نایاب:نے فاخر کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے
پایا ۔وہ کچھ پریشان سی ہو گئی۔یہ آدمی آخر چاہتا کیا ہے اب ،اس نے دل
میں کہا۔وہ پرس اُٹھا کر ہادی کی طرف چلی گئی ۔ہادی نیچے اُترو۔
ہادی :ماما ماما مجھے اور اوپر جانا ہے۔
نایاب :بیٹا نیچے آئیں نا پلیز،وہاں دیکھیں باقی بچے کھیل رہیے ہیں۔اچھا
چاکلیٹ چاہیے ۔چلیں نیچے آئیں،وہ ہادی کو لے کر دوسرے کمرے میں چلی گئی ۔جہاں
کوئی نہیں تھا۔
سمن: کچھ دیر بعد سمن نے کال کی حریم جاگ گئی ہے،رو رہی ہے تم کہاں ہو فیڈر
چاہیے۔
نایاب: آرہی ہوں ۔فاخر کا رونا بند ہوا کہ نہیں۔
سمن:ابھی تو جاری ہے۔ہنستے ہوئے۔
نایاب :فیڈر بنا لائی حریم کو گود میں لیا۔
فاخر :ابھی اپنی غزل کے اشعار جذبات میں ڈوب کر سنا رہا تھا ۔
نایاب : نے فاخر کی طرف دیکھا تو پھر سے اس کی نظروں کو اپنا تعاقب کرتے
پایا اس نے سمن کو اپنی طرف منہ کر کے بیٹھنے کو کہا۔سمن نے مسکرا کر اسے
اپنے پیچھے بیٹھنے کو کہا ۔
فاخر: کھڑا ہو کر سمن کے پاس آگیا۔
نایاب: بہت پریشان ہو گئی۔
فاخر :نے نایاب کی آنکھوں میں دیکھااور اپنا رُخ آفتاب کی طرف کر کے پھر
اشعار پڑھنے لگا
تجھ کو احساس ہی کب ہےکہ کسی درد کا داغ
آنکھ سے دل میں اُتر جائے تو کیا ہوتا ہے؟
تو کہ سیماب طبعیب ہے تجھے کیا معلوم
موسم ہجر کا ٹھہر جائے تو کیا ہوتا ہے
تو نے اس موڑ پہ توڑا تعلق کہ جہاں
دیکھ سکتا نہیں کوئی بھی پلٹ کر جاناں
اب یہ عالم ہے کہ آنکھیں جو کھلیں گی اپنی
یاد آئے گا تیری دید کا منظر جاناں
مجھ سےمانگے گا تیرے عہد محبت کا حساب
تیرے ہجراں کا دہکتا ہوا محشر جاناں
یوں مرے دل کے برابر ترا غم آیا ہے
جیسے شیشے کے مقابل کوئی پتھر جاناں
فاخر نے اپنا چہرا نایاب کی طرف کیا۔
جیسے مہتاب کو بے انت سمندر چاہے
میں نے اس طور سے چاہا تجھے اکثر جاناں۔۔۔۔
آفتاب: زبردست یار ایسی لمبی لمبی غزلیں یاد رکھنا بھی مشکل کام ہے مجھے
تو دوسرا شعر یاد کرنا مشکل لگتا ہے۔
فاخر :شاہد آپ نے کبھی محبت نہیں کی آفتاب بھائی اس لیے ۔
فروا:شاعری تو نایاب آپی کو بھی بہت آتی ہے۔
آفتاب :اچھا مجھے تو کبھی نہیں سنائی ۔آج ان کی بھی شاعری سنتے ہیں ۔
نایاب:نہیں مجھے اس وقت کچھ یاد نہیں آرہا۔فروا یاروہ پرانی بات تھی ،اب
نہیں
فاخر :سنانی تو پڑے گی ایسا تھوڑاہی ہوتا ہے۔آفتاب بھائی سفارش کریں ۔یہ
تو صرف آپ کی مانتی ہیں۔
آفتاب : ہاں سنا دو کچھ بھی،جو بھی ذہین میں آرہا ہے۔
نایاب:سوچتے ہوئے۔
کسی نئی شاعرہ کاکلام ہے۔کچھ دن پہلے پڑھا تھا وہی سنا دیتی ہوں۔
ہر کسی کا درد اپنا
ہر کسی کا جنون اپنا
ہر کسی کا معشوق خدا ہے
ہر کسی کا سکون اپنا
میری نگاہوں میں جو دیکھوں
دل کا مالک دکھائی دے گا
