کھانے کو دلچسپ بناکر بچوں کے سامنے پیش کریں تاکہ
کھانا ان کی توجہ کا مرکز بن جائے
بچوں کے بدلتے ہوئے رویئے والدین کا انتہائی پریشان کن مسئلہ ہیں۔بچوں کے
ایسے رویئے والدین کو اُلجھاجاتے ہیں جو مسئلے کو مزید پیچیدہ کرنے کا سبب
بن جاتا ہے۔ اسی لئے والدین کو مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر اپنے بچوں کے
رویئے میں تبدیلی دیکھیں تو فوری طور پر کسی نفسیاتی ماہر سے رابطہ کریں ۔
ہمارے ہاں جب کوئی یہ مشورہ دیتا ہے تو فوری طور پر منفی ردعمل کا مظاہرہ
کیا جاتا ہے جبکہ ماہر نفسیات کے پاس جانے کا مشورہ دینے کا مقصد ہر گز یہ
نہیں ہے کہ آپ یا آپ کا بچہ نفسیاتی مرض میں مبتلا ہے بلکہ ماہر نفسیات کے
پاس جانے ‘بطور خاص بچوں کو لے جانے سے چھوٹے ‘بڑے کئی مسائل اورپیچیدگیوں
سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔
بچوں کی بعض عادات اور رویئے بڑھتی عمر کے ساتھ پختہ ہوکر بڑے نفسیاتی
مسائل کا سبب بن جاتے ہیں‘جبکہ طبی ڈاکٹر ‘ ماہر اغذیات اور ماہر نفسیات
تینوں مل کر بچوں کی بہت سی عادات کو ٹھیک کرسکتے ہیں۔
بچوں پر والدین کے تعلقات کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ ماں باپ کی لڑائی یا
بحث سے بچے بہت زیادہ سیکھتے ہیں اور باہر جاکر وہی کرتے ہیں۔ والدین کا
جیسا انداز گفتگو ہوتا ہے بچے ویسا ہی طرز اختیار کرلیتے ہیں۔جیسے جیسے
بچوں کی عمر بڑھتی ہے ویسے ویسے اُن کا مزاج تو تبدیل ہوتا ہے لیکن انداز
ویسا ہی رہتا ہے جیسا کہ اس کے والدین کا انداز ہوتا ہے۔
بچوں کے اُلجھنے اور غصہ کرنے کے پیچھے کئی عوامل ہوسکتے ہیں جیسا کہ
والدین بچوں کو کسی کام سے روکتے ہیں تو بچوں کا مزاج خراب ہوتا ہے۔ ادھوری
خواہشات بچوں کے مزاج میں خرابی اور تبدیلی کا باعث بنتی ہے۔جیسے ہی بچے کی
بدلتی ہوئی عادات کا اندازہ ہو توفوری طور پر بچوں کو فزیکل کاموں کی جانب
مائل کریں۔ انہیں ایکسرسائز ‘جاگنگ ‘ پارک میں لے جائیں وغیرہ کرائیں تاکہ
ان کی قوت استعمال ہوجائے ۔یاد رکھیں کہ بڑھتے ہوئے بچوں میں بہت زیادہ قوت
یا انرجی ہوتی ہے جس کا صحیح جگہ پر استعمال کیا جانا نہایت ضروری ہے۔
بعض والدین اپنے بچوں کے بہت زیادہ کھانے کی عادت سے پریشان ہوتے ہیں۔ بچوں
کے زیادہ کھانے کی وجہ جنیاتی بھی ہوسکتی ہے یعنی اگر ماں اور باپ میں
زیادہ کھاتے ہیں تو بچے بھی زیادہ کھاتے ہیں۔ بچے اگر اپنی انرجی پر قابو
نہیں کرپاتے تو بھی زیادہ کھانے کی جانب مائل ہوتے ہیں ‘علاوہ ازیں بچے
اپنے دوستوں کو دیکھ کر بھی کھانے کی جانب مائل ہوتے ہیں کہ میرا دوست فلاں
چیز کھارہا تھا میں بھی کھاﺅں گا۔والدین کو اپنے کھانے کی عادات پر غور
کرنا چاہئے ۔اگر بچے زیادہ کھارہے ہیں تو اس کی وجوہات پر غور کریں اور اس
کے مطابق بچوں کی تربیت کریں۔
بعض والدین یہ شکایت کرتے ہیں اُن کے بچے کھانا بالکل نہیں کھاتے ۔ ایسا
اُن بچوں کے ساتھ ہوتا دیکھا گیا ہے جن کے والدین کو دبلا رہنے کا شوق ہوتا
ہے اور وہ کھانے پینے میں زیادہ محتاط ہوتے ہیں‘ بچے ان سے یہ عادت لیتے
ہیں ۔جب بچہ والدین کی توجہ کا حصول چاہتا ہے تب بھی کھانا ‘کھانا بند
کردیتا ہے ۔ایسے میں ماں کھانا کھلانے کیلئے بچے کے پیچھے بھاگتی ہے تو بچے
کو اس کی توجہ ملتی ہے۔جن گھروں میں زیادہ بچے ہوں تو وہاں بھی بچوں میں
احساس کمتری اور عدم تحفظ پیدا ہوتا ہے ۔ ایسے بچے بھی والدین کی توجہ کے
حصول کیلئے مختلف حربے اختیار کرتے ہیں ‘علاوہ ازیں اگر بچے کھانے سے پہلے
الم غلم چیزیں کھالیں تو ان کی بھوک مر جاتی ہے۔
بچوں کے رویوں میں تبدیلی کی ایک اہم وجہ گھروں کے معمولات بدل جانا بھی
ہیں۔ مثال کے طور پر ہمارے گھرانوں میں ساتھ بیٹھ کر کھانے پینے کی روایت
ختم ہوگئی ہے جبکہ ساتھ بیٹھ کر کھانا کھانے سے محبت اور اتفاق بڑھتا
ہے۔اگر بچوں کے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں گے تو ان کی کھانے میں دلچسپی
بڑھے گی۔ماں کو چاہئے کہ وہ کھانے کو دلچسپ بناکر بچوں کے سامنے پیش کریں
تاکہ کھانا ان کی توجہ کا مرکز بن جائے ۔یاد رکھیں کہ والدین کو بچوں
کےساتھ انتہائی دوستانہ رویہ اختیار کرنا چاہئے تاکہ ان سے بات کرنے اور
منوانے میں دشواری نہ ہو۔ |