“عمرِ زیاں“ آخری قسط

ان کی منگنی ہوئے بھی دو مہینے بیت گئے تھے ۔۔۔ اس دن آفس سے آئے تو اماں نے بڑی خوشی سے بتایا تھا کہ ان کے چاچا جو ڈنمارک میں رہتے ہیں دو دن بات پہنچ رہے ہیں اپنی فیملی کے ساتھ ۔۔۔۔۔

اتنے عرصے بعد ہماری یاد کیسے آگئی فہیم چاچا کو ۔۔۔۔

تمہارے اکلوتے چاچا ہیں اور تم اس طرح بول رہے ہو ۔۔۔ بھئی ویسے وہ تمہارے کزن نعمان کی شادی پاکستان میں کرنا چاہتے ہیں ۔۔۔

اچھا حیرت ہے خود ایک ڈچ عورت سے شادی کی مگر اپنے سپوت کے لئے ایک دیسن ڈھونڈ رہے ہیں ۔۔۔۔

وہ بولے تو اماں کو ان کی یہ بات پسند نہیں آئی ۔۔۔۔

تمہاری چاچی ہم سے زیادہ باعمل مسلم ہے ۔۔۔۔۔ با حجاب ۔۔۔۔۔ انہوں نے شادی سے پہلے ہی اسلام قبول کر لیا تھا ۔۔۔۔ تمہارے چاچا سے ان کی ملاقات تو کافی عرصے بعد ہوئی تھی ۔۔۔

وہ بولیں تو انہوں نے کندھے اچکائے تھے اور باتھروم میں گھس گئے ۔۔۔۔

×××××××××××××××××

فہیم چاچا اور ان کی فیملی کو پاکستان آکر ایک ہفتہ ہو چکا تھا ۔۔۔۔ فہیم چاچا کا بھی ایک ہی اکلوتا بیٹا تھا ۔۔۔۔۔ خدیجہ آنٹی بڑے دھیمے لہجے میں روانی سے اردو بولتی شہیر کو حیران کر گئیں تھیں ۔۔۔ اور نعمان بھی اچھی خاصی اردو بول لیتا تھا ۔۔۔۔ اس وقت بھی سب لاؤنج میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے ۔۔۔۔۔ ابھی شہیر گھر نہیں پہنچے تھے ۔۔۔۔

خدیجہ میں کل تمہں مسز ہمدانی کے پاس لے چلوں گی ۔۔۔۔ میری بہت اچھی دوست ہیں ۔۔۔ ان کی بیٹی عروسہ کے ہی عمر کی ہے ۔۔۔۔ بڑی پیاری بچی ہے ۔۔۔۔۔ سلیقہ مند ۔۔۔ پڑھی لکی ۔۔۔ ایم بی بی ایس ابھی کمپلیٹ کیا ہے ۔۔۔۔

وہ تو ٹھیک ہے بھابھی مگر ۔۔۔۔۔

مگر کیا ۔۔۔۔ بھئی کوئی زبردستی تھوڑی ہے ۔۔۔۔ اچھی لڑکی ہے ۔۔۔۔ اگر اچھی لگے تو بات آگے بڑھائینگے ورنہ نہیں ۔۔۔۔

بھابھی نعمان کو جیسی لڑکی چاہئیے وہ جب گھر میں ہی موجود ہے تو باہر ڈھونڈنے کی کیا ضرورت ہے ۔۔۔

تمہارا مطلب عروسہ ۔۔۔ مگر میری بیٹی تو صرف انٹر پاس ہے ۔۔۔۔

تو کیا ہوا بھابھی ۔۔۔ شادی کے بعد اگر وہ آگے پڑھنا چاہے تو تعلیم کا سلسلہ جو منقطع ہو گیا ہے پھر سے وہیں سے شروع کر سکتی ہے ۔۔۔۔۔

تم نے تو میرے دل کی بات کہہ دی ۔۔۔ مگر نعمان ۔۔۔ کیا نعمان سے خدیجہ تم نے بات کی ہے ۔۔۔۔ کیا وہ عروسہ کے لئے راضی ہے ۔۔۔۔۔

