کسی کا جنازہ پڑھانا ہو ، مولوی صاحب کو
بلاؤ ،قرآن خوانی کرانی ہو،مولوی صاحب کو بلاؤ ، کسی نومولود بچے کے کان
میں اذان دینی ہے مولوی صاحب کو بلاؤ۔کسی کا نکاح پڑھوانا ہے تو مولوی صاحب
کو بلا ؤ ۔ہم مولوی صاحب کو عزت اور مقام تو بہت دیتے ہیں لیکن تنخواہ اتنی
نہیں دیتے ،جس سے وہ معاشرے میں باوقار طریقے سے زندہ رہ سکیں ، اپنا اور
اپنے بیوی بچوں کا کسی اچھے ہسپتال میں علاج کروا سکیں ،کسی معیاری تعلیمی
ادارے میں اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکیں ۔یہی وجہ ہے کہ مولوی صاحب کے بچے
مولوی تو بن سکتے ہیں ، انجینئر ، سائنس دان ، سرکاری افسر، آرمی چیف، وزیر
اعظم بننا ان کے مقدر میں نہیں ہوتا۔میں قادری کالونی والٹن روڈ لاہور کی
جس مسجد( اﷲ کی رحمت) میں نماز اداکرتا ہوں، اس مسجدکے امام( قاری
محمداقبال عارف)بہت نفیس انسان، اعلی پائے کے عالم دین ، بہترین مقرر، حافظ
قرآن اور قاری بھی ہیں۔ وہ باکمال اور بے د اغ کردار کے حامل نیک سیرت
انسان ہیں۔وہ انسانوں کی شکل میں فرشتے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ امام، خطیب،
موذن اورمسجد کے خدمت گار بھی ہیں ۔
مسجد میں چونکہ رہائش کی جگہ موجود نہیں ہے اس لیے انہیں آدھا کلومیٹر دور
سے بائیک پر ہر نماز کی امامت کے لیے آناپڑتا ہے ۔جہاں وہ ایک چھوٹے سے
مکان میں اپنے بیوی بچوں اور والدین سمیت رہائش پذیر ہیں۔گرمیوں میں تو پھر
کچھ وقت مل جاتاہے لیکن سردیوں میں تو ابھی وہ گھر پہنچتے ہی ہیں کہ دوسری
نماز کاوقت آن پہنچتا ہے شاید ہی کوئی نماز ایسی ہوگی جب وہ امامت کے مصلے
پر کھڑے نہ ہوں ۔وہ امامت کو صرف ملازمت ہی تصور نہیں کرتے بلکہ وہ امامت
کو ایک مشن سمجھ کر اداکرتے ہیں اور اپنے مقتدیوں کی رہنمائی کے لیے ہر
نماز سے پہلے اور بعد میں بھی دستیاب ہوتے ہیں ۔
ان اہم ترین ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے والے ایک صاحب علم اور بہترین
امام کو صرف 13 ہزار تنخواہ ملتی ہے۔میں سمجھتا ہوں یہ ان کی توہین ہے لیکن
میں مجھے ان کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے اڑھائی سال ہوچکے ہیں میں نے کبھی ان
کے ماتھے پر شکن نہیں دیکھی وہ رب کی رضا تصور کرکے دین اور مسجد کی خدمت
میں ہر لمحے پیش پیش دکھائی دیتے ہیں ۔اس کے برعکس ہم اس قدر غافل ہیں کہ
ہمیں کبھی ان سے یہ پوچھنے کی توفیق نہیں ہوئی کہ وہ اتنی کم تنخواہ میں
گزار ہ کیسے کرتے ہیں ۔الحمد اﷲ وہ ایک نیک سیرت بیوی کے شوہر بھی ہیں جبکہ
چار بجے بھی ان کے آنگن میں کھیلتے ہیں جن میں سے دو تین بچے تو سکول بھی
پڑھنے کے لیے جاتے ہیں جنہیں سکول لے کر جانا اور واپس لے کر آنا بھی قاری
صاحب کی ڈیوٹی میں شامل ہے ۔
جتنی تنخواہ ہم امام مسجد کو دے رہے ہیں اس سے زیادہ تنخواہ تو حکومت نے
