✕
ARTICLES
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
NEWS
BUSINESS
MOBILE
CRICKET
ISLAM
WOMEN
NAMES
HEALTH
SHOP
More
SHOP
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Calculators
Directory
Photos
Urdu Editor
Travel & Tours
English
اردو
Home
Articles
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
Home
Urdu Articles
Society & Culture Articles
طیبہ ہم شرمندہ ہیں
(Sana Ghori, Karachi)
کہتے ہیں بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں، مگر یہ صرف کہنے کی بات ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اسلام آباد کی کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ زخموں سے لہولان نہ ہوتی، اسے چولہے پر نہ جلایا جاتا، اس معصوم بچی کو حبس بے جا میں نہ رکھا جاتا۔ وہ تو بھلا ہو عدالت عظمیٰ کا کہ اس معاملے کا ازخودنوٹس لے لیا، ورنہ طیبہ کے والدین نے، جن کے ماں باپ ہونے پر بھی اب سوالیہ نشان لگ چکا ہے، اپنی بیٹی کو ظلم کا نشانہ بنانے والی ایڈیشنل جج کی بیوی کو ’’فی سبیل اﷲ‘‘ معاف کردیا تھا اور راضی بہ رضا ہو کر راضی نامہ کرلیا تھا۔ چناں چہ بچی کو سفاکانہ سلوک کا نشانہ بنانے والی ’’معزز خاتون‘‘ کے لیے راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ معاملہ امیر اور غریب، باعزت اور عزت نفس سے محروم سمجھے جانے والے طبقے اور کم زور اور زور آور کے درمیان تھا، اس لیے قانون اندھا ہوگیا اور اس کے لمبے ہاتھ ٹوٹ کر گلے کا ہار بن گئے۔ رہی حکومت تو وہ بڑے بڑے منصوبوں اور پاناما کیس جیسے دیوہیکل مسائل میں الجھی ہے، اس کے پاس ایک چھوٹی سی بچی کے جسم اور روح پر آنے والے زخموں پر توجہ دینے کی فرصت کہاں۔ اگر عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس نہ لیتی تو طیبہ پر تشدد کا معاملہ وقت کے غبار میں کھوچکا ہوتا اور میڈیا سمیت ہر ایک اسے بھول چکا ہوتا، بس اس کمسن بچی کے معصوم دل میں یہ سانحہ جلتا سلگتا رہتا۔
اس معاملے کے عدالت عظمیٰ میں آنے کے بعد طیبہ پُراسرار طور پر غائب ہے۔ جمعہ کو ہونے والی اس کیس کی پیشی کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب جسٹس ثاقب نثار نے جو ریمارکس دیے وہ ایسے تمام معاملات کے حوالے سے خوش آئند ہیں۔ محترم چیف جسٹس نے کہا،’’بنیادی انسانی حقوق کے معاملات پر راضی نامے نہیں ہوسکتے، اگر والدین اپنے بچوں کو تحفظ نہیں دے سکتے تو عدالت ان کی محافظ بنے گی، بنیادی انسانی حقوق کے تحت بچوں پر ہونے والے تشدد کو ان کے والدین بھی معاف نہیں کرسکتے۔‘‘ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ طیبہ ہماری بچی ہے۔
یہ مسئلہ صرف ایک بچی کا نہیں، یہ معاملہ ہمارے ملک میں بچوں پر تشدد کے سنگین مسئلے سے جُڑا ہے، یہ سانحہ گھریلو ملازمین خاص طور پر گھروں میں بہ طور ملازم کام کرنے والے بچوں کے المیے کی کہانی سناتا ہے۔ غربت اور افلاس کی انتہا ماں باپ کو اتنا مجبور اور بے حس کردیتی ہے کہ وہ اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو کسی امیر خاندان کے حوالے کرکے ہر مہینے تنخواہ تو وصول کرتے ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے بچے سے کیا سلوک کیا جارہا ہے۔ طیبہ کیس اس وقت ڈرامائی صورت حال اختیار کرگیا جب مقدمے کی سماعت کے دوران اس بچی کی ولدیت کے دیگر دعوے دار سامنے آگئے۔ فیصل آؓباد سے تعلق رکھنے والے جوڑے ظفر اور فرزانہ کا کہنا ہے کہ طیبہ دراصل ان کی بیٹی ہے اور اس کا اصل نام آمنہ ہے، جسے انھوں نے فیصل آباد کی ایک کوٹھی پر ملازم رکھوایا تھا اور کوٹھی کے مالک نے اسے اسلام آباد بھیج دیا تھا۔ دوسری طرف تحصیل کمالیہ کی رہائشی خاتون کوثر بی بی اس دعوے کے ساتھ سامنے آئی کہ طیبہ اس کے جگر کا ٹکڑا ہے اور اس کا اصل نام ثناء ہے۔ اس سب میں کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ، یہ تو عدالتی حکم کے مطابق ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد سامنے آئے گا، لیکن اس سے اتنا پتا ضرور چلتا ہے کہ ہمارے یہاں غریب گھرانوں کے بچے کن حالات کا شکار ہیں۔ یہ سب بچوں کی خریدوفروخت کا عمل نہیں تو اور کیا ہے؟ اسے غلامی کی کالی روایت کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے؟ بس غلاموں کی منڈیاں نہیں لگ رہیں، ورنہ کمسن غلاموں اور لونڈیوں کی خریدوفروخت آج بھی جاری ہے۔
