علم ہی ترقی وکامیابی کا راستہ۔مسلم طلبہ اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ کریں انجمن ترقی وبقاء کی جانب سے منعقدہ سمینار واردویونیورسٹی سے کامیاب طلبہ کی تہنیتی تقریب

علم ہی ترقی وکامیابی کا راستہ۔مسلم طلبہ اعلیٰ تعلیم کی طرف توجہ کریں انجمن ترقی وبقاء کی جانب سے منعقدہ سمینار واردویونیورسٹی سے کامیاب طلبہ کی تہنیتی تقریب

انجمن ترقی وبقاء کی جانب سے منعقدہ سمینار

سرزمین دکن کویہ اعزاز حاصل ہے کہ دنیا کی پہلی اردو یونیورسٹی کا قیام یہاں عمل میں آیا لیکن چند وجوہات کی وجہ سے عثمانیہ یونیورسٹی کوانگریزی میڈیم کردیاگیا اور اردو کوصرف ایک اردو ڈپارٹمنٹ تک ہی محدود کردیاگیا۔لیکن یہاں کی زمین کی خصوصیت تھی کہ یہاں کے اردو کے لوگوں کی اردو سے محبت کہ جب آزاد ہندوستان کی پہلی اردو قومی جامعہ کوقائم کرنے کا فیصلہ کیاگیا تو اسی اردو دوست زمین کا انتخاب عمل میں آیا۔ آج اس جامعہ سے ہزاروں طلبہ استفادہ کررہے ہیں اور اردو میں اعلیٰ تعلیم حاصل کررہے ہیں۔ جناب اسلم پرویز صاحب کاوائس چانسلر کے طورپر تقرر ہونے کے بعد سے جامعہ میں اردو سرگرمیوں میں اضافہ دیکھاگیا ہے۔ اردو سے متعلق کئی پروگرامس ہوئے ۔پروفیسر محمد ظفر الدین ڈائرکٹر آف ٹرانسلیشن اینڈ پبلیکشن کے تحت کئی سرگرمیوں کا آغاز کیاگیا۔ ششماہی ادب وثقافت جنرل کا آغاز ہوا جس میں معلوماتی مضامین ہوتے ہیں ۔ اس کے علاوہ سائنس وٹکنالوجی میں کتابوں کے ترجمو ں کے لئے بھی ایک ادارہ کا قیام عمل میں لایاگیا ہے۔ وائس چانسلر اسلم پرویز کی کاوشوں کی بدولت ہی پہلی بار کنوکشن یونیورسٹی کے سرسبزوشاداب کیمپس میں منعقدہوا۔ چھبیس ڈسمبر کو منعقدہ کنوکشن میں بالی ووڈ اسٹار شاہ رخ خان اور ریختہ فاؤنڈیشن کے صدر سنجیو صراف کواعزازی ڈگری عطا کی گئی۔ کنوکشن کی تقریب بہت ہی شاندار تھی اور طلبہ کافی پرجوش تھے۔حیدرآباد میں جہاں ہزاروں تنظیمیں ہیں جو اردو کے لئے کام کرتی ہیں لیکن انجمن ترقی وبقاء اردو ابتداء سے ہی مانو کے طلبہ کی حوصلہ افزائی کرتی آرہی ہے۔ وہ اپنے ہرپروگرام میں مانو کے طلبہ کوجگہ دیتی ہے اور یونیورسٹی میں داخلوں کے لئے شعور بیدار کرتی ہے۔ اس کے صدر ایڈوکیٹ اعجاز علی قریشی جو مانو المونی اسوسی ایشن کے صدر ہیں اردو یونیورسٹی کی ترقی کے لئے ہمیشہ جدوجہد کرتے رہتے ہیں۔ سمیناربعنوا ن’’اردو ذریعہ تعلیم‘ اساتذہ اور طلبہ کی ذمہ داریاں‘‘ وتہنیتی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹرخواجہ ضیاء الدین نے کہاکہ اب طلبہ کی حقیقی زندگی شروع ہوتی ہے ۔اب وہ کلاس روم کے بند کمرے سے نکل کرحقیقی زندگی کے میدان میں قدم رکھ رہے ہیں۔ اس لئے انہیں اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے قوم وسماج کی بھلائی کے لئے کام کرنا چاہئے۔انہوں نے کہاکہ آج بھی مسلم بستیوں میں تعلیم کا فقدان ہے ۔اس لئے طلبہ کو چاہئے کہ وہ سلم بستیوں کا رخ کریں جہاں غربت اور دیگرپریشانیوں کی وجہ سے لوگ اپنے بچوں کو تعلیم نہیں دلارہے ہیں۔ ان کو تعلیم کی اہمیت سے واقف کرواتے ہوئے ان کی پسماندگی دور کرنے کی کوشش کریں ۔ پروفیسر مصطفی علی سروری نے کہاکہ مہاراشٹرا میں نیٹ امتحان اردو میں لکھنے کے لئے وہاں کی تنظیمیں جدوجہد کررہی ہیں لیکن اردو کے شہرحیدرآباد میں کوئی اس طرح کی آواز بلند نہیں ہورہی ہیں اس پر اردو سے محبت کرنے والے اداروں اور شخصیات کوتوجہ دیتے ہوئے اپنی آواز کوبلند کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہاکہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی اردو سے محبت کرنے والوں اور پڑھنے والوں کے لئے اثاثہ ہے کیونکہ یہاں کم قیمت اور آسانی سے ہم کو اعلیٰ ڈگری اور تعلیم حاصل ہورہی ہے ۔