نایاب نےآفتاب کی طرف دیکھا جو اُسے ہی دیکھ رہا تھا۔اُس کے چہرے پر
مسکراہٹ پھیل گئی۔
میں نے بھی چن لیا ہے اس کو
اسی کا تو ہے، دل ممنون اپنا
نورجہاں: بہت دیر ہو رہی ہے سب کھانا کھالیں جو رہ گئے ہیں۔ آفتاب بیٹا
آجاو آپ لوگ
آفتاب :فورا اپنی جگہ سے اُٹھ گیا۔
فاخر:نایاب رُکو۔
نایاب :کیوں ؟ حریم کو اُٹھاتے ہوئے ،تم آخر چاہ کیا رہے ہو۔اپنے جذبات کو
قابو میں رکھو اور نظروں کو بھی۔یہ کہہ کر نایاب وہاں سے چلی گئی۔
آفتاب:مجھے تو حیرت ہوتی ہے کیسے لوگ اتنی لمبی لمبی نظمیں اور غزلیں یاد
کر لیتے ہیں ۔آفتاب نے نایاب کی طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے کہا۔
نایاب:یہ ساری دلچسپی کی بات ہے ۔
آفتاب :کل کا دن ہے اور پرسوں بارات ،بارات رات کو کتنے بجے ہے۔
نایاب :دس بجے۔
آفتاب ،نایاب تم لوگ اس کمرے میں سو جانا بچوں کے ساتھ ںور جہاں نے اُنہیں
کمرہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
نایاب:نے سر ہاں میں ہلاتے ہوئے جی کہا۔
آفتاب :مجھے تو بس کھانا کھا کر سونا ہے۔مذید محفل میں نہیں بیٹھوں
گا۔آفتاب کہتے ہوئے اُٹھ کھڑا ہوا
سمن:اکیلے اکیلے کیا کچھ کھا رہی ہو۔
نایاب:فی الحال تو کھانا کم اور غصہ ذیادہ کھا رہی ہوں۔
سمن:تمہیں کس نے کہا تھا کہ آو۔تمہیں پتہ تو تھا ۔فاخر اپنے دل کی بھڑاس
تو نکالے گا نا،اپنی پسند کے لڈو کسی اور کی پلیٹ میں دیکھ کر کسے اچھا
لگتا ہے بھلا۔
نایاب:آنا بھی کون چاہتا تھا لیکن آفتاب کے آگے کون بولے۔ہزار جواز دینے
پڑتے اس لیے ۔۔۔
سمن: چلو کوئی بات نہیں۔کل کی رات ہے اور پھر فاخر کو سنبھالنے والی بھی
آجائے گئی۔
نایاب:ہاں اللہ کرئے یہ وقت جلدی گزر جائے۔مجھے تو یہاں رہنا عجیب لگ رہا
ہے۔میں بھی سونے جا رہی ہوں ۔
سمن:اِتنی جلدی
نایاب:مسکراتے ہوئے ،اتنی بھی جلدی نہیں ہے ،تم بجاو ڈھولکی۔
پورا دن نایاب کا فروا اور سمن کے ساتھ گزرا رات کو فاخر کے سسرال والوں نے
خوب رونق لگائی۔
سمن:نایاب گھر تو اچھا ڈھونڈا ہے خالہ نے،بڑے اچھے اور امیر لوگ لگتے ہیں۔
نایاب:فاخر نے تھوڑا پیسہ بنایا ہے۔دُبئی جا کر۔
سمن:آج بارات کی بس میں ہی تم بھی ہوتی تو مزا،آتا۔ ہم مذاق ،مستی کرتے۔
نایاب:جی نہیں ،میں آفتاب کے ساتھ ہی اچھی ہوں۔
سمن:جانتی ہوں۔ تم کھل کے فاخر کو بتا کیوں نہیں دیتی کہ تم بھی اس کی طرح
عشق کی ماری ہو ،آفتاب کے عشق کی۔
نایاب:کس نے کہا ہے ،مجھے تو نہیں ہے عشق وشق کی بیماری ۔ہر کسی کو زندگی
گزارنے کے لیے کوئی نہ کوئی تو چاہیے۔
سمن:یہ جھوٹ تم اس سے بولو جو تمہیں جانتا نہ ہو نایاب میڈم،سمن نے مسکرا
کر کہا۔
نایاب نے سمن کی طرف دیکھا اور اپنے چھوٹ پر خود اسے بھی ہنسی آئی۔