مزدور کی مقرر کررکھی ہے۔کیا ہمارا معاشر ہ اپنے امام کو ایک مزدور سے بھی
کمتر تصور کرتا ہے ۔افسوس کا مقام ہے ۔ امام کے مصلے پر صرف وہی شخص کھڑا
ہوسکتا ہے جو شخص نبی کریم ﷺ جیسی صفات کا حامل ہو ۔ دوسرے لفظوں میں سب سے
بہترین شخص کو امامت کے مصلے پر کھڑاکیاجاتاہے لیکن اس اعلی ترین شخص کو ہم
کم ترین انسان سے بھی کم تنخواہ دیتے ہیں۔میرا سوال اس معاشرے سے یہ ہے کہ
کیا ہم سب اتنے کم پیسوں میں زندگی گزار سکتے ہیں اور کیا ہم اپنے بیو ی
بچوں کا پیٹ بھی اتنی تھوڑی رقم سے بھر سکتے ہیں ۔ہرگز نہیں ۔ہم ہر نماز کے
بعد امام صاحب کے ہاتھ تو چومنا نہیں بھولتے اور جب وہ مسجد سے گھر کی جانب
روانہ ہوتے ہیں تو بے شمار لوگ انہیں ہاتھ اٹھا اٹھاکر سیلوٹ ضرور مارتے
ہیں اتنے سیلوٹ وزیر اعظم کو شایدنہ بجتے ہوں جتنے اما م کی حیثیت سے وہ
وصول کرتے ہیں لیکن ان کی تنخواہ بڑھانے ، انہیں زندگی کی آسائشیں فراہم
کرنے کے لیے کوئی شخص بھی آگے نہیں بڑھتا ۔ میں سمجھتا ہوں یہ معاشرے کی
ستم ظریفی ہے ۔
یہاں یہ عر ض کرتا چلوں کہ خطیب اور امام بننے کے لیے بچپن سے جوانی تک
دینی مدرسوں کے تنگ و تاریک حجروں اور ٹھنڈے فرش پر پھٹی پرانی دریوں اور
گرمیوں میں بغیر پنکھوں کے زندگی گزارنی پڑتی ہے۔کم ترین روشنی میں صبح سے
شام تک لنگر کی دال کھاکر قرآن پاک اور حدیث ،کے اسباق پڑھنے پڑتے ہیں تو
اچھے اچھوں کے ہوش ٹھکانے آجاتے ہیں ۔ انتہائی نامساعد حالات میں عربی ،
فارسی اور اردو کی تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تیس سپاروں پر مشتمل قرآن
پاک ، اس کی تفسیر ، حدیث نبوی ﷺ ، فقہ ، تجوید جیسے مشکل مضامین کو بھی
ازبر کرنا پڑتا ہے ۔امام مسجد اور عالم دین بننا آسان نہیں کہ ہر کوئی بن
جائے ۔اس کے لیے مشکل ترین کسوٹی اور پل سراط سے گزرناپڑتا ہے ۔خود کو نبی
کریم ﷺ کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھالنا پڑتا ہے ۔ ہر برائی سے بچ کر ،
نگاہیں جھکاکر چلنا پڑتا ہے ، آنکھوں سمیت جسم کے ہر اعضا کی حرمت برقرار
رکھنی پڑتی ہے ۔ہر شخص امام صاحب احترام توکرتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ
ناقد بھی ہوتا ہے ۔ہم میں سے کوئی شخص یہ نہیں چاہتا کہ ان کا امام گریبان
کھول کر بازار میں قہقہے لگاتے اور سگریٹو ں کے کش لگاتا دکھائی دیں ، ہم
یہ بھی نہیں چاہتے کہ وہ غیر محرم عورتوں کے ساتھ تنہائی میں بات کریں ، ہم
یہ بھی نہیں چاہتے کہ ایک عام شخص کی طرح ہلہ گلہ کرتے ہوئے نظر آئیں ، ہم
یہ بھی نہیں چاہتے کہ ان کالباس صاف نہ ہو ، ہم ان کے اعمال اور کردار پر
بھی کڑی نظر رکھتے ہیں ، ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ جب ہمیں ان کی ضرورت پڑے
وہ ہمیں باآسانی دستیاب بھی ہوں ، ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ جب کسی کی مو ت