اب حکومت پرائیوٹ یونیورسٹیوں کے قیام کے اجازت کے لئے منظوری دے رہی ہے جہاں لاکھوں فیس ہوگی توتب ہمیں اس کی قدر ہوگی۔ ایک طرف چند گوشوں کی طرف سے شاہ رخ خان کو اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دینے پراعتراض کے جواب میں پروفیسر مصطفی علی سروری نے کہاکہ شاہ رخ خان نے آج جو مقام حاصل کیا ہے وہ سخت محنت اورجدوجہد کی وجہ سے حاصل کیا ہے۔ ان کی حالت زندگی اور اس مقام تک پہنچنے میں شاہ رخ نے کتنی محنت کی ہے اور آج جوبالی ووڈ میں بادشاہ کا مقام حاصل کیا ہے اس سے طلبہ کوواقف کروانے کیلئے انہیں اعزازی ڈاکٹریٹ کی ڈگری دی گئی ہے تاکہ طلبہ بھی ان سے متاثر ہوکر سخت جدوجہد کرتے ہوئے دنیا کے دیگرمیدانو ں میں اعلیٰ مقام حاصل کریں۔ صدر سوسائٹی جناب اعجاز علی قریشی نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ اساتذہ کی ذمہ داری ہے کہ وہ طلبہ کوتعلیم دینے کے ساتھ ساتھ عملی میدان میں آگے بڑھنے کیلئے بھی رہنمائی کریں اور تعلیم حاصل کرنے کا جو مقصد ہوتا ہے اور اس سے کس طرح طلبہ نوکری حاصل کرتے ہوئے اپنے ماں باپ اورگھر کوسنبھال سکتے ہیں اس پربھی خصوصی توجہ دیں۔ صدر سوسائٹی اعجاز علی قریشی نے طلبہ کوبھی ہدایت دی کہ وہ اساتذہ کا احترام کریں اور کسی بھی طرح سے اساتذہ سے بدتمیزی یا غلط سلوک نہ کریں ۔ کیونکہ وہی طالب علم آگے ترقی کرسکتا ہے جو اساتدہ اوراپنے ماں باپ کا احترام کرتا ہے۔انہوں نے کہاکہ انجمن ترقی وبقاء اردو طلبہ کی ہرممکن مدد اور رہنمائی کے لئے تیار ہے ۔ شمس الدین خان نے اسلام میں تعلیم کی اہمیت کے حوالے سے بات کی اورکہاکہ اسلام میں تعلیم پرکافی زوردیاگیا ہے اور ہمیں دینی اوردنیاوی معاملات کوسمجھنے کے لئے علم حاصل کرنا چاہئے۔ واحد علی خان ایڈوکیٹ نے اردو ذریعہ تعلیم کی اہمیت بتاتے ہوئے کہاکہ جو طلبہ اپنی مادری زبان میں تعلیم حاصل کرتے ہیں وہ آسانی سے اپنے سبق کو سمجھ سکتے ہیں اور غور کرسکتے ہیں کیونکہ یہ ان کی مادری زبان ہوتی ہے۔ عتیق احمد ایڈوکیٹ نے اپنی تقریر میں کہاکہ تعلیم کے لئے کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ آج اردو یونیورسٹی میں کشمیر سے کنیاکماری تک کے طلبہ علم حاصل کررہے ہیں ۔انہوں نے کہاکی ہمیں اپنی سوچ کو محدود نہیں کرنا چاہئے کیونکہ چھوٹی سوچ پیر میں موچ آگے بڑھنے نہیں دیتی۔ انہوں نے طلبہ پرزوردیاکہ وہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے قوم وملت کا نام روشن کریں اور ملک کے سب سے بڑے اعزاز پدم شری اور پدم بھوشن جیسے انعامات حاصل کرتے ہوئے اپنے ماں باپ کانام روشن کریں۔انہوں نے کہا کہ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم پرتوجہ دینی چاہئے اور قرآن کی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ تمیں سربلند رہوگے اگر تم مومن ہو۔اس موقع پر ہفتہ واری گواہ کے جوائنٹ ایڈیٹر ڈاکٹرمحمد عبدالرشید جنید جنہیں چھٹویں کنوکشن میں شاہ رخ خان اور ظفرسریش والا کے ہاتھوں اردو میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل ہوئی ۔ان کے مقالہ’’خلیجی ممالک میں اردو زبان کی صورتحال‘‘ کی بھی سبھی مقررین نے تعریف کی۔ اس مقالہ سے خلیجی ممالک میں اردو کے بارے میں کافی معلومات حاصل ہوگی۔بعد ازاں ایک مختصر مشاعرے کی محفل کابھی انعقاد عمل میں آیا۔ڈاکٹرمعین افروز نے بہت اچھے اشعار پڑھے ۔ سہیل عظیم کے اس شعر پر انہیں کافی داد ملی کہ ’’
سخنور میں ہوں اردو کا مجھے اردو سے الفت
میں اردو کے اصولوں سے کبھی غافل نہیں ہوتا

