کہتے ہیں بچے سب کے سانجھے ہوتے ہیں، مگر
یہ صرف کہنے کی بات ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو اسلام آباد کی کمسن گھریلو ملازمہ
طیبہ زخموں سے لہولان نہ ہوتی، اسے چولہے پر نہ جلایا جاتا، اس معصوم بچی
کو حبس بے جا میں نہ رکھا جاتا۔ وہ تو بھلا ہو عدالت عظمیٰ کا کہ اس معاملے
کا ازخودنوٹس لے لیا، ورنہ طیبہ کے والدین نے، جن کے ماں باپ ہونے پر بھی
اب سوالیہ نشان لگ چکا ہے، اپنی بیٹی کو ظلم کا نشانہ بنانے والی ایڈیشنل
جج کی بیوی کو ’’فی سبیل اﷲ‘‘ معاف کردیا تھا اور راضی بہ رضا ہو کر راضی
نامہ کرلیا تھا۔ چناں چہ بچی کو سفاکانہ سلوک کا نشانہ بنانے والی ’’معزز
خاتون‘‘ کے لیے راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ معاملہ امیر اور غریب، باعزت
اور عزت نفس سے محروم سمجھے جانے والے طبقے اور کم زور اور زور آور کے
درمیان تھا، اس لیے قانون اندھا ہوگیا اور اس کے لمبے ہاتھ ٹوٹ کر گلے کا
ہار بن گئے۔ رہی حکومت تو وہ بڑے بڑے منصوبوں اور پاناما کیس جیسے دیوہیکل
مسائل میں الجھی ہے، اس کے پاس ایک چھوٹی سی بچی کے جسم اور روح پر آنے
والے زخموں پر توجہ دینے کی فرصت کہاں۔ اگر عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس نہ لیتی
تو طیبہ پر تشدد کا معاملہ وقت کے غبار میں کھوچکا ہوتا اور میڈیا سمیت ہر
ایک اسے بھول چکا ہوتا، بس اس کمسن بچی کے معصوم دل میں یہ سانحہ جلتا
سلگتا رہتا۔
اس معاملے کے عدالت عظمیٰ میں آنے کے بعد طیبہ پُراسرار طور پر غائب ہے۔
جمعہ کو ہونے والی اس کیس کی پیشی کے دوران چیف جسٹس سپریم کورٹ جناب جسٹس
ثاقب نثار نے جو ریمارکس دیے وہ ایسے تمام معاملات کے حوالے سے خوش آئند
ہیں۔ محترم چیف جسٹس نے کہا،’’بنیادی انسانی حقوق کے معاملات پر راضی نامے
نہیں ہوسکتے، اگر والدین اپنے بچوں کو تحفظ نہیں دے سکتے تو عدالت ان کی
محافظ بنے گی، بنیادی انسانی حقوق کے تحت بچوں پر ہونے والے تشدد کو ان کے
والدین بھی معاف نہیں کرسکتے۔‘‘ چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ طیبہ ہماری بچی
ہے۔
یہ مسئلہ صرف ایک بچی کا نہیں، یہ معاملہ ہمارے ملک میں بچوں پر تشدد کے
سنگین مسئلے سے جُڑا ہے، یہ سانحہ گھریلو ملازمین خاص طور پر گھروں میں بہ
طور ملازم کام کرنے والے بچوں کے المیے کی کہانی سناتا ہے۔ غربت اور افلاس
کی انتہا ماں باپ کو اتنا مجبور اور بے حس کردیتی ہے کہ وہ اپنے چھوٹے
چھوٹے بچوں کو کسی امیر خاندان کے حوالے کرکے ہر مہینے تنخواہ تو وصول کرتے
ہیں مگر یہ بھول جاتے ہیں کہ ان کے بچے سے کیا سلوک کیا جارہا ہے۔ طیبہ کیس
اس وقت ڈرامائی صورت حال اختیار کرگیا جب مقدمے کی سماعت کے دوران اس بچی