واقع ہوجائے تو نماز جنازہ سے لے کر مرنے والے کی بخشش تک مولوی صاحب ہمارے
غم گسار بن جائیں اور امام صاحب اپنی تمام تر ضروریات اورمصروفیات کو
بالائے طاق رکھ کر مرنے والے کے ایصال ثواب کے لیے سوالاکھ کلمہ طیبہ بھی
ضرور پڑھیں اور قل خوانی تک دس قرآن بھی ہدیہ کریں۔قصہ مختصر یہ کہ ہماری
ترجیحات اور خواہشات لامحدود ہیں لیکن جب بھی امام صاحب کی خدمت کے لیے
چندہ دینے کا وقت آتا ہے تو آنکھیں بچا کر رفوچکر ہونے میں ہی ہم عافیت
تصور کرتے ہیں اگر باامر مجبوری ہمارا ہاتھ جیب میں چلا بھی جائے توصرف دس
روپے کانوٹ نکال کر اس جھولی میں ڈال دیتے ہیں جو ہر جمعہ کو ہمارے سامنے
آتی ہے ۔
اگر امام صاحبان کا تقابل سرکاری سکولوں کے اساتذہ کرام سے کریں تو آنکھیں
کھلی کی کھلی رہ جاتی ہیں ۔ امام کی نسبت سکول ٹیچر بننا نہایت آسان ہے
لیکن ٹیچر کی تنخواہ امام مسجد یا دینی مدرسے کے استاد سے پانچ گنازیادہ ہے
۔ اس وقت بھی ایک عام ٹیچر کی تنخواہ 50 سے 70 ہزار روپے تک ہے۔جبکہ امام
صاحب اور دینی مدرسے کے سینئر ترین استاد کو بمشکل آٹھ سے بارہ ہزار روپے
ہی ملتے ہیں۔ ٹیچر کو ریٹائرمنٹ کے بعد تاحیات تنخواہ کا 75 فیصد پنشن ملتی
ہے اور سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج کی سہولت بھی۔ لیکن امام صاحب
اگربوڑھے ہوجائیں یا کسی بیماری کی وجہ سے معذورہوجائیں اور امامت کے قابل
نہ رہیں تو انہیں اپنااور بیوی بچوں کا پیٹ بھرنے کے لیے بھیک مانگنے پر
مجبور ہونا پڑتا ہے ۔خدانخواستہ اگر موت واقع ہوجائے تو حکومت سمیت کوئی
ادارہ ان کے لواحقین کے سر پر ہاتھ رکھنے کو تیار نہیں ہوتا گویا دینی
مدرسوں کے اساتذہ ہوں یا امام مسجد ہر جگہ معاشرے اور حکومت کے بے رحمانہ
رویے کا شکار رہتے ہیں۔ حکومت اگر کسی کو انسان سمجھتی ہے تو صرف سرکاری
ملازمین کو۔جو کام نہ کرنے کی تنخواہ لیتے ہیں اور کام کرنے کی رشوت لیتے
ہیں۔
خطیب حضرات ہوں یادینی مدرسوں کے اساتذہ کسی کے نصیب میں نہ تو اچھی تنخواہ
ہے اور نہ ہی پنشن اور علاج کی سہولت ۔گویا سرکاری ملازمت ملتے ہی انسان
جنت میں داخل ہوجاتاہے اسے کہتے ہیں کہ ہاتھی زندہ لاکھ کااور مردہ ہاتھی
سوالاکھ کا۔ کیا خطیب حضرات اور دینی مدرسوں کے اساتذہ کے بیوی بچے نہیں
ہوتے ،کیا ان کی خواہش نہیں ہوتی کہ ان کے رہنے کے لیے بھی ایک خوبصورت گھر
ہو ۔ کیا ان کا دل نہیں چاہتا کہ انکے بچے بھی اعلی تعلیم حاصل کرکے
انجینئر ، ڈاکٹر اور جرنیل بنیں۔یہ کہنے میں ذرا بھی عار محسوس نہیں ہوتی
کہ جو لوگ دین کی خدمت اور اسلام کی تبلیغ کا راستہ اختیار کرتے ہیں وہ
دوسرے لفظوں میں خسارے کا سودا کرتے ہیں ۔اگر و ہ مولوی بننے کی بجائے
پراپرٹی ڈیلر ہی بن جاتے تو ان کے پاس بھی بہترین بنگلے ، تین تین بیویاں