ان کی بات سن کر اماں تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھیں ۔۔۔۔ مگر ذہن میں ایک خدشے نے سر اٹھایا تو فوراً پوچھ بیٹھیں ۔۔۔

نعمان نے خود مجھ سے کہا ہے بھابھی ۔۔۔ اسے عروسہ بڑی پسند آئی ہے ۔۔۔ آپ نے اس کی بڑی اچھی تربیت کی ہے ۔۔۔۔ اور نعمان کو ایسے ہی لائیف پارٹنر کی ضرورت ہے ۔۔۔

ہمیں بھی بڑی خوشی ہوگی خدیجہ فہیم ۔۔۔ اسی بات پر کچھ میٹھا ہو جائے رخشندہ بیگم ۔۔۔

ابا خوشی سے بولے تھے ۔۔۔۔۔

کیوں نہیں بھابھی آج آپ ہم سب کے لئے گجریلا بنا لیجئے ۔۔۔ یقین مانئے ترس گیا ہوں آپ کے ہاتھ کے میٹھوں کے لئے ۔۔۔ خدیجہ کھانے اچھے بنا لیتی ہیں مگر اپنے دیسی میٹھے بنانا سیکھ نہیں سکیں ۔۔۔۔۔

فہیم ماموں بولے تھے تو خدیجہ تھوڑی سی خجل ہوئی تھیں اور اماں نے ہنستے ہوئے کچن کی راہ لی تھی ۔۔۔۔

××××××××××××××××

وہ گھر پہنچے تو سب کو لاؤنج میں موجود پایا ۔۔۔۔ عروسہ اما اور خدیجہ چاچی کے درمیان تخت پر بیٹھی تھی ۔۔۔۔ اماں بار بار عروسہ کو لپٹا رہی تھیں پیار کر رہی تھیں اور خدیجہ آنٹی نے عروسہ کا ہاتھ تھاما ہوا تھا ۔۔۔

اسلامُ علیکم ۔۔۔۔

وعلیکم اسلام ۔۔۔۔۔

بھئی واہ بہت اچھے موقع پر آئے ہو بھائی تم ۔۔۔۔ لو منہ میٹھا کرو ۔۔۔ ہماری بھابھی نے گجریلا بنایا ہے ۔۔۔۔۔

مگر کس خوشی میں فہیم چاچا ۔۔۔۔۔

فہیم چاچا نے انکے منہ میں گجریلے سے بھرا چمچ ڈال دیا تو ان سے پوچھا تھا ۔۔۔۔۔

ہم نے نعمان اور عروسہ کا رشتہ طے کردیا ہے برخوردار ۔۔۔ اسی مہینے کی بیس تاریخ کو شادی ہے دونوں کی ۔۔۔۔

ابا نے بہت سپاٹ انداز میں انہیں بتایا تھا ۔۔۔۔ بلکہ شاید جتایا تھا انہیں کہ تم نے ٹھکرایا اسے مگر تم سے بہتر اللہ نے اس کی زندگی میں شامل کردیا ۔۔۔۔

وہ چونکے تھے ۔۔۔ میٹھا حلق سے اترنا مشکل ہوگیا تھا اس لمحے ۔۔۔۔ بے اختیار اسے دیکھا تھا ۔۔۔ وہ سر جھکائے بیٹھی تھی ۔۔۔۔ چہرہ ہر قسم کے تاثرات سے پاک تھا ۔۔۔۔۔

نعمان کو مبارک باد نہیں دوگے تم ۔۔۔۔۔

ابا نے پھر ٹیز کیا تھا ۔۔۔۔۔

مبارک ہو ۔۔۔۔۔

ابا کے کہنے پر انہوں نے نعمان کو مبارک باد دی تھی اور تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئے تھے ۔۔۔۔۔

ارے ہمارے ساتھ کچھ دیر تو بیٹھو ۔۔۔۔

فہیم چاچا میرے سر میں شدید درد ہورہا ہے ۔۔۔ آپ لوگ بیٹھیں میں تھوڑا ریسٹ کرونگا ۔۔۔۔۔

