رئیل اسٹیٹ ۔۔۔راست اقدام اپنائیں۔
(Hafeez Khattak, Karachi)
|
وطن عزیز کا معاشی حب کہلانے والا شہر قائد
دو کڑور سے زائد آبادی پر مشتمل ہے ۔ گذرتے وقت کے ساتھ جہاں مسائل میں
اضافہ ہوتا جا رہا ہے وہیں پر وسائل بھی بڑھتے جا رہے ہیں اس کے ساتھ شہر ی
آبادی بھی اسی تنا سب سے بڑھ رہی ہے۔ وہ علاقاجات جہاں ماضی میں آبادی دور
تلک نظر نہ آتی تھی اب صورتحا ل یہ ہے کہ شہر قائد میں سنسان و ویراں جگہوں
کی کمی قریبا ختم ہوچکی ہے ۔ نئی آبادیاں ، کہیں گوٹھ آباد اسکیمیں اور
کہیں پرمنظم منصوبہ بندی کے ذریعے رہائشی فلیٹس و مکانات تعمیر ہوتے جارہے
ہیں ۔ صورتحال اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ جہاں کہیں بھی کم یا زیادہ منزلوں
پر فلیٹس تعمیر ہونگے ان میں چند منزلیں گاڑیوں کی پارکنگ کیلئے مخصوص
ہونگی ۔رہائشی منصوبوں سمیت خریداری کیلئے بننے والے شاپنگ سینٹرز میں بھی
اس نقطے پر عملدرآمد کیا جارہا ہے۔
شہر قائد میں مجموعی آبادی کی اکثریت فیلٹس میں مقیم ہے زمینی گھروں کا بھی
معاملہ یہ ہے کہ دو سے چار منزلیں گھر کی بنا دی جاتی ہیں ۔ جن میں ایک
گھرانے کے بجائے کئی گھرانے آباد ہوتے ہیں ۔ رہائشی مکانات ، فلیٹس اور اسی
نوعیت کے دیگر زمینی کا موں کے شعبوں میں کام کرنے والوں کو پراپرٹی ، رئیل
و دیگر اسٹیٹ ایجنٹ کرائے پر گھر کے حصول سے لے کر گھر کی خرید و فروخت سے
متعلق ہر طرح کی معلومات کو دیکھتے ، چلاتے اور سنبھالتے ہیں ۔ موجودہ دور
میں شہر قائد کے اندر وہ شہری خوش نصیب تصور کئے جاتے ہیں جو اپنے گھروں
میں مقیم ہوتے ہیں ۔ مسائل ان کیلئے بڑھتے چلے جاتے ہیں جو کہ کرائے کے
مکانوں میں رہتے ہیں ۔ رہائش کیلئے فلیٹس و مکان کا حصول ہو یا پھر کاروبار
کیلئے دکان ، دونوں صورتوں میں ایک خطیر رقم ایڈوانس اور ایک ماہ کا کرایہ
بھی ابتداء میں مالک کو ادا کرنا پڑتا ہے ۔ بجلی ، پانی ، گیس اور یونین کی
الگ فیس کی ادائیگی بھی کرایہ دار کے ذمے ہوتی ہیں ۔ ایک سال مکمل ہونے پر
کرائے میں مزید اضافہ کر دیا جاتا ہے جس سے کرایہ دار کی معاشی و ذہنی حالت
خراب تر ہوتی چلی جاتی ہے ۔
ان تمام مسائل و سائل کے علاوہ ان دنوں اک اہم نوعیت کا معاملہ بڑھتا جا
رہا ہے اس جانب ڈیلرز کو فوری توجہ دینے کے ساتھ اس مسئلے کو ختم کرنے
کیلئے فوری اقدامات کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔ سروے کے مطابق یہ مسئلہ سامنے
آیا ہے کہ جب کسی بھی رئیل اسٹیٹ ایجنٹ کے پاس نئے مکان کے سلسلے میں رجوع
کیا جاتا ہے تو اس وقت وہ خریدنے یا کرائے پر لینے والے سے مکمل تفصیلات
جمع کرتا ہے ۔ ان تفصیلات میں باقی سوالات معمولی نوعیت کے ہوتی ہیں جن کا
جواب دینے ولا بخوشی جواب دیتا چلا جاتا ہے تاہم ایک سوال کسی بھی خریدار و
کرایہ دار کو چند لمحوں کیلئے جامد کر دیتا ہے اور وہ سوال یہ ہے کہ آپ کا
تعلق کس مسلک ہے ؟ آپ سنی ہیں یا اہل تشیع ہیں ؟ اس سوال کا جواب دینے والا
چند لمحے تو اس ایجنٹ کو غور سے دیکھتا ہے اور پھر اسے جو بھی جواب دیتا ہے
