سر بہت مبارک ہو ،، اللہ نے آپ کو اپنی
رحمت سے نوازا ہے‘‘ نرس سے اسے مخاطب کرتے ہوئے کہا‘‘ اور واپس مڑ گئی‘‘
احساس تشکر سے اس کی آنکھیں جھلملا اٹھی‘‘
وہ کمرے میں داخل ہوا‘‘ تو سامنے بیڈ پر اسے اپنی بیوی لیٹی آئی‘‘ اسے دیکھ
کر وہ بے ساختہ مسکرا دی‘‘ محسن نے آگے بڑھ کر اس ننھی سی پری کو دیکھا‘‘
جس کی ابھی اس دنیا میں آمد ہو ئی تھی‘‘ اس کی آمد سے وہ دونوں ہی بہت خوش
تھے‘‘‘
۔۔۔۔۔۔۔۔٨۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شازیہ بیٹا دروازہ کھولو،، ‘‘ ساس کی آواز سن کر شازیہ نے گھٹنوں سے سر ایک
لمحے کے لیے اوپر اٹھایا‘‘اور دوسرے ہی لمحے واپس گھٹنوں میں گرالیا‘‘اور
رونے کی رفتار میں بھی تیزی آگئی،، تھک ہار کر اس کی ساس واپس لوٹ گئی،،
امی کیا ہوا‘‘بھابھی ہوئی چپ؟ فرح نے بے چینی سے پوچھا‘‘
نہیں اس نے دروازہ نہیں کھولا،، نفیسہ نے بیٹی کے چہرے کے اڑے رنگوں کو
دیکھتے ہوئے کہا‘‘
امی اب کیا ہو گا‘‘اب تو بھائی کے آنے کا بھی وقت ہو گیا ہے‘‘ اور بھابھی
صبح سے کمرا بند کر کے رو رہی ہیں‘‘فرح نے اپنی پریشانی ظاہر کی‘‘نفیسہ نے
کوئی جواب نہ دیا‘‘
۔۔۔۔۔۔٨۔۔۔۔۔۔۔
شازیہ اور محسن کی کچھ مہینوں پہلے شادی ہو ئی تھی‘‘شازیہ بہت خوش تھی
کیونکہ ایک تو محسن بہت پیار کرنے والا شوہر ثابت ہوا‘‘اور دوسرا پورے گھر
پر اس کا راج‘‘نند شادی شدہ‘‘دیورکوئی تھا نہیں‘‘اور ساس انتہائی شفیق‘‘بس
اپنے کام سےکام‘‘ پر اس کی شادی کے کچھ ہفتوں بعد ہی اس کی نند فرح طلاق ہو
کر واپس میکے آ بیٹھی‘‘
چھوٹی چھوٹی باتوں کو شازیہ بڑھا چڑھا کر محسن کے سامنےپیش کرتی‘‘ روز روز
کی لڑائی گھر کا معمول بن گئی‘‘
۔۔۔۔۔٨۔۔۔۔۔۔۔
امی کیا چاہتی ہیں آپ‘‘کیوں میرا گھر نہیں بسنے دے رہی‘‘آپ دونوں‘‘ محسن کے
منہ سے نکلے سخت الفاظ نے دونوں کو سن کردیا‘‘آپ چاہتی کیا ہے؟کہیں تو ابھی
تین لفظ کہہ دو اسے‘‘پھر آپ دونوں خوش رہنا‘‘ فرح اپنا تو گھر اجاڑ آئی ہو
اب میرا نہ اجاڑو‘‘ محسن دونوں کو سکتے میں چھوڑ کر واپس مڑ گیا‘‘ نفیسہ
اور فرح نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا‘‘اور نظریں چرا لیں‘‘
باہر کھڑی شازیہ کے چہرے پر فاتحانہ مسکراہٹ آگئی‘‘
۔۔۔۔۔٨۔۔۔۔۔۔۔
محسن،،،دیکھیں‘‘ہانیہ اپنا بایاں بازواور ٹانگ نہیں ہلاتی،،شازیہ نے
پریشانی سے اسے آواز دی،،
ایسے لگتا ہے جیسے اس کے ہاتھ پاؤں میں جان ہی نہ ہو،،،محسن نے بغور دیکھتے
ہوئے کہا،،
تم فکر نہ کرو‘‘کل اسے ڈاکٹر کے پاس لے جائیں گے،،،اس نے تسلی دیتے ہوئے
کہا‘‘
محسن مجھے لگتا ہے‘‘یہ اس بددعا کا اثر ہے‘‘اتنے سال بعد اولاد کی نعمت
ملی‘‘ وہ بھی ادھوری‘‘شازیہ نے روتے ہوئے کہا،، ہانیہ ابنارمل تھی‘‘
کس کی بددعا‘‘؟ محسن نے حیرانی سے پوچھا‘‘
فرح کی‘‘مجھے لگتاہے،،ہمیں اس کی آہ لگ گئی ہے‘‘ ،،شازیہ نے اسے ماضی کا
آئینہ دکھایا‘‘
۔۔۔۔۔۔٨۔۔۔۔۔۔
بھائی‘‘ میرا یقین کریں،،میرا اس سے کوئی تعلق نہیں،،فرح نے ہاتھ جوڑتے
ہوئے کہا‘‘
تو نمبر کہاں سے آیا‘‘اس کے پاس تمہارا؟محسن کے بجائے شازیہ نے سوال کیا‘‘
بھابھی مجھے نہیں پتا‘‘فرح زاروقطار رونے لگی‘‘
جھوٹ پہ جھوٹ‘‘محسن ڈھارا،، فرح سہم گئی،،
خدا کی قسم!میں نے کچھ نہیں کیا،،،
فرح رو رو کر بے گناہی کا ثبوت دیتی رہی،، پر کسی نے یقین نہ کیا‘‘
پر جسےاپنی بندی عاجز پر یقین تھا اس نے اسے اس بے رحم دنیا سے نجات دلا
دی،،
کہتے ہیں کہ ضروری نہیں بددعا کے الفاظ کہے جائیں،،دل سے نکلی آہ بھی عرش
تک پہنچتی ہے،،،اور انسان کو اپناکیا مل کر ہی رہتا ہے،،کیونکہ بے شک اللہ
بہترین انصاف دینے والا ہے،،،،،،،،،،،، |