹیبل کے سامنے کھڑے ہو کر سکارف اُتارتے ہوئے۔
آفتاب :تھیک نایاب کے پیچھے کھڑے ہوتے ہوئے۔تمہارازخم نہیں دیکھا میں نے ابھی تک۔
نایاب :جی۔
آفتاب:مسکراتے ہوئے، اس کی کرسی کو اپنی طرف کرتے ہوئے،اس کی انکھوں میں دیکھ کر بولا۔سوچ رہا ہوں تمہارا زخم دیکھوں ۔دیکھاوں گی۔نایاب کا ہاتھ پکر کر۔
نایاب:نظروں کو جھکاتے ہوئے۔آپ کو اجاذت کی کیا ضرورت ہے۔
آفتاب:تمہارے ہاتھ بہت ٹھنڈے محسوس ہو رہے ہیں۔نایاب کے ہاتھوں کو اپنے چہرے پر رکھتے ہوئے ،آفتاب نے کہا۔
نایاب کو آفتاب کے چہرے کی حدت اپنے پورے جسم میں اُترتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔اُس نے اپنی آنکھیں بند کر لیں۔
فاخر:امی سارے آگئے ہیں۔
نورجہاں:وہ نہیں آئی جس کا تمہیں انتظار تھا۔باقی سب آگئے ہیں۔
فاخر:آپ نے خواہ مخواہ ،۔۔۔۔۔۔وہ خاموش ہو گیا۔
نورجہاں :کمرے سے باہر تو آو۔نایاب آتی تو آجاتے لیکن ماں کے لیے نہیں آسکتے۔مر ہی جاتی یہ لڑکی تو اچھا تھا۔کم سے کم ۔۔۔
فاخر :امی کیا کہہ رہی ہیں آپ وہ اگر مر جاتی تو میں بھی زندہ نہیں رہتا۔اُسے سوچ سمجھ کر بددعا دیں۔میری سانس اُسی کا نام لے کر چلتی ہے۔
نور جہاں :غصے سے باہر نکل گئی۔
فاخر: نے کمرہ بند کر لیا۔اپنے کانوں پر ہیڈ فون لگاتے ہوئے اس نے والیم فل کیا تاکہ باہر کی کوئی آواز اُسے سنائی نہ دے۔
جوغزل وہ اکثر سنتا تھا وہی آج بھی سن رہا تھا۔
چمکتے چاند کو ٹوٹا ہوا تارا بنا ڈالا
میری آوارگی نے مجھ کو آوارہ بنا ڈالا
نورجہاں :ابھی دو دن باقی ہیں لڑکیوں بس کرو بہت رات ہو گئی ہے سو جاو۔کل باقی کی کسر نکال لینا۔
ماہم :ٹھیک کہہ رہی ہیں ،خالہ میں خود یہی کہہ رہی تھی فروا کو ،پر یہ ہے کہ اِسے نیند ہی نہیں آرہی۔
نور جہاں:فروا سو جاو اور سب کو بھی سونے دو۔
فاخر:اسلام علیکم۔آفتاب بھائی ،فون کرتے ہوئے۔
آفتاب:واعلیکم اسلام دُلہے صاحب کیسے ہو؟
فاخر :آپ لوگ آئے نہیں کل ہماری طرف،میں نے سوچا خیریت معلوم کر لوں۔
آفتاب:ہاں یار ،وہ دراصل ہم نے سوچا کہ بچے تنگ کریں گئے سب کو ،اس لیے اور لیکن آج رات کو حاضر ہو جائیں گئے۔
فاخر:مجھے انتظار رہے گا۔اس نے گھڑی کی طرف دیکھا۔
آفتاب:فاخر کا فون آیا تھا نایاب کو بتاتے ہوئے۔
نایاب:میں سوچ رہی تھی کل ہی چلتے ہیں ،ایک دن بہت ہوتی ہے نا مہندی ،بچوں کے ساتھ کسی دوسرے کے گھر رہنا مجھے تو مشکل لگتا ہے۔
آفتاب :تمہاری مرضی ،کل ۔۔۔اچھا ٹھیک ہے لیکن کیا کہو گی۔ان سے کیوں نہیں آئی۔سب وہاں ہیں۔
نایاب :کوئی بات نہیں ،میں کہہ دوں گی کچھ۔
رات کے نو بج چکے تھے فاخر نے پھر فون ملایا۔
آفتاب: اسلام علیکم ،فاخر کیسے ہو یار۔
فاخر : آپ نے تو کہا تھا کہ رات کو آئیں گئے ،آپ ابھی تک آئے نہیں۔
نایاب نایاب یہ لو فاخر کا فون ہے تم ہی بتاو کہ ہم کیوں نہیں آرہے۔
میری شادی اِتنی بُری لگ رہی ہے کہ دیکھنا بھی نہیں چاہتی۔
نایاب : ایسا کچھ نہیں ہے فاخر بھائی وہ ہم سوچ رہے تھے کہ کل آپ کی مہندی میں شریک ہو جائیں گئے ،آپ کے سسرال والے بھی تو کل آرہے ہیں نا۔
فاخر :یہ اچھا نہیں کر رہی ہوتم ۔میرے دل کی ایک چھوٹی سی خواہش پوری ہو جائے گی تو تمہارا کیا جائے گا ،میں تمہیں دیکھنا چاہتا ہوں۔