اس پر ڈیلرز انہیں مزید کچھ کہہ کر اپنے آپ کو اپنے گراہک کو مزید پریشان
کر دیتے ہیں ۔ وہ کرایہ دار سے یہ کہتے ہیں کہ مالک مکان نے ہم سے کہا ہے
کہ کسی بھی اہل تشیع کو یا کسی بھی سنی کو یہ مکان و فلیٹ کرائے پر نہیں
دینا چاہتے ہیں ۔
اس عمل کو اس طرح سے بھی استعمال کرلیا جاتا ہے کہ ایجنٹ کے پاس آنے والا
گراہک کا تعلق کسی بھی مسلک سے ہو تو وہ ایجنٹ اسے یہ کہتے ہیں کہ مالک
جائیداد آپ کے مسلک والے کو یہ مکان و دکان کرائے پر دینے کی ممانعت کر چکے
ہیں یعنی وہ اپنے مسلک کے علاوہ کسی بھی اور مسلک کے فرد کو یہ دکان ، مکان
یا فلیٹ نہیں دینا چاہتے ہیں ۔اس کا مقصد زیادہ معاشی فوائد کا بھی حصول
ہوتا ہے ۔
شہر قائد کے متعدد علاقوں میں اس نوعیت پر تحقیقات کی گئیں اور کہیں سے بھی
اس معاملے پر تسلی بخش صورتحال سامنے نہیں آئی ۔ کراچی میں اول تو کرایہ
ہونا اک بڑا معاملہ ہے جب کہ مالک جائیداد کا اس نوعیت کی شرائط رکھنا اس
سے بڑا المیہ ہے ۔بعض ڈیلرز کا یہ کہنا ہے کہ انہیں اس نوعیت کی ہدایات
مالکان کی جانب سے دی جاتی ہیں اور یہ نقطہ بھی سامنے آیا ہے کہ بعض ایجنٹ
خضرات از خود اسی نوعیت کے معاملات مخص زیادہ معاشی فوائد کیلئے استعمال
کرتے ہیں ۔ سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی کہ جب تمام شرائط و ضوابط طے
ہوگئے اور اس موقع پر کہ جب حوالگی کا سلسلہ جاری تھا تو عین موقع پر مسلک
کے نقطے پر آکر پورا معاملہ ختم کر دیا جاتا ہے۔جس کے بعد کرایہ دار تو
پریشان ہوتا ہے اس کے ساتھ ایجنٹ بھی مایوس ہوجاتا ہے ۔ایجنٹ کا یہ کہناہے
کہ اس طرح کی صورتحال سے ہمارے کاروبار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔جائیدادوں
کے مالکان سے اس موضوع پر بات ہوئی ان کا یہ کہنا تھا کہ ان دنوں شہر قائد
میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے جاری آپریشن کے باعث امن و
امان ہے تاہم اس کے باوجود کسی بھی نوعیت کے معاملات سے بچے کیلئے ہم اس
طرح کی کوشش کرتے ہیں وہ اسی وجہ سے یہ شرط عائد کر دیتے ہیں ۔ انہوں نے اس
بات کو تسلیم کیا کہ شہر قائد میں کسی بھی نوعیت کے فقہی و مسلکی مسائل
نہیں ہیں تمام علاقوں میں مختلف مکاتب فکر کے لوگ ساتھ رہتے ہیں اور کسی
بھی طرح کی کوئی پریشانی کا معاملہ نہیں ہوتا لیکن اس کے باوجود حفظ ماتقدم
کے طور پر ہم یہ قدم اٹھاتے ہیں ۔
ایجنٹ حضرات اپنی جانب سے بے بسی کا مظاہر ہ کر کے خود کو اس نوعیت کے
معاملے سے الگ کر لیتے ہیں ۔ تمام تر پریشانی کا سامنا کرائے دار یا خریدار
کو کرنا پڑتا ہے ۔ اس صورتحال کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے
کو اکابرین ترجیحی بنیادوں پر احکامات اور عملی اقدامات کے ذریعے ختم کریں
تاکہ شہر قائد کے باسیوں کو کرائے کی املاک کے حصول میں کسی طرح کی ذہنی
اذیت کا سامنا نہ کرنا پڑے اور وہ ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنے کردار کو
بہتر انداز میں ادا کرسکیں ۔ |
|