ڈاکٹرمحمد حسین صاحب سنبھل کے شاعر اور پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کرنے والے طالب علم نے بھی کلام سنایا۔ انہو ں نے داغ کا شعرپڑھا کہ’’ رہتا ہے نام علم سے روشن‘‘ انہوں نے ماں کی دعاؤ ں کا ذکر کرتے ہوئے کہاکہ ’’
یہ میری ماں کی دعاؤں کا اثر ہے ورنہ
مجھ کو ہر موڑ پر بیٹھے ہے مٹانے والے

چھٹویں کنوکشن میں ڈگری حاصل کرنے والے جن طلبہ کی تہنیت کی گئی ان میں ڈاکٹر عبدالقدوس بھی ہیں جواسسٹنٹ پروفیسر گورنمنٹ ڈگری کالج ویمنس میں برسرخدمت ہیں۔ مشاعرے کے بعد ریسرچ اسکالرس کی شال پوشی اور انہیں سند انجمن کی طرف سے دی گئی ان کے نام یہ ہیں محمدعبدالرشید(جوائنٹ ایڈیٹرگواہ) ‘مولانا محمد محامد‘ڈاکٹرحنا کوثر‘ ڈاکٹرسید قدوس‘ ‘محمدخوشتر ‘ڈاکٹر مصاحب‘ محسن خان‘ ایوب خان‘ عابدخان ‘محمدحسین‘محمدعابدحسین نظامی‘محمدعبدالودود‘محمدعثمان‘ فوزیہ آفاق‘مزمل احمدبابا‘ عبدالرحیم ‘ریاض النساء ‘ڈاکٹرحسین‘ڈاکٹروسیم اختر شامل ہیں۔سمینار کا آغاز ڈاکٹرمعین افروزکے نعتیہ کلام سے ہوا ۔سہیل عظیم اور ڈاکٹرمحمدحسین نے بھی اپنا کلام پیش کیا۔پروگرام کی کاروائی ریسرچ اسکالر خوشتراورالیاس طاہر نے چلائی۔ پروین کے کنوینر اعجاز علی قریشی اورنائب کنوینرسیدحبیب امام قادری نے پروگرام کے آخر میں شکریہ ادا کیا۔ انجمن کی طرف سے کی گئی حوصلہ افزائی طلبہ کافی پرجوش اور خوش نظرآئے۔ انہوں نے عزم ظاہر کیاکہ وہ آگے چل کر قوم وملت کی خدمت کریں گے اور ملت میں پھیلی پسماندگی کودور کرنے کے لئے جدوجہد کریں گے۔تمام پروفیسر س اور دیگر لوگوں نے انجمن کے صدر اعجاز علی قریشی کی طرف سے طلبہ کے حوصلہ افزائی کے لئے منعقد اس تقریب کی تعریف کی اورکہاکہ اس سے طلبہ کی حوصلہ افزائی ہوگی اور دیگرلوگ بھی تعلیم کی طرف متوجہ ہوں گے۔
Mohsin Khan
About the Author: Mohsin Khan Read More Articles by Mohsin Khan: 11 Articles with 11530 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.