اور لینڈ کروز بھی ہوسکتی ۔ دوسرے لفظوں میں دین کی تبلیغ اور ترویج کا
راستہ اختیار کرنا ہی ان کا جرم بنادیاگیا ہے؟ ۔ کیا ان کی جائز ضرورتیں ،
خواہشات کو پورا کرناحکومت اور معاشرے کا فرض نہیں ۔ کیا حجروں کی شکل میں
اندھیری اور تنگ و تاریک کوٹھڑیوں میں زندگی بسرکرنا ہی ان کا اور ان کے
بچوں کا مقد رہے ، کیا ان کا اور ان کے بچوں کا دل نہیں چاہتا کہ وہ دوسروں
کی طرح موسمی پھل کھائیں ،اچھے کپڑے پہنیں ، انہیں فقیروں کی طرح لوگوں کے
خیراتی ٹکڑوں پر پالنے کے لیے کیوں چھوڑ دیاجاتا ہے ۔کیا انہیں اپنی امامت(
نوکری) بچانے کے لیے معاشرے کے ہر فرد کا غلام نہیں بننا پڑتا ۔افسوس تو اس
بات کا ہے کہ ہم میں سے ہر شخص یہی سمجھتا ہے کہ ان کو تو آسمان سے ہی حضرت
موسی علیہ السلام کی قوم کی طرح من و سلوی اترتا ہوگا ۔ جبکہ حقیقت اس کے
برعکس ہے۔انگریزوں نے دانستہ امام مسجد کی تنخواہ خاکروب کے برابر مقرر
کرکے اسلام سے اپنی نفرت کااظہار کیا تھا ،انگریز تو چلے گئے لیکن اب بھی
ہم اپنے امام کو ان کا حقیقی مقام دینے کو تیار نہیں۔خدانخواستہ اگر کسی
امام صاحب یا ان کے بیوی بچوں کو کوئی موذی بیمار لاحق ہوجائے تو وہ بے
چارے کسی بھی اچھے ہسپتال میں علاج بھی نہیں کرواسکتے بلکہ فری ڈسپنسریوں
کے باہر قطار میں کھڑ ے دکھائی دیتے ہیں ۔
ڈاکٹر فیض احمد چشتی صاحب مکہ کالونی گلبرگ تھرڈ کے سب سے بڑی جامع
مسجد(رضویہ قادریہ) کے خطیب اور اما م تھے ۔ایک بار انہوں نے انتہائی
عاجزانہ لہجے میں مجھے فرمایا کہ میں آپ کو اپنے چھوٹے بھائی سے ملوانا
چاہتا ہوں کیا آپ میرے ساتھ میرے تیسری منزل پر میرے حجرے میں چل سکتے ہیں
۔میں ان کا مقتدی تو تھا ہی ، میں ان کی دل سے عزت کرتا تھا ، میں نے کہا
جناب یہ میرا اعزاز ہے کہ میں آپ کے بھائی سے ملوں ۔ وہ مجھے تین منزلیں
چڑھا کر ایک تنگ اور تاریک حجرے میں لے گئے جہاں ایک نیم پاگل قسم کا
نوجوان بیٹھا تھا ۔اس کی حرکات و سکنات دیکھتے ہی میں سمجھ گیا کہ یہ نارمل
انسان نہیں ہے ۔ ڈاکٹر چشتی صاحب نے بتایا کہ یہ میرا چھوٹا بھائی ہے جو
قرآن حفظ کررہا تھا ۔ابھی 20 سپارے ہی حفظ کیے تھے کہ ان کے دماغ میں ایک
دن شدت درد اٹھا ۔مدرسے کے استاد اسے اپنے ساتھ لے کر ہسپتال گئے جہاں
ڈاکٹرنے سٹی سکین اور ایم آر آئی کروانے کا مشورہ دیا ۔ یہاں یہ بتاتا چلوں
کہ دینی مدرسے کے تمام اخراجات، خیرات سے پورے ہوتے ہیں ۔کوئی چندہ دے دیتا
ہے تو مدرسے کے استاد کو تنخواہ مل جاتی ہے نہ دے تو مہینوں فاقہ کشی کا
سامنا کرنا پڑتا ہے ۔یہاں یہ بھی عرض کرتا چلوں کہ میں ، بچپن میں حافظ خیر
محمد صاحب سے قرآن پاک پڑھاکرتاتھا صبح و شام میری یہ ڈیوٹی ہواکرتی تھی کہ
میں کشکول لے کر اپنے استاد کے لیے گھروں سے روٹیاں اور سالن مانگ کر لاؤں