کسی کمسن گھریلو ملازم پر بے رحمانہ تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ہر کچھ عرصے بعد کوئی ایسا واقعہ سامنے آتا ہے اور پھر وقت کی دھول میں کھوجاتا ہے۔ اسی طرح بچوں پر تشدد کی بات کی جائے تو اسکولوں میں ذرا ذرا سی غلطیوں پر چھوٹے چھوٹے بچوں کو بے دردری سے مارنے پیٹنے کے واقعات آئے دن سامنے آتے رہتے ہیں۔ تشدد بچے کے صرف جسم ہی کو مجروح نہیں کرتا بل کہ اس سے بھی بڑھ کر ستم یہ ہے کہ یہ اس کی روح کو ہمیشہ کے لیے گھائل کردیتا ہے اور وہ عزت نفس سے محروم ہوجاتا ہے۔ عزت نفس سے محروم فرد کسی بھی برائی کسی بھی جرم کی طرف جاسکتا ہے۔ مہذب ممالک اور معاشروں میں یہ حق والدین کو بھی حاصل نہیں کہ وہ بچوں کو تشدد کا نشانہ بنائیں، مگر ہمارے یہاں افلاس کا شکار بہت سے بچوں کا کوئی والی وارث نہیں، انھیں اپنی اولاد کہنے والے بھی نہیں۔ جناب جسٹس ثاقب نثار نے یہ کہہ کر کہ ’’اگر والدین بچوں کو تحفظ نہیں دے سکتے تو عدالت ان کی محافظ بنے گی‘‘ حکومت کو آئینہ بھی دکھایا ہے۔ دراصل یہ ریاست کا کام ہے کہ وہ ہر فرد کے حقوق کی محافظ بنے، خاص طور پر اسے ہر بچے کا کفیل ہونا چاہیے، کسی بچے کے حقوق پامال کرنے کا حق کسی کو نہیں۔
طیبہ کیس نے بچوں پر تشدد اور گھریلو ملازمین کے حوالے سے قانون سازی اور اس پر عمل درآمد کی ضرورت کو دوچند کردیا ہے، ساتھ ہی کام کرنے والوں اور خاص کر گھریلو ملازمین کی عمر کے تعین کی ضرورت کو ایک بار پھر اجاگر کردیا ہے۔ کاش ہماری سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے پر توجہ دیں، کاش یہ معاشرہ طیبہ کے درد کو محسوس کرے۔
< PREVIOUS
امام مسجد ، دینی مدرسوں کے امام اور حافظ قرآن کے مسائل حل کیوں نہیں کیے جاتے ؟
NEXT >
تمام مسلم پاکستانی بھائی متوجہ ہوں․․․․․․․․!
Facebook
WhatsApp
Pinterest
Twitter
Comments
Print
11 Jan, 2017
Views: 887
About the Author:
Sana Ghori
Read More Articles by
Sana Ghori
:
317 Articles with 334066 views
Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile
here.
Add Your Article
Article Categories
Politics
سیاست
Society & Culture
معاشرہ اور ثقافت
Religion
مذہب
Other/Miscellaneous
متفرق
Literature & Humor
ادب و مزاح
Education
تعلیم
Health
صحت
Famous Personalities
مشہور شخصیات
Science & Technology
سائنس / ٹیکنالوجی
Novel
افسانہ
Sports
کھیل
True Stories
سچی کہانیاں
Books Intro
تعارفِ کتب
Travel & Tourism
سیر و سیاحت
Career
کیریر
Entertainment
انٹرٹینمنٹ
Kids Corner
بچوں کی دنیا
Poetry
شعر و شاعری
100 Lafzon Ke Kahani
سو لفظوں کی کہانی
Young Writers
نوجوان قلم کار
Arts
ہنر
Military Democracy
سول فوجی جمہوریت
Hamariweb Writers Club
ہماری ویب رائٹرز کلب
Recent
Society & Culture
Articles
نام نہاد سہاگنیں
ایف سی بلوچستان(ساؤتھ)سرحدوں کی نگہبانی سے عوامی خدمات تک
الٹی گنگا بہتی ھے
اسٹیل مل -- ہماری ماں ہی تو تھی
View all Society & Culture Articles
Most Viewed
(
Last 30 Days
|
All Time
)
ﻟﻮﮔﻮﮞ ﮐﮯ ﮔﮭﺮﻭﮞ ﻣﯿﮟ ﺍﻧﺪﮬﮯ ﺑﻦ ﮐﺮ ﺟﺎؤ ﺍﻭﺭ ﻭﮨﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﻮﻧﮕﺎ ﺑﻦ ﮐﺮ ﻧﮑلو!
ایک فلسطینی عورت کی فریاد
غیبت کی سماجی وبا اور انسانی وقار کا بحران
دہشت گردی کے بڑھتے واقعات اور قومی پالیسی بنانے فیصلہ
The role of media in today's world
CHILD LABOR IN PAKISTAN
Present problems of Pakistan
Short history of pakistan independence (1900-1947)