اس سانحے کو کئی روز گزر چکے
لیکن دل و دماغ سے اس دردناک سانحے کی تصویر ہٹتی نہیں دل میں یہ سوال بار
بار ابھرتا ہے کہ کیا مسلمان ایسے ہوتے ہیں وحشت و بربریت کا مظاہرہ اس
سرزمین وطن میں کیا گیا جو اسلام کے نام پر حاصل کی گئی جہاں مسلمان اپنی
مرضی اور آزادی سے زندگی بسر کر سکیں جہاں مسلمان کی جان مال اور عزت محفوظ
ہو وہاں دو معصوم جانوں کو وحشت و بربریت، سفاکی اور درندگی کی بھینٹ چڑھا
دیا گیا وہ بھی اس ماہ مقدس میں کہ جس میں کفار کے ساتھ بھی جنگ و قتال کی
ممانعت کی گئی ہے
جی ہاں بالکل میرا اشارہ اسی اندوہناک سانحے کی طرف ہے جو مفکر پاکستان
علامہ اقبال کے شہر سیالکوٹ میں پیش آیا کہ جب دو معصوم نوجوانوں کا
بہیمانہ قتل کر دیا گیا ایسے تو کوئی درندہ بھی اپنے ہم جنس کو نہیں
بھنبھوڑتا جس طرح سے ان دو بھائیوں مغیث اور منیب کو وحشت ناک انداز میں
موت کے گھاٹ اتار دیا گیا اور اس پر ہی اکتفا نہیں قاتل وحشی درندوں نے جان
سے مار ڈالنے کے بعد بھی ان درندہ صفت انسانوں کی وحشت کو قرار نہ ملا اور
لاشوں کی وحشیانہ انداز میں بے حرمتی کرتے رہے کہ جس کے بارے میں سن کر ہی
رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں نہ جانے کیسے لوگ تھے وہ جو یہ سفاکانہ و وحشیانہ
تماشہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے رہے
یہ سوچ سوچ کر خود پر شرمندگی ہوتی ہے پہلے کیا دنیا میں مسلمانوں خاص کر
ہمارے وطن کو بدنام کرنے کی کم سازشیں کی جاتی ہیں جو ایک اور بدنما داغ اس
قوم کی پیشانی پر خود اسی قوم کے افراد کے ہاتھوں ثبت ہو گیا اس سانحے پر
ہر محب وطن درد مند اور حساس دل پاکستانی کی گردن شرم سے جھک گئی کہ روزے
کی حالت میں ماہ رمضان میں یہ کیسا ظلم ڈھایا گیا اور کوئی اس ظلم کو روک
بھی نہ سکا کیا یہی جذبہ مسلمانی ہے کیا یہی تعلیمات قرآنی ہے کہ ظلم کو
خاموشی سے ہوتا دیکھتے رہو یہاں تک کہ ظلم انتہا کو پہنچ جائے تب بھی کچھ
نہ کر سکو اب بھی اس سانحے کہ بارے میں سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں اس
وقت کے تماش بین اپنے رب کو کیا جواب دیں گے جب ان سے اس بارے میں سوال کیا
جائے گا کیوں ان نہتے بھائیوں کو مرتے دیکھتے رہے اور روکنے کی جرات نہ کر
سکے ہزاروں کے مجمے میں کوئی بھی ایسا جوانمرد نہ تھا جو ظالم کا ہاتھ روک
سکتا
کیا اہل ایمان ایسے ہوتے ہیں کیا مسلمان ایسے ہوتے ہیں
کیا تکبیر پڑھنے والوں کے حوصلے ایسے ہوتے ہیں
ان درندوں کا جرم ناقابل معافی و ناقابل تلافی ہے ان ناسوروں نے اپنی ہی
قوم پر ایسا بدنما دھبہ لگایا ہے جو انسانیت کی پیشانی پر ایک بدنما داغ ہے
خاص کر اس سانحے پر ہر پاکستانی کی آنکھ اشکبار ہے ایسے درندہ صفت انسانوں
کو یہ حق نہیں کہ وہ آزادانہ دندناتے پھریں ایسے افراد کو جلد از جلد کیفر
کردار تک پہنچانا چاہئیے اور سرعام ایسی قرار واقعی سزا دینی چاہئے کہ پھر
کوئی بھی فرد ایسی وحشت اور درندگی کا ارتکاب کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ
سکے اس قبیح اور گھناؤنے جرم کی محض مذمت ہی کافی نہیں بلکہ ان درندہ صفت
انسانوں کو کیفر کردار تک پہنچانے کے لئے حکومت کے متعلقہ اداروں کو ان
مجرموں کو ان کے انجام تک پہنچانے کے لئے جلد از جلد اقدامات مکمل کرنے
چاہئیں جہاں درندہ صفت سفاکوں نے بربریت و درندگی کا مظاہرہ کیا وہیں پر
عوام کی جان و مال اور عزت کی حفاظت کے ٹھیکے دار اسلحہ سے لیس اپنے بے