فروا:بارات جانے میں ایک گھنٹہ رہ گیا ہے ،جس نے بھی بس میں جانا ہے وہ بتا
دیے تا کہ دیکھا جائے کتنے لوگ باقی بچیں گئے ،ان کے لیے الگ انتظام کریں
گئے۔
نایاب:ہم لوگ تو اپنی گاڑی میں ہی ہوٹل جائیں گئے اور وہاں سے گھر جائیں
گئے ۔ولیمہ کے لیے پھر سیدھے ہوٹل آئیں گئے کل ،خالہ کو بتا دینا۔فروا کی
طرف دیکھتے ہوئے نایاب نے کہا۔پھرآفتاب کے پاس گئی۔ آپ تیار ہو جائیں سب
تیار ہو رہے ہیں ،اسےسوٹ دے کر وہ باہر آگئی۔
سمن:سب تیار ہو رہے ہیں،نایاب تم بھی تو ہو۔حریم کو مجھے دے دو۔
نایاب :ہاں میں نے حریم کو تیار کر دیا ہے اور ہادی کو بھی۔بس ابھی تیار ہو
کر آتی ہوں۔
سمن جلدی کرو ،نکلنا تو تمہیں بھی بس کے ساتھ ہی ہے نا۔
نایاب :تیار ہونے کے بعد باہر آئی تو اسے ہادی کہیں نظر نہیں آرہا
تھا۔ہادی کہاں ہے۔
سمن۔تم نے دیکھا اسے،واہ تم تو کمال لگ رہی ہو۔سمن نے اسے دیکھتے ہی
کہا۔کہیں سے بھی دو بچوں کی ماں نہیں لگتی ہو۔
نایاب : چھوڑو نا یار،آفتاب بھائی کو دیکھا کر آو۔
نایاب: جی نہیں ،اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔
سمن:ہاں ہاں،خدا جب حسن دیتا ہے نزاکت آ ہی جاتی ہے۔
نایاب :تم مجھے نہیں لڑکوں کو دیکھو ،شاہد کسی کی قسمت کھلتی ہو۔تمہیں پسند
ہی آجائے۔یار ہادی پتہ نہیں کہاں ہے ۔
سمن:اپنے پاپا کے پاس ہو گا۔
نایاب :میں دیکھ کر آتی ہوں۔کمرے میں جھک کر نایاب نے دیکھا تو آفتاب
تیار بیٹھا تھا۔ہادی آپ کے پاس آیا تھا،یا آپ نے اُسے دیکھا ہے۔
آفتاب:نہیں تو میرے پاس نہیں آیا۔آفتاب اپنی جگہ سے اُٹھ گیا۔اُسے ڈھونڈ
کر لاو پھر ہم بھی نکلیں۔
نایاب :جی،آفتاب نے تو نظر بھر کر دیکھا بھی نہیں مجھے ،سمن بھی ایسے ہی
کہہ رہی تھی،،وہ سوچتے ہوئے ہادی کو ڈھونڈنے لگی۔
نایاب سب کمروں میں ہادی کو ڈھونڈ رہی تھی ،فروا اور ماہم کو بارات کی بس
کے لیے نکلتے دیکھا تو ان سے پوچھا۔آپ میں سے کسی نے دیکھا ہے ہادی کو؟
فروا:جی وہ سامنے والے کمرے میں جاتے دیکھا تھا۔
نایاب:اچھا وہ سیدھا سامنے والے کمرے میں چلی گئی۔جہاں فاخر شیروانی پہنے
کھڑا تھا۔وہ ہادی یہاں تو نہیں آیا؟نایاب، اُسے اپنی طرف آتے دیکھ کر
پریشانی سے بولی۔
آفتاب :نے فروا سے پوچھا۔تم نے نایاب کو دیکھا ہے ہادی اور حریم تو سمن کے
پاس ہیں وہ غائب ہے۔
ماہم:وہ تو اس کمرے میں گئی ہے۔ہادی
آفتاب :اس کی پوری بات سنے بغیر ہی اس کمرے کی طرف چلا گیا۔جہاں فاخر اور
نایاب موجود تھے۔اس نے دروازہ دستک دیے بغیر کھولا لیکن تھوڑا سا کھول کر
فورا باہر ہی رُک گیا۔
فاخر :تمہیں کب سے میرے کمرے میں آنے کے لیے بہانوں کی ضرورت پڑنے لگی۔اسے
نایاب کا غصہ کرنا اچھا لگتا تھا۔وہ جان بوجھ کر ایسی باتیں کرتا تھا ،کہ