ان سب کو وہیں چھوڑ کر وہ اپنے کمرے میں آگئے تھے ۔۔۔۔ اور خلافِ معمول منہ ہاتھ دھوئے بغیر ہی اپنے بیڈ پر لیٹ گئے تھے ۔۔۔ کچھ عجیب سی کیفیت نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا تھا ۔۔۔۔ کتنی دعائیں مانگی تھیں انہوں نے کہ وہ ان کے گھر سے ہمیشہ کے لئے چلی جائے ۔۔۔۔ اسے برداشت کرنا ان سے دوبھر ہوگیا تھا ۔۔۔ وہ تو اس کی جلد از جلد شادی ہوجانے کی بھی دعائیں مانگا کرتے تھے مگر آج جب اس کا رشتہ ان کے اپنے کزن سے طے ہو رہا تھا تو پتا نہیں کیوں انہیں یہ سب اچھا نہیں لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ ایسی ہی سوچوں میں گھرے ہوئے تھے تب ہی سیل فون نے بجنا شروع کردیا ۔۔۔ بے دلی سے فون اٹھایا تھا انہوں نے ۔۔۔۔

ہیلو ۔۔۔۔۔

کہاں ہو شہیر ۔۔۔ کب سے ویٹ کر رہی ہوں تمہارا ۔۔۔۔

ہاں کچھ تھکن سی ہورہی ہے آسی(آسیہ) ۔۔۔۔

ارے ابھی تو جب تم ڈرائیو کر رہے تھے تبھی تو ہماری بات ہوئی تھی تب تو بالکل ٹھیک تھے تم ۔۔۔ اب کیا ہوگیا تمہیں ۔۔۔۔۔ ضرور اس کلن نے موڈ خراب کیا ہوگا ۔۔۔۔۔

وہ نان اسٹاپ بولے گئی تھی ۔۔۔۔ اور ہمیشہ رس گھولتی آواز انہیں اس وقت زہر لگ رہی تھی ۔۔۔ اور دل چاہ رہا تھا کہ وہ پٹر پٹر بولنے کی بجائے چپ ہوجائے اور فون بند کردے ۔۔۔۔

میری طبعیت ٹھیک نہیں ہے آسی ۔۔۔۔میں آج نہیں آسکتا ۔۔۔۔ سوری ۔۔۔

یہ کہہ کر مزید اس کی سنے بغیر فون بندکردیا تھا ۔۔۔۔

×××××××××××××××××

آج چھٹی تھی ۔۔۔۔ آج وہ گھر ہی پر تھے ۔۔۔۔ کل ہی تو انہیں پتا چلا تھا کہ عروسہ اور نعمان کی بات طے ہونے کا ۔۔۔۔ آسیہ ان سے سخت ناراض تھی ۔۔۔ مگر اسے منانے اس کے گھر تو جانا دور کی بات تھی اسے فون تک نہیں کیا تھا ۔۔۔ وہ ان کی منظورِ نظر تھی ان کی من پسند ۔۔۔۔ مگر پتا نہیں کیوں وہ اس سے دور بھاگ رہے تھے ۔۔۔۔۔

وہ جب اپنے کمرے سے نکلے تو نعمان کو لاؤنج میں بیٹھے دیکھ کر منہ بن گیا ۔۔۔۔۔ اسی وقت وہ بھی اماں کے کمرے سے نکلی تھی ہلکے فیروزی رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے ۔۔۔۔ ڈھیلی ڈھالی چوٹی ڈالے ۔۔۔۔ نکھرا نکھرا وجود ۔۔۔وہ ایک ٹک اسے دیکھے گئے ۔۔۔۔ اس کی بھی نظر اٹھی تھی ان کی طرف ۔۔۔۔ اور چونکی تھی ان کے اس طرح دیکھنے پر ۔۔۔۔ پھر فوراً ہی نظریں پھیر لیں ۔۔۔۔۔

اسلام ُعلیکم شہیر کیسے ہیں آپ ۔۔۔۔۔

نعمان خوش دلی سے بولے تھے ۔۔۔۔۔

وعلیکم اسلام ۔۔۔۔ میں ٹھیک ہوں آپ سناؤ ۔۔۔۔

وہ نعمان کے پاس سوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے تھے ۔۔۔۔