۔ یہ خدمات کتناعرصہ جاری رہیں مجھے یادنہیں لیکن میں روٹیاں اور سالن مانگ
کرلاتا تھا تو میرے استاد پیٹ بھرتے تھے ۔ دینی مدرسوں کا اندرونی ماحول
بھی میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے جہاں نہ تو اتنی روشنی ہوتی ہے کہ قرآن
حفظ کرنے والے بچے آسانی سے پڑھ سکیں اور نہ ہی قرآن پڑھانے والے اساتذہ کو
کہیں راحت محسوس ہوتی ہے ۔خطیب حضرات کے حجرے ہوں یا مدرسے تنگ و تاریک اور
دنیاوی آسائشوں سے مبرا ہوتے ہیں کہ جو لوگ دینی مدرسے قائم کرتے ہیں وہ
اسلام کی خدمت اور تبلیغ تو کرنا چاہتے ہیں لیکن ان کے پاس مالی وسائل نہیں
ہوتے ۔پہلے وہ اپنے پیٹ پر پتھر باندھتے ہیں پھر اپنے مدرسوں میں پڑھنے
والے بچوں کو سردی اور گرمی کی شدت سے بے نیاز ہوکر بھوکااور پیاسا رہ کر
صابر و شاکر بننے کی تربیت دیتے ہیں ۔جوان ہوکر جب یہ بچے کسی بھی مسجد کے
امام بنتے ہیں تو انہیں پیٹ بھر کر روٹی نہ کھانے کی عادت پہلے سے پختہ
ہوچکی ہوتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کم ترین تنخواہ پر بھی امام مسجد بننے پر
تیار ہوجاتے ہیں ۔قصہ مختصر کہ حافظ قرآن بننے والے نوجوان کے دماغ میں
ہونے والی درد کی تحقیق کے لیے سٹی سکین اور ایم آر آئی کروانے کے لیے پیسہ
موجود نہیں تھے۔چند مخیر حضرات سے رجوع کیاگیا جنہوں نے مہربانی فرماتے
ہوئے پندرہ بیس ہزار روپے کاانتظام کردیا ۔جب ایم آر آئی کی رپورٹ آئی تو
ڈاکٹر نے یہ بتا کر سب کو پریشان کردیا کہ دماغ میں ایک ٹیومر ( پھوڑا) پنپ
رہا ہے ۔اگر اس کا فوری طور پر آپریشن نہ کروایا گیا تو یہ ٹیومر دماغ کو
مفلوج کرنے کے ساتھ ساتھ زندگی کے لیے بھی خطرہ بن جائے گا ۔ ڈاکٹر نے
ہدایت فرمائی کہ قرآن حفظ کرنے کا سلسلہ مریض کو فوری طور پر روکنا پڑے گا
۔ورنہ نتائج کے ذمہ دارآپ خود ہوں گے ۔ آپریشن کامرحلہ درپیش ہوا ۔ آپریشن
پر اخراجات کااندازہ چار لاکھ روپے بتایاگیا ۔ اب وہ لوگ جو بے چارے روٹی
بھی مانگ کر کھاتے تھے جو مدرسے کے بدترین اور تنگ و تاریک ماحول میں قرآن
حفظ کرتے تھے۔ ان کے لیے چار لاکھ روپے کا انتظام کرنا ناممکن تھا ۔
دماغی مریض کی کہانی سن کر میرا پورا جسم ہی ساکت ہوگیا اور یوں محسوس ہونے
لگا جیسے میرے دماغ سے بھی ٹیسیں اٹھنے لگی ہیں ۔ میں اب اس پوزیشن میں
نہیں تھا کہ ان کی مالی طور پر کچھ مدد کرسکوں یا کسی مخیر شخص کا ایڈریس
انہیں دے سکوں ۔ میں نے نوائے وقت میں ان کے بارے میں ایک خط شائع کروادیا
جس پر وزیر اعلی پنجاب نے پچیس ہزار روپے دینے کااعلان کیا ابھی یہ پچیس
ہزار روپے ان تک پہنچے بھی نہیں تھے کہ ایک دن ڈاکٹر فیض چشتی صاحب کا فون
آیا کہ اب انہیں پیسوں کی ضرورت نہیں رہی ۔میں نے حیران ہوکر پوچھا وہ کیوں
، انہوں نے بتایا جس بھائی کے آپریشن کے لیے انہیں پیسوں کی ضرورت تھی، و ہ