وہ اسے ڈانٹے،کیوں کہ یہ غصہ ہی تھا جو اس کے حصہ میں آیا تھا۔
نایاب:کیسی بات کر رہے ہو تم۔غصے سے دانت پیس کر نایاب نے کہا۔
آفتاب کو نایاب کا اُسے تم کہنا بہت بُر ا لگ رہا تھا،فاخر سے ایک دن میں
بے تکلف تو نہیں ہو سکتی وہ۔ کل تو وہ اسے فاخر بھائی اور آپ کہہ رہی تھی
،اس کا خون کھول گیا۔
اس نے مذید دروازہ کھولا،اس کے قدم وہیں جم گئے۔
فاخر:نے اگے بڑھ کر نایاب کا ہاتھ پکڑ لیا۔دیکھو میری خواہش تھی کہ جب میں
دُلہا بنوں تو سب سے پہلے تم مجھے دیکھو۔یہ دُعا مانگنے کی بجائے تمہیں ہی
مانگ لیتا ،شاہد قبولیت کا وقت کھو دیا میں نے۔اس نے آہ بھر کر کہا، پھر
بولا،میں کیسا لگ رہا ہوں ۔
نایاب :ہاتھ چھوڑو میرا۔
فاخر:آج بھی اگر تم کہو تو میں شادی سے انکار کر دوں۔میں کل بھی تم سے
پیار کرتا تھا ،آج بھی تم سے پیار کرتا ہوں اور ہمیشہ تم سے ہی پیار کرتا
رہوں گا۔
آفتاب :پلٹا اور وہاں سے بجلی کی سی تیزی سے نکل گیا ،باہر اپنی گاڑی میں
جا کر بیٹھ گیا۔اسے فاخر سے کہیں ذیادہ غصہ اپنی بیوی پر آرہا تھا۔اس کے
دل و دماغ میں ایک آگ لگی ہوئی تھی۔اچھا تو یہ سب ہوتا رہا ہے۔اُف میں کیا
سمجھتا تھا نایاب کو اور وہ۔۔۔۔۔ایک دم سے اس کا اعتبار اِتنے سالوں کی
شادی شدہ زندگی ایک خواب محسوس ہو رہی تھی ۔جس کی تلخ حقیقت کو وہ نظر
انداز نہیں کر سکتا تھا،وہ پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا۔
نایاب :فاخر کا ہاتھ جھٹک کر باہر نکل گئی ،پتہ نہیں اس شخص کا دماغ کب
ٹھیک ہو گا۔
سمن کی طرف آتے ہوئے،نایاب نے حریم کو سمن سے لیا،ارے یارآفتاب بھائی
تمہارا پوچھ رہے تھے ،ہادی کو میرے پاس چھوڑ کر وہ پتہ نہیں کہاں گئے۔
نایاب:فون کر لیتی ہوں میں اُنہیں۔تم نکلوتمہیں تو بس میں جانا تھا نا۔
سمن:ہاں میں چلتی ہوں۔شادی حال میں ملتے ہیں۔
نایاب: آفتاب کو فون کرتے ہوئے۔اسلام علیکم ،کہاں ہیں آپ؟
آفتاب: اپنے آنسو صاف کرتے ہوئے ،تلخ لہجے میں بولا ،باہر گاڑی میں۔
نایاب:کو اس کے لہجے کی تلخی محسوس نہیں ہوئی۔اچھا میں آتی ہوں۔
آفتاب:کیسی بے حیا اور بے وفا عورت ہے ۔اوہ میرے خدا میرا نصیب۔
نایاب :جلدی سے گاڑی کی فرنٹ سیٹ پر بیٹھتے ہوئے،ہادی بیٹا جلدی سے پیچھے
بیٹھو،دیر ہو رہی ہے۔
آفتاب :نے گا ڑی سٹارٹ کی ۔
نایاب ۔نے آفتاب کے چہرے کی طرف دیکھا ،اسے اس کی انکھیں سرخ محسوس
ہوئیں۔آپ کی طبعیت ٹھیک ہے؟
آفتاب:بہت فکر ہے میری۔اس نے چیخ کر کہا۔
نایاب: خاموش ہو گئی ۔اسے سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا ہواہے۔اس نے کچھ
اییسا تو نہیں کیا جو آفتاب کو بُرا لگ سکتا ہو، وہ دن بھر کے معملات کا
سوچنے لگی۔
آفتاب :نے گاڑی سٹارٹ کر دی۔ |