الحمدُاللہ ۔۔۔۔ اللہ کا احسان ہے ۔۔۔۔اچھا مجھے اجازت دیجئے ۔۔۔۔۔

چلیں عروسہ ۔۔۔۔

جی ۔۔۔۔

وہ دھیمے لہجے میں بولی تھی ۔۔۔اور وہ چونکے تھے ۔۔۔۔

آپ لوگ کہیں جارہے ہیں ۔۔۔

جی میں اور عروسہ شاپنگ پر جارہے ہیں ۔۔۔ بہت کم ٹائم رہ گیا ہے اور مما چاہتی ہیں جو بھی عروسہ کے لئے لوں انہی کی پسند کا لوں ۔۔۔۔۔

کیا مطلب ۔۔۔ بہت کم ٹائم رہ گیا ہے ۔۔۔ میں سمجھا نہیں ۔۔۔۔

اسی ہفتے دونوں کا نکاح ہے شہیر ۔۔۔۔۔

اماں کی آواز پر انہوں نے چونک کر دیکھا تھا انہیں ۔۔۔۔ اور بے اختیار عروسہ پر نظریں ٹک سی گئی تھیں ۔۔۔۔ اسی پل اس نے بھی نگاہیں اٹھائیں تھیں انہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔ بس وہ ایک لمحہ تھا جب نظروں سے نظریں ملیں تھیں ۔۔۔۔ اور آگہی کا در ان پر کھول گئی تھیں ۔۔۔۔ ایک ایسا درد جگا گئی تھیں جو اب وقت کے ساتھ ناسور بن جانا تھا ۔۔۔۔۔ اماں سے ان کی یہ کیفیت چھپی نہ رہ سکی ۔۔۔ وہ تاسف سے اپنے بیٹے کو دیکھتی رہ گئیں ۔۔۔۔۔ نعمان نے انہیں خدا حافظ کہتے ہوئے باہر کی راہ لی تھی اور عروسہ جب ان کے پاس سے ہو کر گزری تو بے اختیار دل نے اسے پکارا تھا ۔۔۔۔۔ نہ جانے کیسے اس نے ان کے دل کی آواز سن لی تھی ۔۔۔ وہ رکی تھی اور ایک نظر ان کو دیکھا تھا ۔۔۔ بس وہ ایک نظر ۔۔۔۔ جو انہیں بری طرح گھائل کر گئی تھی ۔۔۔۔ وہ چلے گئی ۔۔۔ مگر وہ وہیں کھڑے رہ گئے ۔۔۔۔۔ ان کی نگاہوں نے دیر تک اس کا پیچھا کیا تھا جب تک وہ مین ڈور سے باہر نہ نکل گئی ۔۔۔۔۔

×××××××××××××××××××××××××××××××××

آج اس کا نکاح تھا ۔۔۔۔۔ وہ گھر پر ہی تیار ہوئی تھی ۔۔۔۔۔۔ مگر جو رنگ و روپ اس پر آیا تھا ۔۔۔۔ وہ ان کی گوری چٹی منگیتر پر مہنگے ترین پارلر سے تیار ہوکر بھی نہیں آیا تھا ۔۔۔۔۔ تھوڑی در بعد سب کو ہوٹل کے لئے نکل جانا تھا۔۔۔وہیں پر نعمان اور عروسہ کا نکاح بھی ہونا تھا ۔۔۔۔۔ اماں ابھی عروسہ کی بلائیں لے کر آنکھوں میں امنڈ آئے آنسوئوں کو اپنے دوپٹے سے پوچھتی باہر نکلی تھیں ۔۔۔۔۔ انہوں نے اماں کو نکلتے دیکھا تھا اور پھر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتے وہ اس کے کمرے تک پہنچے تھے ۔۔۔۔ اور آہستہ سے دروازہ کھولا تھا ۔۔۔ وہ اپنی سوچوں میں مگن تھی اسے خبر ہی نہ ہوئی ۔۔۔۔ وہ اسے دیکھ رہے تھے بہت ہی ہلکے گلابی اور گرے رنگ کے سلور اور ڈل گولڈ کے کارچوبی اور موتیوں اور نگینوں کے کام والا شرارہ پہنے وہ بے انتہا حسین لگ رہی تھی ۔۔۔۔ سر جھکائے نا جانے کیا سوچ رہی تھی ۔۔۔۔۔۔

عروسہ !

