آہستہ چلیں آگے اُچھلو ہے

جب سڑک پر کسی قسم کا سائن بورڈ نہ ہو کہ آگے آپ کے کیا کیا آنے والا ہے ۔ تو پھر آپ کو مطلع کرنے کا کیا طریقہ رہ جاتا ہے۔ ماسوائے یہ کہ ہوا میں اُچھال کر ایک ہلکا جھٹکا باور کرانے کے لئے کافی ہوگا کہ سنبھل تیرا دھیان کدھر۔ ون ویلنگ ہو یا تیز رفتار موٹر سائیکل گلی محلے سے گزرنے پر موت کے کنواں کا منظر پیش کرتے ہیں۔ ایسی لاپرواہی کو روکنے کا ہاتھ سے زمانہ نہیں۔ کیونکہ ہاتھا پائی سے شرفاء گھبراتے ہیں۔ بچوں کو اپنے خود ہی سمجھاتے ہیں کہ بد تمیزوں کو منہ نہیں لگاتے ہیں۔ زبان درازوں سے بے زبان پتھروں کو آزماتے ہیں۔

ترقی یافتہ ممالک میں سڑک پر پیدل چلنا ہو یا گاڑی چلانا۔ اصول طے شدہ ہیں۔ کس کے کیا حقوق ہیں کیا فرائض ہیں۔ پہلے آئیے پہلے پائیے۔ بس کے انتظار میں کھڑے ہونے والے دھکم پیل نہیں کرتے۔ باری کے انتظار میں چاہے پہلی بس چھوٹ جائے۔ جلد بازی میں دوسروں کے حق سے دست بدست نہیں ہوتے۔ پیدل کم ہی چلتے ہیں جو سڑک پر آ جائیں اپنا حق پا لیتے ہیں۔ کہنے کو تعلیم یافتہ قومیں ہیں۔ مگر پابندی قانون سے ہے تعلیم سے نہیں۔ تعلیم شعور دیتی ہے اور قانون سزا دیتا ہے۔ ڈر سزا کا ہوتا ہے۔ جسے پڑھا لکھا جلد سمجھ لیتا ہے۔ غیر تعلیم یافتہ جب تک آنکھوں سے نہ دیکھ لے سزا پر عملدرآمد ہوتا۔ یقین کے دائرہ میں نہیں آتا۔

بار بار کا رونا ناخواندہ قوموں میں اصول پرستی کا رواج جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ بڑے شہر خونداگی کی شرح میں کسی طرح ترقی یافتہ ممالک سے کم نہیں۔ مگر حال دیکھ کر یقین سے کہنا مشکل ہے کون کتنا تعلیم یافتہ ہے۔ خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ میٹرک ،ایم اے ،انجئینر ،پروفیسر ہوں یا کلرک کسی بھی سڑک پر ایک ہی ڈگری کا پرسان حال ہیں۔ پوچھنے پر کہ ایسا کیوں تو جواباً طنزیہ مسکراہٹ کے ساتھ کہ قانون پر عمل کرنے بیٹھیں سارا دن سڑکوں پر ہی رہیں۔ جتنا جلد ٹینشن سے نکل جائیں بہتر ہے۔ نکلنے کا کیا کوئی اور راستہ نہیں بچا۔ اب بچانے کو کیا کیا بچا ہے۔ تفصیل طلب ہے۔ جب تک کیچڑ نہ اچھالیں تسلی نہیں ہوتی۔ جہاں کبھی فصلیں تھیں اب وہاں کیچڑ ہے۔ پھل پھول کی بجائے گھاس پھونس اگے گی۔ جیسے 1947 میں لگائے گئے باغ میں پھل پھول بار بار کے سفارش، بے ایمانی، خود غرضی کے سیلابی ریلوں سے سیاسی کیچڑ سے گھاس پھونس ہی رہ گئی ہے۔