بھائی آپریشن سے پہلے فوت ہوگیا ہے ۔ہم ان کی میت لے کر ہم مظفرگڑھ جارہے
ہیں جہاں انہیں دفن کرنا ہے ۔ یہ واقعہ ایک مثال ہے کہ قرآن پاک کو ازبر
کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ ہم میٹرک اور ایف اے میں چند مضامین سارا سال
رٹے لگاکر یاد کرتے ہیں کمرہ امتحان میں جب پرچہ ہاتھ میں آتے ہی سب بھول
جاتے اور سمجھ نہیں آتی کہ کونسا مضمون کہاں سے شروع کریں اور کہاں ختم
کریں لیکن اس کے برعکس ایک حافظ قرآن شخص پانچ سو صفحات اور تیس سپاروں پر
مشتمل قرآنی آیات زیر ، زبر اور پیش کے ساتھ یاد بھی کرتا ہے اور کہاں
پڑھتے ہوئے رکنا ہے اور کہاں رکے بغیر آگے چلنا ہے سب کچھ پیش نظر رکھ کر
ہر ماہ رمضان میں امامت کے ساتھ ساتھ قرآن پا ک بھی شروع سے آخر تک انتہائی
مہارت سے سناتا ہے کہ نہ وہ رکوع بھولتا ہے اور نہ ہی کوئی سجدہ غلط ہوتا
ہے ۔ہم جیسے لوگ تو کرسیوں پر بیٹھ کر قرآت سن کر خواب خرگوش کے مزے لوٹ
رہے ہوتے ہیں لیکن جو حافظ قرآن ،امام کے مصلے پر کھڑا ہوتا ہے اس کی توجہ
ایک سیکنڈ کے لیے بھی ارد گرد نہیں ہوتی ۔ بے شک یہ اﷲ کا معجزہ ہے لیکن ہے
تو وہ بھی ہم جیسا انسان۔کیا ایک حافظ قرآن کی اس خدمت کا صلہ ہم دے سکتے
ہیں ہرگز نہیں ۔
دینی مدرسوں کے طالب علم ہوں ، استاد ہوں یا مسجدوں کے امام حکومت اور
معاشرہ انہیں اپنا شہری ہی تصور نہیں کرتا۔ نہ انہیں سرکاری سکولوں کے
اساتذہ کے برابر تنخواہیں ملتی ہیں اور نہ ہی سرکاری ہسپتالوں میں مفت علاج
کی سہولت اور پنشن کا سہارا ۔ جن لوگوں نے دین اسلام کے لیے اپنی زندگی وقف
کردی۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے اپنے آپ کو دنیاوی آسائشوں سے دور تو کرلیا
ہے ۔کیا حکومت اور معاشرے کا فرض نہیں بنتا کہ وہ ان کے تمام مسائل حل کرے
اور ان کو پرآسائش زندگی گزارنے کے تمام مواقع فراہم کرے ۔
اس آرٹیکل کے ذریعے میں وزیر اعظم پاکستان میاں محمدنواز شریف اوروزیر اعلی
پنجاب میاں شہباز شریف سے درخواست کرناچاہتا ہوں کہ تمام دینی مدرسوں اور
مسجدوں کی فہرست تیار کی جائے ان تمام مدرسوں کو قومی تحویل میں لے کر
انہیں سرکاری ادارے بنادیئے جائیں اور تمام خطیب حضرات اور اساتذہ کو
گورنمنٹ سکولز اساتذہ اور کالج کے پروفیسر کے برابر تنخواہیں اور دیگر
مراعات بھی فراہم کی جائیں ۔بطور خاص حافظ قرآن افراد کو PHD کی سند جاری
کرتے ہوئے انہیں کسی بھی سرکاری محکمے کے PHD افسر کے برابر سرکاری خزانے
سے تنخواہ دی جائے ۔تاکہ یہ لوگ بھی معاشرے میں باوقار مقام حاصل کرنے کے
ساتھ ساتھ زندگی کی بنیادی سہولتیں حاصل کرسکیں اور ان کے بچے بھی اعلی
تعلیم حاصل کرکے ڈاکٹر ، انجینئر ، پائلٹ اور سائنس دان بن سکیں ۔تنگ اور
تاریک حجروں کی بجائے خطیب حضرات کے لیے الگ اور بہترین رہائش گاہ کااہتمام
کیاجائے ۔ |