ہلکے سے اس کا نام پکارا تھا درد سے بھری اس پکار پر اس نے سر اٹھایا تھا ۔۔۔۔ اور حیرت سے انہیں دیکھا تھا ۔۔۔۔ اس کی آنکھوں میں بھی آنسو دیکھ کر وہ بے اختیار اس کے قریب بیٹھ گئے تھے ۔۔۔۔

میں تم سے کچھ کہنا چاہتا ہوں عروسہ ۔۔۔ کچھ بتانا چاہتا ہوں تمہیں ۔۔۔ جسے میں نفرت سمجھتا رہا تمہارے لئے وہ نفرت نہیں تھی ۔۔۔۔۔ میں سمجھتا تھا کہ تم نے میری جگہ لے لی ہے ۔۔۔۔ اماں ابا کو تم سے زیادہ محبت ہے بنسبت میرے ۔۔۔ میں سمجھتا تھا کے تم یہاں سے چلے جاؤگی تو ہی مجھے سکون ملے گا ۔۔۔ کتنا نادان تھا نا میں ۔۔۔۔ تمہیں ٹھکرا کر سمجھتا تھا کہ میں نے جو کیا سہی کیا ۔۔۔۔ اماں نے کہاتھا مجھے ۔۔۔ تم بہت پچھتاؤ گے شہیر اور میں ان کی اس بات پر اس وقت دل میں خوب ہنسا تھا ۔۔۔ مگر انہوں نے کتنا صحیح کہا تھا ۔۔۔ آج میں واقعی میں پچھتا رہا ہوں ۔۔۔ تمہیں کھوکر ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ ہنہ میں سمجھتا تھا کہ میری تمام محرومیوں کی ذمہ دار تم ہو ۔۔۔ مگر مجھ نادان نے بہت دیر کردی یہ سمجھنے میں کہ تم ہی سے تو میری زندگی میں بہار تھی ۔۔۔ تمہارے جانے کے بعد تو سب کچھ ختم ہو جائے گا ۔۔۔۔۔۔ سب کچھ ۔۔۔۔۔

پھر وہ رکے نہیں تھے ۔۔۔۔ بہت تیزی سے اٹھ کر اس کے کمرے سے نکل گئے تھے ۔۔۔۔ اور وہ حیرت اور غم کی تصویر بنی ان کے پیچھے بند ہوتے دروازے کو دیکھتی رہ گئی ۔۔۔۔۔

××××××××××××××××××

عروسہ کے نکاح کو چھے مہینے گزر چکے تھے ۔۔۔۔ اور اب وہ اپنے شوہر نعمان کے پاس جانے والی تھی ۔۔۔۔ اماں لاؤنج میں بیٹھی تھیں تبھی پڑوس سے خالہ نسیم آگئیں ملنے اور دونوں اِدھر اُدھر کے قصے لے کر بیٹھ گئیں ۔۔۔۔

شہیر میاں کی منگنی ٹوٹنے کا بڑا افسوس ہوا ہے مجھے ۔۔۔۔ وہ آسیہ تھی بھی ایسی ہی ۔۔۔ سنا ہے ہر لڑکے کے ساتھ ہی اس کا چکر تھا محلے کے ۔۔۔۔ اچھا ہی ہوا شہیر میاں کی جان چھوٹ گئی ۔۔۔ اس چھمک چھلو سے ۔۔۔۔

اماں کیا جواب دیتیں خاموش ہو رہیں ۔۔۔۔۔ سامنے سے آتے شہیر نے بھی خالہ کی بات سنی تھی اور ذخمی سی مسکراہٹ چہرے پر پھیل گئی تھی ان کے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