آفتاب: کیا کہہ رہا ہے ،نایاب کچھ نہیں ،وہ فاخر بھائی ۔آفتاب اچھا چلے جاتے ہیں نا۔کیا کہتی ہو۔
فاخر: کس قدربے حس ہو۔کسی ٹوٹے دل کی بددعا نہیں لیتے ۔پلیز آجاو۔
آفتاب :مجھے دو فون۔
نایاب: جی
فاخر:آفتاب بھائی پلیز آئیں نا۔یہ کچھ دن کی یادیں ہی تو ہیں ۔میں تو دس دن بعد دُبئی میں ان یادوں کو دیکھوں گا اور ویڈیو میں سب ہوں گئے آپ کے علاوہ۔
آفتاب:اچھا یار ہم کچھ دیر میں آتے ہیں۔
نایاب:اس وقت جانے کی کیا ضرورت ہے آپ بھی نا۔
آفتاب:کوئی بات نہیں ،کل ویسے بھی ویک اینڈ ہے تمہیں کیا مسلہ ہے۔چلے جاتے ہیں نا۔تیار ہو۔
نایاب : منہ بناتے ہوئے جی۔وہ واقعی فاخر کی باتوں سے دور رہنا چاہتی تھی یہی وجہ تھی کہ اس کا فون وہ کبھی اٹینڈ نہیں کرتی تھی۔
آفتاب:مٹھائی دیتے ہوئے ۔دُلہا کہاں ہے خالہ۔
نایاب :بہت بہت مبارک ہو خالہ آپ کو۔
نورجہاں:تم لوگ کل کیوں نہیں آئے۔فاخروہاں سب میں ہی بیٹھا ہے رات کے گیارہ بجا کر آج بھی آئے ہو تم لوگ۔حریم کو پیار کرتے ہوئے۔
آفتاب:یہ تو آپ نایاب سے ہی پوچھیں۔
فاخر: فروا جاو وہ لوگ آگئے ہیں ،اُنہیں لے آو۔
سمن: آجائیں گئے فاخر اب یہاں تک آ گئے ہیں تو آگئے بھی آہی جائیں گئے۔سمن نے فاخر کی ٹانگ کھینچی۔
آفتاب :یہ کیا ڈھولک کوئی نہیں بجا رہا۔
سمن :ابھی ابھی بند کی ہے ۔نایاب سے حریم کو لیتے ہوئے۔فاخر بھائی ہمیں غزلیں سنا رہیں ہیں۔اپنے ٹوٹے دل کی فریادیں۔اس نے نایاب کا ہاتھ ذور سے دبایا۔
آفتاب :اچھا ہم بھی سنیں گئے ،بھائی
فاخر :اپنے ٹوٹے دل کی نہیں ایک اچھے شاعر کے ٹوٹے دل کے نغمے سنا رہا تھا۔ویسے بھی محبت کرنے والوں کے بس چہرے ہی مختلف ہوتے ہیں دل ایک سے ہی ہوتے ہیں ۔محبوب کو دیکھ کر کِھل اُٹھنے والے اور ہجر میں تڑپ اُٹھنے والے۔
آفتاب: ارشاد ،ارشاد
فاخر : ہاں ضرور سناوں گا۔اِسی بہانے وہ سنے تو گی نا۔کیوں نایاب۔ سنا دوں آپ بتائیں۔
نایاب ۔ہاں ضرور ،اس نے آفتاب کے ساتھ والی کرسی پر پرس رکھا اور کھڑی رہی۔وہ پریشان تھی کہ نہ جانے فاخر اب کس قسم کی غزل ۔
فاخر۔یہ غزل میرے بہت ہی فیورٹ شاعر محسن نقوی کی ہے۔ مگر میرے دل کے جذبات کی عکاسی کرتی ہے ۔اس نے نایاب کی طرف دیکھا ۔جس کی نظریں ہادی کو ایک ٹیبل پر چڑھتے دیکھ رہی تھیں۔
فاخر۔

میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں
جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے۔
جیسے سورج کی کرن سیپ کے دل میں اُترے
جیسے خوشبو کو ہوا رنگ سے ہٹ کر چاہیے

جیسے پتھر کے کلیجے سے کرن پھوٹتی ہے
جیسے غنچے کھلے موسم سے حنا مانگتے ہیں
جیسے خوابوں میں خیالوں کی کماں ٹوٹتی ہے
جیسے بارش کی دُعا آبلہ پا مانگتے ہیں۔

میرا ہر خواب مرے سچ کی گواہی دے گا
وسعت دید نے تجھ سے تیری خواہش کی ہے
میری سوچوں میں دیکھ سراپا اپنا۔
میں نے دنیا سے الگ تیری پرستش کی ہے

نایاب :نے آنکھ اُٹھا کر جب فاخر کی طرف دیکھا۔
(جاری ہے)۔۔،۔۔۔۔
kanwalnaveed
About the Author: kanwalnaveed Read More Articles by kanwalnaveed: 124 Articles with 281076 views Most important thing in life is respect. According to human being we should chose good words even in unhappy situations of life. I like those people w.. View More