کی ولدیت کے دیگر دعوے دار سامنے آگئے۔ فیصل آؓباد سے تعلق رکھنے والے جوڑے
ظفر اور فرزانہ کا کہنا ہے کہ طیبہ دراصل ان کی بیٹی ہے اور اس کا اصل نام
آمنہ ہے، جسے انھوں نے فیصل آباد کی ایک کوٹھی پر ملازم رکھوایا تھا اور
کوٹھی کے مالک نے اسے اسلام آباد بھیج دیا تھا۔ دوسری طرف تحصیل کمالیہ کی
رہائشی خاتون کوثر بی بی اس دعوے کے ساتھ سامنے آئی کہ طیبہ اس کے جگر کا
ٹکڑا ہے اور اس کا اصل نام ثناء ہے۔ اس سب میں کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ، یہ
تو عدالتی حکم کے مطابق ڈی این اے ٹیسٹ کے بعد سامنے آئے گا، لیکن اس سے
اتنا پتا ضرور چلتا ہے کہ ہمارے یہاں غریب گھرانوں کے بچے کن حالات کا شکار
ہیں۔ یہ سب بچوں کی خریدوفروخت کا عمل نہیں تو اور کیا ہے؟ اسے غلامی کی
کالی روایت کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے؟ بس غلاموں کی منڈیاں نہیں لگ
رہیں، ورنہ کمسن غلاموں اور لونڈیوں کی خریدوفروخت آج بھی جاری ہے۔
کسی کمسن گھریلو ملازم پر بے رحمانہ تشدد کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں۔ ہر
کچھ عرصے بعد کوئی ایسا واقعہ سامنے آتا ہے اور پھر وقت کی دھول میں
کھوجاتا ہے۔ اسی طرح بچوں پر تشدد کی بات کی جائے تو اسکولوں میں ذرا ذرا
سی غلطیوں پر چھوٹے چھوٹے بچوں کو بے دردری سے مارنے پیٹنے کے واقعات آئے
دن سامنے آتے رہتے ہیں۔ تشدد بچے کے صرف جسم ہی کو مجروح نہیں کرتا بل کہ
اس سے بھی بڑھ کر ستم یہ ہے کہ یہ اس کی روح کو ہمیشہ کے لیے گھائل کردیتا
ہے اور وہ عزت نفس سے محروم ہوجاتا ہے۔ عزت نفس سے محروم فرد کسی بھی برائی
کسی بھی جرم کی طرف جاسکتا ہے۔ مہذب ممالک اور معاشروں میں یہ حق والدین کو
بھی حاصل نہیں کہ وہ بچوں کو تشدد کا نشانہ بنائیں، مگر ہمارے یہاں افلاس
کا شکار بہت سے بچوں کا کوئی والی وارث نہیں، انھیں اپنی اولاد کہنے والے
بھی نہیں۔ جناب جسٹس ثاقب نثار نے یہ کہہ کر کہ ’’اگر والدین بچوں کو تحفظ
نہیں دے سکتے تو عدالت ان کی محافظ بنے گی‘‘ حکومت کو آئینہ بھی دکھایا ہے۔
دراصل یہ ریاست کا کام ہے کہ وہ ہر فرد کے حقوق کی محافظ بنے، خاص طور پر
اسے ہر بچے کا کفیل ہونا چاہیے، کسی بچے کے حقوق پامال کرنے کا حق کسی کو
نہیں۔
طیبہ کیس نے بچوں پر تشدد اور گھریلو ملازمین کے حوالے سے قانون سازی اور
اس پر عمل درآمد کی ضرورت کو دوچند کردیا ہے، ساتھ ہی کام کرنے والوں اور
خاص کر گھریلو ملازمین کی عمر کے تعین کی ضرورت کو ایک بار پھر اجاگر کردیا
ہے۔ کاش ہماری سیاسی جماعتیں اس اہم مسئلے پر توجہ دیں، کاش یہ معاشرہ طیبہ
کے درد کو محسوس کرے۔ |