××××××××××××××××
میں محمد شہیر خان ایک تنگ دل اور خود پسند شخص ۔۔۔ اپنی جھوٹی انا اور خود ساختہ محرومی کے ہاتھوں برباد ہوگیا ۔۔۔ اپنی ذات سے جڑے ہر رشتے کو دکھی کرتا ان کے جذبات کو اپنی نفرت کے ترازو میں تولتا انہیں روندتا چلا گیا ۔۔۔۔ میری نفرت عروسہ سے شروع ہوکر اسی پر ختم ہوتی تھی ۔۔۔ نہیں جانتا تھا کہ یہی نفرت آگے جاکر کیا گل کھلائے گی ۔۔۔ میں سمجھتا تھا کہ میرے دل میں عروسہ کے لئے نفرت کے سوا کچھ ہے ہی نہیں ۔۔۔ نہیں جانتا تھا اس نفرت کے بیچھ محبت کا بیج بچپن میں میرے دل کی زمین میں بویا جا چکا ہے ۔۔۔ جو چپکے چپکے وقت کے ساتھ ایک تناور محبت کے درخت میں تبدیل ہوجائے گا ۔۔۔ جس کی جڑیں میخوں کی طرح میرے دل کی زمین میں گڑھ چکی تھیں اور اس محبت کو اکھاڑنا میرے بس سے باہر ہوجائے گا اور نفرت کا سوکھا سڑا پیڑ اس کے سامنے ٹہر نہ پائے گا ۔۔۔۔ دن مہینوں میں اور مہینے سالوں میں بدلتے چلے گئے ۔۔۔ عروسہ ڈنمارک چلے گئی اور اماں ابا میری شادی کا خواب آنکھوں میں سجائے اس دنیا سے آگے پیچھے ہی رخصت ہوگئے ۔۔۔۔۔ اور میں رہ گیا تنہا اور اکیلا ۔۔۔۔۔ خالی دامن ۔۔۔ صرف پچھتاووں کے ساتھ ۔۔۔۔ کبھی سوچتا ہوں میں نے کیا کھویا اور کیا پایا ۔۔۔۔ خود کی تباہی کا ذمہ دار میں ہی ہوں ۔۔۔۔ کاش میں پہلے جان لیتا کہ وہ میرے لئے کیا ہے توشاید حالات ایسے نہ ہوتے ۔۔۔ وہ میرے پاس ہوتی ۔۔۔۔ مگر ۔۔ افسوس آگہی کا در کھلا بھی تو اس وقت جب مجھ پر سارے در بند ہوچکے تھے بخت کے ۔۔۔۔۔ عروسہ پھر کبھی پاکستان نہیں لوٹی ۔۔۔ اس کے لئے رہ ہی کیا گیا تھا یہاں اماں ابا کے بعد ۔۔۔۔ اور میں بھی نہیں چاہتا تھا کہ وہ واپس لوٹے ۔۔ اور مجھے اس حال میں دیکھے ۔۔۔۔۔ میں نے اپنی زندگی یوں ہی تباہ کردی ۔۔۔ میں نے شادی نہیں کی ۔۔۔۔ عمرِ زیاں کا احساس شدد سے ہونے لگا ہے ۔۔۔ مگر گیا وقت لوٹ کر واپس نہیں آسکتا ۔۔۔۔ یہ محبت رگِ جاں سے لپٹ گئی ہے میرے ۔۔۔۔۔ سانسوں کے تھمنے پر ہی اس درد کا احساس ختم ہوگا اب ۔۔۔۔ شائد مجھ جیسے کے لئے یہی سزا قدرت نے رکھی تھی ۔۔۔۔ اور اسی طرح مجھے جینا تھا عمرِ زیاں کے احساس کے ساتھ ۔۔۔

دیکھ کر اسکی آنکھ میں آنسو
دل بیچارا رویا تھا بہت

نہ نبھا سکا جو عہد وفا
اسی کا غم ستاتا تھا بہت

جیت کر بھی ہار گیا ہوں میں
کچھ اس طرح سے وہ ہارا تھا بہت

میں جانتا ہوں محبت کو مگر
حق الفت اسی نے نبھایا تھا بہت

جسے تنہا چھوڑ کر چل دیا تھا میں
پھر اسے ہی دل نے پکارا تھا بہت

چھوڑ گیا وہ یہ شہر بھی دیکھو
کچھ اس طرح اسے ستایا تھا بہت

ڈھونڈتا ہوں گلی گلی جسے اب
وہی ایک شخص نایاب تھا بہت

×××××××××××××××××××

ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
farah ejaz
About the Author: farah ejaz Read More Articles by farah ejaz: 146 Articles with 230234 views My name is Farah Ejaz. I love to read and write novels and articles. Basically, I am from Karachi, but I live in the United States. .. View More