زندگی گزارنے کے لئے کسی سائن بورڈ کی ضرورت نہیں۔ اخبارات کو غریبوں کی غیر منقولہ جائیدادوں سے محروم کرنے والے لاہور کے دو سو افراد کی بلیک لسٹ فراہم کرنے سے فرض ادا ہو گیا۔ جنہیں بچہ بچہ پہلے ہی جانتا ہے۔ اب ایسے اخباری اچھلو سے انہیں سزا سے نہیں جرائم کی سپیڈ بڑھانے سے روکنے کی ایک کوشش ہے۔ قومی، لسانی، سیاسی، مذہبی اور تعصبی رحجانات کی بڑھتی فضا میں قائدہ قانون کی کھلی خلاف ورزی میں صرف چند اچھلو سے گزارا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ میرا لیڈر سب سے اچھا، میری سیاسی جماعت سب سے اچھی، میرا رہنما سب سے اعلیٰ، میری قوم سب سے اچھی، پھر برا کیا ہے۔ اچھا انسان ہونا۔ جس معاشرے میں بوڑھے والدین کی خدمت کرنے والی اولاد کو فتنہ و فساد سے برائی کا شاہکار بنانے کی کوشش ہو وہاں تنگ نظر، متعصب، مفاد پرست اپنی چاہت ایمان گرانی سے معتبری کا ہار پہن لیتے ہیں۔

جس فورم میں جھانکیں نفرت کی ایک آگ ہے جو بڑھکتی نہیں بڑھکائی جاتی ہے۔ کہیں علم حدیث سے تو کہیں قرآن تفسیر سے بحث و تکرار ہے۔ ایک طرف نہ تو محفوظ عزادار ہیں اور نہ ہی مزار ہیں۔ بازاروں میں مہنگائی کی ماری خواتین و بچے بھی زخموں سے چور چور ہیں۔ کوئی پنجابی کہہ کر غصہ نکالے تو اردو سپیکنگ غصہ میں خود پہ قابو نہ رکھ پائے۔ پختون اپنی آزادی کا بگل نام سے بجائے۔ بلوچی ناروا سلوک کا شکوہ سنائے۔

اسرائیل کشمیر کی فتح کا نعرہ لگاتے لگاتے فلسطین کو آزادی دلاتے دلاتے اختلافات کے ایسے دلدل میں خود ہی جا پھنسے کہ برداشت کا مادہ ہی ختم ہو گیا۔ آپ جناب کی بجائے تو تکار سے سرکار بناتے ہیں۔ پھر خوار پھرتے ہیں۔ محسن قوم کی ڈگری کا چرچا سنتے ہیں۔ کردار گفتار کا ذکر خیر ہی نہیں۔ اصول پسندی کی تقلید نہیں۔

جسے دیکھو خاموش انقلاب کی نوید سناتا ہے۔ انقلابات دنیا فرد واحد سے نہیں آیا کرتے۔ قوم واحد سے آتے ہیں۔ جہاں تنکوں میں بٹا ہو سارا معاشرہ وہاں خواب خرگوش ہی آتے ہیں۔ کاش عمر کئی سو سال ہوتی اور دیکھ پاتے اس عوامی انقلاب کو جو معاشرتی نا ہمواریوں اور نا انصافیوں کے خلاف سیسہ پلائی دیوار کا عکس ہوتا۔ علامہ اقبال اگر آج زندہ ہوتے تو دیکھ لیتے کہ زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی۔

بہت خاموشی سے یہاں آئیں بغیر اچھلے گزر جائیں کیونکہ یہ سائن بورڈ ہے جسے پڑھا نہیں جاتا۔ اگر معاشرے کا وہی خربوزہ یعنی فرد ہوتا تو ایک آدھ اچھلو اپنی تحاریر میں لگا دیتا تاکہ اگر اچھا نہ لگے تو برا بھلا میرے حصے میں ضرور آتا۔ بدنام جو ہوں گے تو کیا نام نہ ہوگا۔
Mahmood ul Haq
About the Author: Mahmood ul Haq Read More Articles by Mahmood ul Haq: 93 Articles with 96061 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.