ضمیر اور بے ایمان وجود پر قانون کی رکھوالی کرنے والی وردی سجا کر درندوں
کی سرپرستی کر کے انہیں مزید شہہ دے رہے تھے بجائے اس کے کہ انہیں اس
گھناؤنے جرم سے روکتے ان لوگوں کو روک دیا جو آگے بڑھ کر دو مظلوم بھائیوں
کی مدد کرنا چاہتے تھے انہیں ظلم سے بچانا چاہتے تھے لعنت ہے ایسے قانون کے
محافظوں پر
کیا یہ قانون کے محافظ کہلائے جانے کے قابل ہیں کیا یہ اس وردی کے حقدار
ہیں جب یہ وردی کا حق ادا ہی نہیں کر سکتے تو انہیں وردی سے دستبردار کر
دینا چاہئیے جب یہ وردی کی ذمہ داریوں اور وردی کی حرمت کا پاس ہی نہیں رکھ
سکتے تو یہ سپاہی کہلانے کے لائق نہیں کہ سپاہی تو اپنے فرض کے لئے اپنی
جان کی بھی پرواہ نہیں کرتا اور ظالم کے سامنے سر جھکا دینے کی بجائے شہید
ہو جانے کو ترجیح دیتا ہے پھر یہ کیسے سپاہی کیسے محافظ تھے جو غنڈوں اور
بدمعاشوں کی سرپرستی کرتے رہے اور ان کی آنکھوں کے سامنے دو نہتے بھائیوں
کو ظلم کی بھینٹ چڑھا دیا گیا اور وہ ایسے بےنیاز بےحس بت بنے کھڑے رہے
جیسے ان کا اس بات سے کوئی تعلق واسطہ ہی نہیں ہے
یاد رکھیں کے یونہی قوموں پر زوال نہیں آجایا کرتے رب کا قہر اور عذاب
بلاوجہ ہی نازل نہیں ہونے لگتا جب رب کے بندے رب کے احکامات فراموش کرنے
لگتے ہیں ظلم اور بےانصافی کے خلاف آواز نہیں اٹھاتے برائی سے روکتے نہیں
اور بھلائی کے کاموں میں تعاون نہیں کرتے تو پھر یہی سب ہوتا ہے جو ہو رہا
ہے اور ہم حیران آنکھوں سے دیکھ رہے اور سہمے دلوں سے بہت کچھ سہہ رہے ہیں
اب بھی وقت میں ہے مسلمانوں ہوش میں آجاؤ اللہ کے احکامات کی رسی مضبوطی سے
تھام لو اجتماعی توبہ کر لو اپنے گناہوں کی معافی مانگ لو اور راہ راست پر
آجاؤ مبادا کے بہت دیر ہو جائے
یاد رکھو کہ جب افراد رب کے احکامات سے روگردانی کرنے لگتے ہیں بے حیائی
ظلم اور برائی کے راستے پر چلنے لگتی ہے تو گویا خود اپنے اعمال بد کے باعث
رب کی ناراضگی مول لیتی ہے اور جب رب اپنے بندوں سے ناراض ہو جائے تو سب
جانتے ہیں کیا ہوتا ہے جب ظلم انتہا کو پہنچ جاتا ہے تو بستیوں کی بستیاں
تباہ ہو جاتی ہیں ظالموں کے ساتھ ساتھ وہ لوگ بھی ملیامیٹ ہو جاتے ہیں جو
خود تو ظالم نہیں لیکن خاموش تماشائی بن کر ظلم ہوتا دیکھتے ہیں اور ظالم
کا ہاتھ روکنے سے قوت و طاقت اور صلاحیت و استطاعت ہونے کے باوجود بھی ظلم
کو روکنے سے معذوری ظاہر کرتے ہیں اللہ رب العزت ہماری قوم پر رحم فرمائے
افراد قوم میں جرائم اور ظلم و بربریت ناانصافی روکنے کی جرات پیدا فرمائے
ان میں غیر انسانی و غیر اخلاقی رویوں کے خلاف نا صرف آواز اٹھانے بلکہ
عملی اقدامت کی توفیق عطا فرمائے بداعمالیوں سے بچنے اور نیک اعمال پر قائم
رہنے کی توفیق و ہدایت مرحمت فرمائے ہر مسلمان کے دل کو ایمان کی روشنی سے
تادم مرگ منور رکھے مسلمانوں میں اتفق اور اتحاد قائم رکھنے کی صلاحیت پیدا
فرمائے یا پاک پروردگار ہم سب ایسے پکے اور سچے مسلمان بن جائیں جیسا تو
چاہتا ہے ہمارے دلوں سے اپنے خوف کے سوا ہر ایک کا خوف ختم کر دے ہمارے
اندر جرات، قوت اور صلاحیت پیدا فرما کے ہم ہر ظلم اور برائی کے سامنے ڈٹ
کر جہاد کر سکیں اور فتح یاب ہوں تیرے احکامات کی بجا آوری پر دل و جان سے
عمل پیرا ہوں اور ہر اس عمل سے خود کو روک لیں جو تیرے نزدیک ناپسندیدہ ہے
یا اللہ پاک ہماری دعائیں اور ہماری توبہ قبول فرما ہم پر رحم فرما ہم پر
کرم فرما ہمارے ایمان کی حفاظت فرما اور ہمیں ایمان کی حالت میں اس جہان سے
اٹھا ﴿آمین یا رب العالمین﴾ |